وزارت سیاحت

وزارت سیاحت کے دیکھو اپنا دیس ویبینار سیریز کے تحت یوم آزادی تھیم پر مرکوز چوتھے ویبینار ‘‘جلیاں والا باغ:تحریک آزادی میں ایک اہم موڑ’’ کاانعقاد کیا گیا

Posted On: 17 AUG 2020 4:41PM by PIB Delhi

وزارت سیاحت نے یوم آزادی کی تقریب کے موقع پر دیکھو اپنا دیس ویبینار سیریز کے تحت یوم آزادی کی تھیم پر مرکوز چوتھا ویبینار ‘‘جلیاں والا باغ: تحریک آزادی میں ایک اہم موڑ’’کا انعقاد کیا گیا۔

اس سیریز کےتحت یہ 48واں ویبینار ہے۔ دیکھو اپنا دیس ویبینار سیریز کا 48واں ویبینار ، محترمہ کشور دیسائی، صدر، دی پارٹیشن میوزیم / آر اینڈ کلچرل ہیریٹیج اور جلیاں والا باغ ،1919 دی ریئل اسٹوری کتاب کی مصنفہ کےذریعے پیش کیا گیا۔ محترمہ دیسائی کےذریعے اس دلدوز سانحہ کےبارے میں بتایا گیا جس کے سبب سینکڑوں بے گناہوں کو قتل کیا گیا او رکیسے اس اجتماعی قتل نے بعد کے دنوں میں پورے ملک کو برطانوی حکومت کے خلاف لڑنے کیلئے متحد کیا۔ دیکھو اپنا دیس ویبینار سیریز، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے تحت ہندوستان کی مالا مال ثقافت اور تنوع کو اجاگر کرنے کی ایک کوشش ہے۔

Description: http://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0010TUV.jpg

اس مدت کے دوران زمینی حالات اور پس منظر کو بتاتے ہوئے محترمہ دیسائی نے بتایا کہ کیسے پہلی جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی فوجی غیرملکی سرزمین کے ساتھ ساتھ بنگال اور پنجاب میں انگریزوں کی جانب سے لڑرہے تھے اور پنجاب آبادیاتی مخالف سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا ۔ بنگال میں ہورہے انقلابی حملے جو کہ پنجاب میں ہورہی خلل اندازیوں کےساتھ جڑے ہوئے تھے۔ یہ تمام چیزیں علاقائی انتظامیہ کو تقریباً ملفوج بنانے کیلئے واضح طور پر کافی تھے۔ 1918 اور 1920 کے درمیان ہندوستان میں انفلوانزا کی وبا کے سبب  لاکھوں لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑی تھی۔ بہت سے فوجیوں کو غیرجمہوری طریقے سے بھرتی کیا گیا اور ان میں سے کچھ نے جبراً بھرتی کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کرنی شروع کردی۔ 1914 میں پہلی جنگ عالمی جنگ  کے شروع ہونے کے بعد غدر پارٹی کے کچھ اراکین ہندوستان کی آزادی کیلئے مسلح انقلاب کو چنگاری دینے کیلئے پنجاب لوٹ آئے۔ غدر کے اراکین نے ہندوستان میں ہتھیاروں کی اسمگلنگ کی اور بھارتی فوجیوں کو انگریزوں کے خلاف بغاوت کیلئے اُکسایا۔

محترمہ دیسائی نے جلیاں والا باغ قتل عام سے پہلے امرتسر اور باقی ہندوستان کی سیاسی اور سماجی حالات کا اجمالی تفصیل پیش کیا۔ انہوں نے رولیٹ ایکٹ یا کالا قانون کے بارے میں بتایا جو برطانوی حکومت کے ذریعے پاس کیا گیا ایک ظالمانہ قانون تھا جس میں پولیس کو بغیرکسی سبب کے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کا حق دیاگیاتھا۔ اس قانون کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی قوم پرست لہر پر قدغن لگانا تھا۔ گاندھی جی نے لوگوں سے ایسے ظالمانہ قانون کے خلاف ستیہ گرہ کرنے کی اپیل کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ کیسے جلیاں والا باغ اس وقت ایک بنجر سرزمین تھی جہاں پر لوگ اکثر ملا کرتے تھے اور پُرامن احتجاج کرنے کیلئے اس کا استعمال کرتے رہتے تھے۔ اس سے انگریزوں میں گھبراہٹ پھیل گئی کیونکہ انہوں نے اب تک  کبھی کسی طرح کی مخالفت کا سامنا نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلواور ڈاکٹر ستیہ پال امرتسر شہر کے جانے مانے قوم پرست لیڈر تھے، انہوں نے رولیٹ ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ کا انعقاد کیا۔ جلیاں والا باغ میں منعقدہ پُرامن اجتماع میں سبھی طبقات کے لوگوں نے حصہ لیا۔ اس سے انگریزوں کے درمیان بہت ساری غلط فہمیاں پھیل گئیں، برطانوی حکومت نے ڈاکٹر کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کا حکم دیا۔ ان کی گرفتاری کی خبر سے امرتسر کے لوگوں کی جانب سے سخت ردعمل ہوا۔

9 اپریل 1919 کو مہاتما گاندھی کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور لوگوں کو ان کی گرفتاری کے پیچھے کاکوئی بھی سبب سمجھ  میں نہیں آرہا تھا۔ گاندھی جی کی گرفتاری کی خبر جب 10 اپریل کو امرتسر پہنچی تو سڑکوں پر بڑی تعداد میں مشتعل لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ برطانوی بینکوں میں آگ لگادی گئی اور تین بینک منیجروں کو قتل کردیا گیا۔ تشدد 10 اور 11اپریل تک جاری رہا۔ پولیس کے ذریعے بھیڑ کو قابو کرنے میں ناکام ہونے کے بعد شہر کو پوری طرح سے مارشل لا کے حوالے کردیا گیا۔ کلکٹر نے بریگیڈیئر جنرل ریجینالڈ ایڈورڈ ڈائر کو ذمہ داری سونپ دیا جو گورکھا اور پٹھان فوجیوں کی ٹکڑی کے ساتھ آئے تھے۔

پنجاب میں مارشل لا کی حکومت بہت ہی سخت تھی۔ ڈاک پر پابندی عائد کردی گئی، مندروں اور مسجدوں کو پوجا اور عبادت کیلئے بند کردیا گیا تھا۔ جن لوگوں کی سیاسی مشغولیت مشتبہ پائی گئی تھی ان کے گھروں میں بجلی اورپانی کی سپلائی کو روک دیا گیا۔ اس سے بھی بدترین صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب چنندہ باغیوں پر عوامی طور پر کوڑے برسائے گئے اور ایک حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں ان سبھی ہندوستانیوں کو سڑک پر رینگنے کیلئے مجبور کردیا گیا جنہوں نے خواتین مشنری پر حملہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔

13اپریل 1919 کوڈائر نے یہ قیاس لگایا کہ ایک بڑی بغاوت ہوسکتی ہے اس لئے سبھی قسم کی میٹنگوں پر پابندی لگادی گئی اس نوٹس کو باقاعدہ طور سے پھیلایا نہیں گیاتھا اور اس لئے کئی دیہی باشندے اس باغ میں ہندوستانی تہوار بیساکھی کو منانے اور دو قومی لیڈروں ستیہ پال اور سیف الدین کچلو کی گرفتاری اورجلاوطنی کا پُرامن احتجاج کرنے کیلئے اکٹھا ہوئے۔ڈائر اور اس کے فوجی باغ میں داخل ہوئے ، اس کے بعد اصل داخلی دروازے کو بند کردیا گیا۔ ایک اونچائی پر واقع ایک جگہ پر مورچہ سنبھال لیا اور بغیر کسی وارننگ کے ہجوم پر دس منٹ تک لگاتار گولی باری کی۔ اس نے اپنی گولیوں کا رخ بہت حد تک ان کچھ کھلے ہوئے دروازوں کی جانب رکھا جس کے ذریعے لوگ وہاں سے بھاگنے کی کوشش کررہے تھے۔ گولیاں تب تک برستی رہیں جب تک کہ گولہ بارود لگ بھگ ختم نہیں ہوگیا۔ تقریباً 1650 راؤنڈ گولیاں چلائی گئیں۔ کئی چھوٹے چھوٹے بچوں کی موت ہوگئی اور صرف دو خواتین کی ہی لاش حاصل ہوسکی۔ اس قتل عام کے تین مہینے بعد اموات کی تعداد کی جانکاری کیلئے مارے گئے لوگوں کی گنتی کی گئی۔ یہ ایک بہت بڑا قتل عام تھا اور اس میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ۔ زخمی لوگوں کو دوا کی شکل میں بھی کوئی مدد نہیں دی گئی۔ اس میں مقامی ہندوستانی ڈاکٹروں نے حصہ لیا تھا۔

13اپریل 1919 کو برطانوی حکومت نے پنجاب کے زیادہ تر علاقوں کو مارشل لا کے تحت کردیا۔ اس قانون نے متعدد  شہری آزادیوں کو محدود کردیا۔ اس میں جمع ہونے کی آزادی شامل ہے۔ علاوہ ازیں چار سے زیادہ لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ برطانوی حکومت نے اس واقعے کی جانچ کیلئے ایک کمیٹی قائم کی اور ہنٹر کمیشن رپورٹ میں امرتسر کے واقعات سے متعلق حاصل شدہ حقائق کو شامل کیاگیا۔ مارچ 1920 میں پیش کی گئی آخری رپورٹ میں کمیٹی نے اتفاق رائے سے ڈائر کے کارروائیوں کی مذمت  کی۔ اس کے باوجود ہنٹر کمیٹی نے جنرل ڈائر کے خلاف کوئی بھی  تعزیری یا تادیبی کارروائی نہیں کی۔

رابندر ناتھ ٹیگو نے اس کے احتجاج میں اپنی نائیٹ ہوڈ کےاعزازکو واپس کردیا اور مہاتماگاندھی نے قیصر ہند کے اعزاز کو واپس کردیا۔ مہاتما گاندھی کو یہ اعزاز کوور جنگ کے دوران ان کے کاموں کیلئے انگریزوں کے ذریعے اعزاز کے طور پر عطا کیا گیا تھا۔

محترمہ روپندر برار نے اپنی اختتامی تقریر میں امرتسر  میں دیکھنے کی جگہوں کے بارے میں بتایا جو کہ ہوائی، ریل اور سڑک کے ذریعے سے بہت اچھی طرح سے جڑاہوا ہے۔ جلیاں والا باغ، پارٹیشن میوزیم، ہری مندر صاحب اور واگھا بارڈر، گرین ٹرینک روڈ کے ساتھ چل رہی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کی سرحدوں کو نشان زد کرتی ہے۔ سورج غروب ہونے سے پہلے ہر دن منعقد ہونے والی واگھا بارڈر سیریمنی یا بیٹنگ ریٹریٹ سیریمنی یہاں کا اہم قابل دید ہے۔ ہر شام سورج غروب ہونے سے ٹھیک پہلے ہندوستانی اور پاکستانی فوج کے سپاہی اس سرحدی چوکی پر ملتے ہیں اور30 منٹ کے فوجی ملاپ اور پرفارمنگ آرٹس میں شامل ہوتے ہیں۔ دیکھنے والوں کو ڈھابوں میں ذائقے دار کھانے کا لطف لینے کا بھی موقع ملتا ہے۔

وزارت سیاحت اپنی مختلف اسکیموں کے تحت سیاحتی  بنیادی ڈھانچے اور سہولتوں کی ترقی پر زور دے رہی ہے۔ فی الحال جلیاں والا باغ کی تزئین کاری،جدید کاری کی جارہی ہے۔ میوزیموں گیلریوں اور ساؤنڈ اور لائٹ شو کو یادگاری مقام پر قائم کیا جارہا ہے۔

دیکھو اپنا دیس ویبینار سیریز کو نیشنل ای گورننس ڈپارٹمنٹ ، مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کے تکنیکی اشتراک سے پیش کیا جارہا ہے۔ ویبینار کے سیشن اب حکومت ہند کی وزارت سیاحت کے سبھی سوشل میڈیا ہینڈل  اور https://www.youtube.com/channel/UCbzIbBmMvtvH7d6Zo_ZEHDA/featured

پر بھی دستیاب ہیں۔

                                                                        

****************

 

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO: 4591



(Release ID: 1646592) Visitor Counter : 436