وزیراعظم کا دفتر

ایودھیا، اترپردیش میں،  شری رام جنم بھومی کے،  بھومی پوجن  کی تقریب میں  وزیراعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 05 AUG 2020 3:37PM by PIB Delhi

نئی دلی، 5 اگست، سیاور رام چندر کی جے!

جے سیارام،

جے سیارام،

آج یہ نعرۂ فتحیابی صرف سیارام کی نگری میں ہی  نہیں سنائی دے رہا ، بلکہ اِس کی گونج پوری دنیا میں ہے۔ تمام اہل وطن کو اور پوری دنیا میں پھیلے کروڑوں بھارت بھکتوں  کو، رام بھکتوں کو، آج کے اِس مقدس موقع پر صدصد مبارکباد۔

اسٹیج پر تشریف فرما اترپردیش کی گورنر محترمہ آنندی بین پٹیل جی، اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، لائق صد احترام گوپال داس جی مہاراج اور ہم سب کے انتہائی محترم جناب موہن بھاگوت جی، یہ  میری خوش نصیبی ہے کہ شری رام جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ نے مجھے مدعو کیا، اس تاریخی لمحے کا گواہ بننے کا موقع دیا۔ میں اس کے لئےتہہ دل سے شری رام  جنم بھومی تیرتھ شیتر ٹرسٹ کے تئیں ممنونیت کا اظہار کرتا ہوں۔

رام کاجو کنہے بِنو موہی کہاں بِشرام۔

بھارت، آج، بھگوان بھاسکر کےسایہ عاطفت میں سریو کے کنارے ایک سنہرا باب  رقم کر رہا ہے۔ کنیاکماری سے چھیر بھوانی تک، کوٹیشور سے کاماکھیا تک، جگن ناتھ سے کیدار ناتھ تک، سومناتھ سے کاشی وِشو ناتھ تک، سمید شکھر سے شَروَن بیلگولا تک، بودھ گیا سے سارناتھ تک، امرتسر سے پٹنہ صاحب تک، انڈمان سے اجمیر تک، لکشیہ دیپ سے لیہہ تک، آج پورا بھارت، بھگوان رام کے تئیں جذبہ عقیدت میں ڈوبا ہوا ہے۔پورا ملک آج جوش و جذبے سے معمور ہے، ہر قلب  روشن ہے۔ آج پورابھارت جذباتی بھی ہے، صدیوں کا انتظار آج ختم ہو رہا ہے، کروڑوں لوگوں کو آج یہ یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ وہ اپنے جیتے جی اِس مقد دن کو دیکھ پا رہے ہیں۔

ساتھیو،

برسوں سے ٹاٹ اور ٹینٹ کے نیچے رہ رہے ہمارے رام للا کے لئے اب ایک عظیم الشان مندر کا نرمان ہوگا۔ ٹوٹنا اور پھر اُٹھ کھڑا ہونا، صدیوں سے چل رہے اِس چکر سے رام جنم بھومی آج آزاد ہو گئی۔ میرے ساتھ ایک بار پھر بولئے، جے سیارام، جے سیارام۔

ساتھیو،

ہماری تحریک آزادی کے وقت کئی کئی پیڑھیوں نے اپنا سب کچھ وقف کر دیا تھا۔ غلامی کے دور میں کوئی ایسا وقت نہیں تھا، جب آزادی کے لئے تحریک نہ چلی ہو، ملک کا کوئی بھی  قطعہ زمین ایسا نہ تھا، جہاں آزادی کے لئے قربانی نہ دی گئی ہو۔ 15اگست کا دن اُس بے پناہ  مجاہدے، لاکھوں قربانیوں کی علامت ہے، آزادی حاصل کرنے کی زبردست خواہش، اُس جذبے کی علامت ہے، ٹھیک اسی طرح رام مندر کے لئے کئی کئی  صدیوں تک، کئی کئی پیڑھیوں نے لگاتار لا متناہی متحدہ کوشش کی ہے۔ آج کا یہ دن اُسی مجاہدے، اُسی قربانی اور عزم کی علامت ہے۔

رام مندر کے لئے چلائی گئی تحریک میں نذر بھی تھی اور نیاز بھی تھا، جدوجہد بھی تھی، عزم بھی تھا، جن کے تیاگ ، بلیدان اور سنگھرش سے آج یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو رہا ہے، جن کی جدوجہد رام مندر میں بنیاد کی طرح جڑی ہوئی ہے۔ میں ان سب لوگوں کو آج سلام کرتا ہوں۔ اُن کے آگے سرجھکاتا ہوں، تمام عالم کی قوتیں، رام جنم بھومی کی مقدس بھومی سے مربوط ہر شخص ، جو جہاں ہے، اس اہتمام کو دیکھ رہا ہے، وہ جذباتی بھی ہے، سبھی کو دعائیں بھی دے رہا ہے۔

ساتھیو،

رام ہمارے من میں مضمر ہیں، ہمارے اندر گھل مل گئے ہیں، کوئی کام کرنا ہو، تو ترغیب حاصل کرنے کے لئے ہم بھگوان رام کی اور ہی دیکھتے ہیں۔ آپ بھگوان رام کی حیرت انگیز قوت کا مشاہدہ کیجئے، عمارتیں تباہ کر دی گئیں، وجود مٹانے کی کوشش بھی بہت ہوئی، لیکن رام آج بھی ہمارے دل میں بسے ہیں، ہماری ثقافت کی بنیاد ہیں، شری رام بھارت کی مریادا ہیں، شری رام مریادا پرشوتم یا مثالی شخصیت ہیں۔ اسی ایودھیا میں رام جنم بھومی پر شری رام کے اس عظیم الشان مندر کےلئے بھومی پوجن ہوا ہے، یہاں آنے سے پہلے میں نے ہنومان گڑھی کا درشن کیا، رام کے سب کام ہنومان ہی تو کرتے ہیں۔ رام کے آدرشوں کی کلیوگ میں حفاظت کرنے کی ذمہ داری بھی ہنومان جی کی ہی ہے۔ ہنومان جی کے آشرواد سے شری رام مندر بھومی پوجن کا یہ اہتمام ہوا ہے۔

ساتھیو،

شری رام کا مندر ہماری تہذیب کی جدید علامت بنے گا، ہماری دائمی عقیدت کی علامت بنے گا، ہمارے قومی جذبے کی علامت بنے گا اور یہ مندر کروڑوں لوگوں کی مجموعی قوت،  عزم کی بھی علامت  بھی بنے گا۔ یہ مندر آنے والی پیڑھیوں کو عقیدت، یقین اور عزم کی ترغیب دیتا رہے گا۔ا س مند رکی تعمیر کے بعد ایودھیا کی صرف خوبصورتی ہی نہیں بڑھے، اس علاقے کی پوری معیشت بھی بدل جائے گی۔ یہاں ہر شعبے میں نئے مواقع فراہم ہوں گے، ہر شعبے میں مواقع بڑھیں گے، سوچئے پوری دنیا سے لوگ یہاں آئیں گے۔ پوری دنیا پربھو رام اور ماتا جانکی کا درشن کرنے آئے گی، کتنا کچھ بدل جائے گا یہاں۔

ساتھیو،

رام مندر کی تعمیر کا یہ عمل ملک کو جوڑنے کا عمل ہے۔ یہ جشن ہے یقین کو موجودہ سے جوڑنے کا، نَر کو نارائن سے جوڑنے، لوک کو آستھا سے جوڑنے کا ۔ حال کو ماضی سے جوڑنے کا اور خود کو روایات سے جوڑنے کا۔ آج کے یہ تاریخی لمحات صدیوں تک، طول و عرض تک، بھارت کی شہرت کا پرچم لہراتے رہیں گے۔ آج کا یہ دن کروڑوں رام بھکتوں کے عزم کی سچائی کا ثبوت ہے۔

آج کا یہ دن ستیہ، اہنسا، آستھا اور  بلیدان کو انصاف پسند بھارت کی خوبصورت بھینٹ ہے۔ کرونا سے بنی اس صورتحال کی وجہ سے بھومی پوجن کا یہ پروگرام متعدد بندشوں کے مابین ہو رہا ہے۔ شری رام کے کام میں مریادا کی جیسی مثال پیش کی جانی چاہئے، ملک نے ویسی ہی مثال پیش کی ہے۔ مریادا کا تجربہ ہم نے تب بھی کیاتھا، جب عدالت عظمیٰ نے اپنا تاریخی فیصلہ سنایا تھا، ہم نے تب بھی دیکھا تھا کہ کیسے سبھی اہل ملک نے امن کے ساتھ ، سبھی کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے برتاؤ کیاتھا۔ آج بھی ہم ہر طرف وہی مریادا دیکھ رہے ہیں۔

ساتھیو،

اس مندر کے ساتھ صرف نئی تاریخ ہی نہیں رقم کی جا رہی ہے، بلکہ تاریخ خود کو بھی دوہرا رہی ہے، جس طرح گلہری سے لے کر بندر اور کیوٹ سے لے کر وَنواسی بندھوؤں کو بھگوان رام کی فتح کا وسیلہ بننے کی خوش بختی حاصل ہوئی، جس طرح چھوٹے چھوٹے گوالوں نے بھگوان شری کرشن کے ذریعے گووردھن پہاڑ اٹھانے میں بڑا کردار ادا کیا، جس طرح ماؤلے چھتر پتی ویر شیوا جی نے سوراجیہ قائم کیا، جس طرح غریب، پسماندہ، غیر ملکی حملہ آوروں کے ساتھ لڑائی میں مہاراجہ سہیل دیو کی طاقت بنے، جس طرح دلتوں، پسماندہ، آدیواسیوں، سماج کے ہر طبقے نے آزادی کی لڑائی میں گاندھی جی کو تعاون دیا، اسی طرح آج دیش بھر کے لوگوں کے تعاون سے رام مندر کی تعمیر کا یہ مقدس کام شروع ہوا ہے۔

جیسے پتھروں پر شری رام لکھ کر رام سیتو بنایاگیا، ویسے ہی گھر گھر سے ، گاؤں گاؤں سے پوری عقیدت کے ساتھ پوجی گئی شیلائیں، یہاں توانائی کا وسیلہ بن گئی ہیں۔ دیش بھر کے دھاموں اور مندروں سے لائی گئی مٹی اور دریاؤں کا پانی وہاں کے عوام ، وہاں کی ثقافت اور وہاں کے جذبات آج یہاں کی قوت بن گئی ہیں۔ واقعی، یہ نہ بھوتو نہ بھویشتی ہے۔ بھارت کی آستھا، بھارت کے عوام کی اجتماعیت کی یہ نا قابل تسخیر قوت پوری دنیا کے لئےمطالعہ کا موضوع ہے،  تحقیق کا موضوع ہے۔

ساتھیو،

شری رام چندر کو نور میں سورج جیسا، معاف کرنے میں زمین جیسا، عقل و دانش میں برہسپتی جیسا اور شہرت میں اند رکے جیسا مانا گیا ہے۔ شری رام کا کردار سب سے زیادہ، جس مرکزی نقطے پر گھومتا ہے، وہ ہے، سچائی پر اٹل رہنا۔ اسی لئے ہی شری رام مکمل ہیں۔ اس لئے ہی وہ ہزاروں برسوں سے بھارت کے لئے مینارہ نور بنے ہوئے ہیں۔ شری رام نے سماجی مساوات کو اپنی حکمرانی کی بنیاد بنایا تھا۔ انہوں نے گورو وشسٹھ سے علم، کیوٹ سے محبت، شبری سے جذبہ مادری، ہنومان جی اور وَنواسی بندھوؤں سے تعاون اور رعایا سے اعتماد حاصل کیا۔

یہاں تک کہ ایک گلہری کی اہمیت کو بھی انہوں نے بخوشی قبول کیا۔ ان کی بے مثال شخصیت، ان کی شجاعت، ان کی دریادلی، ان کی دیانت داری، ان کی بے باکی، ان کا تحمل ، ان کا استحکام، ان کی فلسفیانہ نظر صدیوں تک ترغیب فراہم کرتی رہے گی۔ رام رعایا سے یکساں محبت کرتے ہیں، لیکن غریبوں اور دین دکھیوں پر ان کا خاص کرم رہتا ہے۔ اس لئے تو ماتا سیتا، رام جی کے لئے کہتی ہیں،

دین دیال وِرَدو سمبھاری

یعنی جو نادار ہیں، دکھی ہیں، ان کی بگڑی بنانے والے شری رام ہیں۔

ساتھیو،

 زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے، جہاں ہمارے رام ترغیب نہ دیتے ہوں۔ بھارت کا کوئی ایسا جذبہ نہیں ہے، جس میں پربھو رام جھلکتے نہ ہوں۔ بھارت کے یقین میں رام ہیں، بھارت کے آدرشوں میں رام ہیں، بھارت کی الوہیت میں رام ہیں، بھارت کے فلسفے میں رام ہیں، ہزاروں سال پہلے بالمیکی کی رامائن میں جو رام قدیم ہندوستان کی رہنمائی کر رہے تھے، جو رام عہد وسطیٰ میں تلسی ، کبیر اور نانک کے ذریعے بھارت کو قوت فراہم کر رہے تھے، وہی رام آزادی کی لڑائی میں باپو کے بھجنوں میں عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی شکتی بن کر موجود تھے۔ تلسی کے رام، سگن رام ہیں، تو نانک اور کبیر کے رام ، نِرگن رام ہیں۔

بھگوان بدھ بھی رام سے جڑے ہیں۔ صدیوں سے یہ ایودھیا نگری جین دھرم کی آستھا کامرکز بھی رہی ہے۔ رام کی یہی آفاقیت بھارت کی کثرت میں وحدت کی روح رواں ہے۔ تمل میں کمب رامائن، تیلگو میں رگھو ناتھ اور رنگ ناتھ رامائن ہیں۔ اڑیہ میں روڑپاد کاتیڑ پدی رامائن، تو کنڑ میں کمیندو رامائن ہے۔ آپ کشمیر جائیں گے، تو آپ کو رام اوتار چرت ملے گا، ملیالم میں رام چریتم ملے گی، بنگلہ میں کرتی واس رامائن ہے، تو گوروگووند سنگھ نے بذات خود گووندرامائن لکھی ہے۔ الگ الگ رامائنوں میں الگ الگ جگہوں پر، رام مختلف شکلوں میں ملیں گے، لیکن رام سب جگہ ہیں، رام سب کے ہیں، اس لئے رام بھارت کی کثرت میں وحدت کا سوتر ہیں۔

ساتھیو،

دنیا میں کتنے ہی ملک رام کے نام کا ورد کرتے ہیں، وہاں کے شہری خود کو شری رام سے جڑا ہوا مانتے ہیں، دنیا کی سب سے زیادہ مسلم آبادی جس دیش میں ہے، وہ ہے انڈونیشیا، وہاں ہمارے ملک کی ہی طرح  کاکا وِن رامائن، سورن دیپ رامائن، ،یوگیشور رامائن جیسی کئی منفرد رامائنیں ہیں۔ رام آج بھی وہاں لائق عقیدت ہیں۔ کمبوڈیا میں رام کیر رامائن ہے۔لاؤ میں فَرالاک فَرا لام رامائن ہے، ملیشیا میں حکایت شری رام ، تو تھائی لینڈ میں راما کین ہے۔ آپ کو ایران اور چین میں بھی رام کے حوالے اور رام کتھاؤں کی تفصیلات ملیں گی۔

سری لنکا میں رامائن کی کتھا، جانکی ہرن کے نام سے سنائی جاتی ہے اور نیپال کا تورام سے قلبی تعلق، ماتا جانکی سے جڑا ہے۔ ایسے ہی دنیا میں اور نہ جانے کتنے ملک ہیں، کتنے چھور ہیں، جہاں کی عقیدت میں یا ماضی میں رام کسی نہ کسی شکل میں رچے بسے ہیں۔ آج بھی بھارت کے باہر د رجنوں ایسے دیش ہیں، جہاں وہاں کی بھاشا میں رام کتھا آج بھی چلن میں ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آج ان ملکوں میں بھی کروڑوں لوگوں کو رام مندر کی تعمیر کا کام شروع ہونےسے بہت خوشگوار احساس ہو رہا ہوگا۔ آخر رام سب کے ہیں، سب میں ہیں۔

ساتھیو،

مجھے یقین ہے کہ شری رام کے نام کی طرح ہی ایودھیا میں بننے والا یہ عظیم الشان مندر بھارتیہ ثقافت کی مالامال وراثت کی علامت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں تعمیر ہونے والا رام مندرہمیشہ  پوری انسانیت کو ترغیب دیتا رہے گا۔ اس لئےہمیں یہ بھی یقینی بناناہے کہ بھگوان شری رام کا پیغام، رام مندر کا پیغام، ہماری ہزاروں سال کی روایات کا پیغام، کیسے پوری دنیا تک لگاتار پہنچے، کیسے ہمارے علم، ہمارے انداز فکر سے دنیا واقف ہو، وہ ہماری اور ہماری موجودہ اور مستقبل کی پیڑھیوں کی ذمہ داری ہے۔ اسی کو سمجھتے ہوئے آج ملک میں بھگوان رام کے قدم جہاں پڑے ہوں، وہاں رام سرکٹ کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ ایودھیا تو بھگوان رام کی اپنی نگری ہے۔ ایودھیا کی مہما تو خود پربھو شری رام نے کی ہے۔

جنم بھومی مم پوری سہاوَنی

یہاں رام کہہ رہے ہیں-میری مادر وطن ایودھیا الوہی رونق کا شہر ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج پربھو رام کی  جائے پیدائش کی خوبصورتی، الوہیت میں اضافے کے لئے ایسے کئی تاریخی کام ہو رہے ہیں۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں شاستروں میں کہا گیا ہے-‘‘ نَرام سدرشو راجہ، پرتھی وَیام، نیتی وان، ابھوت’’ یعنی کی پوری زمین پر شری رام کے جیسا اصول پسند حکمراں کبھی ہوا ہی نہیں۔ شری رام کی تعلیم ہے، نہیں درِدر کوو، دکھی نہ دینا،، کوئی بھی دکھی نہ ہو، غریب نہ ہو۔ شری رام کا ساماجِک سندیش ہے، پرہشٹر نر ناریک، سماج اتسو شوبھت، نَر ناری سبھی یکساں طور پر سکھی ہوں۔ شری رام کی ہدایت ہے‘‘ کچّت تے دایتو سروے، کرشی گورکش جیونی’’ کسان، پشو پالک سبھی ہمیشہ خوش رہیں۔ شری رام کا حکم ہے، ‘‘ کشچد وردھانچ بالانچ، ویدیان، مکھیان، راگھو، تربھی، اِتے، اوبھوشسے’’ بزرگوں کی، بچوں کی، اطبا کی ہمیشہ حفاظت ہونی چاہئے۔  شری رام کی تلقین ہے کہ  ‘‘ جوں سبھیت آواس رَنائی رکھی ہوں تاہی پران کی نائی’’، جو پناہ میں آئے، اس کی حفاظت کرنا سبھی کا فرض ہے۔ شری رام کا اصول ہے ‘‘ جننی جنم بھومشچی سورگ داپی گَریسی’’ اپنی مادر وطن جنت سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ اور بھائیو اور بہنو یہ بھی شری رام کا ہی اصول ہے۔ ‘‘ بھئے بنو ہوئے نہ پریت’’، یعنی ہمارا ملک جتنا طاقتور ہوگا، اتنا ہی محبت اور امن قائم رہے گا۔

رام کا یہ اصول اور روایت صدیوں سے بھارت کی رہنمائی کرتی رہی ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے انہیں اصولوں، انہیں منتروں کے پس منظر میں رام راج کا خواب دیکھا تھا۔ رام کی زندگی ، ان کا کردار ہی گاندھی جی کے رام راج کا راستہ ہے۔

ساتھیو،

بذات خود پربھو شری رام نے کہا ہے،

دیش کال اوسر اَنوہاری، بولے وچن وِنیت بچاری

یعنی رام وقت، مقام اور حالات کے مطابق بولتے ہیں، سوچتے ہیں اور کرتے ہیں۔

رام ہمیں وقت کے ساتھ بڑھنا سکھاتے ہیں، چلنا سکھاتے ہیں، رام تبدیلی کے علمبردار ہیں، رام جدت طرازی کے علمبردار ہیں۔ ان کی انہیں ترغیبات کے ساتھ شری رام کے آدرشوں کے ساتھ بھارت آج آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیو،

 پربھو شری رام نے ہمیں ادائیگی فرض کی تعلیم دی ہے۔ اپنے فرائض کیسے ادا کریں، اس کی بھی سیکھ دی ہے۔ انہوں نے ہمیں مخالفت سے نکل کر ادراک اور تحقیق کا راستہ دکھایا ہے۔ ہمیں باہمی محبت اور بھائی چارے کے جوڑ سے رام مندر کی ان شیلاؤں کو جوڑنا ہے، ہمیں دھیان رکھنا ہے، جب انسانیت نے رام کو مانا ہے، ترقی ہوئی ہے۔ جب ہم بھٹکے ہیں، بربادی کے راستے کھلے ہیں۔ہمیں سبھی کے جذبات کا خیال رکھنا ہے۔ ہمیں سب کے ساتھ سے ، سب کے وشواس سے، سب کی ترقی کرنی ہے۔ اپنی محنت، اپنے عزم سے خوداعتمادی سے معمور اور خود پر انحصار کرنے والا بھارت بنانا ہے۔

ساتھیو،

تمل رامائن میں شری رام کہتے ہیں:

‘‘ کالم تائے، اینڈ اِنوم اِروتی پولام’’

مطلب یہ ہے کہ اب دیری نہیں کرنی ہے، اب ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

آج بھارت کےلئے بھی، ہم سب کے لئے بھی، بھگوان رام کا یہی پیغام ہے۔

مجھے یقین ہے ، ہم سب آگے بڑھیں گے، ملک آگے بڑھے گا، بھگوان رام کا یہ مندر صدیوں تک انسانیت کو ترغیب دیتا رہے گا، رہنمائی فراہم کرتا رہے گا۔ ویسے کورونا کی وجہ سے جس طرح کے حالات ہیں، پربھو رام کی مریادا کا راستہ آج اور زیادہ ضروری ہے۔

حال کی مریادا ہے ، دو گز کی دوری-ماسک ہے ضروری ۔ مریاداؤں کا پالن کرتے ہوئے سبھی اہل وطن کو پربھو رام صحتمند رکھیں، آسودہ رکھیں، یہی دعا ہے۔ سبھی اہل وطن پر ماتا سیتا اور شری رام کا کرم قائم رہے۔

انہیں نیک تمناؤں کے ساتھ سبھی اہل ملک کو ایک بار پھر بدھائی۔

بولو سیاپتی رام چندر کی ۔۔۔جے۔۔۔

*****

 ( م ن ۔ ک ا(

U. No. 4339



(Release ID: 1643567) Visitor Counter : 723