زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن کے دوران بھی زرعی شعبے کو اعلیٰ ترین ترجیح دیتی ہے


کسی بھی سابقہ حکومت نے زراعت اور کاشتکاروں کی بہبود پر اس قدر توجہ نہیں دی ہے، جتنی کی اس حکومت نے دی ہے: جناب نریندر سنگھ تومر

ملک اناجوں اور باغبانی فصلوں کے معاملے میں ریکارڈ پیداوار کی جانب بڑھا ہے

زراعت بھارت کی اقتصادی نمو میں کلیدی حیثیت کی حامل ہوگی: جناب رمیش چند، رکن نیتی آیوگ

Posted On: 29 APR 2020 8:38PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 30اپریل2020،زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کے وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے کہا ہے کہ حکومت کاشتکاروں اور زراعت کے شعبے کو اعلیٰ ترین ترجیح دیتی ہے اور لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں  ملک میں اناجوں  اوردالوں کی کوئی قلت نہیں  ہونے پائی  جبکہ حکومت نےاس امر کو بھی یقینی بنایا ہے کہ سبزیوں اور دودھ کی سپلائی بھی برقرار رہے۔ آج یہاں ایک پریس  کانفرنس سے خطاب  کرتے ہوئے جناب تومر نے کہا کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے گاؤں، غریب، کسان کی ترقی کو بنیادی اہمیت دی ہے۔ جناب تومر نے کہاکہ کسی بھی سابقہ حکومت نے زراعت اور کاشتکاروں کی بہبود پر اس قدر توجہ نہیں مرکوز کی، جتنا کی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ جناب مودی کی جانب سے شروع کی گئی منفرد اسکیموں میں پردھان منتری کسان سمان ندھی (پی ایم –کسان) پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا اور کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی)  جیسی اسکیمیں شامل ہیں۔

جناب تومر نے کہا کہ حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران بھی زرعی سرگرمیوں کو بلاکسی رکاوٹ جاری رکھنے کے عمل کو ترجیح دی ہے ۔ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران کاشتکاری کے لئے مخصوص در ج ذیل استثنائیاں فراہم کی گئیں۔

*کاشتکاروں اور کھیتوں پر کام کرنے والوں کے ذریعے انجام دیئے جانے والے کاشتکاری سے متعلق فرائض۔

*ایم ایس پی آپریشن سمیت زرعی مصنوعات اور اشیاء کی حصولیابیوں سے متعلق ایجنسیاں۔

*زرعی پیداوار منڈی کمیٹی کے ذریعے منعقد کی جانے والی منڈیا ں یا ریاستی حکومت کی جانب سے مشتہر کی گئیں منڈیاں ۔

*بیجوں ، کیمیاوی کھادوں اور کیڑے مکوڑوں کو فنا کرنے والی ادویہ کے لئے دکانیں اور مینوفیکچرنگ ؍ پیکیجنگ اکائیاں۔

*کمبائنڈ ہارویسٹر اور دیگر زرعی باغبانی سازوسامان کے سلسلے میں بین ریاستی اور ریاست کے اندر فصل کی کٹائی اور بوائی سے متعلق میشنوں کی فراہمی۔

*کولڈ اسٹوریج اور گودام سے متعلق خدمات۔

*ضروری چیزوں کا نقل و حمل۔

*زرعی مشینری سے متعلق دکانیں، اس کے متفرق پرزے (اس کی سپلائی چین سمیت) اور مرمت وغیرہ۔

*کسٹم ہائرنگ مراکز ( سی ایچ سی)، جن کا تعلق کاشت کاری کی  مشینری سے ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001G7O1.jpg

 

زرعی سرگرمیوں کو چالو رکھنے اور فروغ دینے کے لئے، جناب تومر نے کہاکہ خریف اور ربیع کی فصلوں کے لئے  کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) ، جس میں دھان، گیہوں، دالیں اور تلہن بھی شامل ہیں، اس میں ہر سیزن میں پیداوار کی لاگت کا لحاظ رکھتے ہوئے 1.5 گُنا سطح کے لحاظ سے اضافہ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ربیع کی فصلوں کےلئے ایم ایس پی میں جو اضافہ کیا گیا ہے، اس سے مختلف فصلوں کی پیداوار کے مقابلے میں 50سے 109فیصد کا ریٹرن یقینی بنایا جا سکاہے۔ ربیع کی دالوں اور تلہنوں کے لئے مراکز کی تعداد جو گزشتہ برس 1485 تھی، وہ اس سال بڑھ کر 2790ہوگئی۔ جیسے جیسے حصولیابی میں اضافہ ہوگا، ضرورت کے مطابق مزید مراکز کھولے جائیں گے۔

وزیر زراعت نے کہا کہ انہیں کوششوں کے نتیجے میں ریکارڈ اناج پیداوار ممکن ہو سکی ہے۔ 19-2018 میں 285.20ملین ٹن کے مقابلے میں فصلوں کا پیداواری تخمینہ 291.95ملین ٹن کے بقدر ہے اور آئندہ مالی برس کے لئے 298.3ملین ٹن کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروٹین انقلاب کا حصول دالوں کی پیداوار میں 28.3فیصد کے اضافے کے ساتھ حاصل کر لیا گیا ہے۔دالوں کی یہ پیداوار 15-2014 میں 17.20ایم ٹی تھی، جو 20-2019میں بڑھ کر 23.02ایم ٹی ہو گئی۔ موسم گرما کےدوران اُگائی جانے والی  فصلوں پر مرکوز کی گئی توجہ کے نتیجے میں اس سال 57.07لاکھ ہیکٹیئر زمین پر بوائی کی گئی ہے، جبکہ گزشتہ برس 41.31لاکھ ہیکٹیئر رقبے پر بوائی ہوئی تھی۔اسی طریقے سے باغبانی فصلوں کے مابین اس مالی سال میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور 313.35ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوار کا اندازہ ہے،جبکہ 19-2018 میں 310.74ملین ٹن پیداوار حاصل ہوئی تھی۔

جناب تومر نے کہا کہ حکومت کاشتکاری کے شعبے میں خصوصاً کووڈ-19وبائی مرض سے نمٹنے کےلئے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے اصولو ں پر عمل کرنے کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کے کاموں میں ٹیکنالوجی کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے تاکہ تمام امور میں انسانی عمل دخل کم سے کم ہو سکے۔ محکمہ زراعت، امداد باہمی اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی جانب سے ٹیکنالوجی پر مشتمل درج ذیل پہل قدمیاں انجام دی گئی ہیں۔

*کاشتکاروں کو مدد دینے کے لئے ای-نام متعارف کرایا گیا، جس میں نئی ٹیکنالوجیاں شامل کی گئی ہیں۔

*اپریل 2020میں ای-نیم کے تحت نئے ماڈیولس لانچ کئےگئے۔

*ویئر ہاؤس پر مبنی ٹریڈنگ ماڈیول :ای –نام کوای-این ڈبلیو آر سے مربوط کیا گیا ہے۔

*ایف پی او ماڈیول جس کے تحت پیداوار کی لدان، بولی لگانے اور ادائیگی کا عمل متعلقہ کلیکشن مراکز سے براہ راست ممکن ہو تا ہے۔

*ایف پی او قرب و جوار کے شہروں اور قصبات میں سبزیاں فراہم کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں سازوسامان لے جانے اور ان کی تجارت میں پیش آنے والے تمام تر مسائل کو اصل وقت کی بنیاد پر حل کیا جاتا ہے۔ ریاستوں نے پہلے ہی ایف پی او پاس ؍ای-پاس جاری کرنے کا فیصلہ لے لیا ہے۔

*کسان رتھ ایپ کو 17اپریل 2020کو اس مقصد سے نافذکیاگیا ہے کہ کاشتکار اور تاجر، کاشت کی پیداوار کی نقل و حمل کے لئے صحیح زمرے کے نقل و حمل کے وسائل کی شناخت کر سکیں۔ 11.37لاکھ سے زائد ٹرک، 2.3لاکھ سے زائد ٹرانسپورٹروں کی شکل میں لاجسٹک کا انتظا م بھی کیا گیا ہے۔

*اپریل 2020 میں کُل ہند زرعی نقل و حمل کال سنٹر لانچ کیا گیا۔یہ کال سنٹر بین ریاستی نقل و حمل یعنی سبزیوں ، پھلوں اور دیگر زرعی اشیا کی نقل و حمل کے معاملے میں مختلف ریاستوں کے مابین تال میل قائم کرنے کی غرض سے کھولے گئے ہیں۔کال سنٹر کے نمبران 18001804200اور14488ہیں۔

*کسان ریل کے سلسلے میں بجٹی اعلان پر عمل کرتے ہوئے، لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران ریلوے نے تیز رفتاری کے ساتھ ضروری چیزوں کی سپلائی کو یقینی بنانے کے لئے 567پارسل اسپیشل چلانے کے لئے 67روٹ متعارف کرائے ہیں۔

جناب تومر نے کہا کہ پی ایم کسان اسکیم سے اس کووڈ سیزن کے دوران کاشتکاروں کو زبردست فائدہ حاصل ہوا ہے، کیونکہ حکومت نے 24؍مئی 2020 تک کاشتکاروں کو 17986کروڑروپے منتقل کئے ہیں۔ تا حال 9.39کروڑکسان کنبوں نے اس سے استفادہ کیا ہے اور 71ہزار کروڑروپے کی رقم منتقل کی گئی ہے۔یکم اپریل سے 31جولائی 2020 کے دوران واجب الادا ہونے والی قسط کے سلسلے  میں 8.13کروڑ استفادہ کنندگان کو اپریل کے پہلے ہفتے میں ہی ادائیگی کی جا چکی ہے۔اسکیم کی کامیابی کو مدنظررکھتےہوئےوزیراعظم نے صرف ایک سال قبل تشکیل کردہ اس اسکیم کی توسیع تمام کاشتکار کنبوں تک کرنے کی منظوری دے دی ہے، کیونکہ اصل اسکیم صرف چھوٹے اور بہت چھوٹے کاشتکاروں پر احاطہ کر رہی تھی۔

جناب تومر نے کہا کہ حکومت نے کسان کریڈٹ کارڈ (کے سی سی )، سیچوریشن ڈرائیو بھی ماہ فروری 2020 میں شروع کیا ہے تاکہ پی ایم کسان استفادہ کنندگان کو کے سی سی کے فوائد حاصل کرنے کے لائق بنایا جا سکے۔ تب سے لے کر اب تک کی مدت میں پی ایم کسان استفادہ کنندگان کی جانب سے 75لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جب کہ تقریبا 20لاکھ درخواستوں پرمنظوری دی جا چکی ہے اور اس کے تحت مجموعی طور پر 18ہزار کروڑروپے کی رقم منظور کی گئی ہے۔

جنا ب تومر نے کہاکہ پی ایم فصل بیمہ یوجنا کو کاشتکاروں کے لئے رضاکارانہ طور پر نافذ کی جانے والی اسکیم بنا دیا گیا ہے کیونکہ  تمام کاشتکاروں کی جانب سے اس کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ تاہم کاشتکاروں کی جانب سے ادا کئے جانے والے پریمئم کے شیئر میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ حکومت ہند اب شمال مشرقی ریاستوں کے لئے 90فیصد پریمیم سبسڈی واجبات برداشت کرے گی، جبکہ اس سے پہلے 50فیصد برداشت کر رہی تھی۔ ریاستوں کو یہ متبادل فراہم کرایا گیاہے کہ وہ اپنے طور پر رسک کوور او ر کاشتکاروں کے فوائد کےلئے بیمہ کی رقم کے بارے میں فیصلہ لے سکیں۔ جناب تومر نے کہا کہ 2017سے لے  کر 2019 کے دوران کاشتکاروں کی جانب سے 9ہزار کروڑروپے سے زائد کا تعاون دیا گیا ہے۔50ہزار کروڑ روپے سے زائد کے فصل بیمہ دعوے متاثرہ کاشتکاروں کے حق میں نمٹائے جا چکے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران  مجموعی دعوؤں کے تحت  5326.7کروڑروپے کی ادائیگی کی گئی ہے۔

جناب تومر نے کہا کہ اس سال کے بجٹ میں بھی حکومت نے 2022 تک کاشتکاروں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی بات کی ہے۔ 21-2020کے بجٹ میں تمام تر زرعی سرگرمیوں کےلئے 2.83لاکھ کروڑروپےمختص کئے گئے ہیں اور زراعت اور ذیلی نیز آبپاشی سرگرمیوں کے لئے 1.6لاکھ کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے نیتی آیوگ کے رکن جناب رمیش چند نے کہا کہ زراعت کا شعبہ بھارت کی معیشت میں اہم اہمیت کا حامل ہوگا اور حکومت کا مقصد یہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی نمو کو اضافے سے ہمکنار رکھا جائے، اگرچہ لاک ڈاؤن نافذ ہے اور اس کے نتیجے میں صنعتی سرگرمی تقریبا 60فیصد تک گھٹ گئی ہے۔ مانسون کی نارمل پیشین گوئی کے ساتھ آبی ذخائر میں 60-50فیصد پانی دستیاب ہے۔توقع کی جاتی ہے کہ زرعی شعبہ ازحد اچھی کارکردگی کامظاہرہ کرے گا۔ اس مہینے 28اپریل تک 13.5لاکھ میٹرک ٹن کیمیاوی کھادیں اٹھائی گئی  ہیں، جو گزشتہ برس ماہ اپریل کی 12.86لاکھ ٹن مقدار کے مقابلے میں 5فیصد زائد ہے۔ کرشی وگیا ن کیندروں نے اس سال 4مہینوں میں گزشتہ برس کی اسی مدت کے مقابلے میں 20فیصد زائد بیج فروخت کئے ہیں۔ فصلوں کی ایک طے شدہ قیمت کے پس منظر میں اس امر سے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور طویل المدت اوسط کے لحاظ سے زرعی نمو میں تین فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

م ن۔ک ا۔

U-2134

                      



(Release ID: 1619489) Visitor Counter : 390