سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

کووڈ-19 کے لیے نوویل بلڈ پلازما تھیراپی کی کھوج


اس علاج کا مقصدایک بیمار شخص کا علاج کرنے کے لیے ایک صحتیاب ہونے وا لے شخص کے ذریعے حاصل شدہ قوت مدافعت کا استعمال کرنا ہے

Posted On: 11 APR 2020 12:26PM by PIB Delhi

نئی دہلی،11اپریل          سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے کے تحت کام کرنے والے قومی اہمیت کے ایک ادارے سری چترترونال انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (ایس سی ٹی آئی ایم ایس ٹی) نے کووڈ-19 بیماری سے متاثر مریضوں  کو اختراعی علاج فراہم کرانے کے لیے ایک جرأتمندانہ اقدام کے لیے منظوری حاصل کرلی ہے۔ تکنیکی طور پر ‘‘کنولسینٹ-پلازما تھیراپی’’ کہے جانے والے علاج کا مقصد صحت مند ہونے والے شخص کے ذریعے حاصل شدہ قوت مدافعت کا استعمال ایک بیمار شخص کے علاج کے لیے کرنا ہے۔ ہندوستان کے اعلیٰ ترین اختیار دینے وا لے ادارے انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) نے اس نئے علاج کے لیے ایس سی ٹی آئی ایم ایس ٹی کو منظوری دے دی ہے۔ ایس سی ٹی آئی ایم ایس ٹی کی ڈائرکٹر آشا کشور نے بتایا کہ‘‘ہم نے  خون کا عطیہ دینے کے ضابطوں میں چھوٹ دیئے جانے کی اجازت کے لیے ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا (ڈی سی جی آئی)سے عمر کے کٹ آف کے لیے درخواست کی ہے’’۔

کنولسیٹ پلازما تھیراپی کیا ہے؟ : جب نوویل کورونا وائرس جیسا پیتھوجن کسی جسم کو متاثر کرتا ہے تو ہمارا مدافعت کا نظام اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے۔ پولیس کے کتوں کی طرح اینٹی باڈیز حملہ آور وائرس کی شناخت اور نشاندہی کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ خون کے سفید ذرّے شناخت کیے گئے حملہ آور سے مقابلہ کرتے ہیں اور جسم کو انفیکشن سے نجات حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ تھیراپی خون کے ٹراسفیوزن کی طرح ایک صحتیاب ہونے والے مریض سے اینٹی باڈی حاصل کرتی ہے اور اس کو ایک بیمار شخص کے جسم میں داخل کردیتی ہے۔اینٹی باڈی سےمدد حاصل کرکے وائرس سے لڑنے کے لیے مدافعت کا نظام مستحکم ہوجاتا ہے۔

اینٹی باڈیز کیا ہے؟: اینٹی باڈیز کسی مائیکروب کے ذریعے کسی انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے لیے صف اوّل کی ایک قوت مدافعت ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی پروٹین  ہوتی ہے جو کہ نوویل کورونا وائرس جیسے کسی حملہ آور سے مقابلہ ہونے پر مدافعتی سیلز سے نکلتے ہیں  جنھیں ڈی لمفوسائٹ کہا جاتا ہے۔ مدافعت کا نظام ہر ایک حملہ آور پیتھوجن کے لیے مخصوص اینٹی باڈیز ڈیزائن کرتا ہے۔ ایک مخصوص اینٹی باڈی اور اس کے پارٹنر وائرس ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہوتے ہیں۔

یہ علاج کیسے  کیا جاتا ہے؟:  کووڈ-19 بیماری سے صحتیاب ہونے والے  ایک شخص کے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔ سیرم کو علاحدہ کیا جاتا ہے اور  وائرس کو بیکار بنانے والی اینٹی باڈیز کے لیے اس کی جانچ کی جاتی ہے۔ کنولسنیٹ سیرم جو کہ  کسی انفیکشن والی بیماری سے صحتیاب ہونے والے شخص کے خون کا سیرم ہوتا ہے اور اس پیتھوجن کے لیے خصوصی اینٹی باڈیز سے بھرپور ہوتا ہے، کو اس کے بعد کووڈ-19 کے مریض کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ مریض غیر فعال قوت مدافعت حاصل کرتاہے۔ انڈیا سائنس وائر سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر کشور نے کہا کہ‘‘بلڈ سیرم نکالنے جانے اورکسی مریض کو دیئے جانے سے قبل متوقع عطیہ دینے والے کی جانچ کی جاتی ہے۔ پہلے تو اس بات کی جانچ کی جاتی ہے کہ سُواب کا ٹیسٹ نگیٹیو ہو اور متوقع عطیہ دینے والے کو صحتیاب قرار دیا گیا ہو۔ اس کے بعد صحتیاب ہونے والے شخص کو دو ہفتے انتظار کرنا پڑتا ہے یا یہ دیکھا جاتا ہے کہ متوقع عطیہ دینے والا شخص میں کم از کم 28 دن سے کسی طرح کی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو۔ ان دونوں میں سے ایک ضروری ہے’’۔

علاج کس کا کیا جائے گا؟:  ڈاکٹر کشور نے کہا کہ ‘‘شروع میں ہم بہت کم تعداد میں مریضوں پر یہ علاج آزمائیں گے۔ فی الحال صرف بہت زیادہ متاثرہ مریضوں کے لیے محدود استعمال کے واسطے ایک تجرباتی تھیراپی کے طو رپر اس کی اجازت ملی ہے۔ علاج شروع کرنے سے قبل ہم اس کے بارے میں معلومات فراہم کراکے رضامندی حاصل کریں گے۔ یہ کام ایک کلینیکل ٹرائل کے طور پر کیا جائے گا۔ اس کام میں پانچ میڈیکل کالج اسپتالوں کے کووڈ-کلینک حصہ لے رہے ہیں’’۔

یہ ویکسین سے کس طرح مختلف ہے؟:  یہ تھیراپی غیر فعال   ٹیکہ کاری جیسی ہے۔ جب ایک ویکسین لگائی جاتی ہے تو مدافعت کا نظام اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے۔ اس طرح جس شخص کو ویکسین دی گئی تھی وہ بعد میں کسی دن اُس پیتھوجن سے متاثر ہوتا ہے تو نظام مدافعت سے اینٹی باڈیز نکلتی ہیں اور انفیکشن کو غیر مؤثر کردیتی ہیں۔ ویکسینیشن زندگی بھر کی قوت مدافعت فراہم کراتا ہے۔ لیکن غیر فعال اینٹی باڈی تھیراپی کے معاملے میں  اس کا اثر انجیکٹ کی گئی اینٹی باڈیز کے خون میں باقی رہنے کے وقت تک رہتا ہے۔ اس طرح ملنے والا تحفظ عارضی ہوتا ہے۔ بچے کے اپنے قوت مدافعت تیار کرنے سے قبل ماں اپنے دودھ کے ذریعے ایک نوزائیدہ بچے میں  اینٹی باڈیز منتقل کرتی ہے۔

تاریخ: 1890 میں ایک جرمن پیزیولوجسٹ ایملوان بیرنگ نے  پتہ لگایا گیا کہ ڈپتھیریا سے  متاثر ایک خرگوش سے حاصل شدہ سیرم ڈپتھیریا کے انفیکشن سے بچنے میں مؤثر ہے۔ بیرنگ کو 1901 میں میڈیسن کے لیے پہلے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس وقت اینٹی باڈیز کے بارے میں پتہ نہیں تھا۔ کنولسینٹ سیرم تھیراپی کم مؤثر تھی اور اس کے کافی سائڈ ایفیکٹ بھی ہوتے تھے۔ کئی سال بعد اینٹی باڈی کے حصے کو علاحدہ کیا جاسکا۔ پھر بھی غیر ارادتاً اینٹی باڈیز اور آلودگی کی وجہ سے سائڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں۔

کیا یہ مؤثر ہے؟: بیکٹیریا سے ہونے والے  انفیکشن کے خلاف ہمارے پاس مؤثر اینٹی بایوٹکس ہیں لیکن ہمارے پاس مؤثر اینٹی وائرل نہیں ہیں۔ جب بھی  ایک نئی وائرل وبا پھیلتی ہے تو اس کے علاج کے لیے کوئی ڈرگ نہیں ہوتا۔ اس لیے گذشتہ وائرل وباؤں کے دوران کنولسینٹ سیرم استعمال کیا گیا۔2009-10 میں ایچ 1 این 1 انفلوئینزا عالمی وبا کے دوران بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت والے انفیکشن کے مریضوں کو استعمال کیا گیا۔ غیر فعال اینٹی باڈی علاج کے بعد جن لوگوں کا سیرم سے علاج کیا گیا ان میں کلینیکل بہتری نظر آئی۔ اس سے وائرس کا اثر کم ہوا اور اموات کی شرح بھی کم ہوئی۔ یہ طریقہ کار 2018 میں ایبولا وبا کے دوران بھی مفید رہا۔

کیا یہ محفوظ ہے؟: بلڈ بینک کی جدیدتکنیک جو خون میں اثر کرنے والے پیتھوجن کی جانچ کرتی ہے، بہت زبردست ہے۔ عطیہ دینے والے  اور حاصل کرنے والوں کے خون کی قسم کا ملان کرنا مشکل نہیں ہے۔ اس لیے غیر ارادی طورپر انفیکشن کی منتقلی یا ٹرانفیوزن کے ری ایکشن کا خطرہ کم ہے۔ ایس سی ٹی ا ٓئی ایم ایس ٹی کی ڈائرکٹر آشا کشور نے بتایا کہ ‘‘جیسا کہ ہم خون کا عطیہ دینے کے معاملے میں کرتے ہیں اس کے لیے بلڈ گروپ دیکھنا پڑتا ہے اور اس کی آر ایچ مطابقت  دیکھنی پڑتی ہے۔ صرف ایسے لوگ ہی خون کا عطیہ دے سکتے ہیں یا خون حاصل کرسکتے ہیں، جن کے بلڈ گروپ میل کھاتے ہوں۔ عطیہ دینے والے کی سختی سے جانچ کی جاتی ہے اور وہ خون کا عطیہ دینے کی اجازت دینے سے پہلے کچھ ضروری عوامل کے لیے جانچ کی جاتی ہے۔ ان کی ہیپاٹائٹس، ایچ ا ٓئی وی ملیریا اور اسی طرح کے امراض کے لیے جانچ کی جاتی ہے تاکہ  اس بات کویقینی بنایا جاسکے کہ ان سے خون حاصل کرنے والے کو ایک مختلف پیتھوجن منتقل نہ ہوجائے’’۔

علاج حاصل کرنے والے میں اینٹی باڈی کتنے عرصے باقی رہیں گے؟: اینٹی باڈی سیریم دیئے جانے کے بعد  یہ حاصل کرنے والے مریض کے جسم میں کم از کم تین یا چار دن تک باقی رہیں گے۔ اس مدت میں مریض صحتیاب ہوجائے گا۔ امریکہ اور چائنا سے موصولہ تحقیقی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ  ٹرانفیوژن پلازما کا مفیداثر پہلے تین سے چار دن تک ہی ہوتا ہے اس کے بعد میں نہیں۔

چیلنجز: یہ تھیراپی استعمال کیے جانے کے لیے آسان نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں صحتیاب ہونے والوں سے خاطر خواہ مقدار میں پلازما حاصل کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔کووڈ-19 جیسی بیماریوں میں جس میں کہ زیادہ تر متاثرین بڑی عمر کے لوگوں سے ہے، جو دیگر امراض مثلاً ہائیپر ٹینشن، ذیابیطس اور اسی طرح کے دوسرے امراض  سے متاثر ہوتے ہیں، اس کے علاوہ صحتیاب ہونے والے تمام مریض خون کا عطیہ دینے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔

****************

م ن۔ ا گ ۔ ر ا 

U: 1619



(Release ID: 1613451) Visitor Counter : 698