شماریات اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت

پریس نوٹ:اعدادو شمار اصلاحات اور موجودہ جی ڈی پی سیریز سے متعلق تردید

Posted On: 10 JUN 2019 5:19PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی؍10جون2019؍

میڈیا کے ایک حصے میں وزارت برائے اعدادو شمار اور پروگرام نفاذ(ایم او ایس پی آئی) اور موجودہ جی ڈی پی سیریز پر کئے جارہے اعدادو شمار سے متعلق سدھاروں کے بارے میں کچھ رپورٹیں سامنے آئی ہیں۔

جہاں تک اعدادو شمار اصلاحات کا تعلق ہے، یہ خیال رکھان اہم ہے کہ نظام (سسٹم) میں اصلاحات ایک جاری رہنے والا عمل ہے اور سماج کی بدلتی ہوئی ضرورت کے لئے جوابدہی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ وقتاً فوقتاً اعدادو شمار نظام پر متعلقہ مناسب اور معیار کے اعدادو شمار کے پروڈکشن کے لیے مانگ بڑھتی ہے۔ وزارت دستیاب وسائل اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ان مانگوں کو ایڈجسٹ کرتی ہے یا جگہ دیتی ہے۔ کسی بھی نظام کی طرح ٹیکنالوجی کی آمد کے لیے اعدادو شمار پروسیز میں اور پروڈکٹس میں سدھار کی ضرورت ہے، جس کا مقصد مطابقت پذیری ہے، تاکہ نظام کو جوابدہ بنایا جاسکے۔ سی ایس او اور این ایس ایس او کے انضمام کے لیے حال ہی میں اٹھائے گئے قدم کا مقصد دونوں اداروں کی طاقت کا فائدہ اٹھانا تھا، تاکہ یہ بڑھتی ہوئی مانگوں کو پورا کرسکے۔

سال 2018 میں کابینہ نے خدمات کے سالانہ سروے (سروس سیکٹر کے زیادہ وسیع احاطے کے لئے)  بے شمار صنعتوں کے سالانہ سروے (ان صنعتوں / کاروباروں کی بنیادی طور پر غیر منظم شعبے میں بہتر سمجھ  حاصل کرنے کے لئے)ٹائم یوز سروے (گھر کے ممبران کے وقت کے مزاج کو سمجھنے کے لئے) اور نئے سروے کے نظم سمیت  کئی نئی سرگرمیوں نیز خصوصی طور پر سبھی اداروں / صنعتوں کی معاشی مردم شماری جیسی سرگرمیوں کو منظوری دے تھی۔ ان تمام سرگرمیوں کے لئے اہم مالی اور انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جنہیں دستیاب کرانے میں وقت لگتا ہے۔ انسانی وسائل کی فوری ضرورت کو موجودہ انسانی وسائل کی دوبارہ تعیناتی (ری ڈیپلائٹمنٹ) اور پیشہ ورانہ انسانی وسائل ایجنسیوں سے عملے کی آؤٹ سورسنگ کے تال میل کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے۔ آؤٹ سورسنگ عملے کو بھی تعیناتی سے پہلے سخت اور مسلسل  ٹریننگ دینے کی اور بعد میں نگرانی کی ضرورت  ہوتی ہے۔ یہ ماڈل اقتصادی مردم شماری اور دیگر این سی ایس ایس سروے میں نافذ کیا جاتا ہے۔ سال 2013 میں منعقدہ آخری اقتصادی مردم شماری میں ریاستی حکومتوں سے فیلڈ ورک کے لئے عملے کے انتظام کی درخواست کی گئی تھی جس کی وجہ سے نتائج کو حتمی شکل دینے اور جاری کرنے میں تاخیر ہوئی۔ 2019 میں جاری اقتصادی سروے میں، ایم او ایس پی آئی نے کامن سروس سینٹرس (سی ایس سی) ایس پی وی کے ساتھ شراکت داری میں فیلڈ ورک کی ذمہ داری لی ہے اور قومی سیمپل سروے (این ایس ایس)، ریاستی حکومتوں اور اس سے متعلقہ وزارتوں کے افسران، فیلڈ ورک کی نگرانی  اور سپر وائزنگ میں شامل رہیں گے تاکہ ڈیٹا کی کوالٹی اور اچھے کوریج کو یقینی بنایا جاسکے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جبکہ این ایس ایس میں استعمال کئے جانے والے فیلڈ ورک کے کام کی نگرانی اور سپروائزنگ کا کام اقتصادی سروے کے لئے کیا جائے گا تاکہ نیشنل اسٹیسٹی اسٹکل  بزنس رجسٹر کو بنانے کے لئے بہتر معیار کے نتائج حاصل ہوں۔ یہ عمل ایک قومی متحدہ اعداد و شمار دفتر (این ایس او) کے قیام کے ذریعہ موثر ہوا ہے۔

مختلف میڈیا رپورٹوں میں تعمیر نو (ری اسٹرکچرنگ) کے سلسلے میں خصوصی طور پر جو چھوٹ گیا ہے۔ وہ یہ کہا جارہا ہے کہ ایم او ایس پی آئی، موجودہ ڈیٹا پروسیسنگ عملے کے تبادلے کے ذریعہ ڈیٹا کوالٹی اور یقین دہانی پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ این ایس ایس میں کمپویٹر اسسڈ پرسنل انٹرویوئنگ (سی اے پی آئی) کو اپنانے اور ٹیکنالوجی کو ای شیڈول کرنے کے مدنظر اعداد و شمار کو پرسیس کرنے کی روایتی سرگرمیوں میں اہم ضروری بدلاؤ کی ضرورت ہے۔ اس کی بدلت اس میں شامل نتائج کنٹرول سمیت بہتر اور زیادہ پراعتماد اعداد و شمار حاصل ہوتے ہیں۔ ان بدلاؤ کے لئے اعداد و شمار کی پروسیسنگ کرنے والے موجودہ عملے کو دوبارہ ہنر مند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اعداد و شمار کے معیار کو یقینی بنانے والے عمل کئے جاسکیں۔ ترقی یافتہ یا ترقی پذیر انتظامیہ دیٹا اسٹیس کی اعداد و شمار نظام میں معیار اور کار آمد ہونے کو یقینی بنانے کے بعد ان کو زیادہ استعمال کرنے پر بھی زو دیا گیا۔

جہاں تک ڈاٹا کی معتبریت کا تعلق ہو تو حکومت ہند نے مئی 2016ء میں یونائیٹیڈ نیشن فنڈامنٹل پرنسپلز آف آفیشیل اسٹیٹسٹکس(ایف پی او ایس) کو اپنا یا ہے۔ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر متفقہ پیشہ وارانہ اور سائنسی معیارات پر عمل کرکے معقول اور قابل اعتبار اعدادو شمار پیش کرنے کے لئے شماریت کے نظام کی آزادی اور خودمختاری کو یقینی بنانے کے عزم کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے۔ ہندوستان کے پس منظر میں ماضی میں ماہرین کی متعدد کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، جنہوں نے قومی شماریاتی نظام کو بہتر بنانے کے لئے متعدد سفارشیں کی تھیں۔قومی شماریاتی کمیشن (این ایس سی) کی متعدد شماریات کے مطابق ان اصولوں کے تحت ایم او ایس پی آئی میں اصلاحات کئے جارہے ہیں۔ درحقیقت وزارت نے سرکاری شماریات  سے متعلق قومی پالیسی کا ایک مسودہ تیار کیا تھا اور اسے پبلک ڈومیم میں رکھا گیا۔اس مسودہ پر حاصل شدہ آراء کی بنیاد پر پالیسی کا مسودہ از سر نو تیار کیاجارہا ہے۔

23مئی 2019ء کو جاری کئے گئے آرڈر کا مقصد دوسرے ممالک کی طرح ہی ا ین ایس او کو متحد کرنا ہے، جو ایم او ایس پی آئی میں اعداد کی تیاری اور اس میں ارتباط پید اکرکے قابل اعتماد اور معیاری  شماریات پیش کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے چیف اسٹیٹیشین آف انڈیا(سی ایس آئی) اور  ایم او ایس پی آئی کے سیکریٹری کے عہدے کو این ایس او کے تحت ضم کردیا تھا اور اس کی23 مئی 2019ء کے آرڈر کے تحت تشکیل نو کی گئی تھی، اس کی  وضاحت  کردی گئی ہے۔

این ایس سی کے چیئرمین اور اراکین سینئر عہدیدار ہوتے ہیں اور انہیں قومی شماریاتی نظام کو بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور وزارت ان کے ذریعے پیش کردہ سفارشات اور مشورے پر غور کرتی ہے۔ این ایس سی کی حیثیت، رول اور کام کاج پہلے کی  طرح ہی ہیں۔(31 مئی 2019ء کی پریس ریلیز کو دیکھیں)۔ایک آئینی فریم ورک وضع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کے تحت این ایس سی پوری آزادی کے ساتھ کام کرسکے اور قومی شماریاتی نظام کو بہتر بنانے میں رہنمائی کرے اور یہ  وزارتوں اور ریاستی حکومتوں کے خطوط پر ایم او ایس پی آئی کا احاطہ کرے۔

جہاں تک  جی ڈی پی سیریز کا تعلق ہے تو وزارت نے متعدد وضاحتیں جاری کی تھیں، جس پر معلومات پر مبنی اور متوازن نظریات قائم کرنے کے لئے غور کرنے کی ضرورت ہے۔جی ڈی پی سیریز سے متعلق تفصیلی طریقہ کار (نئی سیریز اور پچھلی سیریز) پبلک سیریز میں دستیاب ہے۔ 30 مئی 2019ء کی تفصیلی پریس ریلیز میں جی ڈی پی تخمینوں میں ایم سی اے کارپوریٹ اعدادو شمار کے علاوہ این ایس ایس (74ویں راؤنڈ) کے احاطے کی وضاحت کی گئی تھی۔ایم سی اے کے ڈاٹا کے استعمال سے متعلق میڈیا میں اٹھائے گئے مسائل کو حل کرنے کے پیش نظر خدمات کے شعبے سے متعلق تکنیکی رپورٹ میں یہ وضاحت کی گئی تھی۔ یہ  بھی وضاحت کی گئی تھی کہ این ایس ایس نے جب سروس سیکٹر کا سالانہ سروے کیا جاتا ہے تو درپیش آنے والے چیلنجوں کو سمجھنے کے لئے یہ سروے کیا تھا۔ اس سروے میں حاصل ہونے والے نتائج کا بڑے سطح پر  تجزیہ کیا گیا اور یہ پایا گیا کہ  کمپنیوں کی اکثریت نے ایم سی اے کے ساتھ اپنا آن لائن   ریٹرن داخل کیا ہے اور انہیں جی ڈی پی کے تخمینوں میں بھی پیش کیا گیا تھا۔اس غلط درجہ بندی کی بھی وضاحت کی گئی تھی کہ کارپوریٹ کا آئیڈینٹی فکیشن نمبر (سی آئی این)جو نیشنل انڈسٹریل کلاسیفکیشن کوڈ کی صورت میں پیدا ہوتا ہے، اسے کمپنیوں اپنے رجسٹریشن کے وقت اعلان کردہ اپنی سرگرمیوں کو تبدیل کرنے کے بعد بھی عام طورپر اَپ ڈیٹ نہیں کرتیں۔سروسیز سیکٹر سے متعلق ایم او ایس پی آئی کے ذریعے کرائے گئے سالانہ سروے کے قبل ان پابندیوں کو سروے ڈیزائن کے طریقہ کار میں شامل کیا جائے گا۔ان حاصل ہونے والی معلومات کو نئی بنیاد پر جائزے میں جی ڈی پی سیریزمیں بھی استعمال کیا جائے گا۔

یہاں اس بات کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے کہ جی ڈی پی کے تخمینے ایک پیچیدہ عمل ہے اور انہیں نامکمل  اعدادو شمار کی حالت میں  انجام دیا جاتا ہے۔یہ ضرورتیں متعلقہ ماہرین کے ساتھ صلاح مشورے سے حتمی شکل دینے سے قبل کے طریقہ کار میں انہیں شامل کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ   جی ڈی پی سیریز کے کئی ناقدین مختلف کمیٹیوں میں موجود تھے اور انہوں نے 2012-2011ء کی بنیاد پر نظر ثانی کے طریقہ کار پر غور کیا اور اسے حتمی شکل دیا تھا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہوگی کہ ان کمیٹیوں کے فیصلے متفقہ اور مشترکہ تھے اوریہ سفارشات پیش کرنے سے قبل مناسب طریقہ کار  کے تحت دستیاب  اعدادو شماراور  طریقہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کرکے اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے۔وزارت اپنے غورو خوض میں متعدد وسیع پیمانے پر پیشہ وارانہ ماہرین  کو روایتی طورپر شامل کیا اور ان کے تعاون سے قومی شماریاتی      نظام کو کافی فائدہ پہنچا ہے۔اس کے علاوہ ہندوستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے اسپیشل ڈاٹا ڈیسی منیشن اسٹینڈرڈ (ایس ڈی ڈی ایس)کو اپنایا ہے اور ایک ایڈوانس کیلنڈر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آئی ایم ایف میں ہندوستان کی جی ڈی پی سیریز  میں ڈبل ڈیفلیشن (افراط زر کی کمی)کو استعمال کرنے سے متعلق بعض مسائل پیش کئے تھے اور ہندوستان نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ دستیاب موجودہ اعدادو شمار ہندوستان میں استعمال کی قطعی اجازت نہیں دیتے۔ دراصل میڈیا رپورٹوں میں جی ڈی پے کی ممکنہ نمو میں   تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہ دراصل ڈبل ڈیفلیشن اور مختلف آرتھروں کے ذریعے اپنائے گئے اپنے خیالات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان نظریات کی وجہ سے ایڈوائزری کمیٹی اور نیشنل اکاؤنٹس اسٹیٹسٹکس (اے سی این اے ایس) موجودہ مرحلے میں ڈبل ڈیفلیشن کو استعمال میں لانے پر اتفاق نہیں کیاتھا۔

مزید برآں چند ممالک  میں ہی ڈبل ڈیفلیشن کو استعمال میں لایاجاتا ہے، جہاں پروڈیوسرز پرائس انڈیکس(پی پی آئی) میں معلومات کی کمی ہوتی ہے۔ پی پی آئی کو حتمی شکل دینے کے لئے ایم او ایس پی آئی ، تجارت اور صنعت کی وزارت کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے جس کے پاس طریقہ کار ہے۔

مزید برآں جی ڈی پی تخمینے پر نظر ثانی کی جاتی ہے، جب اعدادو شمار انتظامی ذرائع سے بار بار بہتر آتے ہیں اور اس بہتر ی کو اچھی طرح درج کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی جی ڈی پی کے ابتدائی تخمینوں کا رجحان خام ہے۔ اس سے بہتر بنانے کے لئے شعبہ جاتی اعدادو شمار میں تبدیلوں اور بڑے پیمانے پر ماڈلنگ کی تکنیک کے استعمال کے لئے ڈاٹا ذرائع کے ایجنسیوں کو ضابطہ جاتی فریم ورک کے تحت لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزارت نے سرکاری اعداود شمار پر ایک نیشنل ڈاٹا ویئر ہاؤس قائم کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے، جہاں مائیکرو اکانومی کو مزید بہتر بنانے کے لئے بڑے اعدادو شمار کا تجزیاتی ٹول استعمال کرنے کی ٹیکنا لوجی ہوتی ہے۔ تمام اصلاحات ایک جاری عمل ہے۔یہ ضرور ی ہے کہ قاری اور استعمال کرنے والے اعدادو شمار کی حدود کو سمجھیں اور اسے تسلیم کریں اور تخمینوں میں تبدیلیاں لائیں۔ ان اصلاحات کے دوران نئے اعدادو شمار کے سیٹ اور سروے کے نتائج کو سمجھنا ضروری ہے اور اس سے ایسی صورت میں نئے اعدادو شمار کے مقابلے میں پرانے عمل کو بہتر کرنا درست نہیں ہوگا۔ ایم او ایس پی آئی میں کئے جارہے اصلاحات کے نتیجے میں مستقبل میں بہتر ڈاٹا سیٹ اور بہتر تخمینے سامنے آئیں گے اور ان پر نظر ثانی کی سال کے دوران اے سی این اے ایس کے ذریعے غور کیا جائے گا۔

کسی راست غلط فہمی کے بارے میں یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ موجودہ جی ڈی پی سیریز میں  غیر رسمی (منظم)مینوفیکچرنگ شعبہ اسی شرح سے آگے بڑھا ہے، جس شرح پر صنعتوں کے سالانہ سروے کے ذریعے رسمی یا منظم مینوفیکچرنگ شعبے میں پیمائش کی گئی تھی۔ حقیقت میں ، یہ صرف اے ایس آئی (یعنی مالکانہ، شراکت داری اور ایچ یو ایف) میں مناسب صنعتوں کی ترقی ہے اور اسے منظم ؍غیر منظم مینوفیکچرنگ حصے کے بینچ مارک  اندازوں کو آگے بڑھانے میں استعمال کیا جاتا ہے، نہ کہ پورے اے ایس آئی کے فروغ میں۔ اس کے علاوہ، نمونہ نتائج کی اسکیلنگ پر بدلاؤ کی بنیاد پر پیڈ اپَ کیپیٹل کا استعمال کرتے ہوئے وزارت اب زیادہ وسیع ایم سی اے ڈیٹا بیس ،( تقریباً 7 لاکھ سرگرم کارپوریٹ) کا استعمال کرتی ہے، جہاں آربی آئی کے ذریعے تجزیہ کئے گئے صرف 2500 کارپوریٹس کے نمونوں سے حاصل نتائج کو مکمل جی ڈی پی سیریز میں استعمال کیا جاتا تھا۔

قومی اعدادوشمار نظام اپنی اعدادو شمار سرگرمیوں میں آزاد اور خود مختار ایکو سسٹم میں کام کرتے ہیں۔ کسی بھی طرح کے بیرونی دباؤ کومناسب مانا جاتا ہے۔ وزارت کی یہ کوشش ہے کہ مختلف اعدادو شمار پروڈکٹس اور سرگرمیوں کے بارے میں استعمال کرنے والے کو لگاتارتعلیم دی جاسکے۔کیونکہ یہ پروڈکٹس اور سرگرمیاں ضروری عوامی اشیاء ہیں۔ اس سمت میں اب وزارت عوام کو تمام بنیادی اکٹھا کئے گئے ڈیٹا کو مفت دستیاب کرا رہی ہے۔ جہاں تک بیرونی درمیانی  اور انتظامی ڈیٹا سیٹ کو مشترک کرنے کا تعلق ہے، یہ مختلف قوانین کے ذریعے کنٹرول ہیں اور تحقیق کار زیادہ ڈیٹا کے بارے میں محفوظ ذرائع ایجنسیوں سے رابطہ کرسکتے ہیں۔

 

 

م ن۔ش ت۔ن ع

 

U: 2364



(Release ID: 1573841) Visitor Counter : 171