iffi banner

‘گوندھل’  نے مہاراشٹر کے شبینہ افسانوں اور موسیقی کو آئی ایف ایف آئی میں زندہ کیا


کاسٹ اور عملہ کی ٹیم  نے سنیما کے ذریعے آرٹ فارم کی  احیاء  کا جشن منایا

کشور بھانو داس نے ‘ان لرننگ’ کے بارے میں بات کی ؛ سنتوش نے  مراٹھی سنیما کا  معیار بلند ہونے کی امید ظاہر کی

آج آئی ایف ایف آئی کی پریس کانفرنس میں ، مراٹھی فلم ‘گوندھل’ نے سامعین کو  بجتے ہوئے ڈھول ، گھومتی ہوئی ا سکرٹ اور مہاراشٹر کے شبینہ جوش و خروش سے براہ راست محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا۔  ہدایت کار سنتوش دواکھڑ اور اداکار کشور بھانوداس کدم نے بتایا کہ کس طرح ایک قدیم لوک پرفارمنس ، جو عام طور پر عقیدت  کی روایت  کے طور پر پیش کی جاتی ہے ،  آرزو ،  فریب کاری اور بچاؤ کی ایک دلکش کہانی کا محور بن جاتی ہے۔

گوندھل بطور سنیما کی زبان

سنتوش  دواکھڑ نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے ، وضاحت کی کہ فلم کی جڑیں براہ راست گوندھل لوک داستانوں میں پیوستہ  ہیں ، جو  ایک فن کی شکل جو ان کے بقول ‘‘ثقافت جو آہستہ آہستہ ہماری آنکھوں کے سامنے غائب ہو رہی ہے۔’’  ان کے لیے یہ فلم محض  سنسنی خیز فلم نہیں ہے بلکہ یہ ثقافتی تحفظ کا کام ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ‘‘ہم نے  ایسی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جو ختم ہو رہی ہے’’ ۔ ‘‘مہاراشٹر میں ایسے بے شمار دیہی ثقافتی عناصر ہیں ، اور گوندھل اس کے سب سے طاقتور اظہارات میں سے ایک ہے ۔ فلم کے  پروڈکشن کے دوران تمام رکاوٹوں کے باوجود ، ہماری ٹیم اس وراثت کی حفاظت میں یقین رکھتی تھی۔

اداکار کشور کدم  نے اپنی یادوں کو م زندہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘میں اپنے گاؤں کے گوندھل میں حصہ لیتے ہوئے پلا بڑھا ہوں ۔  یہ صرف ایک رقص نہیں ہے ، بلکہ  ایک کمیونٹی  کی زندگی کی مانند ہے ’’۔  اپنی بھرائی ہوئی  آواز میں انہوں نے کہا کہ  انہوں نے رات بھر کی پرفارمنس کے بارے میں بات کی جہاں آس پڑوس کے لوگ جمع ہوتے تھے ، دعا کرتے تھے اور  ایک ساتھ جشن  مناتے تھے۔ فلم کے بیانیے کے انتخاب کو ‘‘ گہری سنیما کی سوچ’’ قرار دیتے ہوئے ، انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح رسومات خود کہانی نگاری  کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔  ‘‘اروایتی گوندھل رسم  میں ، شادی کے بعد  گوندھل کی پرفارمینس پریشانی سے پاک زندگی کے لیے دعا شمار ہوتی  ہے ۔  فلم میں خود کہانی کو  نغموں اور رسومات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے ۔  یہ ایک شاندار سنیمائی  خیال ہے اور اس کا سہرا مکمل طور پر ہدایت کار کو جاتا ہے ۔ ’’

کشور بھانو داس  نے اس طرح کے  گہری جڑوں والے کردار کو مجسم بنانے کے پیچھے فنکارانہ عمل کے بارے میں بھی بات کی ۔  انہوں نے کہا کہ ‘‘ٹرک انلرن کا ہے۔’’  ‘‘بطور اداکار ، ہم اپنے فن یا اپنے تجربے کے بارے میں سوچ کر سیٹ پر قدم نہیں رکھ سکتے  ہیں۔  اسکرپٹ آپ کو سب کچھ بتاتی ہے ۔  کبھی کبھی ہدایت کار صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ لائن بولیں ، کیونکہ جذبات پہلے سے ہی الفاظ میں پنہا رہتے ہیں ۔  آپ کو ہمیشہ  اداکاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ’’

ہر فریم میں روایت کا تحفظ اور مراٹھی سنیما کے  معیار کا قیام

جناب سنتوش  دواکھڑ کے  لحاظ سے ‘گوندھل’ بہت ذاتی  نوعیت کی ہے ۔  وہ اپنے دادا دادی کے ساتھ پرفارمنس میں شرکت کرنا یاد کرتے ہیں ، جب گھر کا کھانا اجتماعی طور پر پکایا جاتا تھا ، روشنی  آدھی ادھوری ہوتی تھی ، اور  نغموں کے لیے صرف چار آلات ہوتے تھے ۔  انہوں نے کہا کہ ‘‘آج کیٹررز آتے ہیں، کی بورڈ کے ذریعے  روایتی آلات  بجائے  جاتے ہیں ، اور روشنی کا بخوبی  اہتمام کیا جاتا ہے’’ ۔ ‘‘میں آنے والی نسلوں کے لیے ابتدائی دور کی اصلی گوندھل  کو کیمرے میں  قید کرنا چاہتا تھا۔’’

انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہی رات میں کہانی کی فلم بندی سے بجٹ کو بحال رکھنے میں مدد ملی ۔ ‘‘ہمیں ملبوسات تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ، اور اس سے بھی مدد ملی ۔  لیکن یہ گوندھل کے  مستند تجربے کے لیے بھی درست ثابت ہوا ۔ ’’

سنتوش دواکھڑ نے ہندوستانی سامعین کے بدلتے ہوئے شوق  کے بارے میں بھی کھل کر بات کی ۔  مراٹھی ناظرین کی ہندی فلموں تک آسان رسائی کے پیش نظر  ، ان کا خیال ہے کہ علاقائی سنیما کو مستقل طور پر معیار فراہم کرنا چاہیے ۔  انہوں نے کہا کہ ‘‘ہمیں مستقل  معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے’’ ۔ ‘‘اگر ناظرین ٹکٹ کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں ، تو وہ اس قیمت  کی شایان شان فلم  پانے کے مستحق ہیں ۔’’

انہوں نے فلم سازوں کی مدد کرنے کے لیے مہاراشٹر حکومت کے اقدامات کی ستائش کی اور منجمد  بجٹ کے نقائص کو بھی  اجاگر کیا ۔   انہوں نے جنوبی ہندوستانی سنیما کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا  کہ‘‘بڑے بجٹ کے بغیر پیداوار کی خوبی متاثر ہوتی ہے ۔  کہانیوں کو اچھی طرح بتانے کے لیے ، اسکرپٹ کی سطح پر سمجھوتے نہیں کیے جانے چاہئیں’’۔

اس گفتگو سے جو بات سامنے آئی اس سے یہ واضح تھی: ‘گوندھل’ محض ایک فلم نہیں ہے ۔  یہ ماضی اور حال ، رسم و رواج اور حقیقت پسندی ، یادداشت اور جدیدیت کو جوڑتی ہے ۔   جس طرح ہدایت کار اور اداکار نے فلم کے تخلیقی عمل کی تہوں کو اجاگر کیا، تو اس سے پریس کانفرنس میڈیا ایونٹ کی طرح کم محسوس ہوئی اور  آرٹ فارم کے زندہ رہنے کی آرزو اور ایک ایسی ثقافت کو خراج تحسین پیش کرنے کی  تقریب زیادہ محسوس  ہوئی جسے فراموش نہیں کیا جائے گا ۔

ٹریلر:

پریس کانفرنس کا لنک:

آئی ایف ایف آئی کے بارے میں

سال1952 میں  شروع  ہونے والا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) جنوبی ایشیا کا سب سے قدیم اور سب سے بڑا سنیما کا جشن ہے۔ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی)، وزارتِ اطلاعات و نشریات، حکومتِ ہند اور انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی)، حکومتِ گوا کے اشتراک سے منعقد ہونے والا یہ فلمی میلہ اب عالمی سینمائی طاقت کے طور پر اُبھرا ہے—جہاں بحال شدہ کلاسکس دلیرانہ تجربات سے ملتے ہیں اور عظیم استادوں کے ساتھ پہلی بار قدم رکھنے والے بے خوف تخلیق کار بھی جگہ پاتے ہیں۔آئی ایف ایف آئی کی اصل چمک اس کے دلکش امتزاج میں ہے—بین الاقوامی مقابلے، ثقافتی نمائشیں، ماسٹر کلاسز، خراجِ عقیدت کے سیشن، اور ہائی انرجی ویوز فلم بازار جہاں خیالات، معاہدے اور اشتراکات انجام پاتے ہیں۔گوا کے شاندار ساحلی پس منظر میں 20 سے 28 نومبر تک منعقد ہونے والا 56 واں ایڈیشن زبانوں، اصناف ،اختراعات اور آوازوں کے ایک شاندار میدان عمل کا وعدہ کرتا ہے،جو عالمی سطح پر ہندوستان کی تخلیقی صلاحیتوں کا  بھرپور  جشن ہے ۔

مزید معلومات کے لیے ، یہاں  کلک کریں:

IFFI Website: https://www.iffigoa.org/

PIB’s IFFI Microsite: https://www.pib.gov.in/iffi/56/

PIB IFFIWood Broadcast Channel: https://whatsapp.com/channel/0029VaEiBaML2AU6gnzWOm3F

X Handles: @IFFIGoa, @PIB_India, @PIB_Panaji

******

(ش ح –م ش ع-ت ح)

U. No. 1920


Great films resonate through passionate voices. Share your love for cinema with #IFFI2025, #AnythingForFilms and #FilmsKeLiyeKuchBhi. Tag us @pib_goa on Instagram, and we'll help spread your passion! For journalists, bloggers, and vloggers wanting to connect with filmmakers for interviews/interactions, reach out to us at iffi.mediadesk@pib.gov.in with the subject line: Take One with PIB.


Release ID: 2195441   |   Visitor Counter: 6