فلمی نقادوں نے آئی ایف ایف آئی 56 میں فلمی تنقید کے بدلتے ہوئے کردار پر مباحثہ کیا
فلم کی نمائش کے موقع پر ایک گول میز ”بیانڈ دی تھمب – دی رول آف اے فلم کریٹک: اے گیٹ کیپر، این انفلوئنسر آر سمتھنگ ایلس؟“ منعقعد ہوئی
عالمی فلمی ماحولیاتی نظام میں فلمی نقادوں، صحافیوں اور مبصرین کے اہم کردار کی تصدیق کرتے ہوئے، 56ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) نے ”بیانڈ دی تھمب – دی رول آف اے فلم کریٹک: اے گیٹ کیپر، این انفلوئنسر آر سمتھنگ ایلس؟“ کے عنوان سے ایک زبردست گول میز مباحثے کی میزبانی کی۔ اس سیشن میں دنیا بھر کے معروف فلمی نقاد ایک ساتھ آئے تاکہ ڈیجیٹل رکاوٹوں، سوشل میڈیا کے اثر اور تیزی سے مواد استعمال ہونے کے دور میں فلمی تنقید کے بدلتے ماحول کو سمجھا جا سکے۔
مباحثے کی میزبانی ڈیوڈ ابیٹسیانی نے کی اور اس میں معروف فلم نقاد شامل تھے جن میں باربرا لوری ڈی لاشریئر، دیپا گہلوت، سدھیر سری نواسن، میگھا چندرا، کونگبام، ایلزبتھ کیر اور بھاردواج رنگن شامل تھے۔ انہوں نے فلمی تنقید کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی۔
بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے ڈیوڈ ابیٹسیانی نے آج کے فلمی تنقید کے ڈرامائی تبدیلیوں کو نمایاں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ مین اسٹریم کمرشل سنیما نقادوں پر زیادہ منحصر نہیں ہوتا، لیکن آزاد اور ابتدائی فلم ساز سوچ بچار کرنے والے، قابل اعتماد جائزوں پر انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ آن لائن 150,000 سے زائد اشاعتوں کے دور میں ادارتی کنٹرول کی کمی اور تنقیدی مکالمے کی بڑھتی ہوئی تقسیم تشویش کا باعث ہے۔ ڈیوڈ ابیٹسیانی نے خبردار کیا کہ اے آئی سے تیار کردہ مواد کے بڑھتے ہوئے رجحان کے ساتھ، تنقید کا مستقبل ایک ”زوال“ کا سامنا کر سکتا ہے۔
”ناقدین کو تجسس بڑھانا چاہیے“ - باربرا لوری ڈی لاشریئر
باربرا لوری ڈی لاشریئر نے کہا کہ ناقد کا بنیادی کردار سنیما اور ناظرین کے درمیان ایک واسطے کے طور پر کام کرنا ہے، تاکہ وہ ناظرین کو مرکزی دھارے سے باہر کی فلموں سے روشناس کرا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ یورپی جرائد کے لیے بھارتی علاقائی سنیما اور ترکش نیو ویو فلموں پر وسیع پیمانے پر لکھنے کے تجربے کی بنا پر انہیں نسبتاً غیر معروف سنیما کو وسیع تر ناظرین تک پہنچانے کا خاص شوق ہے۔ انہوں نے سکڑتی ہوئی پرنٹ کی جگہ اور ڈیجیٹل پلیٹ فارموں کی طرف منتقلی کو بڑے چیلنج قرار دیتے ہوئے اس تحقیق کا حوالہ دیا جس کے مطابق فرانس میں 80 فیصد فلمی لکھاری صرف تنقید کے سہارے روزگار نہیں چلا سکتے۔ انہوں نے ذاتی برانڈنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی اظہارِ خیال کیا، جہاں ناقدین خود خاص طور پر نوجوان ناظرین کے لیے ”مصنوعات“ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
”جمہوریت پسندی سے پرستش بڑھی ہے، تنقید نہیں“ – دیپا گہلوت
دیپا گہلوت نے سوال اٹھایا کہ کیا اس شعبے کی جاری جمہوریت پسندی نعمت ہے یا مصیبت۔ انہوں نے خبردار کیا کہ آج کی آن لائن تنقید کا زیادہ حصہ پرستش، گہرائی کی کمی اور رسائی پر مبنی اثرات سے متاثر ہے، جہاں بعض ناقد حقیقی تجزیے کے بغیر درجہ بندیاں کرتے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ او ٹی ٹی پلیٹ فارموں پر فلموں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے سنیما کی زرخیز ثقافت اور فن کی قدر کم ہو رہی ہے۔
ڈیجیٹل میں منتقلی سب سے ڈرامائی تبدیلی ہے – سدھیر سرینواسن
سدھیر سرینواسن نے زور دیا کہ فی الحال سب سے بڑی تبدیلی ڈیجیٹل میڈیا کی طرف منتقلی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ لکھنے سے لے کر مختصر ویڈیو جائزے بنانے تک، ناظرین کے ساتھ وابستگی کے انداز بدل گئے ہیں، مگر ان کا تنقید کے متعلق نقطہ نظر بدل نہیں سکا ہے۔ انہوں نے اخلاقی زوال کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا کہ پہلے چند طاقتور میڈیا ہاؤسز تنقید پر غالب تھے، مگر آج کی ”ہزار چھوٹی آوازیں“ نظام کو زیادہ جمہوری بناتی ہیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ناظرین اصل اور اسپانسر شدہ جائزوں میں فرق کر سکتے ہیں۔
”ہمیں فلمی ثقافت کے بارے میں مزید آگاہی کی ضرورت ہے“ – میگھا چندرا کونگبام
میگھا چندرا نے کہا کہ فلمی ثقافت کو فروغ دینا اور عوامی سمجھ کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ جمہوریت پسندی سے کچھ الجھن پیدا ہوئی ہے، لیکن آزاد فلم ساز نقادوں پر ناظرین تک رسائی کے لیے سخت انحصار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت ہند نے فلم کو تخلیقی معیشت کا حصہ تسلیم کیا ہے، تو فلمی تنقید پر رسمی اجلاس بہت مفید ہوں گے۔
”ناقدین کو اپنی آواز تلاش کرنی ہوگی“ – ایلزبتھ کیر
ایلزبتھ کیر نے مختلف پلیٹ فارموں کی تعداد میں اضافے اور مواد کی مختلف اقسام کی مانگ کو نمایاں کیا۔ مختلف اداروں کے لیے لکھنے والے ایک قلمکار کے طور پر، انہوں نے زور دیا کہ ناقدین کو اپنی الگ پہچان، انداز اور ناظرین پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ناقدین سے درخواست کی کہ وہ فلموں کو اپنے معیار پر پرکھیں اور کسی ایک نقص کی بنیاد پر پوری فلم کو کم نہ سمجھیں، بلکہ اس کی بڑی خوبیوں کو مدنظر رکھیں۔
بھاردواج رنگن نے ڈیجیٹل میڈیا کے اشتراکی کلچر پر بات کی
بھاردواج رنگن نے پرنٹ، ڈیجیٹل اور بلاگنگ کے تجربے کی روشنی میں کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا نے فوری ردعمل اور اشتراکی ثقافت کو جنم دیا ہے، جس نے نقادوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا اور روایتی گٹ کیپروں کے اثر کو کم کیا ہے۔ تاہم، اس بڑھتی ہوئی مقابلہ بازی کی وجہ سے، ناقدین پر دباؤ ہے کہ وہ فلم کی ریلیز کے فوراً بعد جائزے شائع کریں، جو ماضی کی اتوار والے ریویو کالم سے بہت مختلف ہے۔ انہوں نے سابقہ دور کے نقادوں جیسے پالین کیل اور راجر ایبرٹ کی مثالیں دیں، جہاں نقادوں کو ثقافتی گفتگو کے لیے زیادہ وقت اور جگہ ملتی تھی۔ آج کل، نقادوں کو "گیمنگ کے پہلو" کا سامنا ہے جس میں خاص طور پر جین زی کی تیز رفتار اور سنسی خیز مواد کی ترجیح کے ساتھ عوامی ردعمل کی پیش گوئی کرنی ہوتی ہے۔

آئی ایف ایف آئی کا تعارف
سال1952 میں قائم ہونے والا بھارت کا بین الاقوامی فلم فیسٹیول (آئی ایف ایف آئی) جنوبی ایشیا کا قدیم ترین اور سب سے بڑا سنیمائی جشن تصور کیا جاتا ہے۔ یہ فیسٹیول نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی)، وزارت اطلاعات و نشریات، حکومت ہند، اور انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی)، حکومت گوا کے اشتراک سے منعقد ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ فیسٹیول ایک عالمی سنیمائی مرکز کی حیثیت اختیار کرچکا ہے، جہاں بحال شدہ کلاسیکی فلمیں دلیرانہ تجرباتی سنیما سے ملتی ہیں اور لیجنڈری فلم ساز نئے اور بے خوف تخلیق کاروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا ئے ہوئے نظر آتے ہیں۔آئی ایف ایف آئی کی اصل پہچان اس کا متنوع امتزاج ہے۔ بین الاقوامی مقابلے، ثقافتی نمائشیں، ماسٹر کلاسز، خراجِ عقیدت پیش کرنے والے سیشن، اور پرجوش ’’ویوز فلم بازار‘‘، جہاں تخلیقی خیالات، معاہدے اور اشتراکات پروان چڑھتے ہیں۔ گوا کے دلکش ساحلی پس منظر میں 20 سے 28 نومبر تک منعقد ہونے والا 56واں ایڈیشن زبانوں، اصناف، اختراعات اور آوازوں کی ایک چمکتی دمکتی دنیا پیش کرنے کا وعدہ کرتا ہے، ایک ایسا دل موہ لینے والا جشن جو عالمی سطح پر ہندوستانی تخلیقی صلاحیتوں کی شاندار نمائندگی کرتا ہے۔
مزید معلومات کے لیے، کلک کریں:
آئی ایف ایف آئی ویب سائٹ: https://www.iffigoa.org/
پی آئی بی کی آئی ایف ایف آئی مائکرو سائٹ: https://www.pib.gov.in/iffi/56/
پی آئی بی آئی ایف ایف آئی ووڈ براڈکاسٹ چینل: https://whatsapp.com/channel/0029VaEiBaML2AU6gnzWOm3F
X ہینڈل: @IFFIGoa، @PIB_India، @PIB_Panaji
********
ش ح۔ ف ش ع
U: 1874
Release ID:
2194950
| Visitor Counter:
5