وزیراعظم کا دفتر
وزیراعظم کا احمد آباد، گجرات میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے آغازکے موقع پر خطاب کا متن
Posted On:
25 AUG 2025 10:35PM by PIB Delhi
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
بھارت ماتا کی جے!
آج آپ سب نے واقعی ماحول بنا رکھا ہے!
گجرات کے گورنر محترم آچاریہ دیوورَت جی، یہاں کے مقبول وزیر اعلیٰ شری بھوپندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی سی آر پاٹل، گجرات حکومت کے تمام وزراء، احمد آباد کی میئر محترمہ پربھا جی، دیگر عوامی نمائندگان، اور احمد آباد کے میرے عزیز بھائیو اور بہنو!
واقعی، آج آپ سب نے زبردست ماحول بنا دیا ہے۔ کئی بار دل میں خیال آتا ہے کہ یہ کیسا نصیب ہے کہ لاکھوں لوگوں کی محبت اور دعائیں مجھے حاصل ہیں۔ میں آپ سب کا جتنا شکریہ ادا کروں، کم ہے۔ دیکھیے، ادھر چھوٹا نریندر کوئی کھڑا ہو گیا ہے!
ساتھیو!
اس وقت ملک بھر میں گنیش اُتسو کا زبردست جوش و خروش ہے۔ گنپتی بپّا کے آشیرواد سے آج گجرات میں ترقی سے جڑی کئی اسکیموں اور منصوبوں کا بھی بہتر آغاز (شری گنیش) ہوا ہے۔ یہ میرا اعزاز ہے کہ آج مجھے ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے اور انہیں آپ عوام الناس کے قدموں میں نذر کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان تمام ترقیاتی کاموں کے لیے میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو!
مانسون کے اس موسم میں گجرات کے کئی علاقوں میں شدید بارش ہو رہی ہے۔ ملک بھر میں بھی جس طرح سے بادل پھٹنے کے واقعات ایک کے بعد ایک پیش آ رہے ہیں اور جب ہم ٹی وی پر تباہی کے مناظر دیکھتے ہیں تو دل دہل جاتا ہے، اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں تمام متاثرہ خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ قدرت کا یہ قہر پوری انسانیت کے لیے، پوری دنیا کے لیے، اور ہمارے ملک کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ مرکزی حکومت تمام ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر راحت اور بچاؤ کے کاموں میں پوری طرح مصروف ہے۔
ساتھیو!
گجرات کی یہ سرزمین دو "موہنوں" کی سرزمین ہے — ایک، سدرشن چکر دھاری موہن، یعنی ہمارے دوارکادھیش شری کرشن؛ اور دوسرے، چرخہ چلانے والے موہن، یعنی سابرمتی کے سنت، پوجیہ باپو ۔ بھارت آج ان دونوں عظیم شخصیات کے دکھائے ہوئے راستے پر چل کر مسلسل مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔سدرشن چکر والے موہن نے ہمیں سکھایا کہ ملک اور سماج کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے۔ اُنہوں نے سدرشن چکر کو انصاف اور سلامتی کی ڈھال بنایا، جو دشمن کو (پاتال ) زمین کے اندر(زیر زمین) بھی تلاش کر کے سزا دیتا ہے۔ یہی جذبہ آج بھارت کے فیصلوں میں نظر آتا ہے — نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھی اسے محسوس کر رہی ہے۔
ہمارے گجرات اور احمد آباد نے کیسے کیسے دن دیکھے ہیں۔جب فسادی پتنگ بازی کے دوران جان تک لے لیتے تھے۔ جب لوگوں کو کرفیو میں جینا پڑتا تھا۔ جب تہواروں پر احمد آباد کی مٹی خون سے رنگ جاتی تھی۔ ان حملہ آوروں نے ہمارا خون بہایا، جبکہ دہلی میں بیٹھی کانگریس حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ لیکن آج ہم دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے وہ کہیں بھی چھپ جائیں۔ دنیا نے دیکھا کہ بھارت نے کس طرح پہلگام کا بدلہ لیا۔ صرف 22 منٹ میں سب کچھ نیست و نابود کر دیا گیا۔ سینکڑوں کلومیٹر اندر جا کر، پہلے سے طے شدہ اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے، ہم نے دہشت گردی کے اعصابی مرکز پر حملہ کیا۔ آپریشن سندور ہماری مسلح افواج کی ’’شوریہ‘‘ (بہادری) اور سدرشن چکر دھاری موہن کے بھارت کی ’’اچھا شکتی‘‘ (قوتِ ارادی) کی علامت بن گیا۔
دوستو!
چرکھا دھاری موہن، ہمارے پُوجیہ باپو نے ’’سودیشی‘‘ (خود انحصاری) کے ذریعے بھارت کی خوشحالی کا راستہ دکھایا۔ یہاں ہمارا سابرمتی آشرم ہے۔ یہ آشرم اس بات کا گواہ ہے کہ جس پارٹی نے باپو کے نام پر کئی دہائیوں تک اقتدار حاصل کیا، اسی نے ان کی روح کو روند ڈالا۔ انہوں نے باپو کے ’’سودیشی‘‘ کے منتر کا کیا حال کیا؟ برسوں سے جو لوگ گاندھی کے نام پر اپنی سیاست چلاتے رہے، آپ نے ان کے منہ سے ’’سوچھتا‘‘ (صفائی) کے بارے میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں سنا ہوگا، نہ ہی ’’سودیشی‘‘ کے بارے میں۔ ملک یہ سمجھ ہی نہیں پاتا کہ ان کے وژن کا کیا ہوا۔
ساٹھ پینسٹھ سال تک کانگریس نے بھارت پر حکومت کرتے ہوئے اسے دوسرے ممالک پر منحصر رکھا—تاکہ وہ اقتدار میں رہتے ہوئے درآمدات کے کھیل کھیل سکیں اور گھوٹالوں میں ملوث ہو سکیں۔ لیکن آج بھارت نے ’’آتم نربھرتا‘‘ (خود کفالت) کو ’’وکست بھارت‘‘ (ترقی یافتہ ہندوستان) کی تعمیر کی بنیاد بنا دیا ہے۔ ہمارے کسانوں، ہمارے ماہی گیروں، ہمارے مویشی پالنے والوں اور ہمارے کاروباریوں کی طاقت کے ساتھ بھارت ترقی کی راہ پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے—خود انحصاری کی راہ پر۔
اور دیکھیں، گجرات میں ہمارے کتنے مویشی پالنے والے ہیں! دیکھیں ہمارے ڈیری سیکٹر کی کتنی بڑی طاقت ہے! ابھی چند گھنٹے پہلے ہی میری ملاقات فجی کے وزیر اعظم سے ہوئی۔ انہوں نے بڑے احترام اور تعریف کے ساتھ کہا کہ وہ بھی اپنے ڈیری سیکٹر اور کوآپریٹو موومنٹ کو ہماری طرح ترقی دینا چاہتے ہیں۔ساتھیو! یہ ہمارے مویشی پالنے والے ہیں جنہوں نے ہمارے ڈیری سیکٹر کو مضبوط کیا ہے، اور اس میں سب سے زیادہ حصہ ہماری بہنوں کا ہے۔ ہماری بہنوں نے اپنی محنت اور لگن سے ڈیری کے شعبے کو مضبوط اور خود کفیل بنایا ہے، اور آج دنیا بھر میں اس کی تعریف کی جا رہی ہے۔
لیکن دوستو!
آج ہم صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کی سیاست کس طرح معاشی خود غرضی سے چلتی ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے ایجنڈے کی خدمت میں مصروف ہے۔ احمد آباد کی اس سرزمین سے میں اپنے چھوٹے کاروباریوں، اپنے دکاندار بھائیوں اور بہنوں، اپنے کسان بھائیوں اور بہنوں، اپنے مویشی پالنے والے بھائیوں اور بہنوں سے کہنا چاہتا ہوں—اور میں یہ بات گاندھی جی کی سرزمین سے کہہ رہا ہوں—کہ میرے ملک کے چھوٹے کاروباریوں، کسانوں اور مویشی پالنے والوں کے لیے، آپ میں سے ہر ایک کے لیے، میں بار بار یقین دلاتا ہوں: مودی کے لیے آپ کے مفادات سب سے مقدم ہیں۔ میری حکومت کبھی بھی چھوٹے کاروباریوں، کسانوں یا مویشی پالنے والوں کو نقصان نہیں پہنچنے دے گی۔ چاہے دباؤ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ہم اپنی برداشت اور عزم کی طاقت کو مسلسل مضبوط کرتے رہیں گے۔
دوستو!
آج ’’آتم نربھر بھارت ابھیان‘‘ (خود کفیل بھارت مہم) کو گجرات سے زبردست توانائی مل رہی ہے، اور اس کے پیچھے دو دہائیوں کی مسلسل محنت ہے۔ آج کی نوجوان نسل نے وہ دن نہیں دیکھے جب یہاں تقریباً ہر روز کرفیو نافذ ہوتا تھا، کاروبار اور تجارت کرنا مشکل بنا دیا جاتا تھا، اور بدامنی کا ماحول چھایا رہتا تھا۔ لیکن آج احمد آباد بھارت کے سب سے محفوظ شہروں میں شمار ہوتا ہے—اور یہ کامیابی آپ سب کی ہے۔
دوستو!
گجرات میں جو امن و سلامتی کا ماحول قائم ہوا ہے، وہ ہمارے چاروں طرف مثبت نتائج دے رہا ہے۔ آج گجرات کی سرزمین پر ہر طرح کی صنعت پروان چڑھ رہی ہے۔ پوری ریاست یہ دیکھ کر فخر محسوس کرتی ہے کہ کس طرح ہمارا گجرات مینوفیکچرنگ کا مرکز بن چکا ہے۔ آپ جانتے ہیں—خاص طور پر آپ میں سے بڑے بھائی اور بہنیں اچھی طرح جانتے ہیں—کہ جب علیحدہ گجرات کی تحریک، یعنی مہاگجرات تحریک چل رہی تھی، تب بہت سے لوگوں نے ہم سے کہا تھا: “آپ گجرات کو کیوں الگ کرنا چاہتے ہیں؟ تم بھوکے مر جاؤ گے۔ تمہارے پاس ہے ہی کیا؟ نہ معدنیات، نہ بارہماسی دریا۔ دس سال میں سے سات سال خشک سالی میں گزرتے ہیں۔ نہ کانیں ہیں، نہ صنعتیں، نہ زیادہ زراعت۔ ایک طرف رن ہے اور دوسری طرف پاکستان—آخر تم کرو گے کیا؟” انہوں نے ہمارا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا: “نمک کے سوا تمہارے پاس کچھ نہیں ہے۔”
لیکن جب گجرات پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ذمہ داری آئی تو گجرات کے لوگ پیچھے نہیں ہٹے۔ اور آج، انہی لوگوں کے لیے جنہوں نے کبھی پوچھا تھا کہ گجرات کے پاس کیا ہے—ہمارے پاس ہیروں کی کوئی کان نہیں، لیکن دنیا کے دس میں سے نو ہیروں کو یہیں گجرات میں تراشا اور پالش کیا جاتا ہے۔
دوستو!
کچھ مہینے پہلے میں داہود آیا تھا۔ وہاں کی ریلوے فیکٹری میں طاقتور برقی انجن تیار کیے جا رہے ہیں۔ آج گجرات میں بنے میٹرو کوچ دوسرے ممالک کو برآمد کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح موٹر سائیکلیں ہوں یا کاریں، گجرات انہیں بڑی تعداد میں تیار کر رہا ہے۔ بھارت اور دنیا بھر کی بڑی کمپنیاں یہاں فیکٹریاں قائم کر رہی ہیں۔ گجرات پہلے ہی ہوائی جہازوں کے مختلف حصے بنا کر برآمد کر رہا تھا۔ اب وڈودرا میں ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز بنانے کا کام بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہیں گجرات میں ہوائی جہاز تیار کیے جا رہے ہیں—کیا اس پر ہمیں فخر نہیں ہونا چاہیے؟
اب گجرات برقی گاڑیوں کی تیاری کا بھی ایک بڑا مرکز بن رہا ہے۔ کل، 26 تاریخ کو میں ہنسل پور جا رہا ہوں، جہاں برقی گاڑیوں کی تیاری سے متعلق ایک بہت بڑی پہل شروع ہونے والی ہے۔ آج تمام جدید الیکٹرانک آلات سیمی کنڈکٹر کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ گجرات اب سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں بھی ایک بڑا نام بننے جا رہا ہے۔
ٹیکسٹائل، جواہرات اور زیورات تو پہلے ہی گجرات کی پہچان ہیں۔ اور جب دواؤں اور ویکسین کی بات آتی ہے تو گجرات بھارت کی فارما مصنوعات کی کل برآمدات کا تقریباً ایک تہائی فراہم کرتا ہے۔
دوستو!
آج بھارت شمسی، ہوا اور جوہری توانائی کے شعبوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس ترقی میں گجرات کا کردار سب سے نمایاں ہے۔ ابھی، ہوائی اڈے سے آتے ہوئے، ایک شاندار روڈ شو ہوا—واقعی قابلِ ذکر! آپ سب نے شاندار کام کیا۔ روڈ شو اپنی مثال آپ تھا۔ لوگ چھتوں پر، بالکونیوں میں کھڑے تھے۔ فطری طور پر میں نے سب کا احترام کے ساتھ استقبال کیا، لیکن جیسے ہی میری نگاہیں آس پاس کے ماحول پر گئیں، میں نے دیکھا کہ زیادہ تر گھروں کی چھتوں پر شمسی روف ٹاپ پاور پلانٹس لگے ہوئے ہیں۔
گجرات سبز توانائی اور پیٹروکیمیکلز کا بھی ایک بڑا مرکز بن رہا ہے۔ یہ ریاست ملک کی پیٹروکیمیکل ضروریات پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہماری پلاسٹک کی صنعت، مصنوعی فائبر، کھاد، ادویات، پینٹ کی صنعت اور کاسمیٹکس—سب بڑی حد تک پیٹروکیمیکل سیکٹر پر منحصر ہیں۔
گجرات میں پرانی صنعتیں بھی نئے انداز میں پھیل رہی ہیں۔ مجھے یاد ہے ہم لوگ کافی عرصہ سر پر ہاتھ رکھ کر روتے ہی رہتے تھے۔
جو لوگ 30 سال پہلے کی صورتحال یاد کرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ کس بات پر روتے تھے: “ملیں بند ہو گئی ہیں، ملیں بند ہو گئی ہیں، ملیں بند ہو گئی ہیں۔” ہر روز یہی کہانی ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی رہنما آتا تو صحافی صرف ایک ہی سوال پوچھتے: “ملیں بند ہو چکی ہیں، آپ اس کے بارے میں کیا کریں گے؟” اس وقت یہ سب کانگریس پارٹی کے دورِ حکومت میں ہوتا تھا۔
لیکن آج، جہاں کبھی ملوں کے سائرن خاموش ہو گئے تھے، وہاں گجرات کے ہر کونے میں ترقی کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ نئی صنعتیں قائم ہو رہی ہیں اور یہ تمام کوششیں خود کفیل بھارت کے وژن کو اور زیادہ مضبوط بنا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں گجرات کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مسلسل مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
دوستو،
چاہے صنعت ہو، کاشتکاری ہو یا سیاحت—بہترین رابطہ (کنیکٹیویٹی) ہمیشہ بہت اہم ہوتا ہے۔ گزشتہ 20-25 برسوں میں گجرات کی کنیکٹیویٹی میں ایک نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ آج بھی یہاں سڑک اور ریل کے کئی منصوبوں کا افتتاح اور سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ سردار پٹیل رنگ روڈ (سرکلر روڈ) کو مزید چوڑا کیا جا رہا ہے، جو اب چھ لین چوڑی سڑک بن رہی ہے۔ اس سے شہر کے سب سے زیادہ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں ٹریفک جام کے مسائل میں کمی آئے گی۔ اسی طرح، ویرمگام-خداد-رام پورہ روڈ کو چوڑا کرنے سے یہاں کے کسانوں اور صنعتوں کو بڑی سہولت ملے گی۔ نئے انڈر پاس اور ریلوے اوور برج بھی شہر کے رابطے کو مزید بہتر بنائیں گے۔
دوستو،
ایک وقت تھا جب صرف پرانی سرخ بسیں چلا کرتی تھیں۔ لوگ کہا کرتے تھے: "جہاں بھی جانا ہو، ریڈ بس میں جاؤ۔" لیکن آج بی آر ٹی ایس جنمارگ (بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم کوریڈور) اور اے سی الیکٹرک بسیں شہریوں کو نئی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں۔ میٹرو ریل بھی تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس نے احمد آباد کے عوام کے سفر کو مزید آسان بنا دیا ہے۔
دوستو،
گجرات کے ہر شہر کے آس پاس ایک بڑا صنعتی کوریڈور موجود ہے، لیکن تقریباً دس سال پہلے تک بندرگاہوں اور صنعتی کلسٹروں کے درمیان معیاری ریل رابطہ نہیں تھا۔ جب آپ نے مجھے 2014 میں دہلی بھیجا، تو میں نے گجرات کے اس مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ گزشتہ 11 برسوں میں گجرات میں تقریباً 3000 کلومیٹر نئی ریلوے پٹریاں بچھائی گئی ہیں۔ پورے گجرات کے ریلوے نیٹ ورک کو 100 فیصد برقی بنایا جا چکا ہے۔ آج جو ریلوے منصوبے گجرات کو ملے ہیں، ان سے کسانوں، صنعتوں اور مسافروں، سب کو یکساں فائدہ ہوگا۔
دوستو،
ہماری حکومت شہروں میں رہنے والے غریبوں کو باوقار زندگی دینے کے لیے پرعزم ہے۔ اس کا براہِ راست ثبوت ہمارا راماپیر نو ٹیکرو، یعنی راماپیر کا ٹلا ہے، جو ہوائی اڈے سے آتے جاتے صاف نظر آتا ہے۔ پوجیہ باپو نے ہمیشہ غریبوں کے وقار پر زور دیا۔ آج سابرمتی آشرم کے داخلی دروازے پر غریبوں کے لیے بنائے گئے نئے مکانات اس کی زندہ مثال ہیں۔ غریبوں کو 1,500 پکے مکان دینا، بے شمار نئے خوابوں کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔ ان گھروں میں رہنے والوں کے چہروں پر خوشی اس نوراتری اور دیوالی پر اور بھی بڑھ جائے گی۔
اسی کے ساتھ ساتھ پوجیہ باپو کو حقیقی خراجِ عقیدت کے طور پر سابرمتی آشرم کی تزئین و آرائش بھی کی جا رہی ہے۔ ہماری دو عظیم شخصیات—سردار صاحب کا عظیم مجسمہ اسٹیچو آف یونٹی ہم نے تعمیر کیا۔ اس وقت میں چاہتا تھا کہ سابرمتی آشرم کا کام بھی آگے بڑھے، لیکن مرکزی حکومت نے اس وقت ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ شاید وہ گاندھی جی کے بھی سچے حامی نہیں تھے۔ اسی وجہ سے یہ کام رکا رہا۔ لیکن جب سے آپ نے مجھے دہلی بھیجا ہے، ہم نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کا اسٹیچو آف یونٹی بھارت اور دنیا کے لیے تحریک کا بڑا مرکز بنایا۔ اور جب سابرمتی آشرم کی تزئین و آرائش کا کام مکمل ہو جائے گا، میرے الفاظ یاد رکھیے ساتھیو، ہمارا سابرمتی آشرم دنیا بھر میں امن کی سب سے بڑی تحریک کا مرکز بننے والا ہے۔
دوستو،
ہمارا مشن رہا ہے کہ مزدور خاندانوں کو بہتر زندگی فراہم کی جائے۔ اسی مقصد کے تحت ہم نے گجرات میں برسوں پہلے کچی آبادیوں میں رہنے والوں کے لیے پکے اور گیٹیڈ سوسائٹیز بنانے کی پہل کی۔ گزشتہ برسوں میں گجرات میں کئی ایسے پروجیکٹ مکمل ہوئے ہیں جہاں کچی آبادیوں کی جگہ معیاری مکانات بنائے گئے، اور یہ مہم آج بھی مسلسل جاری ہے۔
دوستو،
جن کی کسی نے کبھی پرواہ نہیں کی، مودی ان کا احترام کرتے ہیں۔ میں نے اس بار لال قلعہ سے کہا تھا کہ پسماندہ طبقات کو ترجیح دینا اور شہری غریبوں کی زندگی کو آسان بنانا ہماری سب سے بڑی ترجیحات میں شامل ہے۔ یہاں تک کہ گلی محلّوں کے چھوٹے فروشوں کی فکر بھی پہلے کبھی کسی نے نہیں کی تھی۔ ہماری حکومت نے ان کے لیے پی ایم سواندھی یوجنا شروع کی۔ آج اس اسکیم کی بدولت ملک بھر کے تقریباً 70 لاکھ اسٹریٹ وینڈرز بینکوں سے قرض حاصل کرنے کے قابل ہیں۔ اس سے گجرات کے لاکھوں لوگوں کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔
دوستو،
پچھلے 11 برسوں میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر نکل چکے ہیں۔ دنیا کے لیے یہ ایک عظیم کارنامہ ہے—25 کروڑ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کا غربت سے نکلنا۔ آج دنیا کی بڑی معیشتیں اس حیرت انگیز کامیابی پر بحث کر رہی ہیں۔
دوستو،
جب کوئی غریب شخص غربت سے نکلتا ہے تو وہ نو متوسط طبقہ کی شکل میں ایک نئی طاقت کے طور پر ابھرتا ہے۔ آج یہ نو متوسط طبقہ اور ہمارا روایتی متوسط طبقہ مل کر ملک کی ایک بڑی طاقت بن رہے ہیں۔ ہماری مسلسل کوشش یہی ہے کہ نو متوسط اور متوسط طبقے دونوں کو بااختیار بنایا جائے۔ احمد آباد کے بھائیوں اور بہنوں کے لیے یہ ایک بڑی خوشخبری ہے کہ جس دن بجٹ میں 12 لاکھ روپے تک کی آمدنی پر انکم ٹیکس میں چھوٹ کا اعلان کیا گیا، اُس وقت اپوزیشن سمجھ ہی نہیں پا رہی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔
دوستو،
تیار ہو جائیں—ہماری حکومت جی ایس ٹی میں بھی بڑی اصلاحات لا رہی ہے، اور اس دیوالی سے پہلے آپ سب کے لیے ایک بڑا تحفہ تیار کیا جا رہا ہے۔ جی ایس ٹی اصلاحات سے ہمارے چھوٹے کاروباریوں کو فائدہ ہوگا اور کئی اشیاء پر ٹیکس بھی کم کیا جائے گا۔ چاہے کاروباری برادری ہو یا عام خاندان، اس دیوالی سب کو خوشی کا ڈبل بونس ملنے والا ہے۔
دوستو،
ابھی میں پی ایم سوریہ گھر پہل کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ اس اسکیم کے تحت "پی ایم سوریہ گھر: مفت بجلی یوجنا" کے ذریعے ہم لوگوں کے بجلی کے بل صفر کر رہے ہیں۔ صرف گجرات میں اب تک تقریباً چھ لاکھ خاندان اس اسکیم سے جڑ چکے ہیں۔ حکومت نے گجرات میں ہی ان خاندانوں کو تین ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سہولت فراہم کی ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ خاندان اپنے بجلی کے بلوں پر ہر ماہ خطیر رقم بچا رہے ہیں۔
دوستو،
احمد آباد آج خوابوں اور عزم کا شہر بنتا جا رہا ہے۔ لیکن ایک وقت تھا جب لوگ احمد آباد کو "گردا آباد" کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔ ہر طرف اڑتی دھول، گندگی اور کچرے کے ڈھیر اس شہر کی بدقسمتی بن چکے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج احمد آباد صفائی کے معاملے میں پورے ملک میں اپنا نام بنا رہا ہے۔ یہ صرف اور صرف احمد آباد کے ہر شہری کے تعاون سے ممکن ہوا ہے۔
لیکن دوستو،
صفائی ستھرائی کی یہ مہم ایک دن یا ایک موقع کے لیے نہیں ہے۔ یہ کام نسل در نسل اور ہر دن کیا جانا ہے۔ جب ہم صفائی کو اپنی عادت بنا لیں گے تبھی مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں گے۔
دوستو،
کبھی ہماری سابرمتی ندی کیسی تھی؟ یہ ایک خشک نالے کی طرح ہوا کرتی تھی۔ اس میں سرکس لگتے تھے اور بچے وہاں کرکٹ کھیلتے تھے۔ لیکن احمد آباد کے لوگوں نے اس صورتحال کو بدلنے کا عزم کیا۔ آج سابرمتی ریور فرنٹ اس شہر کے وقار اور فخر میں اضافہ کر رہا ہے۔
دوستو،
کنکریا جھیل کا حال بھی کبھی برا تھا۔ پانی گھاس پھوس اور گندگی سے سبز اور بدبودار ہو چکا تھا۔ ارد گرد چلنا دشوار تھا، اور یہ جگہ سماج دشمن عناصر کی پناہ گاہ بن گئی تھی۔ کوئی بھی وہاں سے گزرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ لیکن آج یہی جھیل شہر کے بہترین مقامات میں شمار ہوتی ہے۔ چاہے جھیل میں کشتی رانی ہو یا "کڈز سٹی" میں بچوں کے لیے تفریح اور تعلیم کا امتزاج، یہ سب احمد آباد کی بدلتی ہوئی تصویر کا حصہ ہے۔ کنکریا کارنیول تو احمد آباد کا ایک بڑا زیور بن چکا ہے جس نے اس شہر کو ایک نئی شناخت دی ہے۔
دوستو،
احمد آباد آج سیاحت کے ایک پرکشش مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے۔ احمد آباد یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ شہر ہے۔ چاہے پرانے شہر کے دروازے ہوں، سابرمتی آشرم ہو یا دیگر تاریخی مقامات—ہمارا شہر آج دنیا کے نقشے پر جگمگا رہا ہے۔ اب یہاں سیاحت کی نئی اور جدید شکلیں بھی تیزی سے فروغ پا رہی ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک، جب سیاحت کی بات ہوتی تھی تو احمد آباد یا گجرات کا ذکر کہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔ ان دنوں لوگ کہتے تھے: "چلو ابو چلیں"، یا پھر جنوبی گجرات کے لوگ دیو اور دمن کا رُخ کرتے تھے۔ یہ ہی ہماری دنیا تھی۔ مذہبی رجحان رکھنے والے مسافر سومناتھ، دوارکا یا امباجی جاتے تھے—بس چار پانچ مقامات۔ لیکن آج گجرات سیاحت کے نقشے پر ایک اہم مرکز بن چکا ہے۔
رن آف کچھ میں دنیا بھر کے لوگ وائٹ رن دیکھنے آ رہے ہیں۔ لوگ اسٹیچو آف یونٹی دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں، بیٹ دوارکا کے پل کو دیکھنے آتے ہیں، اور بعض اوقات اپنی گاڑیوں سے اُتر کر اس پر چلنے کا تجربہ بھی کرتے ہیں۔ دوستو! جب آپ کوئی پختہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اس کے نتائج ضرور سامنے آتے ہیں۔ آج احمد آباد کنسرٹس کی معیشت کا بھی ایک بڑا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں منعقدہ کولڈ پلے کنسرٹ کی دنیا بھر میں چرچا ہوا۔ایک لاکھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش کے ساتھ احمد آباد کا اسٹیڈیم بھی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ احمد آباد عظیم الشان موسیقی کی محافل کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی بڑی تقریبات کی میزبانی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
دوستو،
میں نے ابتدا میں تہواروں کا ذکر کیا تھا۔ یہ تہواروں کا موسم ہے—نوراتری، وجے دشمی، دھنتیرس اور دیوالی سب آنے والے ہیں۔ یہ یقیناً ہماری ثقافت کے تہوار ہیں، لیکن انہیں آتم نربھرتا (خود انحصاری) کے تہوار بھی بننا چاہیے۔ اسی لیے میں ایک بار پھر آپ سے اپیل دہرا رہا ہوں۔ پُوجیہ باپو کی سرزمین سے میں اپنے ہم وطنوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی زندگی میں یہ منتر اپنانا ہوگا: جو کچھ بھی خریدیں گے، وہ میڈ اِن انڈیا ہوگا، سودیشی ہوگا۔
گھر کی سجاوٹ کے لیے آپ کو میڈ اِن انڈیا سامان خریدنا چاہیے۔ دوستوں کو تحائف دینے کے لیے صرف وہی منتخب کریں جو بھارت میں، بھارت کے لوگوں کے ہاتھوں سے بنے ہوں۔ میں خاص طور پر دکانداروں اور تاجروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ملک کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مضبوطی سے فیصلہ کریں کہ آپ غیر ملکی سامان فروخت نہیں کریں گے، اور فخر کے ساتھ ایک بورڈ لگائیں: "یہاں صرف سودیشی فروخت ہوتا ہے"۔ ہماری یہ چھوٹی چھوٹی کوششیں ان تہواروں کو بھارت کی خوشحالی کے شاندار جشن میں بدل دیں گی۔
دوستو،
ابتدا میں، لوگ اکثر مایوسی کے عادی ہو چکے تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار ریور فرنٹ کی بات کی تھی تو سب ہنس پڑے تھے—"ریور فرنٹ آ بھی پائے گا یا نہیں؟" جب میں نے اسٹیچو آف یونٹی کا ذکر کیا تو کہا گیا: "انتخابات قریب ہیں، اسی لیے مودی جی یہ بات کر رہے ہیں۔" لیکن بتائیے، کیا اسٹیچو آف یونٹی بنا یا نہیں؟ آج دنیا اسے حیرت سے دیکھتی ہے یا نہیں؟
جب میں نے رن اُتسو کی بات کی تھی تو کہا گیا: "کون کچھ جائے گا؟ رن میں کون جائے گا؟" لیکن آج وہاں لمبی قطاریں ہیں، لوگ چھ ماہ پہلے بکنگ کر لیتے ہیں۔ ہوا یا نہیں؟ گجرات میں ہوائی جہاز بنانے کا پلانٹ لگ رہا ہے—کیا کبھی کسی نے اس کا تصور کیا تھا؟
مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی بار گفٹ سٹی کا ذکر کیا تو تقریباً سب نے مذاق اُڑایا کہ ایسا کیسے ممکن ہے، ایسی عمارتیں کہاں بن سکتیں؟ لیکن آج گفٹ سٹی بھارت کے فخر کے ابواب میں سے ایک رقم کر رہا ہے۔ میں یہ سب آپ کو اس لیے یاد دلا رہا ہوں تاکہ آپ اپنی قوم کی صلاحیت کو پہچانیں۔ اگر آپ اس پر اعتماد کریں اور خود کو اس کے لیے وقف کر دیں، تو بھارت کے لوگ آپ کے عزم کو کبھی ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ یہ قوم اپنا خون پسینہ دینے کو تیار ہے۔
ایک وقت تھا جب دہشت گردانہ حملوں کے بعد لوگ سوچتے تھے کہ دشمن کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔ لیکن بھارت نے سرجیکل اسٹرائیک کیں، لانچنگ پیڈ تباہ کر دیے۔ ایئر اسٹرائیک کیں اور ان کے ٹریننگ کیمپ اڑا دیے۔ آپریشن سندور کیا اور ان کے مرکز پر وار کیا۔ بھارت کا چندریان "شیو شکتی پوائنٹ" پر اترا، جہاں پہلے کوئی نہیں پہنچا تھا، اور وہاں ترنگا لہرایا۔ شبھانشو شکلا بین الاقوامی خلائی مرکز گئے۔ اب گگن یان کی تیاریاں جاری ہیں۔ اور اپنا خود کا خلائی اسٹیشن بنانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔
ساتھیو! یہ سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ہم ایمان اور لگن کے ساتھ عزم کریں تو عوام کی دعاؤں اور تعاون—جو دراصل خدا کی صورت ہیں—کے سہارے ہم ہر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی یقین کے ساتھ میں کہتا ہوں کہ یہ ملک خود کفیل بنے گا۔ اس ملک کا ہر شہری "ووکل فار لوکل" کا پرچم بردار ہوگا، سودیشی منتر پر قائم رہے گا، اور پھر ہمیں کبھی دوسروں پر انحصار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
دوستو،
جب کووڈ کی وبا آئی تھی تو یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ ہمارے ملک تک ویکسین وقت پر پہنچے گی۔ اس سے پہلے دنیا کے کسی اور ملک میں بنائی گئی ویکسین کو یہاں پہنچنے میں 30-40 سال لگ جاتے تھے۔ لوگوں کے ذہنوں میں خدشہ تھا کہ کووڈ کے دوران کیا ہوگا۔ لیکن ہمارے ملک نے عزم کیا، اپنی ویکسین تیار کی اور اسے 140 کروڑ شہریوں تک پہنچایا۔ یہی ہمارے بھارت کی اصل طاقت ہے۔
اسی طاقت پر اعتماد کے ساتھ میں گجرات کے اپنے دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں—آپ نے مجھے جو سبق سکھایا، جو توانائی اور جوش میرے اندر بھرا، وہی مجھے آگے بڑھاتا رہا۔ اور مجھے یقین ہے کہ 2047 میں جب بھارت آزادی کے 100 سال منائے گا تو یہ ملک وکست بھارت بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہوگا۔
ساتھیو!
وکست بھارت کی تعمیر کی ایک اہم شاہراہ سودیشی (مقامی خود انحصاری) ہے، اور دوسری اہم شاہراہ آتم نربھر بھارت (خود کفیل ہندوستان)ہے۔ جو چیزیں بناتے ہیں، پیدا کرتے ہیں یا تخلیق کرتے ہیں، میں ان سب سے اپیل کرتا ہوں—اپنے معیار کو مسلسل بلند کریں، اپنی لاگت کو کم کریں۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ بھارت کے لوگوں کو کبھی باہر سے کچھ خریدنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہی جذبہ ہمیں بیدار کرنا ہے اور دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنی ہے۔ میرے ساتھیو، دنیا میں بہت سے ملک ہیں جو کسی بحران کے وقت اور زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں اور بہتر نتائج حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے لیے بھی یہ ایک سنہری موقع ہے کہ ہم اپنے عزم کو طاقت کے ساتھ پورا کریں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ جیسے گجرات نے ہمیشہ میری حمایت کی ہے، ویسے ہی پورا ملک بھی میرا ساتھ دے گا، اور ہمارا وطن ایک ترقی یافتہ بھارت بن کر ابھرے گا۔
ترقی کے اس قیمتی تحفے پر آپ سب کو دلی مبارکباد! میری دعا ہے کہ گجرات خوب ترقی کرے، نئی بلندیوں کو چھوئے، اور اپنی طاقت کے بل پر ہمیشہ آگے بڑھتا رہے۔
آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ! آئیے، میرے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ نعرہ لگائیے— بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!
شکریہ!
ڈس کلیمر: وزیر اعظم کی تقریر کے بعض حصے گجراتی زبان میں تھے، جن کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا ہے۔
*****
( ش ح۔ اس ک ۔ ن م )
U.No.5299
(Release ID: 2160832)