محنت اور روزگار کی وزارت
ناری شکتی سے وکست بھارت: ہندوستان کی بدلتی معیشت میں خواتین قائدانہ کردار ادا کررہی ہیں
پی ایل ایف ایس کے اعداد و شمار کے مطابق 18-2017 سے 24-2023 کے درمیان خواتین کے روزگار کی شرح تقریباً دو گنا ہو گئی ہے
خواتین کی بے روزگاری کی شرح 18-2017 میں 5.6 فیصد سے کم ہو کر 24-2023 میں 3.2 فیصد رہ گئی ہے
ہندوستان کے دیہی علاقوں میں خواتین کے روزگار میں 96 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جب کہ شہری علاقوں میں 43 فیصد ترقی ریکارڈ کی گئی ہے
ای پی ایف اوکے پے رول ڈیٹا کے مطابق گزشتہ سات برسوں میں 1.56 کروڑ خواتین نے باقاعدہ طورپر ورک فورس یعنی کام کاج میں شمولیت اختیار کی ہے
گزشتہ دہائی کے دوران صنفی بجٹ میں 429 فیصدکا اضافہ ہوا ہے؛ 70 مرکزی اسکیمیں اور 400 سے زائد ریاستی سطح کی اسکیمیں خواتین کی کاروباری سرگرمیوں میں حمایت کر رہی ہیں
تقریباً ہر دوسرا ڈی پی آئی آئی ٹی میں رجسٹرڈ اسٹارٹ اپ میں کم از کم ایک خاتون ڈائریکٹرکی نمائندگی موجود ہے
مُدرا (ایم یو ڈی آر اے) اسکیم کے تحت دیے گئے کل قرضوں میں سے 68 فیصد خواتین کو فراہم کیے گئے؛ جب کہ پی ایم سواندھی اسکیم کے تحت 44 فیصد مستفیدین خواتین ہیں
خواتین کی قیادت میں 11-2010 سے 24-2023 کے درمیان چلنے والے ایم ایس ایم ایز کی تعداد تقریباً دو گنا ہو گئی ہے اورناری شکتی ہندوستان کووکست بھارت کی جانب لے جانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے
Posted On:
25 AUG 2025 3:44PM by PIB Delhi
سال2047 تک وکست بھارت کے خواب کو حقیقت بنانے کے لیے ایک اہم ستون کے طورپر ملک میں 70 فیصد خواتین کی ورک فورس میں شرکت کو یقینی بنانا ہے۔ خواتین کا بااختیار بننا قومی ترقی کی ایک کلیدی محرک ہے اور آج بھارت وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک تبدیلی کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ اب خواتین صرف روایتی کرداروں تک محدود نہیں رہیں، بلکہ وہ پرانی رکاوٹوں کو توڑ کر ملک کے اقتصادی مستقبل کی تشکیل میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ خواتین دیہی کاروبارسے لے کر کارپوریٹ لیڈرز تک اہم کردار ادا کررہی ہیں اور خواتین بھارت کووکست بنانے کی راہ میں پیش پیش ہیں۔
کام کاج میں خواتین کی شمولیت میں نمایاں پیش رفت
بھارت میں خواتین کی ورک فورس اورکام کاج میں شرکت کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پی ایل ایف ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، خواتین کی روزگار کی شرح (ڈبلیوپی آر) 2017-18 میں 22 فیصد سے بڑھ کر 24-2023 میں 40.3 فیصد ہو گئی ہے، جبکہ بے روزگاری کی شرح (یوآر) اسی دوران 5.6 فیصد سے کم ہو کر 3.2 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار خواتین کے لیے روزگار کے مواقع میں مثبت رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ تبدیلی خاص طور پر دیہی بھارت میں مزید نمایاں ہے، جہاں خواتین کی روزگار کی شرح میں 96 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ شہری علاقوں میں اس عرصے کے دوران روزگار میں 43 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔


رپورٹس سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ خواتین گریجویٹس کی ملازمت کی شرح بڑھ کر 2013 میں 42 فیصد سے 2024 میں 47.53 فیصد ہو گئی ہے۔ پوسٹ گریجویٹ تعلیم یافتہ خواتین میں روزگار کی شرح (ڈبلیو پی آر) 2017-18 میں 34.5 فیصد سے بڑھ کر 2023-24 میں 40 فیصد ہو گئی ہے۔
انڈیا اسکلز رپورٹ 2025 کے مطابق، تقریباً 55 فیصد بھارتی گریجویٹس کو 2025 میں عالمی معیار کی ملازمت کااہل سمجھا جا رہا ہے، جو 2024 میں 51.2 فیصد تھا۔
اس کے علاوہ، ای پی ایف او کے پے رول ڈیٹا سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کی باضابطہ شعبے میں شرکت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سات سالوں میں 1.56 کروڑ خواتین نے باضابطہ طورپر ورک فورس یعنی کام کاج میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اسی دوران، اگست 2024 تک، ای-شرم پلیٹ فارم پر 16.69 کروڑ سے زائد خواتین غیر رسمی شعبے کی کارکنوں کے طور پر رجسٹرڈ ہو چکی ہیں، جس سے انہیں حکومتِ ہند کی مختلف سماجی فلاحی اسکیموں تک رسائی حاصل ہو رہی ہے۔
بھارت کی خواتین کی ترقی سے خواتین کی قیادت میں انجام دی جارہی ترقی کی جانب منتقلی
حکومتِ ہند کی کوششیں خواتین کاروباریوں کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنی ہیں۔ قومی سطح پر 15 وزارتوں کے تحت 70 مرکزی اسکیمیں اور 400 سے زائد ریاستی سطح کی اسکیمیں خواتین کاروبار کے تعاون اور حمایت پر مرکوز ہیں۔پی ایل ایف ایس (پی ایل ایف ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق، خواتین کی خود کی روزگار میں 30 فیصدکا اضافہ ہوا ہے، جو 2017-18 میں 51.9 فیصد سے بڑھ کر 2023-24 میں 67.4 فیصد ہو گئی ہے، جس سے خواتین واقعی آتما نربھر یعنی خودکفیل بن رہی ہیں۔
گزشتہ دہائی میں صنفی بجٹ میں 429 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو مالی سال 14-2013 (تخمینہ) میں 0.85 لاکھ کروڑروپے سے بڑھ کر مالی سال 26-2025 میں 4.49 لاکھ کروڑ روپےہو گیا ہے۔ یہ خواتین کی ترقی سے خواتین کی قیادت میں ترقی کی جانب ایک نمایاں تبدیلی کی علامت ہے، جس میں روزگار، ملازمت کی قابلیت، کاروبار، اور فلاح و بہبود پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔
اسٹارٹ اپ انڈیا جیسے پروگرامز نے ایک مضبوط اور ترقی پذیر ماحولیاتی نظام کو فروغ دیا ہے، جہاں تقریباً 50 فیصدڈی پی آئی آئی ٹی میں رجسٹرڈ اسٹارٹ اپس میں کم از کم ایک خاتون ڈائریکٹر موجود ہے، یعنی 1.54 لاکھ میں سے 74,410 اسٹارٹ اپس۔ آج تقریباً دو کروڑ خواتین ’لکھپتی دی دی‘ بن چکی ہیں۔اہمیت کے حامل پروگرامز جیسے نمو ڈرون دی دی اور دین د یال انتیودیا یوجنا – این آر ایل ایم بھی اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، جو خواتین کو وسائل اور مواقع فراہم کر کے انہیں پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں۔
خواتین کی خود روزگاری میں اضافے کا ایک اور اہم محرک وزیر اعظم مدرا اسکیم ہے، جو مالی شمولیت میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ خواتین کو مدرا اسکیم کے تحت کل قرضوں کا 68 فیصد حصہ ملا ہے، (یعنی 35.38 کروڑ سے زائد قرضے جن کی مالیت 14.72 لاکھ کروڑروپے ہے)۔ اسی طرح، پی ایم سواندھی اسکیم نے ریہڑی پٹری کے کاروباری افراد کو بااختیار بنایا ہے، جس میں تقریباً 44 فیصد مستفیدین خواتین ہیں۔ یہ اقدامات بھارت بھر کی خواتین میں اقتصادی خودمختاری کی نئی لہر کو فروغ دے رہے ہیں۔
مزید برآں، خواتین کی قیادت میں چلنے والے بہت چھوٹے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے ادارے(ایم ایس ایم ایز) بھی اقتصادی ترقی کے اہم محرک کے طور پر ابھرے ہیں، جنہوں نے مالی سال 2021 سے 2023 کے دوران خواتین کے لیے 89 لاکھ سے زائد اضافی روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ خواتین کی ملکیت والے انفرادی اداروں کا حصہ 2010-11 میں 17.4 فیصد سے بڑھ کر 24-2023 میں 26.2 فیصد ہو گیا ہے، اور خواتین کی قیادت میں چلنے والے ایم ایس ایم ایزکی تعداد بھی تقریباً دوگنی ہو گئی ہے، جو 11-2010 میں 1 کروڑ سے بڑھ کر 24-2023 میں 1.92 کروڑ ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بھارت کے اقتصادی مستقبل کی تشکیل میں خواتین کے بڑھتے ہوئے کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔
ناری شکتی بھارت کو وکست بھارت کی طرف لے جا رہی ہے
خواتین اب صرف شراکت دار نہیں بلکہ بھارت کی اقتصادی ترقی کی بنیاداورترقی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ آج خواتین ترقی کی راہ میں قیادت کر رہی ہیں، اور مودی حکومت ناری شکتی کو تعلیم، ہنرمندی اورمہارت کی ترقی، کاروباری مواقع اور مساوی کام کاج کے مواقع فراہم کر کے ایک شمولیاتی ماحولیاتی نظام فراہم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔
************
ش ح ۔ م م ع ۔ م ا
Urdu No-5274
(Release ID: 2160622)