وزیراعظم کا دفتر
اے بی پی نیٹ ورک انڈیا @2047 سمٹ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
06 MAY 2025 10:56PM by PIB Delhi
نمسکار،
آج صبح سے ہی بھارت منڈپم کا یہ اسٹیج ایک فعال پلیٹ فارم بنا ہوا ہے۔ ابھی مجھے آپ کی ٹیم سے چند منٹ ملنے کا موقع ملا۔ یہ سربراہ اجلاس تنوع سے بھرا ہوا ہے۔ بہت سے عظیم لوگوں نے اس سمٹ میں رنگ بھرے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سب کو بھی بہت اچھا تجربہ ہوا ہوگا۔ اس سمٹ میں نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد کی موجودگی شاید اپنے آپ میں اس کی انفرادیت بن گئی ہے۔ خاص طور پر ہماری ڈرون دیدیوں نے ، لکھپتی دیدیوں نے ، جنہوں نےاپنے تجربات بتائے۔ ابھی جب میں ان تمام اینکرز سے ملا، تو میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اتنے جوش و خروش سے اپنے تجربات بتا رہی تھیں، ان کے ایک ایک ڈائیلاگ ان کو یاد تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے آپ میں ایک بہت حوصلہ افزا موقع رہا ہے۔
دوستو،
یہ اُس بدلتے ہندوستان کی تصویر ہے ، جو ہر میدان میں اپنی آواز بلند کر رہا ہے۔ اس بدلتے ہوئے ہندوستان کا سب سے بڑا خواب 2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان بنا نا ہے۔ ملک کے پاس صلاحیت ہے، ملک کے پاس وسائل ہیں اور ملک میں قوت ارادی بھی ہے۔ سوامی وویکانند کہا کرتے تھے – اٹھو، جاگو اور تب تک نہیں رُکو، جب تک اپنے مقاصد کو حاصل نہ کر لو۔ آج میں ملک کے ہر شہری میں یہی جذبہ دیکھ رہا ہوں۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کو حاصل کرنے میں اس طرح کی سرگرمیاں، اس طرح کی بات چیت اور ان میں نوجوانوں کی شرکت بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ آپ نے اتنی شاندار سمٹ کا اہتمام کیا ہے اور اس کے لیے میں اپنے دوست اتیدیب سرکار جی، اپنے پرانے ساتھی رجنیش اور اے بی پی نیٹ ورک کی پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو،
آج کا دن ہندوستان کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ کچھ عرصہ قبل، میں یہاں آنے سے پہلے، میں نے برطانوی وزیر اعظم سے بات کی تھی اور مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان-برطانیہ آزاد تجارتی معاہدہ اب حتمی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی اور اوپن مارکیٹ کی معیشتوں کے درمیان باہمی تجارتی اور اقتصادی تعاون کا یہ معاہدہ دونوں ممالک کی ترقی میں ایک نئے باب کا اضافہ کرے گا۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔ اس سے ہندوستان میں اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور ہندوستانی کاروباراور ایم ایس ایم ایز کے لیے نئے مواقع کھلیں گے۔ آپ جانتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ہم نے متحدہ عرب امارات، آسٹریلیا، ماریشس کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر بھی دستخط کئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آج ہندوستان نہ صرف اصلاحات کر رہا ہے بلکہ دنیا کے ساتھ فعال طور پر منسلک ہو کر خود کو ایک متحرک کاروبار اور تجارت کا مرکز بنا رہا ہے۔
دوستو،
بڑے فیصلے کرنے، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے اور قوم کی طاقت پر یقین ہو، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کئی دہائیوں تک اس کے برعکس رجحان جاری رہا اور اس کی وجہ سے ملک کو بہت نقصان پہنچا۔ ایک وقت تھا جب کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے سے پہلے، کوئی بھی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے یہ سوچا جاتا تھا کہ دنیا کیا سوچے گی، کسی کو ووٹ ملے گا یا نہیں، سیٹ بچ پائے گی یا نہیں، ووٹ بینک بکھرے گا یا نہیں؟ مختلف مفادات کی وجہ سے بڑے بڑے فیصلے اور بڑی اصلاحات ملتوی ہو رہی تھیں۔
دوستو،
کوئی ملک اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ملک اسی وقت ترقی کرتا ہے جب فیصلوں کا واحد معیار ملک مقدم ہو۔ بھارت گزشتہ ایک دہائی سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہے اور آج ہم اس کے نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔
دوستو،
گزشتہ 11-10 برسوں میں ہماری حکومت نے ایک کے بعد ایک ایسے فیصلے لئے جو کئی دہائیوں سے زیر التوا، پھنسے ہوئے اور بھٹکے ہوئے تھے اور سیاسی عزم کی کمی کی وجہ سے ڈبوں میں بند ہو گئے تھے۔ اب، ایک مثال ہمارے بینکنگ سیکٹر کی ہے - بینکنگ سیکٹر جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس سے پہلے ایسی کوئی سربراہی کانفرنس نہیں ہوئی جو بینکوں کے نقصانات پر بحث کئے بغیر مکمل ہوئی ہو اور درحقیقت 2014 سے پہلے ہمارے ملک میں بینک مکمل تباہی کے دہانے پر تھے۔ اب آج کیا صورتحال ہے؟ آج ہندوستان کا بینکنگ سیکٹر دنیا کے مضبوط ترین سسٹم میں سے ایک ہے۔ ہمارے بینک ریکارڈ منافع کما رہے ہیں اور ڈپازٹرز اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ ہماری حکومت نے بینکنگ سیکٹر میں مسلسل اصلاحات کیں، ملک کے مفاد میں چھوٹے بینکوں کو ضم کیا اور ان کی استعداد کار میں اضافہ کیا۔ آپ کو ایئر انڈیا کی پرانی حالت بھی یاد ہوگی۔ ایئر انڈیا ڈوب رہا تھا، ہر سال ملک کے ہزاروں کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا تھا، لیکن پھر بھی پچھلی حکومت فیصلہ لینے سے ڈرتی تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا اور ملک کو مسلسل خسارے سے بچایا، کیوں؟ کیونکہ ہمارے لیے قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔
دوستو،
ہمارے ملک کے سابق وزیر اعظم نے اعتراف کیا تھا کہ اگر حکومت کسی غریب کو ایک روپیہ بھیجتی ہے تو اس میں سے 85 پیسے لُٹ جاتے ہیں۔ حکومتیں بدلتی رہیں، سال گزرتے رہے لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا گیا کہ غریبوں کو پورا پیسہ مل جائے۔ غریبوں کو ان کی ساری رقم ملنی چاہیے۔ دہلی سے ایک روپیہ نکلے تو ایک ایک پیسہ ان تک پہنچ جائے۔ اس کے لیے ہم نے براہ راست فائدہ کی منتقلی کے انتظامات کیے ہیں اور اس سے سرکاری اسکیموں میں لیکیج بند ہو گیا، فوائد براہ راست مستفیدین تک پہنچ رہے ہیں، سرکاری فائلوں میں ایسے 10 کروڑایسے فرضی مستفید تھے، جو کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور انہیں پوری طرح سے تمام سہولتیں مل رہی تھیں۔ 10 کروڑ، پہلے والے یہیں نظام بنا کر گئے تھے۔ ہماری حکومت نے ان 10 کروڑ فرضی ناموں کو سسٹم سے ہٹا دیا اور ڈی بی ٹی کے ذریعے پوری رقم سیدھے غریبوں کے بینک کھاتوں میں بھیج دی۔ اس نے 3.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کو غلط ہاتھوں میں جانے سے بچایا ہے۔ مطلب یہ آپ کا پیسہ بچایا ہے۔ پیسہ بچا آپ کا، گالی مودی نے کھائی۔
دوستو،
ون رینک ون پنشن کا معاملہ ہی دیکھ لیں، یہ کئی دہائیوں سے زیر التوا تھا۔ قبل ازیں اسے اس دلیل کے ساتھ مسترد کر دیا گیا تھا کہ اس سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑے گا۔ ہماری حکومت نے ملک کی حفاظت کے لئے جانیں قربان کرنے والوں کے مفادات کو اولین ترجیح دی۔ آج لاکھوں فوجی خاندان او آر او پی سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اب تک ہماری حکومت نے سابق فوجیوں کو او آر او پی کے تحت 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ دیے ہیں۔
دوستو،
ملک میں غریب خاندانوں کو ریزرویشن ملنے کی دہائیوں تک صرف باتیں ہوتی رہیں۔ ہماری حکومت نے اس پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔ لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلی میں خواتین کے لیے تینتیس فیصد ریزرویشن کے معاملے میں کیا ہوتا رہا ہے، اس کو بھی ملک نے پوری طرح سے دیکھا ہے۔ اس کے پیچھے بھی کچھ لوگوں کی خود غرضی تھی، لیکن یہ قومی مفاد میں ضروری تھا۔ اس لیے ہماری حکومت نے لوک سبھا اور ودھان سبھا میں خواتین کے ریزرویشن کے لیے قانون بنا کر خواتین کو مزید بااختیار بنایا۔
دوستو،
ماضی میں بہت سے ایسے موضوعات تھے، جن پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ خدشہ تھا کہ ووٹ بینک ناراض ہو جائے گا۔ اب تین طلاق کا معاملہ ہے۔ اس نے ان گنت مسلمان بہنوں کی زندگیاں برباد کر دیں، لیکن اس سے اقتدار میں رہنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ خواتین کے مفاد میں، مسلم خاندانوں کے مفاد میں، ہماری حکومت نے تین طلاق کے خلاف قانون بنایا۔ وقف ایکٹ میں اصلاحات کی ضرورت بھی کئی دہائیوں سے محسوس کی جارہی تھی۔ لیکن ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لیے اس نیک کام کو بھی بدنام کیا گیا۔ اب وقف ایکٹ میں ایسی ترامیم کی گئی ہیں، جس سے مسلم ماؤں بہنوں، غریب مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں کو صحیح معنوں میں فائدہ ہوگا۔
دوستو،
ایک اور بہت بڑا کام ہوا ہے، جس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ یہ کام دریاؤں کو جوڑنے سے متعلق ہے۔ ابھی تو اتیدیب جی نے پانی کے حوالے سے پوچھا، کیا کرو گے؟ کئی دہائیوں تک ہمارے دریاؤں کے پانی کو تناؤ اور تنازعات کا موضوع بنایا گیا، لیکن ہماری حکومت نے ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر ندیوں کو جوڑنے کے لئے بڑے پیمانے پر مہم شروع کی ہے۔ کین بیتوا لنک پروجیکٹ، پاروتی-کالی سندھ-چمبل لنک پروجیکٹ، ان سے لاکھوں کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ ویسے ان دنوں میڈیا میں پانی کا بہت چرچا ہے۔ آپ بہت جلدی سمجھ جاتے ہیں۔ پہلے بھارت کا پانی بھی باہر جاتا تھا، اب بھارت کا پانی بھارت کے حق میں ہی رہے گا، بھارت میں ہی بہے گا اور بھارت کے لئے ہی مفید ہو گا۔
دوستو،
لوگ اکثر یہ بات دہراتے ہیں کہ اتنی دہائیوں کے بعد پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر ہوئی، لیکن ایک بات جس پر بات نہیں ہوتی وہ یہ ہے کہ کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد ہماری حکومت نے یہاں دہلی میں ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر قومی یادگار بھی بنوائی ہے۔ اس پر بحث تب شروع ہوئی جب اٹل جی اقتدار میں تھے، لیکن اس کی تعمیر کا کام بھی ایک دہائی تک التوا میں پڑا رہا۔ ہماری حکومت نے نہ صرف یہ کام انجام دیا بلکہ بابا صاحب سے جڑے اہم مقامات کو ملک اور دنیا میں پنچ تیرتھ کے طور پر تیار کیا۔
دوستو،
2014 میں ہماری حکومت ایسی حالت میں بنی جب حکومت پر سے اہل وطن کا اعتماد تقریباً ٹوٹ چکا تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ سوال بھی اٹھانا شروع کر دیا کہ کیا ہمارے ملک میں جمہوریت اور ترقی ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ لیکن آج جب کوئی ہندوستان کو دیکھتا ہے تو فخر سے کہہ سکتا ہے کہ‘‘ڈیموکریسی کین ڈیلیور’’ یعنی جمہوریت نتائج دے سکتی ہے۔ پچھلی دہائی میں 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں، اس سے پوری دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ جمہوریت ہی دے سکتی ہے۔ کروڑوں چھوٹے کاروباری جنہوں نے مدرا اسکیم کے تحت قرضہ حاصل کیا ہے آج یہ محسوس کر رہے ہیں کہ جمہوریت ڈیلیور کر سکتی ہے۔ ہمارے ملک کے درجنوں اضلاع کو پسماندہ قرار دے کر ان کے اپنی حالت پر چھوڑ دیا گیا۔ آج جب وہی اضلاع امنگوں والے اضلاع بن چکے ہیں اور ترقی کے پیرامیٹرز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو یہ واضح ہے کہ جمہوریت ہی ڈیلیور کر سکتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ ہمارے ملک کے قبائل میں بھی انتہائی پسماندہ قبائلی ذاتیں تھیں جنہیں ترقی کے ثمرات نہیں ملے تھے۔ آج جب پی ایم جن من یوجنا کے ذریعے سرکاری سہولیات ان ذاتوں تک پہنچی ہیں، تو انہیں بھی یہ اعتماد حاصل ہوا ہے کہ جمہوریت ڈیلیور کر سکتی ہے! ملک کی ترقی، ملک کے وسائل بغیر کسی تفریق کے آخری فرد تک پہنچنے چاہئیں، یہی اصل مطلب ہے، جمہوریت کا اصل مقصد اور یہی ہماری حکومت کر رہی ہے۔
دوستو،
آج ایک ایسا ہندوستان بن رہا ہے جس کی ترقی کی رفتار تیز ہے اور ہندوستان سوچ، عزم اور ہمدردی سے بھی مالا مال ہے۔ ہم نے ہیومن سینٹرک گلوبلائزیشن کا راستہ چنا ہے، جہاں ترقی کا تعین صرف مارکیٹ سے نہیں ہوگا۔ لوگوں کو عزت کی زندگی ملنی چاہیے، ان کے خواب پورے ہونے چاہئیں، ہمارے لیے یہ ترقی کا بڑا پیمانہ ہے۔ ہم جی ڈی پی سینٹرک اپروچ کے بجائے جی ای پی سینٹرک پروگریس کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جب میں جی ای پی کہتا ہوں تو اس کا مطلب ہے – لوگوں کی مجموعی بااختیاریت۔ مطلب سب کو بااختیار بنانا۔ جب کسی غریب کو پکا مکان ملتا ہے تو وہ بااختیار ہوجاتا ہے اور اس کی عزت نفس میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب کسی غریب کے گھر میں بیت الخلا بن جاتا ہے تو وہ کھلے میں رفع حاجت کی ذلت اور تکلیف سے آزاد ہو جاتا ہے۔ آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت جب کسی غریب کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج ملتا ہے تو اس کی زندگی کی ایک بڑی پریشانی کم ہوجاتی ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو حساس ترقی کے راستے کو مضبوط کر رہی ہیں اور ملک کے لوگوں کو بااختیار بنا رہی ہیں۔
دوستو،
ابھی کچھ دن پہلے، سول سروسز ڈے کے دوران، میں نے ناگرک دےاو بھو: اس منتر کی بات کی تھی۔ یہ ہماری حکومت کا بنیادی نظریہ ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو عوام میں جناردن کو دیکھتے ہیں۔ حکومت میں پہلے مائی-بات کلچر حاوی تھا، اب عوام کی خدمت کے جذبے کو سامنے رکھ کر کام کیا جاتا ہے۔ حکومت خود شہریوں کو خدمات فراہم کرنے میں پہل کرتی ہے۔ یہاں بہت سے نوجوان دوست ہیں۔ آج کل آپ ہر فارم کو آن لائن بھرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب کسی کو اپنے کاغذات کی تصدیق کے لیے سرکاری دفاتر کے چکر لگانا پڑتا تھا۔ اب آپ تمام کام ذاتی تصدیق کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔
دوستو،
اسی طرح کا پرانا نظام بزرگ شہریوں کے لیے بھی موجود تھا۔ ہر سال بزرگوں کو اپنے پرانے دفتر میں جا کر یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ وہ زندہ ہیں اور کہنا پڑتا تھا کہ میں زندہ ہوں، یا انہیں بینک جا کر بتانا پڑتا تھا کہ میں زندہ ہوں اور مجھے رقم ملنی چاہیے۔ ہم نے اس کا حل تلاش کیا۔ اب بزرگ شہری کہیں سے بھی ڈیجیٹل طور پر اپنا لائف سرٹیفکیٹ جمع کرا سکتے ہیں۔ بجلی کا کنکشن لینا ہو، پانی کا نل لگانا ہو، بلوں کی ادائیگی ہو، گیس کی بکنگ ہو یا گیس سلنڈر کی ڈیلیوری ہو، بار بار مانگنا پڑتا ہے۔بہت سے لوگ یہ سب کام کرنے کے لیے چھٹی لیتے ہیں۔ ان کاموں کے لیے ایک دن کام سے چھٹی لینا پڑتی تھی۔ اب ملک میں نظام بدل چکا ہے، اس طرح کے بہت سارے کام اب آن لائن ہوتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ ہر وہ انٹرفیس جہاں لوگوں کو حکومت کے ساتھ بات چیت کرنی ہو، جیسے کہ پاسپورٹ کا کام، ٹیکس کی واپسی کا کام، ایسا ہر کام آسان، تیز اور مؤثر ہونا چاہیے۔ یہی ناگرک دے او بھو منتر کا مقصد ہے اور اس جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، ہم 2047 کے ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد کو مضبوط کر رہے ہیں۔
دوستو،
آج ہندوستان اپنی روایت اور ترقی کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ترقی کے ساتھ ساتھ ورثہ بھی یہی ہمارا منتر ہے۔ ہم ہندوستان میں دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح روایت اور ٹیکنالوجی ایک ساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ آج ہم ڈیجیٹل لین دین میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں شامل ہیں اور یہ بھی کہ ہم یوگ اور آیوروید کی روایت کو پوری دنیا تک لے جا رہے ہیں۔ آج دنیا ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہشمند ہے، پچھلی دہائی میں ہندوستان میں ریکارڈ ایف ڈی آئی آئی ہے اور چوری کی گئی نوادرات اور دیگر اشیاء بھی ریکارڈ تعداد میں بھارت آ رہی ہیں۔ آج ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا فون بنانے والا ملک ہے اور ہم جوار جیسی سپر فوڈز کی پیداوار میں بھی سب سے آگے ہیں۔سوریہ مندر والے بھارت نے بھی شمسی توانائی کی پیداوار میں 100 گیگا واٹ کی صلاحیت حاصل کی ہے۔
دوستو،
ترقی کے لیے ضروری نہیں کہ ہم اپنی ثقافت یا اپنی جڑیں چھوڑ دیں۔ ہم اپنی جڑوں سے جتنا گہرے جڑیں گے، جدیدیت سے ہمارا تعلق اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ ہم اپنے ہزاروں سال پرانے ورثے کو آنے والے ہزاروں سالوں کے لیے ہندوستان کی طاقت بنا رہے ہیں۔
دوستو،
2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کی طرف اس سفر میں ہر قدم کی اپنی اہمیت ہے اور بعض اوقات کچھ لوگوں کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ حکومت آج جو فیصلہ لے رہی ہے اس کا اثر کتنا بڑا اور دور رس ہوگا۔ میں آپ کو اسی شعبے کی ایک مثال دوں گا – میڈیا اور مواد کی تخلیق۔ آپ کو یاد ہے، 10 سال پہلے جب میں نے ڈیجیٹل انڈیا کے بارے میں بات کی تھی، تو بہت سے لوگ بہت زیادہ خدشات ظاہر کرتے تھے۔ لیکن آج ڈیجیٹل انڈیا ہماری زندگی کا فطری حصہ بن چکا ہے۔ سستے ڈیٹا اور سستے میڈ ان انڈیا اسمارٹ فونز نے ایک نئے انقلاب کو جنم دیا ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ڈیجیٹل انڈیا کی وجہ سے زندگی میں آسانی کیسے بڑھی ہے، لیکن ڈیجیٹل انڈیا نے کس طرح مواد اور تخلیقی صلاحیتوں کی ایک نئی دنیا تخلیق کی ہے اس کے بارے میں بحث کم ہے۔
آج گاؤں میں اچھا کھانا پکانے والی خاتون ملین سبسکرائبر کلب میں ہے۔ قبائلی علاقے کا ایک نوجوان اپنے لوک فن سے دنیا بھر کے سامعین کو جوڑ رہا ہے۔ا سکول میں زیر تعلیم ایک نوجوان ہے، جو ٹیکنالوجی کے بارے میں شاندار طریقے سے سمجھا رہا ہے۔ حال ہی میں پہلی ویوز سمٹ ممبئی میں ہوئی ہے۔ جس میں دنیا بھر سے میڈیا، تفریحی اور تخلیقی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ مجھے بھی اس کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ کوئی مجھے بتا رہا تھا کہ صرف یوٹیوب نے پچھلے تین سالوں میں ہندوستانی مواد تخلیق کرنے والوں کو 21,000 کروڑ روپے ادا کیے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آج ہمارا فون نہ صرف رابطے کے لیے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں اور کمائی کے لیے بھی ایک بہت بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔
دوستو،
2047 تک ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کے ساتھ ساتھ ایک اور مہم کی شراکت داری ہے اور وہ مہم ہے – آتم نر بھر بھارت۔ خود انحصاری ہمارے معاشی ڈی این اے کا حصہ رہی ہے۔ پھر بھی ہمیں یہ بتایا جاتا تھا کہ بھارت کوئی میکر نہیں، صرف ایک بازار ہے۔ لیکن اب بھارت پر لگے اس ٹیگ کو ہٹایا جا رہا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کا ایک بڑا دفاعی صنعت کار اور برآمد کنندہ بن رہا ہے۔ بھارت کی دفاعی مصنوعات 100 سے زائد ممالک کو برآمد کی جا رہی ہیں۔ ہماری دفاعی برآمدات میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے پاس بہت سے مقامی جنگی جہاز ہیں جیسے آئی این ایس وکرانت، آئی این ایس سورت، آئی این ایس نیلگری۔ ہندوستان نے اپنی صلاحیتوں سے یہ تخلیق کیے ہیں۔آج ہندوستان بہت سے شعبوں میں بہترین کام کر رہا ہے جو الیکٹرانکس سیکٹر کی طرح پہلے ہماری طاقت نہیں تھے۔ گزشتہ برسوں میں، ہندوستان ایک بڑے الیکٹرانکس برآمد کنندہ کے طور پر ابھرا ہے۔ آج ہماری مقامی مصنوعات عالمی بن رہی ہیں۔ حال ہی میں برآمدات سے متعلق اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔ ہندوستان کی برآمدات گزشتہ سال تقریباً 825 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں۔ ہندوستان نے صرف ایک دہائی میں اپنی برآمدات کو تقریباً دوگنا کرکے 825 بلین ڈالر تک پہنچا دیا ہے۔ اسے مزید تقویت دینے اور اسے نئی بلندیوں تک لے جانے کے لئے ہم نے اس سال کے بجٹ میں مشن مینوفیکچرنگ کا بھی اعلان کیا ہے۔
دوستو،
یہ دہائی آنے والی صدیوں کے لئے ہندوستان کی سمت طے کرنے والی ہے۔ یہ ملک کی نئی تقدیر لکھنے کا دور ہے۔ مجھے یہ جذبہ ملک کے ہر شہری میں، ہر ادارے میں، ملک کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ اس سمٹ کے دوران یہاں ہونے والی بات چیت میں بھی ہم نے یہی محسوس کیا ہے۔ میں ایک بار پھر اے بی پی نیٹ ورک کو اس سمٹ کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور مجھے بھی، کیونکہ اب دیر رات ہونے والی ہے، پھر بھی آپ اتنی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں،یہ بذات خود ایک روشن مستقبل کی نشانی ہے اور میں خاص طور پر کہنا چاہوں گا، یہ تجربہ جو آپ نے کیا اور میں آپ کے مہمانوں کی فہرست کو دیکھ رہا تھا، تمام نوجوان تجربے کارہیں۔ ان کے پاس نئی سوچ اور نئی ہمت ہے۔ ملک میں جس نے بھی سنا ہوگا ان کے اندر خود اعتماد ی پیدا ہوئی ہوگی۔ ویسے یہ طاقت ہمارے ملک میں موجود ہے۔ تو آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے، اچھا کام کیا ہے اور آپ اس کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔
نمسکار،
***
ش ح۔ ک ا۔ م ش
U.NO.642
(Release ID: 2127407)