وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

من کی بات کی 121ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (27.04.2025)

Posted On: 27 APR 2025 11:47AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔

آج جب میں آپ سے 'من کی بات' میں مخاطب ہوں، تو میرے دل میں  بہت زیادہ  دکھ ہے۔ 22 اپریل کو پہلگام میں جو دہشت گردانہ واقعہ پیش آیا، اس نے ملک کے ہر شہری کو مجروح کیا ہے۔ ہر بھارتی متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی رکھتا ہے۔ چاہے کوئی کسی بھی ریاست سے ہو، کوئی بھی زبان بولتا ہو، وہ اس حملے میں جان گنوانے والوں کے غم میں برابر کا شریک ہے۔میں محسوس کر سکتا ہوں کہ اس دہشت گردانہ حملے کی تصویریں دیکھ کر ہر بھارتی کا خون کھول رہا ہے۔ یہ حملہ دہشت گردی کے سرپرستوں کی بوکھلاہٹ اور بزدلی کو ظاہر کرتا ہے... ایسے  وقت جب کشمیر میں امن لوٹ رہا تھا، اسکولوں اور کالجوں میں رونق تھی، تعمیراتی کام غیر معمولی رفتار سے ہو رہا تھا، جمہوریت مستحکم ہو رہی تھی، سیاحوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی تھی، لوگوں کی آمدنی بڑھ رہی تھی، نوجوانوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو رہے تھے۔ملک اور جموں و کشمیر کے دشمنوں کو یہ سب کچھ پسند نہیں آیا۔ دہشت گرد اور ان کے سرغنہ چاہتے ہیں کہ کشمیر ایک بار پھر تباہ ہو جائے اور اسی لیے انہوں نے یہ بڑی سازش انجام دی۔ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملک کی یکجہتی، 140 کروڑ بھارتیوں کی یکجہتی، ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی یکجہتی ہمارے اس فیصلہ کن مقابلے کی بنیاد ہے۔ ہمیں اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے اپنے عزم کو اور مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے اپنی مضبوط قوت ارادی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس دہشت گرد حملے کے بعد پورا ملک ایک آواز میں بول رہا ہے۔

دوستو،
جو غصہ ہم بھارتی محسوس کر رہے ہیں، وہ غصہ پوری دنیا میں ہے۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد دنیا بھر سے تعزیت کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ عالمی رہنماؤں نے مجھے فون کیے ہیں، خطوط لکھے ہیں، پیغامات بھیجے ہیں۔ سب نے اس سنگین دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ پوری دنیا 140 کروڑ بھارتیوں کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ میں کھڑی ہے۔میں ایک بار پھر متاثرہ خاندانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ انہیں انصاف ضرور ملے گا، اور انصاف کیا جائے گا۔ اس حملے کے مجرموں اور سازشیوں کو سخت سے سخت جواب دیا جائے گا۔

دوستو،
دو دن پہلے ہم نے ملک کے عظیم سائنسداں ڈاکٹر کے. کستوری رنگن جی کو کھو دیا۔ جب بھی میری ان سے ملاقات ہوتی، ہم  بھارتی نوجوانوں کی صلاحیت، جدید تعلیم، اور خلائی سائنس جیسے موضوعات پر بات کرتے۔ سائنس، تعلیم اور بھارت کے خلائی پروگرام کو نئی بلندیوں تک پہنچانے میں ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی قیادت میں اسرو نے ایک نئی شناخت حاصل کی۔ ان کی رہنمائی میں آگے بڑھنے والے خلائی پروگراموں نے بھارت کی کوششوں کو عالمی سطح پر پہچان دلائی۔ آج بھارت جو کئی سیٹلائٹ استعمال کرتا ہے، ان کی لانچنگ انہی کی نگرانی میں ہوئی۔ان کی شخصیت کا ایک اور خاص پہلو بھی تھا، جس سے نوجوان نسل سیکھ سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ جدت طرازی کو اہمیت دیتے تھے۔ کچھ نیا سیکھنے، جاننے اور کرنے کا وژن بہت ہی متاثر کن تھا۔ ڈاکٹر کےکستوریرنگن نے ملک کی نئی قومی تعلیمی پالیسی تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اکیسویں صدی کی جدید ضروریات کے مطابق آگے کی سوچ رکھنے والی تعلیم کا تصور پیش کیا۔ ان کی بے لوث خدمت اور قوم کی تعمیر میں ان کا تعاون ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میں بہت ہی عاجزی کے ساتھ ڈاکٹر کے. کستوری رنگن کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو،

یہ اپریل کا مہینہ آریہ بھٹ سیٹلائٹ کی لانچنگ کے 50 سال مکمل ہونے کا مہینہ ہے۔ آج جب ہم ان 50 برسوں  کے سفر کو یاد کرتے ہیں، تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنی دور آ چکے ہیں۔ بھارت کے خوابوں کی یہ پرواز خلا میں محض  اعتماد سے شروع ہوئی تھی۔ کچھ نوجوان سائنسدان جن کے دل میں ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ تھا… ان کے پاس نہ آج کی طرح جدید وسائل تھے، نہ ہی عالمی ٹیکنالوجی تک رسائی۔ اگر کچھ تھا تو وہ تھا ان کا ہنر، لگن، محنت اور ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ۔آپ نے وہ تصویریں ضرور دیکھی ہوں گی، جن میں ہمارے سائنسداں بیل گاڑیوں اور سائیکلوں پر اہم آلات لے جا رہے ہیں۔ یہی جذبہ اور خدمت کا عزم تھا، جس کی بدولت آج سب کچھ بدل چکا ہے۔ آج بھارت ایک عالمی خلائی طاقت بن چکا ہے۔ ہم نے ایک ساتھ 104 سیٹلائٹ لانچ کر کے ریکارڈ قائم کیا۔ ہم چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے والے پہلے ملک بنے۔بھارت نے مریخ آربیٹر مشن لانچ کیا اور ادتیہ - L1 مشن کے ذریعے ہم سورج کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ آج بھارت دنیا کا سب سے کم خرچ والا مگر کامیاب خلائی پروگرام چلا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک اسرو کی مدد لیتے ہیں اپنے سیٹلائٹ اور خلائی مشن کے لیے۔

دوستو، جب ہم اسرو کے  سیٹلائٹ لانچ  کو دیکھتے ہیں تو  دل  فخر سے  معمور ہوجاتا ہے۔ ایسا ہی احساس مجھے 2014 میں پی ایس ایل وی-سی23 کے لانچ کے وقت ہوا تھا۔ میں 2019 میں چندریان-2 کی لینڈنگ کے وقت بھی اسرو سینٹر بنگلور میں موجود تھا۔ اس وقت چندریان اپنی متوقع کامیابی حاصل نہ کر سکا، وہ سائنسدانوں کے لیے ایک بہت مشکل وقت تھا۔ لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے سائنسدانوں کا صبر اور کچھ حاصل کرنے کی لگن دیکھی۔ اور کچھ سال بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ وہی سائنسداں چندریان-3 کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوئے۔

دوستو،
اب بھارت نے اپنے خلائی شعبے کو نجی شعبے کے لیے بھی کھول دیا ہے۔ آج بہت سے نوجوان خلائی اسٹارٹ اپس کے میدان میں نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ 10 سال پہلے صرف ایک کمپنی تھی، لیکن آج ملک میں 325 سے زیادہ اسپیس اسٹارٹ اپس سرگرم عمل ہیں۔ آنے والا وقت خلا کے شعبے میں بہت سے  نئے امکانات لے کر آ رہا ہے۔ بھارت نئی بلندیوں کو چھونے جا رہا ہے۔ ملک گگن یان، اسپیڈیکس اور چندریان-4 جیسے کئی اہم مشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ہم وینس آربیٹر مشن اور مریخ لینڈر مشن پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ہمارے خلائی سائنسداں اپنی اختراعات کے ذریعے ملک کو ایک نئے فخر سے ہمکنار کریں گے۔

دوستو،
یقیناً آپ نے گزشتہ ماہ میانمار میں آنے والے زلزلے کی ہولناک تصویریں دیکھی ہوں گی۔ اس زلزلے نے وہاں زبردست تباہی مچائی... ہر سانس، ہر لمحہ وہاں ملبے میں دبے لوگوں کے لیے قیمتی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت نے فوراً ہی میانمار کے اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے آپریشن برہما شروع کیا۔ فضائیہ کے طیاروں سے لے کر بحریہ کے جہازوں تک، ہر ممکن مدد میانمار بھیجی گئی۔ بھارتی ٹیم نے وہاں ایک فیلڈ اسپتال قائم کیا۔ انجینئرز کی ایک ٹیم نے اہم عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیا۔ بھارتی ٹیم نے کمبل، خیمے، سلیپنگ بیگ، دوائیں، کھانے پینے کا سامان اور کئی دیگر چیزیں بھی فراہم کیں۔ ان تمام کوششوں کے دوران بھارتی ٹیم کو وہاں کے لوگوں سے  کافی پزیرائی بھی حاصل ہوئی ۔

اس بحران کے دوران ہمت، صبر اور ہنرمندی کے کئی دل کو چھو لینے والے واقعات سامنے آئے۔ بھارتی ٹیم نے ایک 70 سال سے زائد عمر کی بزرگ خاتون کو ملبے سے 18 گھنٹے بعد زندہ نکالا۔ جو لوگ ٹی وی پر 'من کی بات' دیکھ رہے ہیں، وہ اس بزرگ خاتون کا چہرہ دیکھ رہے ہوں گے۔ بھارتی ٹیم نے ان کی آکسیجن کی سطح کو مستحکم کرنے سے لے کر ان کے فریکچر کے علاج تک ہر سہولت فراہم کی۔ جب یہ بزرگ خاتون اسپتال سے ڈسچارج ہوئیں تو انہوں نے ہماری ٹیم کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی  بچاؤ ٹیم کی وجہ سے انہیں نئی زندگی ملی ہے۔ کئی لوگوں نے ہماری ٹیم سے کہا کہ انہی کی وجہ سے وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو ڈھونڈ پائے۔

زلزلے کے بعد، میانمار کے منڈالے علاقے کے   ایک مٹھ  میں بھی بہت سے لوگوں کے پھنسے ہونے کا اندیشہ  تھا۔ ہماری ٹیم نے وہاں بھی راحت اور بچاؤ کا کام کیا، جس پر بدھ بھکشوؤں  کی جانب سے انہیں بہت دعائیں ملیں۔ ہم ان تمام افراد پر فخر کرتے ہیں جو آپریشن برہما میں شامل تھے۔ ہماری  روایات، ہماری اقدار، اور 'وسودھیو کٹمبکم' — یعنی پوری دنیا ایک کنبہ ہے — کا جذبہ ہماری پہچان بن رہا ہے۔ بھارت کا بطور 'وشو-متر' (دنیا کا دوست) بحران کے وقت تیار رہنا اور انسانیت کے تئیں بھارت کا عزم، دنیا میں بھارت کی نئی شناخت بنتا جا رہا ہے۔

دوستو،
مجھے افریقہ کے ملک ایتھوپیا میں رہنے والے بھارتیوں کی ایک بہت ہی انوکھی اور انسان دوست کوشش کے بارے میں پتہ چلا ہے۔ ایتھوپیا میں رہنے والے بھارتیوں نے وہاں کے دل کے مریض بچوں کو علاج کے لیے بھارت بھیجنے کی پہل کی ہے۔ ایسے کئی بچوں کو بھارتی خاندان مالی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اگر کسی بچے کا خاندان مالی تنگی کی وجہ سے بھارت نہیں آ سکتا، تو ہمارے بھارتی بھائی بہن ان کے لیے بھی انتظامات کر رہے ہیں۔ کوشش یہ ہے کہ ایتھوپیا کا ہر ضرورت مند بچہ جو کسی سنگین بیماری سے متاثر ہے، اسے بہتر علاج مل سکے۔ این آر آئیز کی اس  نیک کاوش  کو ایتھوپیا میں بہت سراہا جا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ بھارت میں طبی سہولیات  مسلسل بہتر ہو رہی ہیں، اور دوسرے ممالک کے شہری بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

دوستو،
چند دن پہلے بھارت نے افغانستان کے لوگوں کے لیے بڑی مقدار میں ویکسین بھیجی ہے۔ یہ ویکسین ریبیز، ٹٹنیس، ہیپاٹائٹس بی اور انفلوئنزا جیسی خطرناک بیماریوں سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوں گی۔ اس ہفتے، نیپال کی درخواست پر بھارت نے وہاں بڑی  مقدار میں دوائیں اور ویکسین بھیجی ہیں۔ اس سے تھیلیسیمیا اور سِکل سیل بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے علاج میں بہتری آئے گی۔ جب بھی بات انسانیت کی خدمت کی ہو، بھارت ہمیشہ  پیش پیش  رہا ہے اور آگے بھی رہے گا۔

دوستو،
ابھی ہم نے آفات سے نمٹنے کی بات کی، اور کسی بھی قدرتی آفت سے نمٹنے میں سب سے اہم چیز ہے آپ کی چوکسی ۔ اب آپ کو اس  چوکسی  میں مدد دے سکتا ہے ایک خاص موبائل ایپ۔ یہ ایپ آپ کو کسی بھی قدرتی آفت میں پھنسنے سے بچا سکتا ہے اور اس کا نام ہے 'سچیت '۔ 'سچیت ایپ' کو بھارت کی  نیشنل  ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے تیار کیا ہے۔ چاہے سیلاب ہو، سائیکلون ہو، لینڈ سلائیڈ ہو، سونامی ہو، جنگل کی آگ ہو، برفانی تودہ ہو، طوفان ہو یا بجلی گرنے کا خطرہ — 'سچیت  ایپ' ہر ممکن طریقے سے آپ کو خبردار اور محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ایپ کے ذریعے آپ محکمہ موسمیات سے متعلق اپ ڈیٹس حاصل کر سکتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ 'سچیت ایپ' کئی علاقائی زبانوں میں بھی معلومات فراہم کرتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں بھارت کی صلاحیت کو سراہا جا رہا ہے۔ بھارت کے نوجوانوں نے بھارت کے بارے میں دنیا کی سوچ کو بدل دیا ہے، اور کسی بھی ملک کے نوجوانوں کی دلچسپی یہ طے کرتی ہے کہ اس ملک کا مستقبل کیسا ہوگا۔ آج بھارت کے نوجوان سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع  کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ علاقے، جو کبھی پسماندگی یا دیگر منفی عوامل کے لیے جانے جاتے تھے، وہاں کے نوجوانوں نے ایسی مثالیں قائم کی ہیں جو ہمیں نیا اعتماد دیتی ہیں۔چھتیس گڑھ کے دنتے واڑہ میں ایک سائنس سینٹر ان دنوں سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دنتے واڑہ صرف تشدد اور بد امنی  کے لیے جانا جاتا تھا، لیکن اب وہاں کا سائنس سینٹر بچوں اور ان کے والدین کے لیے امید کی نئی کرن بن چکا ہے۔ بچے وہاں جانا بہت پسند کر رہے ہیں۔ وہ نئی مشینیں بنانے سے لے کر ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھ رہے ہیں۔یہ بچے نئی مشینیں بنا کر اور ٹیکنالوجی استعمال کرکے نئے پروڈکٹس بنانا سیکھ رہے ہیں۔ انہیں تھری ڈی پرنٹرز، روبوٹک کارز اور دیگر جدید سائنسی ایجادات کے بارے میں جاننے کا موقع مل رہا ہے۔ کچھ وقت پہلے میں نے گجرات سائنس سٹی میں سائنس گیلریز کا بھی افتتاح کیا تھا۔ یہ گیلریز جدید سائنس کی صلاحیت کی  ایک جھلک پیش کرتی ہیں اور یہ دکھاتی ہیں کہ سائنس ہماری زندگی میں کتنا کچھ کر سکتی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہاں کے بچے ان گیلریز کو دیکھ کر بہت پرجوش ہیں۔ سائنس اور جدت کی طرف بڑھتا یہ رجحان یقیناً بھارت کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔

میرے پیارے ہم وطنو،

ہمارے ملک کی سب سے بڑی طاقت ہمارے 140 کروڑ شہری، ان کی صلاحیتیں اور ان کا عزم ہے۔ اور جب کروڑوں لوگ ایک مہم میں شامل ہوتے ہیں، تو اس کا اثر بہت وسیع ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال ہے'ایک پیڑ ماں کے نام'۔ یہ مہم اس ماں کے نام ہے جس نے ہمیں جنم دیا، اور اُس  دھرتی ماں  کے لیے بھی ہے جو ہمیں اپنی گود میں پناہ دیتی ہے۔دوستو، 5 جون کو عالمی یوم ماحولیات کے دن اس مہم کا  ایک سال مکمل ہورہا ہے۔ اس ایک سال کے دوران اس مہم کے تحت ملک بھر میں ماں کے نام پر 140 کروڑ سے زیادہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ بھارت کی اس پہل کو دیکھ کر بیرون ملک کے لوگوں نے بھی اپنی ماں کے نام پر درخت لگائے ہیں۔ آپ بھی اس مہم کا حصہ بنیے تاکہ جب یہ مہم ایک سال مکمل کرے، تو آپ کو فخر ہو کہ آپ نے اس میں حصہ لیا۔

دوستو،
ہم سب جانتے ہیں کہ درخت ہمیں ٹھنڈک فراہم کرتے ہیں… ان کے سائے میں گرمی سے راحت ملتی ہے۔ لیکن حال ہی میں مجھے ایک اور خبر ملی جو بہت دلچسپ ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں گجرات کے شہر احمد آباد میں 70 لاکھ سے زائد درخت لگائے گئے ہیں۔ ان درختوں کی بدولت شہر کا سرسبز رقبہ  بہت بڑھ گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، دریائے سابرمتی کے کنارے رِیور فرنٹ کی تعمیر اور کانکریا جھیل جیسے دیگر آبی ذخائر کی تعمیر نو کی وجہ سے پانی کے ذخائر کی تعداد بھی بڑھی ہے۔اب خبریں آ رہی ہیں کہ احمد آباد گلوبل وارمنگ سے لڑنے والے اہم شہروں میں شامل ہو گیا ہے۔ وہاں کے لوگ اس تبدیلی کو محسوس بھی کر رہے ہیں — ماحول میں ٹھنڈک آئی ہے۔ احمد آباد میں لگائے گئے درخت اب وہاں خوشیوں کی کئی چھاؤں لے کر آ رہے ہیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ زمین کی زرخیزی  کے لیے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے، اور اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے درخت لگائیں – 'ایک پیڑ – ماں کے نام'۔

دوستو،
ایک پرانی کہاوت ہے: "جہاں چاہ، وہاں راہ"۔ جب ہم کچھ نیا کرنے کا عزم کر لیتے ہیں، تو منزل تک ضرور پہنچتے ہیں۔ آپ نے پہاڑوں پر  اگنے والے سیب تو ضرور کھائے ہوں گے، لیکن اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا آپ نے کرناٹک کے سیب کھائے ہیں، تو آپ چونک جائیں گے۔ عموماً ہم سوچتے ہیں کہ سیب صرف پہاڑی علاقوں میں اگتے ہیں۔ لیکن جناب  شیل تیلی جی، جو کرناٹک کے ضلع باگلکوٹ میں رہتے ہیں، انہوں نے میدانوں میں سیب اگانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اپنے کُلالی گاؤں میں، انہوں نے 35 ڈگری سے زائد درجہ حرارت میں سیب کے درخت اگائے، اور اب ان پر پھل آنے لگے ہیں۔ چونکہ جناب  شیل تیلی کو زراعت کا شوق تھا، اس لیے انہوں نے سیب کی کاشت کا تجربہ کیا، اور کامیاب بھی ہوئے۔ آج ان کے باغات میں خوب سیب اگ رہے ہیں اور وہ ان کی فروخت سے اچھی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔

اب جب بات سیب کی ہو رہی ہے تو آپ نے کنوری سیب کا نام ضرور سنا ہوگا۔ اب ہماچل کے کِنّور میں، جو سیب کے لیے مشہور ہے، زعفران کی کاشت بھی شروع ہو گئی ہے۔ عام طور پر ہماچل میں زعفران کی کاشت کم ہی ہوتی تھی، لیکن اب کنوری کی خوبصورت سانگلا وادی میں یہ بھی ممکن ہو گیا ہے۔اسی طرح، کیرالہ کے وایناڈ علاقے میں بھی زعفران کی کامیاب کاشت ہوئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ زعفران نہ تو کھیتوں میں اگ رہا ہے اور نہ ہی مٹی میں، بلکہ ایروپونکس ٹیکنیک کی مدد سے اگایا جا رہا ہے۔ بالکل ایسا ہی کچھ لیچی کی پیداوار کے ساتھ بھی ہوا ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ لیچی صرف بہار، مغربی بنگال یا جھارکھنڈ میں اگتی ہے۔ لیکن اب جنوبی بھارت اور راجستھان میں بھی لیچی اگائی جا رہی ہے۔تمل ناڈو کے ترو ویرا راسو کافی کی کاشت کرتے تھے۔ انہوں نے کوڈائی کنال میں لیچی کے درخت لگائے، اور سات سال کی محنت کے بعد اب ان پر پھل آنے لگے ہیں۔ لیچی کی کاشت میں کامیابی نے اس علاقے کے دیگر کسانوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ راجستھان کے جتیندر سنگھ راناوت نے بھی لیچی اگانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ تمام مثالیں بہت حوصلہ افزا ہیں۔ اگر ہم کچھ نیا کرنے کا فیصلہ کریں اور مشکلات کے باوجود لگاتار محنت کریں، تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو،

آج اپریل کا آخری اتوار ہے۔ مئی کا مہینہ چند دنوں میں شروع ہونے والا ہے۔ میں آپ کو آج سے 108 سال پیچھے لے جانا چاہتا ہوں… سال 1917… یہ اپریل اور مئی کے مہینے… ملک میں آزادی کی ایک انوکھی لڑائی لڑی جا رہی تھی۔ انگریزوں کے ظلم و ستم عروج پر تھے۔ غریبوں، محروموں اور کسانوں کا استحصال حد سے بڑھ چکا تھا۔ بہار کی زرخیز زمین پر انگریز کسانوں سے جبراً نیل  کی کھیتی کروا رہے تھے۔ اس فصل کی وجہ سے زمین بنجر ہو رہی تھی، لیکن انگریز حکومت کو اس کی کوئی پروا            نہ تھی۔ ایسے حالات میں، 1917 میں گاندھی جی بہار کے چمپارن پہنچے۔کسانوں نے گاندھی جی سے کہا’’ہماری زمین مر رہی ہے، ہمیں کھانے کے لیے اناج نہیں مل رہا۔‘‘لاکھوں کسانوں کے اس درد نے گاندھی جی کے دل میں ایک عزم جگا دیا۔ وہیں سے چمپارن کا تاریخی ستیہ گرہ شروع ہوا۔ چمپارن ستیہ گرہ، بھارت میں باپو کا پہلا بڑا تجربہ تھا۔ باپو کے ستیہ گرہ سے پورا برطانوی راج ہل کر رہ گیا۔ انگریزوں کو وہ قانون واپس لینا پڑا جس کے تحت کسانوں کو جبراً نیل کی کاشت کے لیے مجبور کیا جا رہا تھا۔ یہ ایک ایسی جیت تھی جس نے آزادی کی جدوجہد میں نیا حوصلہ بھر دیا۔آپ سب جانتے ہوں گے کہ بہار کے ایک اور سپوت نے بھی اس ستیہ گرہ میں اہم کردار ادا کیا تھا، جو آزادی کے بعد بھارت کے پہلے صدر بنے۔ وہ عظیم شخصیت تھےڈاکٹر راجندر پرساد۔ انہوں نے’چمپارن ستیہ گرہ‘ پر ایک کتاب بھی لکھی – ‘چمپارن میں ستیہ گرہ’… ہر نوجوان کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔

بھائیو اور بہنو،

آزادی کی جدوجہد کے کئی ناقابلِ فراموش باب اپریل کے مہینے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ گاندھی جی کی ’دانڈی یاترا‘ کا اختتام بھی 6 اپریل کو ہوا تھا۔ یہ یاترا 12 مارچ کو شروع ہوئی  تھی  اور 24 دنوں تک جاری رہی ، جس نے انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جلیانوالہ باغ قتلِ عام بھی اپریل ہی کے مہینے میں ہوا۔ اس خونی تاریخ کے نشانات آج بھی پنجاب کی مٹی پر موجود ہیں۔

دوستو،
کچھ ہی دنوں میں 10 مئی کو پہلی جنگِ آزادی کا سال گرہ بھی آنے والی ہے۔ آزادی کی اس پہلی لڑائی میں جو چنگاری بھڑکی تھی، وہ بعد میں لاکھوں مجاہدینِ آزادی کے لیے مشعلِ راہ بنی۔26 اپریل کو ہم نے 1857 کی انقلابی تحریک کے عظیم ہیرو بابو ویر کنور سنگھ کی برسی منائی۔ بہار کے اس عظیم مجاہدِ آزادی سے پورا ملک آج بھی تحریک حاصل کرتا ہے۔ ہمیں ایسے لاکھوں مجاہدینِ آزادی کی لازوال قربانیوں کو زندہ رکھنا ہے۔ ان سے جو توانائی ہمیں حاصل ہوتی ہے، وہ ہمیں امرت کال کے عزم کو مزید مضبوط کرنے کی طاقت دیتی ہے۔

دوستو،
'من کی بات' کے اس طویل سفر میں آپ سب نے اس پروگرام سے ایک گہرا رشتہ قائم کرلیا ہے۔  ہمارے ملک کے لوگ  جو حصولیابیاں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنا چاہتے ہیں، وہ ’من کی بات‘ کے ذریعے ملک بھر تک پہنچتی ہیں۔

اگلے مہینے ہم دوبارہ ملیں گے، اور بات کریں گے ملک کی رنگا رنگ ثقافت، شاندار روایات، اور نئی حصولیابیوں کے بارے میں۔ ہم اُن لوگوں کے بارے میں جانیں گے جو اپنی لگن اور خدمت کے جذبے  کےساتھ  سماج میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح، اپنے خیالات اور تجاویز ہمیں ضرور بھیجتے رہیے۔

شکریہ، نمسکار۔

 

*******

ش ح ۔   ف ا۔  م  ص

 (U : 287  )


(Release ID: 2124708) Visitor Counter : 29