وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

اپنی نوجوان، فعال اور تکنیکی تعلیم سے آراستہ آبادی سے استفادہ کرکے بھارت کے پاس ایسے مضمرات دستیاب ہیں جس کے ذریعہ وہ ایک ایسی افرادی قوت تشکیل دے سکتا ہے جو اے آئی کا استعمال اپنے کام کو منظم بنانے اور پیداواریت کو بڑھانے کے لیے کر سکتی ہے- اقتصادی جائزہ 2024-25


سماجی بنیادی ڈھانچہ جو اس سلسلے میں مفید اداروں پر احاطہ کرتا ہے، اداروں کو اس امر کی یقین دہانی کرا رہا ہے اور سرپرستی کر رہا ہے کہ وہ ہماری افرادی قوت کو اوسط اور اعلیٰ ہنرمندی کے حامل روزگاروں کی جانب گامزن کریں

اقتصادی جائزہ 2024-25 میں ایک عملی، معتمد، لائق وسعت اور اثرانگیز مصنوعی انٹیلی جینس ماڈل کی تصوریت پیش کی گئی ہے جسے بھارت میں اپنایا جا سکتا ہے

کام کا مستقبل منظم انٹیلی جینس کے اردگرد گھومتا ہے، جہاں افرادی قوت اپنے آپ کو دونوں یعنی انسانی اور مشینی لحاظ سے صلاحیتوں سے ہمکنار کرتی ہے- اقتصادی جائزہ 2024-25

چونکہ بھارت غالب طور پر خدمات سے مربوط معیشت ہے، لہٰذا یہ بطور خاص خودکار نظام کے معاملے میں حساس ملک ہے

اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ اختراع کے ذریعہ مبنی بر شمولیت ترقی حاصل ہو، تیز رفتاری کے ساتھ حکومت ، نجی شعبہ اور شعبہ تعلیم کے مابین سہ فریقی روابط قائم کرنے ہوں گے

Posted On: 31 JAN 2025 2:09PM by PIB Delhi

مصنوعی انٹیلی جینس (اے آئی) ایک نئے عہد کو متعارف کرانے کے امکانات کی حامل ہے۔ ایک ایسا عہد جہاں بڑے پیمانے پر اقتصادی لحاظ سے قابل قدر کام مختلف النوع شعبوں میں خود کار طور پر انجام پائے گا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر مزدور بے کار ہو جائیں۔ خصوصاً اوسط اور نسبتاً کم اجرت پانے والے مزدور اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہ بات 2024-25 کے اقتصادی جائزے میں کہی گئی ہے جسے آج خزا نہ اور کمپنی امور کی مرکزی وزیر محترمہ سیتا رمن نے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔

مصنوعی انٹیلی جینس کو اختیار کرنے کے معاملے میں خدشات اور مواقع

2024-25 کے اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ اینڈریو ہیلڈن ، جو بینک انگلینڈ کے سابق ماہر اقتصادیات ہیں، کے مطابق سابق صنعتوں اور تکنالوجی سے متعلق قواعد و ضوابط کافی تکلیف دہ رہے ہیں۔ ان میں وسیع پیمانے پر اقتصادی مشکلات موجود رہی ہیں۔ روزگار سے علیحدہ ہونے والوں کے لیے بے روزگاری کا طویل عرصہ اور آمدنی کی عدم مساوات کی خلیج میں اضافہ کے خدشات کارفرما رہتے ہیں۔

اس روشنی میں اقتصادی جائزے میں بطور خاص یہ بات کہی گئی ہے کہ بطور پالیسی ساز اس طرح کے نتائج کے امکانات جو خودکار طریقہ کار کے نتیجے میں سامنے آسکتے ہیں، ان کو ازحد سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے، خصوصاً ایک ایسے ملک میں جیسا کہ بھارت۔ بھارت کی معیشت غالب طور پر خدمات سے مملو ہے۔ یہاں بڑے پیمانے پر آئی ٹی افرادی قوت کم قدرو قیمت کی حامل خدمات میں مصروف عمل ہے۔ یہ تمام اسامیاں بطور خاص خود کار طریقہ کار اپنانے سے متاثر ہو سکتی ہیں کیونکہ کمپنیاں اس افرادی قوت کی جگہ اپنی لاگت کم کرنے کے لیے تکنالوجی کا راستہ اپنا سکتی ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0012LQ1.jpg

بھارت میں اے آئی کی لہر سے استفادہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات

2024-25 کے اقتصادی جائزے میں زور دے کر یہ بات نمایاں کی گئی ہے کہ خلاقانہ تباہی کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جانا چاہئے اور اس کے لیے ایک اجتماعی سماجی کوشش درکار ہے جس میں ایک نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دینا ہوگا تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جا سکے جہاں اختراع مبنی بر شمولیت نمو کا راستہ ہموار کر سکے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اس لحاظ سے ایک سہ فریقی مبسوط رابطے پر مبنی مضبوط اداروں کی تخلیق تیزی سے کرے گا اور ایسا کرنا ضروری ہوگا، یعنی یہ سہ فریقی ربط حکومت، نجی شعبے اور شعبہ تعلیم کے درمیان ہوگا۔

اے آئی سے استفادہ کرنے کے اقدامات میں اقتصادی جائزے میں اس سماجی ڈھانچے کی لازمیت کو اجاگر کیا گیا ہے جو مستحق اداروں، اداروں کی حیثیت کو یقینی بنانے اور اداروں کی سرپرستی سے متعلق ہے تاکہ ہماری افرادی قوت اوسط اور اعلیٰ ہنرمندی کے حامل روزگاروں کے لائق بن سکے جہاں مصنوعی انٹیلی جینس ان کی کوششوں کو منظم بنا سکے نہ کہ انہیں روزگار سے محروم کردے۔ چونکہ ان اداروں کا قیام وقت کا متقاضی ہوگا، اور اس کے لیے بڑے پیمانے پر املاک دانشوراں اور مالی وسائل درکار ہوں گے، تب کہیں جاکر یہ ہدف حاصل ہو سکے گا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0026UJD.jpg

اقتصادی جائزے میں یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ چند ایسی چنوتیاں ہیں جنہیں اے آئی کے وضع کرنے والوں کے ذریعہ ان پر قابو حاصل کرنے کی ضرورت ہے، یعنی بڑے پیمانے پر اے آئی کو اپنانے سے پہلے ایسا کرنا ضروری ہوگا۔ ان میں سے سب سے پہلی بات عملی اور حقیقی بنیاد پر منحصر ہے اور وہ یہ کہ وہ بنیادی مسائل جنہیں وضع کرنے والوں کے ذریعہ حل کیا جانا ضروری ہے۔ دوسری بات اے آئی کو بڑے پیمانے پر متعارف کرانے کے لیے اہم بنیادی ڈھانچہ بھی درکار ہوگا جس کے لیے تعمیر کا وقت بھی درکار ہوگا اور آخر میں اے آئی ماڈل کو کارکردگی پر سمجھوتہ کیے بغیر اثرانگیزی کے فوائد پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔

اقتصادی جائزہ 2023-24 میں امتیازی طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ بھارت کے روزگار کی چنوتیاں محض تعداد کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ اپنی افرادی قوت کی مجموعی عمدگی سے بھی وابستہ ہیں۔ اس میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ مزدور اور تکنالوجی جب صحیح انداز میں توازن کے دائرے میں رہتے ہیں تو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ تاریخ بھی بتاتی ہے کہ ادارہ جاتی امداد کے دانش مندانہ ارتباط سے خودکار طریقہ کار نے روزگار کو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بیسویں صدی میں فروغ دیا تھا، اس پس منظر میں کام کا مستقبل منظم اے آئی کے گرد گھومتا ہے۔ جہاں افرادی قوت دونوں یعنی انسانی اور مشینی صلاحیتوں کو مربوط کرتی ہے۔ یہ طریقہ کار ایسا ہے جس کا مقصد انسانی مضمرات کو بڑھانا اور روزگار کی کارکردگی میں مجموعی اثرانگیزی میں اضافہ کرنا ہے جس کا حتمی مقصد پورے معاشرے کو فائدہ پہنچانا ہے۔ اس روشنی میں، اپنی نوجوان، فعال اورتکنالوجی کی  صلاحیت کی حامل آبادی کے مضمرات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کے پاس وہ مضمرات دستیاب  ہیں جن کے ذریعہ وہ ایک ایسی افرادی قوت کی تشکیل دے سکتا ہے جو اے آئی کا استعمال اپنے کام اور پیداواریت کو منظم بنانے کے لیے کر سکتی ہے۔

مذکورہ بالا پہلو مدنظر رکھتے ہوئے، اقتصادی جائزے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ پالیسی سازوں کو اختراع کے ساتھ ساتھ سماجی لاگتوں کے درمیان توازن قائم کرنا ہوگا کیونکہ اے آئی کے تابع جو تبدیلیاں ہوں گی ان کے نتیجے میں مضبوط پائیدار منڈی پر اثرات مرتب  ہو سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے کارپوریٹ شعبے کو ذمہ دارانہ انداز میں کام کرنا چاہئے۔ اے آئی کو بڑی حسیت کے ساتھ متعارف کرایا جانا چاہئے۔ بھارت کی ضروریات کے لحاظ سے اپنانا چاہئے، یہی بات اس جائزے میں کہی گئی ہے۔ اس میں یہ بات بھی تسلیم کی گئی ہے کہ اے آئی کے نتیجے میں چونکہ ابھی یہ اپنی اوائل عمر میں ہے، بھارت کے پاس کافی وقت ہے جس کا استعمال کرکے وہ ان چنوتیوں کا حل نکال سکتا ہے، اپنی بنیادوں کو مستحکم بنا سکتا ہے اور ایک ملک گیر ادارہ جاتی ردعمل کا ماحول سازگار بنا سکتا ہے۔ اس کے لیے نتیجہ کے طور پر یہی کہا جا سکتا ہے حکومت نجی شعبے اور شعبہ تعلیم کے مابین ایک اشتراکی کوشش ہر حال میں لازمی حیثیت رکھتی ہے۔

**********

 (ش ح –م ن - ا ب ن)

U.No:5856


(Release ID: 2098115) Visitor Counter : 9