وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

ہندوستان کا اسکولی تعلیمی  نظام کے تحت 14.72 لاکھ اسکولوں میں 24.8 کروڑ طلبہ کو98 لاکھ اساتذہ  کے ذریعے تعلیم دی جارہی ہے:اقتصادی جائزہ 25-2024


کمپیوٹرسے لیس اسکولوں کا فیصد20-2019 میں38.5 فیصد سے بڑھ کر2024-2023 میں57.2 فیصد ہو گیا:اقتصادی جائزہ

انٹرنیٹ کی سہولت والے اسکولوں کا فیصد20-2019 میں22.3 فیصد سے بڑھ کر2024-2023 میں53.9 فیصد ہو گیا

حالیہ برسوں میں ترک تعلیم کی شرح میں بتدریج کمی آئی ہے، جو پرائمری کی سطح میں1.9فیصد، اپر پرائمری سطح میں 5.2فیصد اور سیکنڈری سطح میں 14.1فیصد درج ہوئی ہے

ٹیکنالوجی(مصنوعی ذہانت) کا انضمام نظام تعلیم کے تیزی سے ترقی پذیر زاویوں پر توجہ دینے کے لیے ضروری

اعلیٰ تعلیمی اداروں(ایچ ای آئی ایس) کی مجموعی تعداد 15-2014 میں51,534 سے بڑھ کر23-2022 میں 58,643 ہوگئی ہے جو 13.8 فیصد اضافہ ہے

اقتصادی جائزے میں  جدت طرازی کو اُجاگر کیا گیا ہے ، جیسے مالی خواندگی اور عددی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے مشترکہ تدریس

Posted On: 31 JAN 2025 1:32PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر خزانہ اور کارپوریٹ امور محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 25-2024 پیش کیا۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ تعلیم اور انسانی سرمایے کی ترقی ملک کی ترقی کے بنیادی ستونوں میں شامل ہیں اور قومی تعلیمی پالیسی 2020 (این ای پی)اسی اصول پر بنائی گئی ہے۔

اسکولی تعلیم

جائزے میں اس بات  پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہندوستان کےاسکولی تعلیمی نظام کے تحت 14.72 لاکھ اسکولوں میں24.8 کروڑ طلبہ وطالبات کو98 لاکھ اساتذہ کے ذریعے تعلیم دی جارہی ہے(یوڈی آئی ایس سی+2023-24)۔مجموعی اسکولوں میں  سرکاری اسکولوں کا فیصد 69ہے، جن میں 50فیصد طلبہ و طالبات کا اندراج ہے اور 51فیصد اساتذہ مصروف عمل ہیں، جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کا فیصد22.5 ہے، جن میں 32.6فیصد طلبہ و طالبات  اور 38فیصد اساتذہ خدمت پر مامور ہیں۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ این ای پی 2020 کا مقصد 2030 تک 100فیصد مجموعی اندراج کا تناسب (جی ای آر) کا ہدف پورا کرنا ہے۔ جی ای آر پرائمری سطح میں(93فیصد) ہے، جو  عالمی تناسب کے قریب ہے اور سیکنڈری سطح کے تناسب(77.4فیصد)اورہائر سیکنڈری سطح کے تناسب (56.2فیصد)کے فرق کو ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں، جس سے  ملک سب کے لیے جامع اور مساوی تعلیم کے وژن کے قریب پہنچ رہا ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ حالیہ برسوں میں  ترک تعلیم کی شرح میں بتدریج کمی آئی ہے، جو پرائمری کی سطح میں1.9فیصد، اپر پرائمری سطح میں 5.2فیصد اور سکنڈ ری سطح میں14.1فیصد درج ہوئی ہے۔

بنیادی سہولیات، بشمول صفائی و ستھرائی اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز( آئی سی ٹی)کی دستیابی میں بہتری قابل ذکر ہے، جس سے اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مثبت رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔ یوڈی آئی ایس سی+2023-24کی رپورٹ کے مطابق، کمپیوٹر سے لیس اسکولوں کا فیصد20-2019 میں38.5 فیصد سے بڑھ کر 2024-2023 میں57.2 فیصدہو گیاہے۔اسی طرح انٹرنیٹ کی سہولت والے اسکولوں کا فیصد20-2019 میں22.3 فیصد سے بڑھ کر 2024-2023 میں53.9 فیصد ہو گیا۔

حکومت متعدد پروگراموں اور اسکیموں کے ذریعےاین ای پی2020 کے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے،جن میں سمگر شکشا ابھیان(اس کی ذیلی اسکیموں کے ساتھ جیسے نشٹھا، ودیہ پرویش، ضلعی تعلیمی اور تربیتی ادارے (ڈی آئی ای ٹیز)، کستوربا گاندھی بالیکا ودیالیہ (کے جی بی وی) وغیرہ)، دِکشا، اسٹارس، پرکھ، پی ایم شری، اُلاس اور پی ایم پوشن وغیرہ شامل ہیں ۔

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی بچپن کی نگہداشت اور تعلیم(ای سی سی ای)کے منظر نامے کو مستحکم کرنے کے واسطے، حکومت ہند نے اپریل2024 میں ای سی سی ای کا قومی نصاب، آدھارشیلا اور ابتدائی بچپن کی تحریکی اسکیم، نوچیتنا کا قومی فریم ورک جاری کیا تھا۔نوچیتنا میں  پیدائش سے 3 سال تک کی عمر کے بچوں کی ہمہ جہت ترقی  پر توجہ دی جاتی ہے، جس میں 36 ماہ کے ترغیبی کیلنڈر کے  دوران عمر کے لحاظ سے  140 مخصوص سرگرمیاں پیش کی جاتی ہیں۔ آدھارشیلا 3 سے 6 سال کی عمر کے بچوں کے لیے 130 سے ​​زیادہ سرگرمیوں کے ذریعے کھیل پر مبنی پڑھائی کو فروغ دیتی ہے، جو بچوں کی زیر قیادت اور معلم کی زیر قیادت پڑھائی کے لیے معاون ہے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001T52S.jpg

 

خواندگی اور عددی تعلیم کے ذریعے مضبوط بنیادسازی

قومی تعلیمی پالیسی 2020 میں یہ التزام کیا گیا ہے کہ فاؤنڈیشنل لٹریسی اینڈ نیومریسی (ایف ایل این)تعلیم اور زندگی بھر پڑھائی کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ اس سمت میں، اسکولی تعلیم اور خواندگی کے محکمے نے قومی مشن، ‘‘نیشنل انیشیٹو فار پرفیشینسی ان ریڈنگ ود انڈرسٹینڈنگ اینڈ نیومریسی (این آئی پی یو این بھارت) کا آغاز کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ سال 27-2026 تک ملک کا ہر بچہ لازمی طور پر درجہ3 کے اختتام تک ایف ایل این کا ہدف حاصل کر لے۔ تعلیمی نظام  میں اختراعی تدبیروں  اور تدریسی طریقوں کو اختیار کیا جارہا ہے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہر بچہ ایف ایل این کا ہدف حاصل کرلے۔جائزے میں ایسی ہی ایک اختراع کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی ایف ایل این  کا ہدف حاصل کرنے کی سمت میں  پیئر ٹیچنگ۔

دماغوں کی  بااختیاری:سماجی اور جذباتی پڑھائی کے ذریعے صلاحیت کو نکھارنا

جائزے میں کہا گیا ہے کہ این ای پی2020کے تحت ای سی سی ای کا مقصد بنیادی خواندگی اور سماجی- جذباتی ترقی حاصل کرنا ہے۔ یہ جائزے میں تعلیم کے لیے سماجی-جذباتی تعلیم(ایس ای ایل)کی اہمیت کا ذکر کیا گیا ہے،جس کی یہ  مثال  فراہم کی گئی ہے کہ اسکول کے نصاب میں سماجی-جذباتی-اخلاقی نشو ونما کو شامل کرنے کے لیے کس طرح تدریسی طریقہ تیار کیا جا سکتا ہے۔

اسکولوں میں ہنر کی تعلیم کی اہمیت انڈسٹری4.0 کی آمد کے ساتھ نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے، جو کہ آٹومیشن، مصنوعی ذہانت (اے آئی)، انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی)، بگ ڈیٹا اور روبوٹکس کے ذریعے نمایاں انتہائی متحرک اور مہارت سے بھرپور دور ہے۔

خلا کو پر کرنا: تعلیم میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل خواندگی کی لازمیت

ڈیجیٹل خواندگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ طلبہ و طالبات ڈیجیٹل معلومات کا تجزیہ کرنے، ترکیب کرنے اور ابلاغ کرنے جیسی مہارتوں میں ماسٹری حاصل کرکے ہنرمند بنیں۔ تکنیکی تبدیلی کی تیز رفتاری کا تقاضہ ہے کہ ماہرین تعلیم نئے ڈیجیٹل رجحانات اور تدریسی طریقوں کے بارے میں اپ ٹو ڈیٹ رہیں ۔ اساتذہ کی صلاحیتوں کوبہتر کرنے اور انہیں21ویں صدی کے تقاضوں کے لیے تیار کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے ضمن میں، حکومت نے ٹیچر ایپ کا آغاز کیا ہے، جو ایک جدید ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہے۔

جائزے میں  کہا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی شمولیت سے مؤثر کفایتی حل پیش ہوتا ہے، جس سے معیاری تعلیم زیادہ قابل رسائی اور وسیع تر آبادی کے لیے جامع انداز میں پیش ہوتی ہے۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے، ٹیکنالوجی کے انضمام کو تین اہم شعبوں پر مرکوز کیا جا سکتا ہے: اساتذہ کی ترقی اور طلبہ کی تدریس کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال، صنعتوں کی متعلقہ مہارتوں اورسرٹیفیکیشن کی پیشکش اور ذاتی نوعیت سے پڑھائی کا سافٹ ویئر بنانا۔

اقتصادی جائزے25-2024 میں کہا گیا ہے کہ مہارت، تحقیق، اختراعی ماحولیاتی نظام، حکومت-تعلیمی شراکت داری اور فیکلٹی کی ترقی میں سرمایہ کاری مؤثر طریقے سے تعلیمی خدمات کی فراہمی اور پڑھائی کے نتائج کو بہتر بنانے کے لیے اہم ہے۔

خصوصی ضروریات والے بچے (سی  ڈبلیو ایس این): شمولیت کی ثقافت کا فروغ

سمگر شکشا کے تحت، امدادی مواد اور آلات، معاون آلات، الاؤنسز، بریل مواد اور بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی سمیت معالجاتی مداخلتوں  کے ذریعے سی ڈبلیو ایس این کی مدد کے لیےخصوصی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے تحت11.35 لاکھ اسکولوں میں ریمپ،7.7 لاکھ اسکولوں  میں ہینڈریل اور 5.1 لاکھ اسکولوں میں قابل رسائی بیت الخلاء کی تعمیر شامل ہے۔

اعلیٰ تعلیم

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان کا اعلیٰ تعلیمی نظام عالمی سطح پر سب سے بڑےنظاموں میں شامل ہے،22-2021 میں 4.33 کروڑ طلبہ و طالبات نے داخلہ لیا، جو کہ15-2014 میں اندراج شدہ 3.42 کروڑ سے 26.5 فیصد زیادہ ہے۔ اسی مدت (15-2014 سے 22-2021)کے دوران23-18 عمر کے زمرے میں جی ای آر بھی 23.7فیصد سے بڑھ کر 28.4فیصد ہو گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں2035 تک جی ای آر کو 50 فیصد تک بڑھانے کے حکومت کے ہدف کو حاصل کرنے کے واسطے تعلیمی نیٹ ورک اور انفراسٹرکچر کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے۔

جائزے میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی  ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران، اعلیٰ تعلیمی ماحولیاتی نظام میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔جائزے میں مزید کہا گیا کہ مجموعی اعلیٰ تعلیمی ادارے(ایچ ای آئی) 13.8 فیصد بڑھے ہیں، جو کہ 15-2014 میں 51,534 سے بڑھ کر 23-2022 میں 58,643 ہو گئے ہیں۔

 

 

2014

2023

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی

16

23

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ

13

20

یونیورسٹیاں

723

2024 میں 1213

میڈیکل کالجز

14-2013 میں 387

25-2024 میں 780

 

2040 تک، تمام اعلیٰ تعلیمی ادارے ملٹی ڈسپلنری ادارے بن جائیں گے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے واسطے کئے جانے والے اقدامات میں شاندارعوامی تعلیم کے زیادہ مواقع؛ پسماندہ اورمحروم طبقوں کے طلبہ کے لیےپرائیویٹ/خیراتی یونیورسٹیوں کے وظائف؛ آن لائن تعلیم اور اوپن ڈسٹنس لرننگ (او ڈی ایل) اور تمام بنیادی ڈھانچہ اور پڑھائی کے مواد کو معذور طلبہ کے لیے قابل رسائی اور دستیابی شامل ہیں۔ اقتصادی جائزے 25-2024 میں کہا گیا ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی‘ہندوستان کو علم کا عالمی  سپر پاور’ بنانے کا التزام کرتی ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ این ای پی2020 کے مؤثر نفاذ کے لیے مرکز، ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں اور ریگولیٹری اداروں کے درمیان تال میل کی ضرورت ہے۔

 

********

ش ح۔ م ش ع ۔ن ع

U-5838


(Release ID: 2098001) Visitor Counter : 10