وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

کھجوراہو، مدھیہ پردیش میں کین-بیتوا ندی جوڑو قومی پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 25 DEC 2024 4:02PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے،

بھارت ماتا کی جے،

ویروں کی دھرتی، ای بندیل کھنڈ پے رے وے وارے سبئی جنن کھوں ہمائی طرف سے ہاتھ جور کیں رام رام پوچے۔ مدھیہ پردیش کے گورنر جناب منگو بھائی پٹیل، محنتی وزیر اعلیٰ بھائی موہن یادو جی، مرکزی وزیر بھائی شیوراج سنگھ جی، وریندر کمار جی، سی آر پاٹل جی، نائب وزیر اعلیٰ جگدیش دیوڑا جی، راجندر شکلا جی، دیگر وزراء، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، دیگر تمام معززین، معزز سنتوں اور مدھیہ پردیش کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

آج پوری دنیا میں کرسمس کی دھوم ہے۔ میں ملک اور دنیا بھر میں موجود عیسائی برادری کو کرسمس کی ڈھیر ساری مبارکباد دیتا ہوں۔ موہن یادو جی کی رہنمائی میں بنی بھاجپا حکومت کا ایک سال مکمل ہوا ہے۔ مدھیہ پردیش کے لوگوں کو، بھاجپا کے کارکنان کو میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ اس ایک سال میں مدھیہ پردیش میں ترقی کو ایک نئی رفتار حاصل ہوئی ہے۔ آج بھی یہاں ہزاروں کروڑ روپیوں کے ترقیاتی پروجیکٹوں کی شروعات ہوئی ہے۔ آج تاریخی کین بیتوا جوڑو پروجیکٹ کا دودھن باندھ کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے۔ اومکاریشور فلوٹنگ شمسی پلانٹ، اس کا بھی افتتاح ہوا ہے اور مدھیہ پردیش کا اولین تیرتا ہوا پلانٹ ہے۔ میں ان پروجیکٹوں کے لیے مدھیہ پردیش کے لوگوں کو ڈھیر ساری مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

آج ہم سبھی کے لیے حوصلہ افزائی کا دن ہے۔ آج محترم اٹل جی کا یوم پیدائش ہے۔ آج بھارت رتن اٹل جی کی پیدائش کے 100 برس مکمل ہو رہے ہیں۔ اٹل جی کا یوم پیدائش اچھی حکمرانی کی ، اچھی خدمت کی ہماری ترغیب کا بھی تیوہار ہے۔ کچھ دیر قبل جب میں اٹل جی کی یاد میں ڈاک ٹکٹ اور یادگاری سکہ جاری کر رہ اتھا، تو متعدد پرانی باتیں من میں چل رہی تھیں۔ کئی برسوں تک انہوں نے مجھ جیسے متعدد کاریہ کرتاؤں کو سکھایا ہے، اخلاقی باتیں بتائی ہیں۔ ملک کی ترقی میں اٹل جی کا تعاون ہمیشہ ہمارے ذہن  میں موجود رہے گا۔ مدھیہ پردیش میں 1100 سے زائد اٹل گرام سیوا سدن کی تعمیر کا کام آج سے شروع ہو رہا ہے، اس کے لیے پہلی قسط بھی جاری کی گئی ہے۔ اٹل گرام سیوا سدن مواضعات کی ترقی کو نئی رفتار عطا کریں گے۔

ساتھیو،

ہمارے لیے سوشاسن دیوس محض ایک دن کا پروگرام نہیں ہے۔ اچھی حکمرانی، بھاجپا حکومتوں کی شناخ ہے۔ ملک کے عوام نے مسلسل تیسری مرتبہ مرکز میں بھاجپا کی سرکار بنائی ہے۔ مدھیہ پردیش میں آپ سبھی، مسلسل بھاجپا کو منتخب کر رہے ہیں، اس کے پس پشت اچھی حکمرانی کا بھروسہ ہی مضبوطی کے ساتھ کارفرما ہے۔ اور میں تو جو دانشور حضرات ہیں، جو لکھا پڑھی جائزہ لینے میں ماہر ہیں۔ ایسے ملک کے معزز افراد سے گذارش کروں گا کہ جب آزادی کے 75 برس مکمل ہو چکے ہیں تو ایک مرتبہ جائزہ لیا جائے۔ ایک 100-200 ترقی کے ، عوامی فلاح و بہبود کے، اچھی حکمرانی کے معیارات نکالے جائیں اور پھر ذرا حساب لگائیں کہ کانگریس کی حکومتیں جہاں ہوتی ہیں وہاں کیا کام ہوتا ہے، کیا نتیجہ ہوتا ہے۔ جہاں بائی بازو والوں نے سرکار چلائی، کمیونسٹوں نے سرکار چلائی، وہاں کیا ہوا۔ جہاں کنبہ پرست جماعتوں نے سرکار چلائی، وہاں کیا ہوا۔ جہاں ملی جلی سرکاریں چلیں وہاں کیا ہوا اور جہاں جہاں بھاجپا کو سرکار چلانے کا موقع ملا، وہاں کیا ہوا۔

میں دعوے سے کہتا ہوں، ملک میں جب جب بھاجپا کو جہاں جہاں بھی خدمت کرنے کا موقع ملا ہے، ہم نے پرانے سارے ریکارڈ توڑ کر عوامی فلاح و بہبود کے، اور ترقی کے کاموں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ طے شدہ معیارات پر تجزیہ کیا جائے، ملک دیکھے گا کہ ہم عوام الناس کے تئیں کتنی لگن سے کام کررہے ہیں۔ آزادی کے دیوانوں نے جو خواب دیکھے تھے، ان خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہم دن رات پسینہ بہاتے ہیں۔ جنہوں نے ملک کے لیے خون بہایا، ان کا لہو رائیگاں نہ جائے ہم اپنے پسینے سے ان کے خوابوں کو سینچ رہے ہیں۔ اور اچھی حکمرانی کے لیے اچھی اسکیموں کے ساتھ ہی انہیں اچھی طرح نافذ کرنا بھی ضروری ہے۔سرکاری اسکیموں کا فائدہ کتنا پہنچا، یہ اچھی حکمرانی کا پیمانہ ہوتا ہے۔ ماضی میں کانگریس حکومتیں اعلانات کرنے میں ماہر ہوا کرتی تھیں۔ اعلانات کرنا، فیتہ کاٹنا، دیپ جلانا، اخبار میں تصویر شائع کرا دینا، ان کا کام وہیں مکمل ہو جاتا تھا۔ اور اس کا فائدہ کبھی بھی لوگوں کو نہیں مل پاتا تھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد میں ترقی کے پروگراموں کے تجزیے میں پرانے پروجیکٹ دیکھتا ہوں۔ میں تو حیران ہوں 35-35، 40-40 سال  پہلے جن کا سنگ بنیاد رکھا گیا، بعد میں وہاں ایک انچ بھی کام نہیں ہوا۔ کانگریس کی حکومتوں کی نہ تو نیت تھی اور نہ ہی وہ اسکیموں کو نافذ کرنے کے بارے میں سنجیدہ تھے۔

آج ہم پی ایم کسان سمان ندھی جیسی اسکیم کا فائدہ دیکھ رے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے کاشتکاروں کو کسان سمان ندھی کے 12 ہزار روپے مل رہے ہیں۔ یہ بھی تبھی ممکن ہوا، جب جن دھن بینک کھاتے کھلے۔ یہاں ایم پی میں ہی لاڈلی بہنا اسکیم ہے۔ اگر ہم بہنوں کے بینک کھاتے نہ کھلواتے، ان کو آدھار اور موبائل سے نہ جوڑتے، تو کیا یہ اسکیم نافذ ہو پاتی؟ سستے راشن کی اسکیم تو پہلے سے بھی چلتی تھی، لیکن غریب کو راشن کے لیے بھٹکنا پڑتا تھا۔ اب آج دیکھئے، غریب کو مفت راشن مل رہا ہے، پوری شفافیت سے مل رہا ہے۔ یہ تبھی ہوا، جب تکنالوجی لانے کی وجہ سے فرضی واڑا بند ہوا۔ جب ایک ملک، ایک راشن کارڈ  جیسی ملک گیر سہولت لوگوں کو حاصل ہوئیں۔

ساتھیو،

اچھی شہر کا مفہوم یہ ہے کہ شہری کو اپنے حقوق کے لیے حکومت تک پہنچنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے اور نہ ہی اسے سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑیں۔ اور 100فیصد فائدہ اٹھانے والوں کو 100فیصد فوائد سے جوڑنے کے لیے یہ ہماری سیچریشن کی پالیسی ہے۔ گڈ گورننس کا یہ منتر بی جے پی حکومتوں کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ آج پورا ملک یہ دیکھ رہا ہے، اسی لیے وہ بار بار بی جے پی کو چن رہا ہے۔

ساتھیو،

جہاں اچھی حکمرانی ہو وہاں نہ صرف موجودہ چنوتیوں بلکہ مستقبل کے چنوتیوں پر بھی کام کیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں طویل عرصے تک کانگریس کی حکومتیں رہیں۔ کانگریس حکومت پر اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے لیکن گورننس کا اس سے چھتیس کا ناطہ رہا ہے۔ جہاں کانگریس ہے وہاں حکمرانی نہیں ہو سکتی۔ بندیل کھنڈ کے لوگوں نے بھی کئی دہائیوں تک اس کا خمیازہ بھگتا ہے۔ نسل در نسل یہاں کے کاشتکاروں اور ماؤں بہنوں نے پانی کی ایک ایک بوند کے لیے جدوجہد کی ہے۔ یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی؟ کیونکہ کانگریس نے پانی کے بحران کے مستقل حل کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔

ساتھیو،

بھارت کے لیے ندی کا پانی کیا اہمیت رکھتا ہے، اس کو سمجھنے والے پہلے لوگوں میں اور آپ کو بھی جب بتاؤں تو حیرت ہوگی، یہاں کسی کوبھی پوچھ لیجئے، بھارت میں کسی کو پوچھ لیجئے، ملک آزاد ہونے کے بعد سب سے پہلے جل شکتی،  پانی کی طاقت، پانی کے لیے بصیرت پر مبنی منصوبہ بندی، اس کے بارے میں کس نے سوچا تھا؟ کس نے کام کیا تھا؟ یہاں میرے ساتھی صحافی بھی جواب نہیں دے پائیں گے۔ کیوں، جو حقیقت ہے اس کو دبا کر رکھا گیا، اسے چھپاکر رکھا گیا اور ایک ہی شخص کو کریڈٹ دینے کے نشے میں حقیقی خادم کو فراموش کر دیا گیا۔ اور آج میں بتاتا ہوں ملک آزاد ہونے کے بعد بھارت کی جل شکتی، بھارت کے آبی وسائل، بھارت میں پانی کے لیے باندھوں   کی تعمیر، ان سب کی  دور اندیشی کسی ایک مہاپروش کو کریڈٹ جاتی ہے، تو اس مہاپروش کا نام ہے بابا صاحب امبیڈکر۔ بھارت میں جو بڑے ندی گھاٹی پروجیکٹس بنے، ان پروجیکٹوں کے پس پشت ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا ہی وژن کارفرما تھا۔ آج جو مرکزی آبی کمیشن ہے، اس کے پس پشت بھی ڈاکٹر امبیڈکر کی ہی کوششیں کارفرما تھیں۔ تاہم کانگریس نے کبھی آبی تحفظ سے متعلق کوششوں کے لیے، بڑے باندھوں کے لیے بابا صاحب کو کریڈٹ نہیں دیا، کسی کو پتہ تک چلنے نہیں دیا۔ کانگریس اس کے تئیں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہی۔  آج سات دہائی بعد بھی ملک کی مختلف ریاستوں کے درمیان پانی کو لے کر کچھ نہ کچھ تنازعہ ہے۔ جب پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک، کانگریس کی ہی حکومت تھی،تب یہ تنازعات آسانی سے حل ہو سکتے تھے۔ لیکن کانگریس کی نیت خراب تھی، اس  لیے اس نے کبھی بھی ٹھوس کوششیں نہیں کیں۔

ساتھیو،

جب ملک میں اٹل جی کی حکومت بنی تو انہوں نے پانی سے متعلق چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کرنا شروع کیا۔ لیکن 2004 کے بعد، ان کی کوششوں کو بھی جیسے ہی اٹل جی کی سرکار گئی، وہ ساری اسکیموں، سارے خوابوں کو، کانگریس والوں نے آتے ہی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ اب آج ہماری حکومت ملک بھر میں دنیوں کو جوڑنے کی مہم کو رفتار دے رہی ہے۔ کین-بیتوا لنک پوجیکٹ کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے۔ کین – بیتوا لنک پروجیکٹ سے بندیل کھنڈ علاقے میں خوشحالی کے نئے دروازے کھلیں گے۔ چھترپور، ٹیکم گڑھ، نواڑی، پنّا، دموہ اور ساگر سمیت مدھیہ پردیش کے 10 اضلاع کو سینچائی سہولت کا فائدہ حاصل ہوگا۔ ابھی میں منچ پر آرہا تھا۔ مجھے یہاں الگ الگ اضلاع کے کاشتکاروں سے ملاقات کا موقع حاصل ہوا، میں ان کی خوشی دیکھ رہا تھا۔ ان کے چہروں پر شادمانی دیکھ رہا تھا۔ ان کو لگتا تھا کہ ہماری آنے والی پیڑھیوں کی زندگی سنور گئی ہے۔

ساتھیو،

اترپردیش میں جو بندیل کھنڈ کا حصہ ہے، اس کے بھی باندا، مہوبا، للت پور اور جھانسی جیسے اضلاع کو فائدہ ہونے والا ہے۔

ساتھیو،

مدھیہ پردیش ملک کی پہلی ریاست بن گئی ہے، جہاں دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کی بڑی مہم کے تحت دو پروجیکٹ شروع کیے گئے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں راجستھان میں تھا، موہن جی نے تفصیل سے بتایا۔ پاروتی-کالیسندھ-چمبل اور کین-بیتوا لنک پروجیکٹوں کے ذریعے وہاں بہت سی ندیوں کو جوڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس معاہدے سے مدھیہ پردیش کو بھی بڑا فائدہ ہونے والا ہے۔

ساتھیو،

اکیسویں صدی کی سب سے بڑی چنوتیوں میں سے ایک پانی کی حفاظت ہے۔ 21ویں صدی میں صرف وہی ملک اور وہ خطہ ترقی کر سکے گا جس کے پاس وافر پانی اور پانی کا مناسب انتظام ہو۔ جب پانی ہو گا تب ہی کھیت اور کھلیان خوشحال ہوں گے، جب پانی ہو گا تو صنعتیں اور کاروبار پھلے پھولیں گے، اور میں تو گجرات سے آیا ہوں، جہاں بیشترحصوں میں سال بھر خشک سالی رہتی تھی۔ لیکن مدھیہ پردیش سے نکلی ماں نرمدا کے آشیرواد نے گجرات کی تقدیر بدل دی۔ میں ایم پی کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو پانی کے بحران سے نجات دلانا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ اسی لیے میں نے بندیل کھنڈ کی بہنوں، یہاں کے کسانوں سے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کروں گا۔ اسی سوچ کے تحت ہم نے بندیل کھنڈ میں پانی سے متعلق تقریباً 45 ہزار کروڑ روپے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہم نے مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کی بی جے پی حکومتوں کی مسلسل حوصلہ افزائی کی۔ اور آج کین بیتوا لنک پروجیکٹ کے تحت داؤدھن ڈیم کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ اس ڈیم سے سینکڑوں کلومیٹر طویل نہر نکلے گی۔ ڈیم کا پانی تقریباً 11 لاکھ ہیکٹر اراضی تک پہنچے گا۔

ساتھیو،

گزشتہ دہائی کو بھارت کی تاریخ میں آبی تحفظ اور پانی کے تحفظ کی ایک بے مثال دہائی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں پانی سے متعلق ذمہ داریاں مختلف محکموں میں تقسیم تھیں۔ ہم نے اس کے لیے جل شکتی کی وزارت بنائی۔ پہلی مرتبہ ہر گھر میں نل کا پانی فراہم کرنے کے لیے قومی مشن کا آغاز کیا گیا۔ آزادی کے بعد سات دہائیوں میں صرف 3 کروڑ دیہی گھرانوں کے پاس نل کے پانی کے کنکشن تھے۔ پچھلے 5 سالوں میں ہم نے 12 کروڑ نئے خاندانوں کو نل کا پانی فراہم کیا ہے۔ اس اسکیم پر اب تک 3.5 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہو چکے ہیں۔ جل جیون مشن کا ایک اور پہلو بھی ہے جس پر زیادہ بحث نہیں کی گئی۔ یعنی پانی کے معیار کو جانچنا۔ پینے کے پانی کی جانچ کے لیے ملک بھر میں 2100 واٹر کوالٹی لیبز قائم کی گئی ہیں۔ دیہات کی 25 لاکھ خواتین کو پانی کی جانچ کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے ہزاروں دیہات زہریلا پانی پینے کی مجبوری سے آزاد ہو چکے ہیں۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچوں اور لوگوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے کتنا کام کیا گیا ہے۔

ساتھیو،

2014 سے پہلے ملک میں ایسی 100 کے قریب بڑے سینچائی منصوبے تھے، جو کئی دہائیوں سے نامکمل پڑے تھے۔ ہم ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرکے ان پرانے سینچائی پروجیکٹوں کو مکمل کرا رہے ہیں۔ ہم سینچائی کے جدید طور طریقوں کا بھی استعمال بڑھا رہے ہیں۔ گذشتہ 10 برسوں میں تقریباً ایک کروڑ ہیکٹیئر اراضی کو مائیکرو سینچائی کی سہولت سے مربوط کیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں بھی گذشتہ 10 برسوں میں تقریباً 5 لاکھ ہیکٹیئر اراضی مائیکرو سینچائی سے مربوط ہے۔ قطرہ قطرہ پانی کا صحیح استعمال ہو اس سلسلے میں مسلسل کام ہو رہا ہے۔ آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر، ہر ضلع میں 75 امرت سرووَر بنانے کی مہم بھی چلائی   گئی۔ اس کے تحت ملک بھر میں 60 ہزار سے زائد امرت سرووَر بنائے گئے۔ ہم نے ملک بھر میں جل شکتی ابھیان: کیچ دی رین بھی شروع کیا ہے۔ آج ملک بھر میں 3 لاکھ سے زائد ریچارج ویل بن رہے ہیں۔ اور بڑی بات یہ ہے کہ ان مہمات کی قیادت عوام الناس خود کر رہے ہیں، شہر ہو یا گاؤں، ہر علاقے کے افراد ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش سمیت جن ریاستوں میں زمینی پانی سطح سے کم تھا، وہاں اٹل بھوجل یوجنا چلائی جا رہی ہے۔

ساتھیو،

ہمارا مدھیہ پردیش سیاحت کے معاملے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ اور میں کھجوراہو آیا ہوں اور کیا یہ ممکن ہے کہ سیاحت پر بات نہ ہو؟ سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جو نوجوانوں کو روزگار فراہم کرتا ہے اور ملکی معیشت کو بھی مضبوط کرتا ہے۔ اب جبکہ بھارت دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی طاقت بننے جا رہا ہے، دنیا میں بھارت کے بارے میں تجسس بڑھ گیا ہے۔ آج دنیا ہندوستان کو جاننا اور سمجھنا چاہتی ہے۔ اس سے مدھیہ پردیش کو کافی فائدہ ہونے والا ہے۔ حال ہی میں ایک امریکی اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ آپ نے اسے مدھیہ پردیش کے اخبارات میں بھی دیکھا ہوگا۔ اس امریکی اخبار میں شائع ہونے والی خبر میں لکھا گیا ہے کہ مدھیہ پردیش کو دنیا کے دس پرکشش سیاحتی مقامات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ میرا مدھیہ پردیش دنیا کے ٹاپ 10 میں سے ایک ہے۔ بتاؤ کیا مدھیہ پردیش کا ہر باشندہ خوش ہوگا یا نہیں؟ تمہارے فخر میں اضافہ ہوگا یا نہیں؟ آپ کی عزت بڑھے گی یا نہیں؟ آپ کے یہاں سیاحت بڑھے گی یا نہیں؟ غریب سے غریب کو روزگار ملے گا یا نہیں؟

ساتھیو،

مرکزی حکومت بھی ہندوستان اور بیرون ملک سے آنے والے تمام سیاحوں کے لیے سہولیات کو بڑھانے اور یہاں سفر کرنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ ہم نے غیر ملکی سیاحوں کے لیے ای ویزا جیسی اسکیمیں بنائی ہیں۔ ہندوستان میں ورثہ اور جنگلی حیات کی سیاحت کو وسعت دی جارہی ہے۔ یہاں مدھیہ پردیش میں اس کے بے مثال امکانات ہیں۔ کھجوراہو کے اس علاقے کو ہی دیکھ لیں، یہاں تاریخ اور ایمان کے انمول ورثے موجود ہیں۔ کنڈیریا مہادیو، لکشمن مندر، چوسٹھ یوگنی مندر عقیدے کے بہت سے مقامات ہیں۔ ہم نے ہندوستانی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے ملک بھر میں جی-20 اجلاس منعقد کیے تھے۔ یہاں کھجوراہو میں بھی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس کے لیے کھجوراہو میں ایک جدید ترین بین الاقوامی کانفرنس سینٹر بھی بنایا گیا۔

ساتھیو،

مرکزی حکومت کی سودیش درشن اسکیم کے تحت مدھیہ پردیش کو کروڑوں روپے کی امداد دی گئی ہے۔ تاکہ یہاں ایکو ٹورزم کی سہولیات اور سیاحوں کے لیے نئی سہولیات پیدا کی جا سکیں۔ آج سانچی اور دیگر بدھ مقامات کو بدھ سرکٹ سے جوڑا جا رہا ہے۔ گاندھی ساگر، اومکارشور ڈیم، اندرا ساگر ڈیم، بھیڈا گھاٹ، بنساگر ڈیم، یہ ایکو سرکٹ کا حصہ ہیں۔ کھجوراہو، گوالیار، اورچھا، چندری، منڈو، ایسی جگہوں کو ہیریٹیج سرکٹ کے طور پر جوڑا جا رہا ہے۔ پنا نیشنل پارک کو وائلڈ لائف سرکٹ سے بھی جوڑا گیا ہے۔ پچھلے سال صرف پنا ٹائیگر ریزرو میں تقریباً 2.5 لاکھ سیاح آئے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں بننے والی لنک کینال میں پنا ٹائیگر ریزرو کے جانوروں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔

ساتھیو،

سیاحت کو فروغ دینے کی یہ تمام کوششیں مقامی معیشت کو بڑا فروغ دیتی ہیں۔ آنے والے سیاح بھی یہاں سے سامان خریدتے ہیں۔ یہاں آٹوز، ٹیکسیوں سے لے کر ہوٹلوں، ڈھابوں، ہوم اسٹے، گیسٹ ہاؤس تک سبھی مستفید ہوتے ہیں۔ کسانوں کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ انہیں دودھ، دہی سے لے کر پھلوں، سبزیوں تک ہر چیز کی اچھی قیمت ملتی ہے۔

ساتھیو،

گذشتہ دو دہائیوں میں مدھیہ پردیش نے متعدد پیمانوں پر بہترین کام کیا ہے۔ آنے والی دہائیوں میں مدھیہ پردیش ملک کی اعلیٰ معیشتوں میں سے ایک ہو گا۔ بندیل کھنڈ اس میں بڑا رول ادا کرے گا۔ ترقی یافتہ بھارت کے لیے ترقی یافتہ مدھیہ پردیش بنانے میں بندیل کھنڈ کا کردار اہم ہوگا۔ میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ ڈبل انجن والی حکومت اس کے لیے مخلصانہ کوششیں کرتی رہے گی۔ ایک بار پھر، آپ سب کے لیے بہت سی نیک خواہشات۔ یہ آج کا پروگرام ہے نا، اتنا بڑا پروگرام، میں اس پروگرام کا مطلب سمجھتا ہوں۔ میں اتنی بڑی تعداد میں ماؤں بہنوں کے آنے کا مطلب سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ پانی سے متعلق کام ہے اور پانی کا تعلق ہر زندگی سے ہے اور یہ آشیرواد دینے کے لیے لوگ آئے ہیں نا، اس کی بنیادی وجہ پانی ہے، ہم پانی کے لیے کام کر رہے ہیں اور آپ کے آشیرواد سے یہ کام کرتے رہیں گے، میرے ساتھ بولیے-

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

**********

 (ش ح –ا ب ن)

U.No:4560


(Release ID: 2087906) Visitor Counter : 12