وزیراعظم کا دفتر

راجیہ سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطبے پر شکریہ کی تحریک پر وزیر اعظم کے جواب کا متن

Posted On: 03 JUL 2024 5:46PM by PIB Delhi

 عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں بھی صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک کے لیے اس بحث میں شامل ہوا ہوں۔ صدر جمہوریہ کے خطاب میں ہم وطنوں کے لیے حوصلہ افزائی بھی تھی، تحریک بھی تھی اور ایک طرح سے سچائی کی راہ بھی دکھائی گئی۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

گذشتہ ڈھائی دنوں میں تقریباً 70 معزز ارکانِ پارلیمنٹ نے اس بحث میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ سبھی معزز ارکانِ پارلیمنٹ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس بحث کو جامع بنانے کے لیے صدر جمہوریہ کے خطاب کی تشریح میں اپنا کردار ادا کیا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

بھارت کی آزادی کی تاریخ میں ہمارے پارلیمانی جمہوری سفر میں کئی دہائیوں کے بعد ملک کے عوام نے ایک حکومت کو تیسری بار ملک کی خدمت کرنے کا موقع دیا ہے۔ 60 سال بعد ایسا ہوا ہے کہ دس سال بعد ایک بار پھر ایک حکومت اقتدار میں آئی ہے۔ اور میں جانتا ہوں کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو بھارتی جمہوریت کی چھ دہائیوں کے بعد آیا ہے۔ اور کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر ان سے منھ موڑ لیا اور وہیں بیٹھ گئے، کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آئی اور سمجھنے والوں نے اس سمت میں شور مچایا تاکہ ملک کے عوام کی اس دانشمندی پر ملک کے عوام کے اس اہم فیصلے کا پردہ فاش ہو سکے، اسے بلیک آؤٹ کیسے کیا جائے۔ لیکن میں گذشتہ دو دنوں سے دیکھ رہا ہوں کہ آخر تک شکست بھی قبول کی جا رہی ہے اور جیت کو بھی دبے من سے قبول کیا جا رہا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں کانگریس کے اپنے کچھ ساتھیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ جب سے یہ نتائج آئے ہیں، میں اپنے ایک ساتھی کی طرف سے دیکھ رہا تھا کہ ان کی پارٹی ان کی حمایت تو نہیں کر رہی ہے لیکن وہ جھنڈا لے کر اکیلے دوڑ رہے تھے۔ اور میں کہتا ہوں کہ وہ جو لوگ کہتے تھے ان کے منھ میں گھی شکر ۔ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیوں کہ وہ بار بار ایک تہائی حکومت کا ڈھول بجاتے رہے۔ اس سے بڑی سچائی کیا ہو سکتی ہے؟ کہ ہمیں دس سال ہو چکے ہیں اور مزید بیس سال باقی ہیں۔ ایک تہائی کام ہو چکا ہے، ایک تہائی ہو چکا ہے، دو تہائی کام باقی رہ گیا ہے۔ چناں چہ ان کی اس پیشگوئی کے لیے میں نے ان کے منھ میں گھی شکر ڈالتا ہوں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ملک کے عوام نے دس سال تک کیے گئے بے لوث کام کی دل کھول کر حمایت کی ہے ۔ ملک کے لوگوں نے آشیرباد دیا ہے۔ عزت مآب چیئرمین صاحب، اس الیکشن میں ہمیں ہم وطنوں کی دانشمندی پر فخر ہے، کیوں کہ انھوں نے پروپیگنڈے کو شکست دی ہے۔ ملک کے عوام نے کارکردگی کو ترجیح دی ہے۔ ہم وطنوں نے الجھن کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے اور اعتماد کی سیاست پر فتح کی مہر لگا دی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم آئین کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ اسٹیج بھی اس ایوان کے لیے خاص ہے۔ کیوں کہ اسے بھی 75 سال ہو چکے ہیں اور اس لیے یہ ایک خوشگوار اتفاق ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اس ملک کی عوامی زندگی میں میرے جیسے بہت سے لوگ ہیں، جن کی فیملی میں گاؤں کا کوئِ سرپنچ تک نہیں رہا، یہاں تک کہ گاؤں کا پردھان بھی نہیں رہا۔ سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ لیکن آج وہ کئی اہم عہدوں پر پہنچ کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعے دیے گئے آئین نے ہم جیسے لوگوں کو موقع دیا ہے۔ اور میرے جیسے بہت سے لوگ ہیں جنھیں بابا صاحب امبیڈکر کے ذریعے دیے گئے آئین کی وجہ سے یہاں آنے کا موقع ملا ہے۔ اور عوام نے اس پر مہر لگائی ہے، مجھے تیسری بار آنے کا موقع ملا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہمارے لیے آئین صرف دفعات کا مجموعہ نہیں ہے۔ ان کی روح اور ان کے الفاظ بھی ہمارے لیے بہت قیمتی ہیں۔ اور ہمارا ماننا ہے کہ کسی بھی حکومت کے لیے، کسی بھی حکومت کی پالیسی سازی اور سرگرمیوں میں، ہمارا آئین ایک لائٹ ہاؤس کا کام کرتا ہے، ہماری رہ نمائی کرتا ہے، ہماری راہ دکھاتاہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

مجھے یاد ہے جب لوک سبھا میں ہماری حکومت نے مجھ سے کہا گیاکہ ہم 26 نومبر کو یوم دستور کے طور پر منائیں گے۔ تو ذا میں حیران ہوں کہ جو لوگ آئین کی کاپی لے کر کودتے رہتے ہیں اور دنیا میں لہراتے رہتے ہیں، ان لوگوں نے احتجاج کیا تھا کہ آج 26 جنوری ہے، تو پھر یوم دستور کیوں لایا جائے اور آج یوم دستور کے ذریعے ملک کے اسکولوں اور کالجوں میں آئین کی روح پھونک دی گئی ہے۔ آئین کی تشکیل میں کیا کردار رہا ہے، کن وجوہات کی بنا پر ملک کی ممتاز شخصیات نے آئین کی تشکیل میں کچھ چیزیں چھوڑنے کا فیصلہ کیا، کن وجوہات کی بنا پر انھوں نے کچھ چیزوں کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا، ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے، مضامین کے مقابلے، مباحثے کے اجلاس ہونے چاہئیں، آئین پر اعتماد کا احساس جامع انداز میں پیدا ہونا چاہیے اور آئین کے تئیں تفہیم پیدا کی جانی چاہیے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آئین ہم وطنوں کے لیے ہماری سب سے بڑی ترغیب ہو۔ اور اب جب کہ ہم آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہے ہیں، تو ہم نے اسے ملک بھر میں ایک بڑے تہوار کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔اور اس سے ملک کو آئین کی روح اور آئین کے پیچھے کے مقصد سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ملک کے عوام نے ہمیں تیسری بار موقع دیا ہے۔ ملک کے کروڑوں لوگوں نے ہمیں ترقی یافتہ بھارت، خود کفیل بھارت کے اس سفر کو مضبوط کرنے اور اس عزم کو کام یابی کی طرف لے جانے کے لیے آشیرباد دیا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ الیکشن نہ صرف دس سال کی کام یابیوں پر مہر ہے ہی بلکہ ملک کے عوام نے ہمیں مستقبل کی عزائم کے لیے بھی منتخب کیا ہے۔ کیوں کہ ملک کے عوام کو صرف ہم پر بھروسا ہے، انھوں نے ہمیں آنے والے خوابوں اور عزائم کو پورا کرنے کا موقع دیا ہے ۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ملک بخوبی جانتا ہے کہ وہ گذشتہ دس برسوں میں ہمارے ملک کی معیشت کو 10 ویں نمبر سے پانچویں نمبر پر لے جانے میں کام یاب رہا ہے۔ اور جوں جوں یہ تعداد قربت کے حصول کے قریب پہنچتی ہے، ایک کے بعد ایک ، چیلنجز میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اور کورونا کے مشکل دور کے باوجود، تنازعات کے عالمی حالات کے باوجود، کشیدگی کے ماحول کے باوجود، ہم اپنے ملک کی معیشت کو آج دنیا میں دسویں نمبر سے پانچویں نمبر پر لے جانے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ اس بار ملک کے عوام نے ہمیں پانچویں نمبر سے تیسرے نمبر کی معیشت تک لے جانے کا مینڈیٹ دیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ملک کے عوام نے ہمیں جو مینڈیٹ دیا ہے وہ بھارت کی معیشت کو دنیا کی ٹاپ تھری میں لے جائے گا۔ میں جانتا ہوں عزت مآب چیئرمین صاحب، یہاں کچھ ودوان ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اس میں کیاہے، یہ تو ہونے ہی والا ہے، ملک خود بخود تیسرے مقام پر پہنچنے والا ہے، ایسا تو خود بخود ہو جائے گا، ایسے ودوان موجود ہیں۔ اب یہ لوگ ایسے لوگ ہیں جو آٹو پائلٹ موڈ یا ریموٹ پائلٹ موڈ پر حکومت چلانے کے عادی ہیں اس لیے وہ کچھ بھی کرنے پر یقین نہیں رکھتے، وہ کچھ بھی کرنے پر یقین نہیں رکھتے، وہ انتظار کرنا جانتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس محنت کی کمی نہیں ہے۔ آنے والے برسوں میں ہم نے جو کچھ گذشتہ 10 برسوں میں کیا ہے، ہم اس کی رفتار بڑھائیں گے، اسے وسعت دیں گے اور اس میں اضافہ بھی کریں گے، یہ گہرا بھی ہوگا، اونچائ بھی ہوگا، اور ہم اس عزم کو پورا کریں گے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

انتخابات کے دوران میں اپنے ہم وطنوں سے کہا کرتا تھا کہ ہم نے جو 10 سال کا کام کیا ہے، اپنے خوابوں اور عزائم کے مطابق، یہ ایک خوش آئند کام ہے اور اصل راستہ ابھی شروع ہوا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اگلے پانچ سال بنیادی سہولیات کی تکمیلیت (سیچوریشن) کے ہیں۔ اور ہم روزمرہ کی زندگی میں ایک عام آدمی کی ضروریات کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، انتظامات، سہولیات، جس طرح کی حکم رانی باوقار زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے، ہم اسے ان بنیادی سہولیات کی تکمیلیت کے دور میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

آنے والے 5 سال غریبوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے ہیں، اگلے 5 سال غریبوں کی غربت کے خلاف جنگ ہیں اور میرا ماننا ہے کہ جب غریب غربت کے خلاف لڑنے کے لیے ایک طاقت کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو غریبوں کی غربت کے خلاف جنگ کام یابی حاصل کرتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آنے والے پانچ سال غربت کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن سال ہیں اور یہ ملک غربت کے خلاف جنگ میں فاتح رہے گا۔ میں یہ بات گذشتہ 10 برسوں کے تجربے کی بنیاد پر بہت اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

جب ملک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا تو اس کے فوائد زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوں گے۔ ترقی اور توسیع کے بہت سے مواقع پیدا ہونے جا رہے ہیں اور اس لیے جب ہم دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بنیں گے تو بھارت کا ہر سطح پر مثبت اثر پڑے گا، لیکن اس سے عالمی ماحول میں بے مثال اثر پڑنے والا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم آنے والے عرصے میں نئے اسٹارٹ اپ، نئی کمپنیوں کو عالمی طور پر ابھرنے کو دیکھ رہے ہیں۔ اور میں دیکھ سکتا ہوں کہ آنے والے عرصے میں ہمارے ٹیئر 2 اور ٹیئر 3 شہر بھی ترقی کے انجن کے کردار میں ملک میں ایک بڑا حصہ ڈالنے جا رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ صدی ٹیکنالوجی سے چلنے والی صدی ہے اور اس لیے ہم یقینی طور پر بہت سے نئے شعبوں میں نئے قدموں کے نشان دیکھیں گے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

آنے والے 5 برسوں میں پبلک ٹرانسپورٹ میں تیزی سے تبدیلی آنے والی ہے اور ہم سنجیدگی سے اس سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں کہ بھارت کے لاکھوں لوگوں کو جلد از جلد اس کا فائدہ ملنا چاہیے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

بھارت کے ترقی کے سفر میں، ہمارے چھوٹے شہر، چاہے وہ کھیلوں کی دنیا ہو، تعلیم کی دنیا ہو، جدت طرازی ہو یا پیٹنٹ رجسٹری، میں واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں کہ ہمارے ہزاروں چھوٹے شہر بھارت میں ترقی کی ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بھارت کے ترقی کے سفر کے چار اہم ستون، ان کو بااختیار بنانا اور مواقع انھیں ایک بڑی طاقت دینے جا رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہمارے ملک کے کسان، ہمارے ملک کے غریب، ہمارے ملک کے نوجوان اور ہمارے ملک کی خواتین کی طاقت، عزت مآب چیئرمین صاحب، ہم نے اپنے ترقی کے سفر میں ان پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہاں بھی بہت سے دوستوں نے زراعت اور کاشتکاری پر اپنے خیالات کا تفصیل سے اظہار کیا ہے اور بہت سی چیزوں کا مثبت اظہار بھی کیا ہے۔ میں تمام ممبران اور کسانوں کے بارے میں ان کے جذبات کا احترام کرتا ہوں۔ گذشتہ 10 برسوں میں ہم نے اپنی زراعت کو ہر طرح سے منافع بخش بنانے پر توجہ دی ہے، کسانوں کو فائدہ مند ہونا چاہیے اور ہم نے کئی اسکیموں کے ذریعے انھیں مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ چاہے وہ فصل کے لیے قرض ہو، کسانوں کو مسلسل نئے بیج دستیاب ہوتے رہتے ہیں۔ آج کی قیمت معقول ہونی چاہیے اور ماضی کی تمام پریشانیوں کو دور کرتے ہوئے فصل بیمہ کا فائدہ کسانوں تک آسانی سے پہنچانے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ چاہے وہ ایم ایس پی پر خریداری کی بات ہو، ہم نے تمام پرانے ریکارڈ توڑ کر کسانوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ ایک طرح سے بیج سے لے کر بازار تک ہم نے کسانوں کے لیے ہر نظام کو انتہائی مائیکرو پلاننگ کے ساتھ مضبوط بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور ہم نے نظام کو مضبوط بنایا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اس سے پہلے، ہمارے ملک میں چھوٹے کسانوں کے لیے کسان کریڈٹ کارڈ حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ حالاں کہ ان کی تعداد سب سے زیادہ تھی، لیکن آج ہماری پالیسیوں کی وجہ سے، کسان کریڈٹ کارڈ کی توسیع کی وجہ سے۔۔۔عزت مآب چیئرمین صاحب، ہم نے وسیع پیمانے پر کاشتکاری کو دیکھا ہے اور وسیع پیمانے پر ہم نے مویشی پالنے والوں کو کسان کریڈٹ کارڈ اور ماہی گیروں کو کسان کریڈٹ کارڈ کا فائدہ فراہم کیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ہمارے کسانوں کے کھیتی کے کام کی توسیع کو بھی تقویت ملی ہے اور ہم نے بھی اس سمت میں کام کیا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

کانگریس کے دور حکومت میں 10 سال میں ایک بار کسانوں کی قرض معافی کے کئی ڈھول پیٹے گئے۔ اور مبالغہ آمیز باتیں کہہ کر کسانوں کو گم راہ کرنے کی بہت کوشش کی گئی، اور انھوں نے 60 ہزار کروڑ روپے کے قرض معاف کرنے کے بارے میں اتنا شور مچایا۔ اور اندازہ لگایا گیا کہ اس سے فائدہ اٹھانے والے ملک کے صرف تین کروڑ کسان تھے۔ عام غریب چھوٹے کسانوں کے پاس تو اس کا نام و نشان نہیں تھا۔ ان کے منصوبے میں ان کی سب سے زیادہ ضرورت کی کوئی پروا نہیں تھی، اور نہ ہی ان تک کوئی فائدہ پہنچا تھا۔

لیکن عزت مآب چیئرمین صاحب،

جب کسانوں کی بہبود ہماری حکومت کے دل میں ہے، تو میں اس ایوان کو مثال دینا چاہتا ہوں کہ پالیسیاں کیسے بنائی جاتی ہیں، کس طرح بہبود کی جاتی ہے اور فوائد کیسے پہنچائے جاتے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم نے پردھان منتری کسان سمان یوجنا شروع کی ہے اور پی ایم کسان سمان یوجنا سے 10 کروڑ کسان مستفید ہوئے ہیں۔ اور پچھلے 6 برسوں میں ہم نے کسانوں کو 3 لاکھ کروڑ روپے دیے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ملک دیکھ رہا ہے کہ جھوٹ پھیلانے والوں کے پاس سچ سننے کی طاقت بھی نہیں ہے۔ جن لوگوں میں سچائی کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، ان میں اتنی بحث کے بعد بیٹھ کر ان کے اٹھائے گئے سوالات کے جوابات سننے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ ایوان بالا کی تذلیل کر رہے ہیں۔ وہ اس ایوان بالا کی عظیم روایت کی توہین کر رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ملک کے عوام نے انھیں ہر طرح سے شکست دی ہے کہ اب ان کے پاس گلیوں میں چیخنے کے سوا کچھ نہیں بچا ہے۔ نعرے بازی، ہنگامہ آرائی اور میدان سے بھاگنا ان کی قسمت میں لکھا ہوا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں آپ کے درد کو سمجھ سکتا ہوں۔ وہ اس فیصلے کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں جو 140 کروڑ ہم وطنوں نے دیا ہے، جو مینڈیٹ انھوں نے دیا ہے، اور کل ان کے تمام اقدامات ناکام ہوگئے۔ لہٰذا آج ان میں وہ جنگ لڑنے کی ہمت بھی نہیں رہی اس لیے وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں تو فرض سے بندھا ہوں اور میں یہاں کسی بحث میں اسکو کرنے کے لیے نہیں آیا ہوں۔ میں ملک کا خادم ہوں۔ مجھے ہم وطنوں کو حساب دینا ہے۔ میں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ میں ملک کے لوگوں کو اپنے ایک ایک لمحے کا حساب دوں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

عالمی صورت حال ایسی تھی کہ کھاد کے لیے ایک بہت بڑا بحران پیدا ہوا۔ ہم نے ملک کے کسانوں کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنے دیا اور ہم نے کھاد میں تقریباً 12 لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی جو بھارت کی آزادی کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے اور اس کے نتیجے میں ہم نے کھاد کا اتنا بڑا بوجھ اپنے کسان پر نہیں جانے دیا، حکومت نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم نے ایم ایس پی میں بھی ریکارڈ اضافہ کیا ہے۔ یہی نہیں خریداری کے نئے ریکارڈ بھی قائم ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے ایم ایس پی کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن کسانوں سے کچھ نہیں لیا گیا، باتیں بتائی جاتی تھیں۔ ہم نے پہلے سے کئی گنا زیادہ خریداری کرکے کسانوں کو بااختیار بنانے کی کوشش کی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

10 برسوں میں ہم نے دھان اور گیہوں کے کسانوں کو کانگریس حکومت کے مقابلے میں ڈھائی گنا زیادہ پیسہ فراہم کیا ہے اور ہم صرف آنے والے 5 برسوں میں اس کی بڑھتی ہوئی ترقی کو روکنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم نے دنیا کی سب سے بڑی فوڈ اسٹوریج مہم شروع کی ہے اور ایک غیر مرکزی نظام کے تحت لاکھوں اناج کے ذخیرے بنانے کی سمت میں کام شروع کیا ہے۔ پھل اور سبزیاں ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ہم چاہتے ہیں کہ کسان اس طرف بڑھیں اور ہم ان کے ذخیرہ کے لیے ایک جامع بنیادی ڈھانچے کی طرف بھی کام کر رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

'سب کا ساتھ، سب کا وکاس' کے منتر کے ساتھ ہم نے ملک کی خدمت کے اپنے سفر کو مسلسل وسعت دینے کی کوشش کی ہے۔ ہم وطنوں کو باوقار زندگی دینا ہماری ترجیح رہی ہے۔ آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک جن سے کبھی نہیں پوچھا گیا، آج میری حکومت ان کو پوچھتی ہے اور ان کی پوجا بھی کرتی ہے۔ ہم نے اپنے دویانگ بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مل کر ان کی مشکلات کو مشن موڈ میں سمجھ کر مائیکرو لیول پر حل کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسے نظام تیار کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں اور ہم نے اس سمت میں کام کیا ہے کہ انھیں کم از کم کسی کا سہارا لینا پڑے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی وجہ سے ایک نظرانداز طبقہ یعنی معاشرے کا ہر رسول (مظلوم) طبقہ وہ ٹرانس جینڈر طبقہ ہے، ہماری حکومت نے ٹرانس جینڈر دوستوں کے لیے قوانین بنانے کا کام کیا ہے اور جب مغربی دنیا کے لوگ یہ سنتے ہیں تو انھیں بھی فخر ہوتا ہے کہ بھارت اتنا ترقی پسند ہے۔ بھارت کو بڑے فخر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم نے انھیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہماری حکومت پدم ایوارڈ میں ٹرانس جینڈروں کو موقع دینے میں آگے آئی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم نے اپنی خانہ بدوش آدیواسی برادری، اپنے خانہ بدوش ساتھیوں، اپنے بنجارہ خاندان کے لیے ایک علیحدہ ویلفیئر بورڈ بنایا ہے، تاکہ ہم ان کی ضروریات کو پورا کر سکیں اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ انھیں بھی ایک مستحکم، محفوظ اور امید افزا زندگی ملے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم مسلسل ایک لفظ سنتے رہے ہیں، پی وی ٹی جی، پی وی ٹی جی، پی وی ٹی جی، وہ ہمارے آدیواسی گروہوں میں آخری رہے ہیں اور آزادی کے اتنے برسوں کے بعد بھی، جن لوگوں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے، انھیں پتہ چل گیا ہے کہ وہ کس حالت میں رہتے ہیں، کسی نے ان کی طرف نہیں دیکھا۔ ہم نے ایک خاص انتظام کیا ہے اور پی ایم جن من یوجنا کے تحت 34 ہزار کروڑ روپے —یہ برادری بکھری ہوئی ہے۔ وہ کم تعداد میں ہیں، ان کے پاس ووٹ کی طاقت نہیں ہے اور یہاں ملک کی روایت ہے کہ جن کے پاس ووٹ کی طاقت ہے، ان کی فکر کسی کو نہیں ہوتی تھی، لیکن سماج کے ایسے انتہائی پسماندہ لوگوں کی کوئی فکر نہیں کرتا تھا، ہمیں ان کی فکر ہے کیوں کہ ہم ووٹ کی سیاست نہیں کرتے، ہم ترقی کی سیاست کرتے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہمارے ملک میں، روایتی خاندانی مہارتیں بھارت کی ترقی کے سفر اور نظام کا ایک حصہ رہی ہیں۔ ہمارا وشوکرما گروپ، وہ لوگ جو روایتی ہنر رکھتے ہیں، جو معاشرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں لیکن ان پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ ہم نے تقریباً 13 ہزار کروڑ روپے کی اسکیم کے ساتھ وشوکرما برادری کو جدیدیت کی طرف لے جانے کی کوشش کی ہے اور ان میں پیشہ ورانہ مہارت پیدا کی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

غریبوں کے نام پر بینکوں کا نیشنلائزیشن تو کیا گیا، لیکن میرے اسٹریٹ وینڈرز میں کبھی بینک کے دروازوں کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ملک میں پہلی بار پی ایم سواندھی اسکیم کے تحت اسٹریٹ وینڈرز کی فکرمکی گئی اور آج وہ سود کے شیطانی چکر سے باہر آئے ہیں اور اپنی محنت اور ایمانداری سے اسٹریٹ وینڈرز کو بینکوں سے قرض مل گیا ہے۔ وہ باقاعدگی سے بینکرز بھی خوش ہیں، لینے والے بھی خوش ہیں اور جو کل فٹ پاتھ پر بیٹھا کرتا تھا وہ اب ایک چھوٹی سی دکان بنانے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ جو لوگ پہلے خود مزدور کے طور پر کام کرتے تھے وہ اب ایک یا دو کو روزگار فراہم کرنے کی سمت میں کام کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ غریب، دلت، پسماندہ، آدیواسی یا خواتین ہیں، انھوں نے ہماری زبردست حمایت کی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم خواتین کی قیادت والی ترقی کی بات کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کے ترقی پسند ممالک کے لیے بھی خواتین کی ترقی بہت فطری ہے۔ لیکن جب ہم خواتین کی ایل ای ڈی ترقی کی بات کرتے ہیں تو ان کے لیے جوش و خروش کی تھوڑی کمی ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں بھارت نے نعروں کے بجائے وفاداری کے ساتھ خواتین کی قیادت میں ترقی کی طرف قدم اٹھائے ہیں اور خواتین کو بااختیار بنانے کے فوائد آج نظر آرہے ہیں۔ ایسا ہر میدان میں نظر آتا ہے اور یہ بھارت کے ترقی کے سفر میں حصہ ڈال رہا ہے۔ میں محترم ایم پی سدھا مورتی جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ کل انھوں نے بحث میں خواتین کی صحت کے موضوع پر زور دیا تھا اور اس کی اہمیت کیا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے، انھوں نے اس پر بہت تفصیل سے بتایا تھا اور انھوں نے ایک بات بہت جذباتی بھی کہی تھی کہ اگر ماں چلی جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ آپ اسے دوبارہ تلاش نہیں کر سکتے۔ یہ بات انھوں نے بڑے جذبات کے ساتھ کہی۔ ہم نے گذشتہ دس برسوں میں خواتین کی صحت، صفائی ستھرائی اور تندرستی کو ترجیحی شعبے کے طور پر کام کیا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

بیت الخلاء ہوں، سینیٹری پیڈ ہوں، گیس کنکشن ہوں، حمل کے دوران ٹیکہ کاری کا انتظام ہو اور ہمارے ملک کی ماؤں اور بہنوں کو اس سے فائدہ ہوا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

صحت کے ساتھ ساتھ ہم اس سمت میں بھی مسلسل کام کر رہے ہیں کہ خواتین خود کفیل بنیں۔ گذشتہ برسوں میں ہم نے جو 4 کروڑ گھر بنائے ہیں، ان میں سے زیادہ تر خواتین کے نام پر دیے گئے ہیں۔ بینکوں میں کھاتے کھلنے کے ساتھ ہی مدرا اور سکنیا سمریدھی جیسی اسکیموں نے بھی معاشی فیصلوں میں خواتین کے رول میں اضافہ کیا ہے، ان کی شرکت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ایک طرح سے وہ فیملی میں بھی فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بننے لگی ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

خواتین سیلف ہیلپ گروپ دس کروڑ بہنیں اس سے وابستہ ہیں، ان کے اعتماد میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اب تک ان سیلف ہیلپ گروپس میں کام کرنے والی ایک کروڑ بہنیں ہیں۔ وہ چھوٹے گاؤوں میں کاروبار کرتی ہیں اور مل کر کرتی ہیں۔ گاؤں والوں نے ان پر دھیان بھی نہیں دیا۔ آج میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں سے ایک کروڑ بہنیں کروڑ پتی اور دیدی بن چکی ہیں۔ اور ہم آنے والے وقت میں تین کروڑ بہنوں کو کروڑ پتی بنانے کی سمت میں اس اعداد و شمار کو بڑھا رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

حکومت ہر نئے شعبے میں ہماری خواتین کی قیادت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہم اس سمت میں کوششیں کر رہے ہیں۔ نئی ٹکنالوجی آتی ہے لیکن یہ خواتین کے نصیب میں بالکل آخر میں آتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہماری خواتین کو نئی ٹیکنالوجی کا پہلا موقع ملے اور وہ اس کی قیادت کریں اور اس کے تحت یہ مہم بہت کام یابی سے آگے بڑھی ہے اور آج ہمارے گاؤں کی خواتین ٹیکنالوجی کے ذریعے گاؤں میں کسانوں کی مدد کر رہی ہیں اور جب میں ان سے بات کر رہی تھی تو وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ ارے صاحب، ہم کبھی سائیکل بھی نہیں جانتے تھے۔ آپ نے ہمیں پائلٹ بنا دیا ہے اور پورا گاؤں ہمیں پائلٹ دیدی کے نام سے جاننے لگا ہے۔ اور یہ باوقار چیز ان کی زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ایک بہت بڑی محرک قوت بن جاتی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب اس طرح کے حساس معاملات پر بھی سیاست کی جاتی ہے تو ہم وطنوں، خاص طور پر خواتین کو ناقابل تصور درد محسوس ہوتا ہے۔ خواتین کے خلاف مظالم میں حزب اختلاف کا یہ منتخب رویہ ہے۔ یہ سیلیکٹیو رویہ بہت پریشان کن ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں آپ کے ذریعے ملک کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں کسی ریاست کے خلاف نہیں بول رہا ہوں اور نہ ہی میں کوئی سیاست کرنے کے لیے بول رہا ہوں۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے میں نے سوشل میڈیا پر بنگال کی کچھ تصویریں دیکھی تھیں۔ سڑک پر ایک خاتون کو سرعام پیٹا جا رہا ہے، وہ بہن چیخ رہی ہے لیکن وہاں کھڑا کوئی بھی شخص اس کی مدد کے لیے نہیں آ رہا تھا، لوگ ویڈیو بنانے میں مصروف تھے۔ اور وہ واقعہ جو سندیش کھالی میں پیش آیا، جس کی تصویریں حیران کن ہیں۔ لیکن میں کل سے بڑے بزرگوں کو سن رہا ہوں، اس کا درد ان کے الفاظ میں بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ شرمندگی کی اس سے بڑی افسوسناک تصویر اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور جو لوگ خود کو بہت ترقی پسند خاتون رہ نما سمجھتے ہیں وہ بھی اپنے منھ پر تالے لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔ کیوں کہ آپ کا تعلق ان کی سیاسی زندگی یا اس ریاست سے تعلق رکھنے والی پارٹی سے ہے اس لیے آپ خواتین پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہوجائیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میرا ماننا ہے کہ جس طرح بڑَ لوگ بھی اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو ملک کو درد ہوتا ہے، ہماری ماؤں اور بہنوں کو زیادہ درد محسوس ہوتا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

سیاست اتنی سلیکٹیو ہے اور جہاں بات ان کی سیاست کے مطابق نہیں ہو، وہاں انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے، یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

بھارت کے عوام نے تیسری بار مکمل اکثریت کے ساتھ مستحکم حکومت منتخب کرکے ملک میں استحکام اور تسلسل کا مینڈیٹ دیا ہی ہے، لیکن اس انتخابات کے نتائج نے دنیا کو تیقن بھی دلایا ہے۔ اور ان نتائج کی وجہ سے بھارت پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کے لیے ایک بڑی کشش کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اگر مگر کا وقت ختم ہوچکا اور بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھارت کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع لے کر آرہی ہے۔ یہ بھارت کے نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر لے جانے کا موقع بن جاتا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

بھارت کی اس جیت نے ان لوگوں کے لیے بہت سی نئی امید یں پیدا کی ہیں جو عالمی معیشتوں میں توازن چاہتے ہیں۔ آج دنیا شفافیت پر یقین رکھتی ہے۔ اور بھارت ان کے لیے ایک بہت ہی عظیم سرزمین کے طور پر ابھر رہا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اس الیکشن کے نتائج کے ساتھ ہی کیپٹل مارکیٹ میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی خوشی اور مسرت کا ماحول بھی ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ لیکن اس دوران ہمارے کانگریس کے لوگ بھی خوشیاں منا رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس خوشی کی وجہ کیا ہے؟ اور اس پر بہت سے سوالات ہیں۔ کیا یہ خوشی شکستوں کی ہیٹ ٹرک کی ہے؟ کیا یہ خوشی نروس 90 کا شکار ہونے کی خوشی ہے؟ کیا یہ ایک اور ناکام لانچ کی خوشی ہے؟

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں دیکھ رہا تھا کہ کھرگے جی بھی جوش و خروش سے بھرے نظر آئے۔ لیکن شاید کھرگے جی نے اپنی پارٹی کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ کیوں کہ جن لوگوں کو اس شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے تھا، انھوں نے انھیں بچایا اور خود دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ اور کانگریس کا رویہ ایسا رہا ہے کہ جب بھی ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو دلتوں اور پسماندہ طبقات کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور وہ خاندان بھاگ جاتا ہے۔ اس میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ ان دنوں آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوک سبھا میں اسپیکر کے انتخاب کا مسئلہ تھا، اس میں شکست بھی ہوئی تھی، لیکن آگے کس کو کیا، انھوں نے بڑی چالاکی سے ایک دلت کے لیے کھیل کھیلا۔ وہ جانتے تھے کہ وہ شکست کھانے والے ہیں لیکن انھوں نے انھیں آگے رکھا۔ صدر اور نائب صدر کے عہدے کے لیے انتخابات ہوئے، پھر 2022 میں انھوں نے سشیل کمار شندے جی کو نائب صدر کے عہدے کے لیے آگے بڑھایا، ان کو مروادیا، دلتوں کی موت ہوئی اور ان کا کچھ نہیں گیا۔ 2017 میں شکست یقینی تھی اس لیے انھوں نے میرا کمار کو میدان میں اتارا، انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس ایس سی، ایس ٹی، او بی سی مخالف ذہنیت رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سابق صدر جناب رام ناتھ کووند جی کی توہین کر رہے ہیں۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے انھوں نے ملک کی پہلی قبائلی خاتون صدر کی بھی توہین کی، ان کی مخالفت میں کوئی کمی نہیں کی اور ان کے لیے ایسے الفاظ استعمال کیے جو کوئی نہیں کر سکتا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ پارلیمنٹ، یہ ایوان بالا بامعنی بحث، مکالمے اور اس غور و فکر سے امرت نکال کر ہم وطنوں کو دینے کے لیے ہے۔ اسے ملک کا سب سے بڑا اسٹیج سمجھا جائے گا۔ لیکن جب میں نے پچھلے دو دنوں میں کئی سینئر لیڈروں سے سنا تو نہ صرف مجھے بلکہ پورے ملک کو مایوسی ہوئی۔ یہاں کہا گیا کہ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا الیکشن تھا جس کا مسئلہ آئین کا تحفظ تھا۔ میں انھیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ کیا آپ اب بھی یہ جعلی بیانیہ چلاتے رہیں گے؟ کیا آپ 1977 کے انتخابات کو بھول گئے ہیں، اخبارات بند تھے، ریڈیو بند تھے، بولنا بھی روک دیا گیا تھا اور ہم وطنوں نے اسی مسئلے پر ووٹ دیا تھا۔ انھوں نے جمہوریت کے دوبارہ قیام کے لیے ووٹ دیا۔ آئین کی حفاظت کے لیے دنیا میں اس سے بڑا الیکشن کبھی نہیں ہوا اور 1977 کے انتخابات نے دکھایا کہ کس طرح جمہوریت بھارت کے لوگوں کی رگوں میں زندہ ہے۔ آپ ملک کو بہت گم راہ کریں گے۔ میرا ماننا ہے کہ یہ آئین کے تحفظ کے لیے سب سے بڑا الیکشن تھا اور اس وقت ملک کی دانشمندی نے آئین کی حفاظت کے لیے اس وقت اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو باہر نکال دیا تھا۔ اور اس بار اگر آئین کی حفاظت کے لیے الیکشن ہوا تو ہم وطنوں نے ہمیں آئین کی حفاظت کے لائق پایا ہے۔ آئین کی حفاظت کے لیے ہم وطنوں کو ہم پر بھروسا ہے کہ ہاں اگر کوئی آئین کی حفاظت کر سکتا ہے تو یہ لوگ ہی کر سکتے ہیں اور ہم وطنوں نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

جب کھرگے جی ایسی باتیں کرتے ہیں تو یہ تھوڑا تکلیف دہ ہوتا ہے کیوں کہ ایمرجنسی کے دوران آئین پر جو ظلم ہوا، جو بلڈوزر چلایا گیا، جمہوریت کی کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ اسی پارٹی کے ایک اہم رہ نما کی حیثیت سے وہ باتوں کے ان کے گواہ ہیں، پھر بھی وہ ایوان کو گم راہ کر رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں نے ایمرجنسی کو بہت قریب سے دیکھا ہے، کروڑوں لوگوں کو شدید اذیتیں دی گئیں، ان کی زندگی مشکل بنا دی گئی۔ پارلیمنٹ کے اندر جو کچھ ہوا کرتا تھا وہ ریکارڈ پر ہے۔ میں آئین ہند کی بات کرنے والوں سے پوچھتا ہوں کہ جب آپ نے 7 سال تک لوک سبھا چلائی تو لوک سبھا کی مدت 5 سال ہوتی ہے، وہ کون سا آئین تھا جس کی روسے آپ نے 7 سال اقتدار کے مزے لیے اور لوگوں پر ظلم کرتے رہے اور آپ ہمیں آئین سکھاتے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ان لوگوں نے اس دور میں درجنوں دفعات پر آئین کی روح کو پامال کرنے کا گناہ کیا۔ 38 ویں، 39 ویں اور 42 ویں آئینی ترمیم کو منی آئین کہا گیا۔ یہ سب کیا تھا؟ 'آئین کی حفاظت' کا لفظ آپ کے منھ سے مناسب نہیں لگتا، آپ ان گناہوں کے ارتکاب پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کھڑگے جی، ایمرجنسی کے دوران پچھلی حکومت میں جب وہ 10 سال تک کابینہ میں تھے تو کیا ہوا تھا۔ وزیر اعظم ایک آئینی عہدہ ہے، این اے سی کو وزیر اعظم کے عہدے پر بیٹھ جانا، آپ کس آئین سے یہ نظام لائے تھے، آپ لوگوں نے اسے کس آئین سے بنایا۔ آپ نے ملک کی وزارت عظمیٰ کے وقار کو پامال کیا۔ اور آپ ریموٹ پائلٹ بن گئے اور ان کے سر پر بیٹھ گئے۔ کون سا آئین آپ کو اس کی اجازت دیتا ہے؟

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ذرا بتائیں کہ کون سا آئین ہے جو کسی رکن پارلیمنٹ کو کابینہ کے فیصلے کو عوامی طور پر پھاڑ دینے کا حق دیتا ہے، یہ کون سا آئین تھا، کس حیثیت میں اسے پھاڑا گیا تھا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہمارے ملک میں تحریری شکل میں پروٹوکول کا نظام موجود ہے، صدر، نائب صدر، وزیر اعظم، اسپیکر سبھی کیسے کہاں ہوتے ہیں۔ کوئی مجھے بتائے کہ کس طرح آئین کی حدود کو توڑ کر پروٹوکول میں ایک خاندان کو ترجیح دی گئی، یہ کون سا آئین تھا۔ جو لوگ بعد میں آئینی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، وہ لوگ جو پہلے خاندان کو سنبھالتے ہیں، آپ نے کس آئین کی پاسداری کی؟ اور آج وہ آئین کی بات کرتے ہیں، وہ آئین کو لہراتے ہیں، وہ جئے سمودھان کہتے ہیں۔ آپ نے بھارت اندرا ہے، اندرا ہی بھارت ہے کا نعرہ لگا کر زندگی گزاری ہے، آپ کبھی بھی آئین کے احترام کا اظہار نہیں کر سکے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں بہت سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ کانگریس ملک میں آئین کی سب سے بڑی مخالف ہے، یہ اس کی ذہنیت ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اس ساری بحث کے بیچ میں انھیں 200، 500 سال کی بات کرنے کا حق تو ہے، لیکن اگر ایمرجنسی کی بات آتی ہے، تو ۔۔۔ وہ تو بہت پرانی بات ہوگئی ، تو اگر آپ کے گناہ پرانے ہو جاتے ہیں، تو کیا وہ ختم ہو جاتے ہیں؟

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اس ایوان میں آئین کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن کبھی ایمرجنسی نہیں آنے دی، یہ بحث کا تجربہ ہے۔ لیکن یہ ملک میں ، ان کے ساتھ جو لوگ بیٹھے ہیں، ان میں بحِ بہت سے ایسے ہیں جو ایمرجنسی کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ان کی کچھ مجبوری ضرور ہوگی کہ آج انھوں نے ان کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی ہے، یعنی یہ موقع پرستی کا دوسرا نام ہے۔ اگر آئین کے تئیں عقیدت کا جذبہ ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ایمرجنسی صرف ایک سیاسی بحران نہیں تھا۔ جمہوریت، آئین کے ساتھ ساتھ یہ ایک بہت بڑا انسانی بحران بھی تھا۔ بہت سے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بہت سے لوگوں جیلوں میں مر گئے۔ جئے پرکاش نارائن جی کی حالت اتنی خراب تھی کہ باہر آنے کے بعد وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکے، انھوں نے ایسا حال کردیا تھا۔ اور یہ ہراسانی صرف سیاست دانوں پر ہی نہیں چھوڑی گئی، عام آدمی بھی نہیں بخشا گیا۔ اور ان پر کئی طرح سے ظلم کیا گیا، ان کے لوگ بھی اس میں شامل تھے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

وہ دن ایسے تھے کہ گھر سے نکلنے والے کچھ لوگ کبھی گھر واپس نہیں لوٹے اور یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ ان کی لاش کہاں گئی ، ایسے ایسے واقعات بھی رونما ہو چکے تھے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ان میں سے بہت سی پارٹیاں جو ان کے ساتھ بیٹھی ہیں وہ اقلیتوں کی آواز ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور بہت شور مچاتی ہیں۔ کیا مظفر نگر اور ترکمان گیٹ میں کوئی یہ یاد کرنے کی ہمت کرتا ہے کہ ایمرجنسی کے دوران اقلیتوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اور وہ کانگریس کو کلین چٹ دے رہے ہیں، ملک انھیں کیسے معاف کرے گا؟ یہ شرمناک ہے کہ آج ایسی آمریت کو صحیح کہنے والے بھی آئین کی کاپی اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے سیاہ کارناموں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اس وقت بہت سی چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیاں تھیں، وہ ایمرجنسی کے خلاف لڑائی کے میدان میں اتر چکی تھیں اور آہستہ آہستہ انھوں نے اپنا میدان بنا لیا تھا۔ آج وہ کانگریس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں اور میں نے کل لوک سبھا میں کہا تھا کہ اب کانگریس کا طفیلی دور شروع ہو گیا ہے، یہ طفیلی کانگریس ہے۔ جہاں وہ خود اکیلے لڑے، ان کا اسٹرائیک ریٹ شرمناک ہے اور جہاں انھیں کسی کے کندھے پر بیٹھنے کا موقع ملا وہ وہاں سے بچ کر آرہے ہیں۔ ملک کے عوام نے انھیں آج بھی قبول نہیں کیا ہے، وہ کسی کی آڑ میں آئے ہیں۔ یہ کانگریس طفیلی ہے، ایسا لگتا ہے کہ کسی اور کی وجہ سے اتحادیوں کے ووٹ کھا کر وہ ذرا پھلی پھولی ہے۔ اور کانگریس کے طفیلی ہونے کی وجہ ان کے اپنے کارنامے ہیں۔ وہ ملک کے لوگوں کا اعتماد نہیں جیت سکے، وہ جوڑ توڑ کر فرار کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ ان کے پاس عوام کا اعتماد جیتنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ان کی عادت ہے کہ وہ جعلی بیانیوں اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے ملک کو گم راہ اور بدظن کرتے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ اس پالیمنٹ کا ایوان بالا ہے۔ یہ فطری ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ یہاں ترقی کے وژن پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ لیکن جو لوگ بدعنوانی کے سنگین الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، ان کانگریسیوں نے بے شرمی سے بدعنوانی کے دفاع کی تحریک چلانا شروع کر دی ہے۔ جن لوگوں کو کرپشن کی سزا دی گئی ہے، وہ ان کے ساتھ تصویریں کھینچنے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پہلے یہ لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی اور جب بدعنوان جیل جا رہے ہیں تو وہ ہنگامہ برپا کر رہے ہیں کہ آپ لوگوں کو جیل کیوں بھیج رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہاں بحث کے دوران مرکز کی جانچ ایجنسیوں کے خلاف الزامات لگائے گئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ اس حکومت کے ذریعے جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کیا جارہا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اب آپ مجھے بتائیں کہ بدعنوانی کرے عام آدمی پارٹی ، شراب گھوٹالہ کرے عام آدمی پارٹی ، بچوں کی کلاسیں بنانے میں گھوٹالہ کرے عام آدمی پارٹی ، پانی تک میں گھوٹالہ کرے عام آدمی پارٹی ، عام آدمی پارٹی کی شکایت کرے کانگریس ، عام آدمی پارٹی کو عدالت میں گھسیٹے کانگریس اور اب اگر کارروائی ہو تو گالی دے مودی کو ۔ اور اب یہ لوگ آپس میں ذرا ساتھی بن گئے ہیں۔ اور اگر آپ میں ہمت ہے تو ایوان میں کھڑے ہو کر کانگریس پارٹی سے جواب مانگیں، میں عام آدمی پارٹی کے لوگوں سے کہتا ہوں۔ کانگریس کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ آپ نے پریس کانفرنس کرکے عام آدمی پارٹی کے گھوٹالوں کے اتنے ثبوت ملک کے سامنے رکھے تھے، کانگریس نے ان لوگوں کے خلاف پریس کانفرنس کی تھی۔ اب مجھے بتائیں کہ انھوں نے پریس کانفرنس میں تمام فائلوں کو جو ثبوت بتائے تھے وہ سچ تھے یا جھوٹ تھے ۔ دونوں ایک دوسرے کو کھول کر رکھ دیں گے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

مجھے یقین ہے کہ ان میں اس طرح کی باتوں کا جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ وہ لوگ ہیں جو دوہرا معیار اور دوہرا معیار رکھتے ہیں۔ اور میں ملک کو بار بار اس دوغلے پن کی یاد دلانا چاہتا ہوں جو چل رہا ہے۔ یہ لوگ دہلی میں ایک اسٹیج پر بیٹھ کر جانچ ایجنسیوں پر الزام لگاتے ہیں اور بدعنوانوں کو بچانے کے لیے ریلیاں نکالتے ہیں۔ اور، کیرالہ میں، ان کے شہزادے نے اپیل کی ہے کہ وہ کیرالہ کے اپنے ایک وزیر اعلیٰ کو، جو ان کے اتحادی ہیں، جیل بھیجیں اور حکومت ہند سے اس وزیر اعلیٰ کو جیل بھیجنے کا مطالبہ کریں۔ دہلی ای ڈی، سی بی آئی کی کارروائی اس پر شور مچاتی ہے اور وہی لوگ کیرالہ کے وزیر اعلیٰ کو اسی ایجنسی سے کیرالہ کے وزیر اعظم کو جیل بھیجنے کی بات کرتے ہیں۔ پھر لوگوں کے ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس میں بھی دوغلا پن ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

چھتیس گڑھ میں شراب گھوٹالہ کانگریس حکومت کے وزیر اعلیٰ سے جڑا ہوا تھا، وہی عام آدمی پارٹی چیختی تھی اور کہتی تھی کہ ای ڈی، سی بی آئی کو لگا کر اس چیف منسٹر کو جیل میں ڈال دیا جائے، وہ کھلے عام کہتے تھے اور ای ڈی اس کام کے لیے درخواست کرتی تھی۔ تب انھیں ای ڈی بہت پیارا لگتا تھا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں ان لوگوں سے اپیل کرتا ہوں جو جانچ ایجنسیوں کو بدنام کر رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں، میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی یادداشت پر زور دیں۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جانچ ایجنسیوں کا پہلے کس طرح غلط استعمال کیا جاتا تھا، یہ کیسے ہوتا تھا، کون کرتا تھا۔ میں آپ کے سامنے چند بیانات پیش کرتا ہوں۔ یہ 2013 کا پہلا بیان ہے، کیا بیان ہے، کانگریس سے لڑنا آسان نہیں ہے، وہ انھیں جیل میں ڈال دے گی اور سی بی آئی پیچھے ڈال دے گی۔ کانگریس سی بی آئی اور انکم ٹیکس کا خوف ظاہر کرکے حمایت حاصل کرتی ہے۔ یہ کس کا بیان ہے؟ یہ آنجہانی ملائم سنگھ جی کا بیان ہے، کانگریس ایجنسیوں کا غلط استعمال کیسے کرتی ہے، یہ بات ملائم سنگھ جی نے کہی تھی اور یہاں اس ایوان کے معزز رکن رام گوپال جی سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا رام گوپال جی نے کبھی جھوٹ بولا تھا یا نیتاجی نے کبھی جھوٹ بولا تھا؟ نیتا جی تو سچ بولتے تھے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں رام گوپال جی سے کہنا چاہتا ہوں کہ ذرا بھتیجے کو بھی بتائیں کیوں کہ انھیں یہ بھی یاد آئے کہ جیسے ہی انھوں نے سیاست میں قدم رکھا، بھتیجے پر سی بی آئی کا پھندا لگانے والے کون تھے، ذرا انھیں یاد دلائیں، انھیں پتہ چل جائے گا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں نے ایک اور بیان پڑھا، یہ بھی سال 2013 کا ہے۔ کانگریس نے سی بی آئی کا استعمال کئی پارٹیوں میں سیاسی سودے بازی کرنے کے لیے کیا تھا۔ یہ کون کہتا ہے، ان کے کامریڈ شریمن پرکاش کرات جی نے 2013 میں یہ بات کہی تھی، ان ایجنسیوں کا غلط استعمال کون کرتا تھا؟ میں نے ایک اور اہم بیان پڑھا اور میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ کیا بیان ہے کہ سی بی آئی پنجرے میں بند طوطا ہے جو مالک کی آواز میں بولتا ہے۔ یہ کسی سیاسی شخص کا بیان نہیں ہے، یہ یو پی اے حکومت کے دوران ہمارے ملک کے سپریم کورٹ کا بیان ہے۔ اس بات کے زندہ ثبوت موجود ہیں کہ کون ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتا تھا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

کرپشن کے خلاف جنگ میرے لیے جیت یا شکست کا پیمانہ نہیں ہے۔ میں جیت یا شکست کے لیے بدعنوانی کے لیے نہیں لڑ رہا ہوں۔ یہ میرا مشن ہے، یہ میرا یقین ہے اور میرا ماننا ہے کہ یہ کرپشن ایک دیمک ہے جس نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ میں اس ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے، عام آدمی کے ذہنوں میں بدعنوانی کے تئیں نفرت پیدا کرنے کے لیے دل و جان سے کام کر رہا ہوں اور میں اسے ایک نیک کام سمجھتا ہوں۔ 2014 میں جب ہماری حکومت بنی تھی تو ہم نے دو بڑی باتیں کہی تھیں، ایک، ہم نے کہا تھا کہ میری حکومت غریبوں کے لیے وقف ہے اور دوسرا ، میری حکومت بدعنوانی اور کالے دھن پر حملہ کرے گی۔ اس مقصد کے ساتھ ایک طرف ہم غریبوں کی بہبود کے لیے دنیا کی سب سے بڑی فلاحی اسکیم چلا رہے ہیں۔ وہ غریب کلیان یوجنا چلا رہے ہیں۔ دوسری طرف، ہم بدعنوانی کے خلاف نئے قوانین، نئے نظام اور نئے میکانزم تیار کر رہے ہیں۔ ہم نے کرپشن ایکٹ 1988 میں ترمیم کی ہے۔ ہم نے کالے دھن کے خلاف ایک نیا قانون بنایا ہے، ہم بے نامی جائیداد پر ایک نیا قانون لائے ہیں۔ ان قوانین نے بدعنوان افسران کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔ لیکن ہم نے لیکیج کو دور کرنے کے لیے حکومت کو بھی مثبت طور پر تبدیل کیا ہے۔ ہم نے براہ راست فوائد کی منتقلی پر زور دیا ہے۔ ہم نے ڈیجیٹل ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج اس کے حق کا فائدہ ہر مستفید کو فوری طور پر پہنچ رہا ہے۔ ایک نئے پیسے کا رساؤ نہیں ہے۔ بدعنوانی کے خلاف ہماری لڑائی کا یہی پہلو ہے۔ اور جب عام شہری کو یہ نظام مل جاتے ہیں تو جمہوریت پر اس کا اعتماد بڑھ جاتا ہے۔ وہ حکومت میں اپنائیت کا احساس محسوس کرتے ہیں اور جب وہ اپنائیت محسوس کرتے ہیں تو انھیں تیسری بار بیٹھنے کا موقع ملتا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہنا چاہتا ہوں۔ میں لاگ لپیٹ نہیں رکھتا۔ اور میں ہم وطنوں کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے ایجنسیوں کو بدعنوانی اور بدعنوانوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کی کھلی چھوٹ دی ہے، حکومت کہیں بھی ٹانگ نہیں اڑائے گی۔ ہاں، اسے ایمانداری سے کام کرنا چاہیے، اسے ایمانداری کے لیے کام کرنا چاہیے، یہ میری جانکاری ہے۔

اور عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں اپنے ہم وطنوں کو ایک بار پھر بتانا چاہتا ہوں۔ کوئی بھی بدعنوان شخص قانون سے نہیں بچ سکے گا، یہی مودی کی گارنٹی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

صدر نے اپنے خطاب میں پیپر لیک کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ مجھے امید تھی کہ تمام جماعتیں پارٹی سیاست سے اوپر اٹھیں گی اور اس پر بات کریں گی۔ لیکن بدقسمتی سے میرے ملک کے نوجوانوں کے مستقبل سے جڑے اتنے حساس مسئلے کو بھی انھوں نے سیاست کے لیے قربان کر دیا ہے، اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ میں ملک کے نوجوانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ حکومت آپ کو دھوکہ دینے والوں کو نہیں چھوڑے گی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کارروائی کی جا رہی ہے کہ میرے ملک کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھیلنے والوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ہم نے پارلیمنٹ میں ان بے ضابطگیوں کے خلاف سخت قانون بھی بنایا ہے۔ ہم پورے نظام کو مضبوط کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں میرے ملک کے نوجوانوں کو خوف کی حالت میں نہ رہنا پڑے اور وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور اپنے حقوق حاصل کریں۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہاں کچھ الزامات لگانے کا فیشن ہے لیکن کچھ الزامات کا جواب واقعات خود دیتے ہیں۔ اب نظر آنے والے کو ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں حالیہ لوک سبھا انتخابات میں رائے دہندگان کے ٹرن آؤٹ کے اعداد و شمار گذشتہ چار دہائیوں کا ریکارڈ توڑنے جا رہے ہیں۔ اور کوئی گھر سے گیا اور بٹن دبا کر آیا ، صرف اتنا نہیں ہے ۔ ہم بھارت کے آئین کو منظور ی دیتے ہیں، ہم بھارت کی جمہوریت کو منظور کرتے ہیں، ہم بھارت کے الیکشن کمیشن کو منظوری دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑی کام یابی ہے، عزت مآب چیئرمین صاحب۔ وہ لمحہ جس کا ہم وطن انتظار کرتے تھے، اب اتنی سہولت سے سامنے نظر آتا ہے، عزت مآب چیئرمین صاحب۔ گذشتہ کئی دہائیوں میں بند، ہڑتالیں، دہشت گردی کی دھمکیاں، یہاں اور وہاں بم دھماکوں کی کوششیں جمہوریت پر گرہن لگ چکا تھا۔ آج اس بار عوام نے آئین پر غیر متزلزل اعتماد رکھتے ہوئے اپنی تقدیر کا فیصلہ کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے رائے دہندگان کو میری خصوصی مبارکباد۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف ہماری لڑائی ایک طرح سے آخری مرحلے میں ہے، یہ آخری مراحل میں ہے۔ ہم دہشت گردی کے باقی ماندہ نیٹ ورک کو مضبوطی سے تباہ کرنے کے لیے پوری طرح سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گذشتہ دس برسوں میں پہلے کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں زبردست کمی آئی ہے۔ اب پتھراؤ کی خبر بھی شاید ہی کبھی کسی کونے سے آتی ہو۔ اب جموں و کشمیر میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے شہری اس لڑائی میں ہماری مدد کر رہے ہیں، قیادت کر رہے ہیں، یہ سب سے زیادہ اعتماد پیدا کرنے والی بات ہے۔ آج وہاں سیاحت نئے ریکارڈ بنا رہی ہے، سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

آج جو شمال مشرق کے بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں انھوں نے تو شمال مشرق کو اپنی قسمت پر چھوڑ دیا تھا۔ کیوں کہ ان کے جو انتخابی حسابات ہوتے ہیں، شمال مشرق سے لوک سبھا کی بس اتنی ہی نشستیں ہیں۔ کیا اس سے سیاست میں کوئی فرق پڑتا ہے؟ کبھی کوئی پروا نہیں کی۔ انھوں نے نے اسے اپنی قسمت پر چھوڑ دیا تھا۔ ہم آج شمال مشرق کو ملک کی ترقی کا ایک مضبوط انجن بنانے کے لیے طاقت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ شمال مشرقی ایشیا کے ساتھ ٹرین، سیاحت اور ثقافتی رابطہ اس کا گیٹ وے بن رہا ہے۔ اور وہ جو کہتے ہیں نا 21 ویں صدی بھارت کی صدی ہے۔ اس میں سے یہ پہل بہت بڑا کردار ادا کرنے والی ہے۔ ہمیں یہ قبول کرنا ہوگا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم نے شمال مشرق میں پچھلے پانچ برسوں میں جو کام کیا ہے اور اگر اس کا موازنہ پرانی کانگریس سے کیا جائے تو اگر انھیں وہ کام کرنا ہوتا جو ہم نے پچھلے پانچ برسوں میں کیا ہے تو کم از کم 20 سال میں ایک اور نسل لگ جاتی۔ ہم نے بہت تیزی سے کام کیا ہے۔ آج شمال مشرق کا رابطہ اس کی ترقی کی بنیادی بنیاد ہے۔ ہم نے اس کو ترجیح دی ہے اور آج ہم ماضی کے تمام بنیادی ڈھانچے سے کئی گنا آگے نکل گئے ہیں اور ہم نے اس کو کرکے دکھایا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

پچھلے دس برسوں میں شمال مشرق میں مستقل امن کے لیے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں اور مسلسل کوششیں کی گئی ہیں، کوششیں بغیر رکے اور انتھک طور پر سب کو اعتماد میں لیتے ہوئے کی گئی ہیں۔ اور ملک میں اس کے بارے میں کم بحث ہوئی ہے، لیکن نتائج بہت امید افزا رہے ہیں۔ ریاستوں کے درمیان سرحدی جھگڑے تنازعات کو جنم دیتے رہے ہیں۔ اور آزادی کے بعد سے یہ کشمکش مسلسل جاری ہے۔ ہم ریاستوں کے ساتھ بیٹھ کر اور رضامندی سے زیادہ سے زیادہ سرحدی تنازعات کو ختم کرکے ایک کے بعد ایک معاہدے کر رہے ہیں۔ رضامندی کے ریکارڈ موجود ہیں اور اس کے لیے کسی کو وہاں جانا ہے، کسی کو یہاں آنا ہے، کہیں یہاں لکیر کھینچنی ہے، کہیں وہاں لکیر بنانی ہے، وہ سب کچھ ہو چکا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ شمال مشرق کے لیے ایک عظیم خدمت ہے۔ تشدد سے وابستہ تنظیمیں مسلح گروہ تھیں، جو وہاں لڑتی تھیں، زیر زمین جنگ لڑتی تھیں، ہر نظام کو چیلنج کرتی تھیں، ہر مخالف گروہ کو چیلنج کرتی تھیں، خون ریزی ہوتی تھی۔ آج ان کے ساتھ مستقل معاہدے ہو رہے ہیں، ہتھیار ڈالے جا رہے ہیں۔ جو لوگ سنگین سزاؤں کے تحت ہیں وہ جیل جانے کی تیاری کر رہے ہیں یا عدالت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ عدلیہ پر بڑھتا اعتماد، آئین پر بڑھتا اعتماد، بھارت کی جمہوریت میں بڑھتا ہوا بھروسا، حکومت ہند کے ڈیزائن پر بھروسا اس سے محسوس ہوتا ہے اور آج ہو رہا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

منی پور کے بارے میں، میں نے پچھلے اجلاس میں طویل بات کی تھی، لیکن میں آج ایک بار پھر اسے دہرانا چاہتا ہوں۔ حکومت منی پور میں حالات کو معمول پر لانے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ وہاں جو کچھ بھی ہوا۔ 11 ہزار سے زائد ایف آئی آر درج کی گئیں۔ منی پور ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ 11 ہزار ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ 500 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ منی پور میں تشدد کے واقعات میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے امن رکھنا، امید رکھنا، امن پر بھروسا کرنا۔ آج منی پور کے زیادہ تر حصے معمول کے مطابق چل رہے ہیں، اسکول، کالج، دفاتر اور دیگر ادارے کھل رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ملک کے دیگر حصوں کی طرح منی پور میں بھی امتحانات ہوئے ہیں۔ اور بچوں نے اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

مرکزی اور ریاستی حکومتیں سبھی سے بات کرکے امن اور ہم آہنگی کا راستہ کھولنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے یونٹوں اور حصوں کو جوڑ کر ان کپڑوں کو گوندھنا ایک بہت بڑا کام ہے اور یہ پرامن طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں پچھلی حکومتوں میں ایسا نہیں ہوا، وزیر داخلہ خود کئی دنوں تک وہاں موجود رہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ کئی ہفتوں تک وہاں موجود رہے اور بار بار متعلقہ لوگوں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

سیاسی قیادت موجود ہے لیکن حکومت کے تمام سینئر افسران جو ان کاموں سے وابستہ ہیں وہ مسلسل وہاں کا دورہ کر رہے ہیں اور وہاں مسلسل رابطے میں ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر طرح سے کوششوں کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

فی الحال منی پور کو بھی سیلاب کے بحران کا سامنا ہے اور مرکزی حکومت ریاستی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔ آج این ڈی آر ایف کی صرف دو ٹیمیں وہاں پہنچی ہیں۔ یعنی قدرتی آفات میں بھی مرکز اور ریاستیں مشترکہ طور پر منی پور کو لےکر فکرمند ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ہم سب کو سیاست سے اوپر اٹھ کر وہاں کے حالات کو معمول پر لانے میں تعاون کرنا چاہیے، یہ ہمارا فرض ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں ان تمام عناصر کو متنبہ کرتا ہوں جو ان سرگرمیوں کو روکنے کے لیے منی پور کی آگ میں گھی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب منی پور ایسے لوگوں کو مسترد کرنے والا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

جو لوگ منی پور کی تاریخ جانتے ہیں، جو منی پور میں ہونے والی پیش رفت کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ سماجی تنازعات کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ اس جدوجہد کی ذہنیت کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اور کانگریس کے لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھی وجوہات کی بنا پر منی پور میں 10 بار صدر راج نافذ کرنا پڑا۔ اتنی چھوٹی ریاست میں 10 بار صدارتی راج لگانا پڑا، صدر راج لگانا پڑا۔ کچھ تو پریشانیاں ہوں گی۔ مگر ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے وہاں جس طرح کی حرکتیں کی جارہی ہیں۔

اور عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں اس ایوان میں ہم وطنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ 1993 میں منی پور میں بھی اسی طرح کے واقعات پیش آئے تھے اور یہ اتنی شدت سے، اتنے وسیع پیمانے پر جاری تھے، جو مسلسل 5 سال تک جاری رہے۔ لہٰذا اس ساری تاریخ کو سمجھ کر ہمیں بہت دانشمندی سے حالات کو درست کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ جو بھی اس میں تعاون کرنا چاہتا ہے، ہم بھی سب کا تعاون لینا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم حالات کو معمول پر لانے اور امن لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ میری خوش قسمتی رہی ہے کہ وزیر اعظم کی حیثیت سے یہاں آنے سے پہلے مجھے ایک طویل عرصے تک وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا تھا اور اس کی وجہ سے میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ وفاقیت کی کیا اہمیت ہے اور میں اس میں سے کوآپریٹو وفاقیت اور مسابقتی کوآپریٹو وفاقیت کے ان نظریات پر زور دیتا رہا ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب جی 20 سمٹ کا انعقاد ہوا تھا تو ہم اسے صرف دہلی میں کر سکتے تھے، ہم دہلی میں بڑی دھوم دھام سے مودی کی واہ واہی کر سکتے تھے۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم نے ملک کی ہر ریاست کے مختلف کونوں میں جی 20 کے اہم پروگرام کیے، اس ریاست کو زیادہ سے زیادہ عالمی وقار دلانے کی کوشش کی گئی۔ چاہے وہ اس ریاست کی برانڈنگ ہو، دنیا کو اس کی صلاحیت کو جاننا چاہیے اور ہم نے اس سمت میں کام کیا ہے تاکہ اس کی ترقی کے سفر کے لیے اپنی قسمت آزمائی جا سکے۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ وفاقیت کی اور بھی شکلیں ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

جب ہم کووڈ کے خلاف لڑتے تھے، جتنی بار ہم نے وزرائے اعلیٰ سے بات چیت کی ہے، شاید بھارت کی آزادی کی تاریخ میں اتنے کم وقت میں ایسا اتنی بار نہیں ہوا ہے، ہم نے ایسا کیا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ ایوان ایک طرح سے ریاستوں سے جڑا ہوا ایوان ہے اور اس لیے میں اس ایوان میں ریاستوں کی ترقی کے کچھ اہم شعبوں پر گفتگو کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اور میں کچھ درخواستیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ آج ہم ایک ایسی صورت حال میں ہیں جہاں ہم اگلے انقلاب کی قیادت کر رہے ہیں، لہذا سیمی کنڈکٹر اور الیکٹرانک مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں، ہر ریاست کو اپنی پالیسیاں بنانا چاہیے اور بڑی ترجیح کے ساتھ منصوبوں کے ساتھ آگے آنا چاہیے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ریاستوں کے درمیان ترقی کے لیے مقابلہ ہو۔ سرمایہ کاری کو راغب کرنے والی پالیسیوں میں مسابقت ہونی چاہیے اور وہ بھی اچھی حکم رانی اور واضح پالیسیوں کے ذریعے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ آج جب دنیا بھارت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے تو ہر ریاست کے لیے ایک موقع ہے۔ اور جب یہ ریاستوں سے جڑا ہوا ایوان ہے تو میں آپ سے اپیل کروں گا کہ آگے آئیں اور ترقی کے سفر میں اس کا فائدہ اٹھائیں۔

روزگار پیدا کرنے میں ریاستوں کے درمیان مسابقت کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ اگر ہماری ریاست کی اس پالیسی کی وجہ سے اس ریاست کے نوجوانوں کو اتنا روزگار ملا تو دوسری ریاست کہے گی کہ اگر میں نے آپ کی پالیسی میں +1 کردیاتو مجھے یہ فائدہ ملا ۔ روزگار کے لیے ریاستوں کے درمیان مسابقت کیوں نہیں ہونی چاہیے؟ مجھے یقین ہے کہ اس سے ملک کے نوجوانوں کی قسمت بدلنے میں کافی مدد ملے گی۔

آج شمالی آسام میں سیمی کنڈکٹر پر تیزی سے کام جاری ہے۔ آج اس سے آسام، شمال مشرق اور وہاں اور ملک کے نوجوانوں کو بھی فائدہ ہونے والا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اقوام متحدہ نے 2023 کو ملیٹس کا سال قرار دیا ہے۔ یہ بھارت کی اپنی طاقت ہے۔ ہمارے چھوٹے کسانوں کے پاس طاقت ہے۔ اور جہاں پانی کم ہے، جہاں آبپاشی کی سہولیات نہیں ہیں، ملیٹس، جو سپر فوڈ ہیں، میرا ماننا ہے کہ ہر ریاست کو اس کے لیے آگے آنا چاہیے۔ اپنی ریاست کے سپر فوڈ کو ملیٹس کو لے کرعالمی بازار میں جانے کا منصوبہ بنائیں۔ اس کی وجہ سے دنیا کی ہر میز پر، کھانے کی میز پر اور بھارت کے کسانوں کے گھروں میں بھارت کے ملیٹس ہوں گے، دنیا سے کمانے کا موقع پیدا ہوگا۔ بھارت کے کسانوں کے لیے خوشحالی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں۔ میں ریاستوں سے آگے آنے کی اپیل کروں گا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

دنیا کے لیے غذائیت کی منڈی کا حل بھی ہمارے ملک کے ملیٹس میں ہے۔ یہ ایک سپر فوڈ ہے۔ اور جہاں غذائیت کی فکر ہے، وہاں ہمارا ملیٹ بہت اچھا کام کر سکتا ہے۔ ہماری ریاستوں کو بھی ہمیں صحت کے نقطہ نظر سے عالمی پلیٹ فارم پر لے جانے اور اپنی شناخت بنانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

اکیسویں صدی میں زندگی گزارنے میں آسانی عام آدمی کا حق ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ ریاستی حکومتیں اپنی پالیسیاں، قواعد اور نظام اس طرح تیار کریں کہ عام آدمی کو زندگی گزارنے میں آسانی کا موقع ملے اور اگر یہ پیغام اس ایوان سے ریاستوں تک جائے تو یہ ملک کے لیے مفید ہوگا۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

بدعنوانی کے خلاف ہماری لڑائی کو کئی سطحوں انجام دیناہوگا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اگر ریاست ایک ہی مشن کے ساتھ ان تمام اکائیوں میں بدعنوانی کے خاتمے کی پہل کرے تو ہم ملک کے عام آدمی کو اس بدعنوانی سے نجات دلا سکیں گے جس کا اسے سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

وقت کی ضرورت ہے کہ کارکردگی بڑھائی جائے۔ چلتا ہے کا دور لد چکا۔ اگر اکیسویں صدی کے بھارت کو خود کو بھارت کی صدی ثابت کرنا ہے تو ہمارے حکم رانی کے ماڈل میں، ہماری فراہمی کے ماڈل میں اور فیصلہ سازی کے ہمارے ماڈل میں کارکردگی بہت ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ خدمات کی رفتار بڑھانے اور فیصلوں کی رفتار بڑھانے میں کارکردگی بڑھانے میں کام کیا جائے گا۔ اور جب چیزیں اس طرح سے کی جاتی ہیں تو شفافیت ہوتی ہے، اگر مگر بھی نہیں ہوتی ہے اور عام آدمی کے حقوق کا بھی تحفظ ہوتا ہے۔ اور ہر شہری کو زندگی گزارنے میں آسانی کا احساس ہو سکتا ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

مجھے یقین ہے اور میرا ماننا ہے کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے شہریوں کی زندگیوں میں حکومت کی مداخلت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ روزمرہ کی زندگی میں حکومت، حکومت، حکومت، اب ہم اسی سمت میں جا رہے ہیں تو ہاں جن لوگوں کو حکومت کی ضرورت ہے، جن کی زندگی کو حکومت کی افادیت کی ضرورت ہے، ان کی زندگی میں حکومت کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جو لوگ اپنے بل بوتے پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، وہ حکومت کے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ لہٰذا میں ریاستوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ معاشرے اور نظام حکومت کو کم سے کم ترقی دینے کے لیے آگے آئیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے قدرتی آفات کی صورت حال بڑھتی جا رہی ہے۔ اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے جو کسی ایک کونے میں کیا جائے، ہمیں اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا۔ ریاستوں کو اپنی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہم قدرتی آفات کا مقابلہ کرسکیں۔ پینے کے پانی کو بھی یکساں اہمیت دینی ہوگی۔ عام آدمی کی صحت کی خدمت کو بھی یکساں اہمیت دینی ہوگی۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہماری ریاستوں میں سیاسی قوت ارادی کے ساتھ، ہماری ریاستیں یقینی طور پر ان بنیادی کاموں کی سمت میں شامل ہوں گی۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

یہ دہائی اور یہ صدی بھارت کی صدی ہے۔ لیکن ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ ایسے مواقع پہلے بھی آئے تھے۔ لیکن ہم نے بوجوہ اپنے مواقع کھو دیے تھے۔ اب ہمیں موقع گنوانے کی غلطی نہیں کرنی ہے۔ ہمیں مواقع تلاش کرنے ہوں گے، ہمیں مواقع سے فائدہ اٹھانا ہوگا اور ہمیں مواقع کی مدد سے اپنے عزم کو ثابت کرنا ہوگا۔ اس سمت میں آگے بڑھنے کا اس سے بڑا وقت نہیں ہو سکتا جو آج بھارت کے پاس ہے، 140 کروڑ ہم وطن، جو دنیا کا سب سے کم عمر ملک ہے۔ اور جو ممالک اس وقت ہمارے ساتھ آزاد ہوئے تھے وہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں، وہ بہت تیزی سے آگے بڑھے ہیں، ہم نہیں بڑھ سکے۔ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا۔ اور ہمیں اس عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ جن ممالک نے 80 کی دہائی میں اصلاحات کیں وہ آج بہت تیزی سے ترقی یافتہ ممالک کے طور پر کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اصلاحات کے بارے میں برا محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اصلاحات سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر ہم اصلاحات کریں گے تو ہماری اپنی طاقت ختم ہوجائے گی، ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جتنی زیادہ شرکت بڑھے گی، فیصلہ سازی کی طاقت عام آدمی کے ہاتھوں میں جائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم بھی کرتے ہیں۔ اگرچہ ہم دیر سے پہنچ سکتے ہیں، لیکن ہم اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس رفتار کو حاصل کرسکتے ہیں اور ہم اپنے عزائم کو پورا کرسکتے ہیں۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

ترقی یافتہ بھارت کا مشن کسی ایک فرد کا مشن نہیں ہے، یہ 140 کروڑ ہم وطنوں کا مشن ہے۔ یہ کسی ایک حکومت کا مشن نہیں ہے۔ ملک کی تمام سرکاری اکائیوں کا ایک مشن ہے۔ اور اگر ہم یکجا ہوکر ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھیں تو ہم ان خوابوں کو پورا کرنے کے قابل ہو جائیں گے، مجھے پختہ یقین ہے۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

میں عالمی فورم پر جاتا ہوں اور دنیا کے بہت سے لوگوں سے ملتا ہوں۔ اور میں آج محسوس کرتا ہوں کہ پوری دنیا سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے اور بھارت ان کی پہلی پسند ہے۔ ہماری ریاستوں میں سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ اس کا پہلا دروازہ ریاست ہے۔ اگر ریاستیں اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں تو مجھے یقین ہے کہ ریاست بھی ترقی کرے گی۔

عزت مآب چیئرمین صاحب،

جن جن باتوں کو عزت مآب ارکان نے اٹھایا تھا، میں نے مرتب شدہ انداز میں ان پر معلومات دینے کی کوشش کی ہے۔ اور عزت مآب صدر جمہوریہ نے جو خطاب کیا ہے، ہمیں جو ہدایات دی ہیں اور ملک کے عام آدمی کے اندر جو اعتماد پیدا کیا ہے، اس کے لیے میں اپنی طرف سے اور اس ایوان کی طرف سے بھی صدر جمہوریہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

ڈسکلیمر: یہ راجیہ سبھا میں وزیر اعظم کے خطاب کا قریبی ترجمہ ہے جس کا استعمال مجاز پارلیمانی ریکارڈ سے ملانے کے بعد کیا جائے ۔

***

(ش ح – ع ا – ع ر)

U. No. 8037



(Release ID: 2030537) Visitor Counter : 59