وزیراعظم کا دفتر

’من کی بات ‘ کی 110 ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (  25 فروری ، 2024 ء )

Posted On: 25 FEB 2024 12:08PM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار   ۔  ’من کی بات کے 110ویں ایپیسوڈ میں آپ کا خیر مقدم ہے ۔ ہمیشہ کی طرح  ، اس بار بھی ہمیں آپ کی بہت ساری تجاویز، ان پٹ اور تبصرے  ملے ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی  یہ چیلنج ہے کہ ایپی سوڈ میں  کن کن موضاعات  کو شامل  کیا جائے ۔ مجھے مثبتیت سے بھرے ایک سے بڑھ کر ایک اِن پُٹ ملے ہیں ۔ ان میں بہت سارے ایسے ہم وطنوں کا ذکر ہے  ، جو دوسروں کے لیے امید کی کرن بن کر  ، ان کی زندگیوں میں بہتری لانے  میں  مصروف   ہیں ۔

ساتھیو، کچھ ہی دنوں کے بعد 8 مارچ کو ہم 'خواتین کا دن' منائیں گے۔ یہ خاص دن  ، ملک کی ترقی کے سفر میں  ناری شکتی کے تعاون کو سلام کرنے کا موقع ہے۔  مہا کوی بھارتیار جی نے کہا ہے کہ دنیا تب ہی ترقی کرے گی   ، جب خواتین کو مساوی مواقع ملیں گے۔ آج بھارت کی خواتین کی  قوت  ( ناری شکتی ) ہر شعبے میں ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ چند سال پہلے تک کس نے سوچا ہوگا کہ ہمارے ملک میں گاؤوں میں رہنے والی خواتین بھی ڈرون اڑائیں گی لیکن آج یہ ممکن ہو رہا ہے۔ آج  تو گاؤں گاؤں میں ڈرون دیدی کا اتنا چرچا ہے،  ہر کسی کی زبان پر نمو ڈرون دیدی، نمو ڈرون دیدی چل پڑا ہے۔ ہر کوئی ان کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ ایک بڑا تجسس پیدا ہوا اور اسی لیے میں نے یہ بھی سوچا کہ اس بار ’من کی بات‘ میں کیوں نہ کسی نمو ڈرون دیدی سے بات کی جائے۔  ہمارے ساتھ ، اِس وقت نمو ڈرون دیدی سنیتا جی   جڑی ہوئی ہیں ، جو اتر پردیش کے سیتا پور سے ہیں ۔ آئیے ان سے بات کرتے ہیں۔

مودی جی: سنیتا دیوی جی، آپ کو نمسکار ۔

سنیتا دیوی: نمستے سر ۔

مودی جی:  اچھا سنیتا جی، پہلے میں آپ کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، آپ کے خاندان کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ کچھ بتایئے۔

سنیتا دیوی: سر، ہمارے خاندان میں دو بچے ہیں، ہم ہیں، شوہر ہے، ماں ہے۔

  مودی جی: سنیتا جی، آپ کی پڑھائی کہاں تک ہوئی ؟

سنیتا دیوی: سر، میں بی اے (فائنل) ہے۔

مودی جی: اور گھر میں کاروبار وغیرہ کیا ہے؟

سنیتا دیوی:  کاروبار وغیرہ کھیت باڑی سے متعلق کاروبار  کرتے ہیں ۔

 

مودی جی: اچھا سنیتا جی، آپ کا ڈرون دیدی بننے کا سفر کیسے شروع ہوا؟ آپ نے تربیت کہاں سے حاصل کی، کس قسم کی تبدیلیاں ہوئیں، میں پہلے  یہ جاننا چاہتا ہوں۔

سنیتا دیوی: جی سر، ٹریننگ ہماری پھول پور  افکو  کمپنی الہ ٰآباد میں ہوئی تھی اور ہم نے وہیں سے ٹریننگ حاصل کی تھی۔

مودی جی: تو کیا آپ نے ڈرون کے بارے میں سنا   تھا کبھی  ؟

سنیتا دیوی: سر، میں نے نہیں سنا تھا ایک بار  ایسے دیکھے تھے ، سیتا پور کے کرشی وگیان کیندر میں، ہم نے وہاں دیکھا تھا، پہلی بار ہم نے وہاں ڈرون دیکھا تھا۔

مودی جی: سنیتا جی،  مجھے یہ سمجھنا ہے کہ مانو آپ پہلے دن گئے ۔

سنیتا دیوی:  جی ۔

مودی جی:  پہلے دن آپ کو ڈرون دکھایا ہوگا، پھر بورڈ پر کچھ پڑھایا ہوگا، کاغذ پر پڑھایا ہوگا، پھر میدان میں لے جاکر  پریکٹس ، کیا کیا ہوا ہوگا۔ کیا آپ مجھے مکمل تفصیل بتا سکتی ہیں؟

سنیتا دیوی: جی سر، پہلے دن سر، ہمارے جانے کے بعد دوسرے دن سے ہماری ٹریننگ شروع ہو گئی۔ پہلے تھیوری پڑھائی گئی پھر کلاس دو دن چلی۔ کلاس میں ڈرون کے پرزے کیا ہوتے ہیں، آپ کو کیسے اور کیا کرنا ہے- یہ سب چیزیں تھیوری میں پڑھائی گئیں۔ تیسرے دن  سر ہمارا پیپر  ہوا تھا ۔  اس کے بعد سر کمپیوٹر   پر پیپر ہوا ، یعنی پہلے کلاس لی گئی اور پھر ٹیسٹ لیا گیا۔ پھر پریکٹیکل ہوا، ہمارا مطلب ہے کہ ڈرون کیسے اڑانا ہے، کنٹرول کیسے سنبھالنا ہے، سب کچھ پریکٹیکل شکل میں سکھایا گیا۔

مودی جی: پھر ڈرون کیا کام کرے گا، کیسے سکھایا گیا؟

سنیتا دیوی: سر، ڈرون ایسے کام کرے گا جیسے اب فصل اگ رہی ہے۔ بارش کا موسم ہو یا اس طرح کی کوئی اور چیز، بارشوں کے دوران کوئی پریشانی ہوتی ہے اور ہم فصل کاٹنے کے لیے کھیتوں میں نہیں جا پاتے، تو مزدور اندر کیسے جائیں گے، اس سے کسانوں کو بہت فائدہ ہو گا اور وہ کھیتوں میں داخل ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اپنے ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے مزدوروں کو کام پر لگا کر اپنا کام کر سکتے ہیں، کھیت کے اندر کھڑے ہو کر اپنا کام کر سکتے ہیں، اگر کھیت کے اندر کوئی کیڑے مکوڑے ہوں تو ہمیں محتاط رہنا ہو گا، کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا اور  میں بھی کسان ہوں۔ بہت اچھا لگ رہا ہے  سر ۔ ہم اب تک 35 ایکڑ پر اسپرے  کر چکے ہیں ۔

مودی جی: تو کسانوں کو  بھی سمجھ ہے کہ اس کا فائدہ ہے ؟

سنیتا دیوی: جی جناب، کسان بہت مطمئن ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت اچھا محسوس کر رہے ہیں۔ وقت بھی بچ جاتا ہے، آپ تمام سہولیات خود دیکھ لیں، پانی، دوائی، سب کچھ ساتھ رکھا ہوا ہے اور ہمیں صرف فارم پر آکر بتانا ہے، میرا فارم کہاں سے ہے اور سارا کام آدھے گھنٹے میں ہو جاتا ہے۔  

مودی جی: تو یہ   ڈرون دیکھنے کے لیے اور لوگ بھی آتے ہوں گے پھر تو ؟

سنیتا دیوی: سر، بہت بھیڑ  لگ جاتی ہے، ڈرون دیکھنے  کے لیے بہت سے لوگ آتے ہیں۔ جو بڑے کسان ہیں نمبر  لے جاتے ہیں کہ ہم  بھی آپ کو اسپرے کے لیے بلا ئیں  گے۔

مودی جی:  اچھا ۔ کیونکہ میرا یک مشن ہے لکھپتی دیدی بنانے کا ، اگر آج ملک بھر کی بہنیں سن رہی ہیں،  تو ایک ڈرون دیدی آج پہلی بار میرے ساتھ بات کر رہی ہے ، تو  کیا کہنا چاہیں گےآپ ؟

سنیتا دیوی: جس طرح آج میں اکیلے ڈرون دیدی ہوں، اگر ایسی ہزاروں بہنیں میری طرح ڈرون دیدی بننے کے لیے آگے آئیں اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ جب میں اکیلی ہوں  ،  میرے ساتھ ہزاروں دوسرے لوگ کھڑے ہوں گےتو  بہت اچھا لگے گا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں، بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہیں اور ڈرون دیدی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

مودی جی:  چلیے سنیتا جی، میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارکباد ۔  یہ نمو ڈرون دیدی، یہ ملک میں زراعت کو جدید بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔ میری بہت  بہت نیک خواہشات۔

سنیتا دیوی: شکریہ، شکریہ سر۔

مودی جی: شکریہ!

ساتھیو، آج ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہیں  ، جس میں ملک کی  ناری شکتی پیچھے رہ گئی ہو۔ ایک اور شعبہ جہاں خواتین نے اپنی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا  ہے  ، وہ ہے قدرتی کاشتکاری، پانی کا تحفظ اور صفائی ستھرائی۔ کیمیکلز کی وجہ سے ہمارا مادر وطن  ، جن دکھ ، درد اور مصائب کا سامنا کر رہا ہے، اس ملک کی   دھرتی کو بچانے میں  ناری شکتی بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ ملک کے کونے کونے میں خواتین اب قدرتی کھیتی کو بڑھا رہی ہیں۔ آج اگر ملک میں ’جل جیون مشن‘ کے تحت اتنا کام ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے واٹر کمیٹیوں کا بڑا رول ہے۔ اس واٹر کمیٹی کی قیادت صرف خواتین کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ  ، بہنیں اور بیٹیاں پانی کے تحفظ کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون کلیانی پرفل پاٹل جی ہیں  ، جو میرے ساتھ فون لائن پر ہیں۔ وہ مہاراشٹر کی رہنے والی ہیں ۔ آئیے، کلیانی پرفل پاٹل جی سے بات کریں اور ان کا تجربہ جانتے ہیں۔

وزیر اعظم - کلیانی جی نمستے ۔

کلیانی جی -  نمستے سر جی ، نمستے ۔

وزیر اعظم کلیانی جی، سب سے پہلے ہمیں اپنے بارے میں، اپنے خاندان کے بارے میں، اپنے کام کے بارے میں بتائیں۔

کلیانی جی سر، میں ایم ایس سی مائکرو بایولوجی ہوں اور گھر میں میرے شوہر، میری ساس اور دو بچے ہیں اور میں تین سال سے اپنی گرام پنچایت میں کام کر رہی ہوں۔

وزیر اعظم - اور پھر وہ گاؤں میں کھیتی باڑی کے کام میں لگ گئیں؟ کیونکہ آپ کے پاس بنیادی علم  بھی ہے، آپ نے اس شعبے میں تعلیم بھی حاصل کی ہے اور اب آپ کاشتکاری سے منسلک ہو چکی ہیں، تو  کیا کیا نئے تجربات کیے  ہیں آپ نے ؟

  کلیانی جی سر ، ہمارے پاس موجود دس اقسام کی پودوں کو اکٹھا کر کے  ، ہم نے اس سے ایک نامیاتی اسپرے بنایا، جیسے کہ ہم کیڑے مار دوا وغیرہ چھڑکتے ہیں تو  اس سے ہمارے دوست کیڑے مکوڑے بھی  تباہ ہو جاتے ہیں اور ہماری مٹی بھی آلودہ ہو جاتی ہے۔ جو کہ پانی میں کیمیکلز کی آمیزش کی وجہ سے ہمارے جسم پر مضر اثرات مرتب کر رہے ہیں، اسی مناسبت سے ہم نے کم سے کم کیڑے مار ادویات کا استعمال کیا ہے۔

وزیر اعظم تو ایک طرح سے آپ مکمل طور پر قدرتی کھیتی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔

کلیانی جی ہاں، جو ہماری روایتی کھیتی ہے جناب، ہم نے پچھلے سال کی تھی۔

وزیر اعظم - آپ کو قدرتی کاشتکاری میں کیا تجربہ ہے؟

کلیانی جی – سر ،  جو ہماری خواتین  ہیں ، ان کو جو خرچ ہے ، وہ کم لگا اور جو پروڈکٹس  ہے ،  سر ، وہ حل ملنے کے بعد، ہم نے بغیر  پیسٹ وہ کیا کیونکہ اب کینسر کے شواہد بڑھ رہے ہیں،  جیسے شہری علاقوں تو ہے ہی  لیکن  گاؤوں میں بھی اس کے شواہد بڑھتے جا رہے ہیں ، لہٰذا اگر آپ اپنے آنے والے خاندان کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو یہ راستہ اختیار کرنا ضروری ہے، اسی مناسبت سے وہ خواتین بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

وزیر اعظم ٹھیک ہے کلیانی جی، کیا آپ نے پانی کے تحفظ میں بھی کچھ کام کیا ہے؟ اس میں کیا کیا ہے آپ نے ؟

کلیانی جی –سر ، ہماری حکومت کی تمام عمارتیں جیسے پرائمری اسکول، آنگن واڑی، ہماری گرام پنچایت کی عمارت، وہاں کا سارا بارش کا پانی، ہم نے اسے ایک جگہ جمع کیا اور ریچارج شافٹ،  سر ، یہ ہے کہ بارش کا پانی جو گرتا ہے۔ زمین کے اندر پرکولیٹ، اس کے مطابق ہم نے اپنے گاؤں میں 20 ریچارج شافٹ بنائے ہیں اور 50 ریچارج شافٹ منظور کیے گئے ہیں۔ اب وہ کام بھی جلد شروع ہونے والا ہے۔

وزیر اعظم - چلو کلیانی جی، آپ سے بات کر کے بہت خوشی ہوئی۔ آپ کے لئے  بہت بہت نیک خواہشات ۔

کلیانی جی - شکریہ  سر ، شکریہ  سر ۔ مجھے بھی آپ سے بات کرکے بہت خوشی ہوئی۔ مطلب، میری زندگی مکمل طور پر بامعنی ہو گئی ہے ، ایسا میں مانتی ہوں ۔

وزیر اعظم - بس  سوا کیجیے ۔

وزیر اعظم - چلو، آپ کا نام  ہی کلیانی ہے،  تو آپ کو  تو کلیان کرنا ہی کرنا ہے ۔ شکریہ جی ۔ نمسکار

کلیانی جی شکریہ  سر ۔ شکریہ

ساتھیو، سنیتا جی ہوں یا کلیانی جی، مختلف شعبوں میں ناری شکتی کی کامیابی بہت متاثر کن ہے۔ میں ایک بار پھر  اپنی  ناری شکتی کے اس جذبے کی تہہ دل سے ستائش کرتا ہوں ۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج ہماری زندگی میں ٹیکنالوجی کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ موبائل فون اور ڈیجیٹل گیجٹس ہر ایک کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل گیجٹس کی مدد سے  ، اب یہ جنگلی جانوروں سے ہم آہنگ رہنے میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ کچھ دنوں بعد، 3 مارچ کو ’ورلڈ وائلڈ لائف ڈے ہے۔ یہ دن جنگلی جانوروں کے تحفظ کے بارے میں بیداری پھیلانے کے مقصد سے منایا جاتا ہے۔ اس سال ورلڈ وائلڈ لائف ڈے کے موضوع میں ڈیجیٹل انوویشن کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں حکومت کی کوششوں سے ملک میں شیروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ مہاراشٹر کے چندر پور کے ٹائیگر ریزرو میں شیروں کی تعداد 250 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ چندر پور ضلع میں انسانوں اور شیروں کے درمیان تصادم کو کم کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد لی جا رہی ہے۔ یہاں گاؤں اور جنگل کی سرحد پر کیمرے لگائے گئے ہیں۔ جب بھی کوئی شیر گاؤں کے قریب آتا ہے تو اے آئی کی مدد سے مقامی لوگوں کو  ، ان کے موبائل پر الرٹ ملتا ہے۔ آج اس نظام نے  ، اس ٹائیگر ریزرو کے آس پاس کے 13 گاؤوں میں لوگوں کو کافی سہولت فراہم کی ہے اور شیروں کو بھی تحفظ حاصل ہوا ہے۔

     ساتھیو، آج نوجوان صنعت کار جنگلی حیات کے تحفظ اور ماحولیاتی سیاحت کے لیے بھی نئی ایجادات لا رہے ہیں۔ اتراکھنڈ  کے روڑکی میں روٹر پریسیجن گروپس نے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کے ساتھ مل کر ایک ایسا ڈرون تیار کیا ہے، جس سے کین  ندی میں مگرمچھوں پر نظر رکھنے میں مدد  مل رہی ہے ۔ اسی طرح بنگلورو کی ایک کمپنی نے ’باگھیرا اور ’گروڈ نامی ایپ تیار کی ہے۔ بگھیرا ایپ کے ذریعے جنگل سفاری کے دوران گاڑی کی رفتار اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسے ملک کے کئی ٹائیگر ریزرو میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرنیٹ آف تھَنگس  پر مبنی گروڈا ایپ کو کسی بھی سی سی ٹی وی سے جوڑ کر، آپ کو حقیقی وقت میں الرٹس ملتے ہیں۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ایسی ہر کوشش ہمارے ملک کے حیاتیاتی تنوع کو مزید تقویت بخش رہی ہے۔

     ساتھیو، بھارت میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہماری ثقافت کا ایک لازمی حصہ رہی ہے۔ ہم ہزاروں سالوں سے فطرت اور جنگلی حیات کے ساتھ بقائے باہم کے جذبے میں رہ رہے ہیں۔ اگر آپ کبھی مہاراشٹر میں میل گھاٹ ٹائیگر ریزرو جائیں تو آپ خود اس کا تجربہ کر سکیں گے۔ اس ٹائیگر ریزرو کے قریب کھٹکلی گاؤں میں رہنے والے قبائلی خاندانوں نے حکومت کی مدد سے اپنے گھروں کو ہوم اسٹے میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ اسی گاؤں میں رہنے والے کورکو قبیلے کے پرکاش جمکر جی نے اپنی دو ہیکٹر اراضی پر سات کمروں پر مشتمل ہوم اسٹے تیار کیا ہے۔ ان کے یہاں رکنے والے سیاحوں کے لیے  کھانے پینے کا انتظام ، ان کا خاندان  ہی کرتا ہے۔ دواؤں کے پودوں کے ساتھ ساتھ   ، انہوں نے اپنے گھر کے ارد گرد آم اور کافی کے درخت بھی لگائے ہیں۔ اس سے نہ صرف سیاحوں کی کشش میں اضافہ ہوا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، جب ہم مویشی پالنے کی بات کرتے ہیں تو اکثر گائے اور بھینسوں پر ہی رک جاتے ہیں لیکن بکری بھی ایک اہم جانور ہے، جس پر زیادہ  بات نہیں کی جاتی۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بہت سے لوگ بکری پالنے سے بھی وابستہ ہیں۔ اوڈیشہ میں کالاہانڈی میں بکری پالن ،  گاؤں کے لوگوں کی روزی روٹی کے ساتھ ساتھ  ، ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کا ایک بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔ اس کوشش کے پیچھے جینتی مہاپاترا جی اور ان کے شوہر برین ساہو جی کا بڑا فیصلہ ہے۔ یہ دونوں بنگلورو میں  مینجمنٹ پیشہ ور تھے لیکن انہوں نے وقفہ  لے کر کالاہانڈی سے سالیبھاٹا گاؤں آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ لوگ کچھ ایسا کرنا چاہتے تھے  ، جس سے یہاں کے گاؤں والوں کے مسائل حل ہوں اور انہیں بااختیار بھی بنایا جائے۔ خدمت اور لگن سے بھری اس سوچ کے ساتھ، انہوں نے مانیکاستو ایگرو قائم کیا اور کسانوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ جینتی جی اور برین جی نے یہاں ایک دلچسپ مانیکاستو گوٹ بینک بھی کھولا ہے۔ وہ کمیونٹی کی سطح پر بکری پالنے کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کے گوٹ فارم میں درجنوں کے قریب بکریاں ہیں۔ مانیکاستو گوٹ بینک، انہوں نے کسانوں کے لیے ایک مکمل نظام تیار کیا ہے۔ اس کے ذریعے کسانوں کو 24 ماہ کے لیے دو بکریاں دی جاتی ہیں۔ بکریاں 2 سال میں 9 سے 10 بچوں کو جنم دیتی ہیں، جن میں سے 6 بچے بینک اپنے پاس رکھتا ہے ، باقی بچے اسی خاندان کو دے دیتا ہے ، جو بکریاں پالتے ہیں۔ یہی نہیں بکریوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ آج 50 گاؤں کے 1000 سے زیادہ کسان  ، ان سے وابستہ ہیں۔ ان کی مدد سے گاؤں کے لوگ جانور پالنے کے شعبے میں آتم نربھرتا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے کہ مختلف شعبوں میں کامیاب پیشہ ور افراد چھوٹے کسانوں کو بااختیار اور  خود کفیل بنانے کے لیے نئے  نئے طریقے اپنا رہے ہیں۔ ان کی کوششیں سب کو متاثر کرنے والی ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہماری ثقافت سکھاتی ہے – ’پرمارتھ پرمو دھرم‘ یعنی دوسروں کی مدد کرنا سب سے بڑا فرض ہے۔ اس جذبے کی پیروی کرتے ہوئے، ہمارے ملک میں بے شمار لوگ بے لوث دوسروں کی خدمت میں اپنی زندگیاں وقف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص ہیں - بہار کے بھوجپور کے بھیم سنگھ بھاویش جی۔ ان کے کاموں کے بارے میں  ، ان کے علاقے کے مُسہر  ذات کے لوگوں میں  ان کے کام کا بہت چرچا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا کیوں نہ آج ان کے بارے میں بھی بات کروں۔ بہار میں،  مسہر  ایک بہت ہی محروم کمیونٹی رہی ہے، ایک بہت ہی غریب کمیونٹی۔ بھیم سنگھ بھاویش جی نے  ، اس کمیونٹی کے بچوں کی تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہے تاکہ ان کا مستقبل روشن ہو سکے۔ انہوں نے  مسہر  ذات کے تقریباً 8 ہزار بچوں کو اسکول میں داخل کرایا ہے۔ انہوں نے ایک بڑی لائبریری بھی بنائی ہے  ، جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم کی بہتر سہولتیں مل رہی ہیں۔ بھیم سنگھ جی ضروری دستاویزات بنانے اور فارم بھرنے میں اپنی برادری کے افراد کی مدد  بھی کرتے ہیں۔ اس سے گاؤں کے لوگوں کی ضروری وسائل تک رسائی میں مزید بہتری آئی ہے۔ لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے  ، انہوں نے 100 سے زائد میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا ہے۔ جب کورونا بحران زور پکڑ رہا تھا تو بھیم سنگھ جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کو ٹیکہ لگوانے کی ترغیب دی۔ ملک کے مختلف حصوں میں بھیم سنگھ بھاویش جی جیسے بہت سے لوگ ہیں، جو سماج میں ایسے بہت سے نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیں تو یہ ایک مضبوط قوم کی تعمیر میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔

میرے پیارے ہم وطنو، بھارت کی خوبصورتی اس کے تنوع اور ہماری ثقافت کے مختلف رنگوں میں پنہاں ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کتنے لوگ بے لوث طریقے سے بھارتی ثقافت کے تحفظ اور اسے خوبصورت بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو بھارت کے ہر حصے میں ملیں گے۔ ان میں ایک بڑی تعداد  ، ان لوگوں کی بھی ہے  ، جو زبان کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کے گاندربل کے محمد منشا جی گزشتہ تین دہائیوں سے گوجری زبان کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کا تعلق گجر بکروال برادری سے ہے  ، جو ایک قبائلی برادری ہے۔ بچپن میں  ، انہیں پڑھائی کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی تھی، وہ روزانہ 20 کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔ اس طرح کے چیلنجوں کے درمیان، انہوں  نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد ہی ان  کا اپنی زبان کو محفوظ رکھنے کا عزم مضبوط ہوا۔

ادب کے میدان میں منشا جی کی تصانیف کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اسے تقریباً 50 جلدوں میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ان میں نظمیں اور لوک گیت بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کئی کتابوں کا گوجری زبان میں ترجمہ کیا ہے۔

ساتھیو، اروناچل پردیش میں تیرپ کے بنوانگ لوسو جی ایک استاد ہیں۔ انہوں نے وانچو زبان کے  فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان اروناچل پردیش، ناگالینڈ اور آسام کے کچھ حصوں میں بولی جاتی ہے۔ انہوں نے ایک لینگویج اسکول بنانے کا کام کیا ہے۔ وانچو زبان کا رسم الخط بھی تیار کیا گیا ہے۔ وہ آنے والی نسلوں کو بھی وانچو زبان سکھا رہے ہیں تاکہ اسے معدوم ہونے سے بچایا جا سکے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں  ، جو گانوں اور ناچوں کے ذریعے اپنی ثقافت اور زبان کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کرناٹک کے وینکپا امباجی سوگیتکر، ان کی زندگی بھی اس معاملے میں بہت متاثر کن ہے۔ یہاں کے باگل کوٹ کے رہنے والے سوگیتکر جی ایک لوک گلوکار ہیں۔ انہوں نے 1000 سے زیادہ گوندھلی گانے گائے ہیں اور اس زبان میں کہانیوں کو بھی بڑے پیمانے پر  فروغ دیا ہے۔ وہ سینکڑوں طلباء کو بغیر فیس کے ٹریننگ بھی دے چکے ہیں۔ بھارت میں جوش اور ولولے سے بھرے ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے، جو ہماری ثقافت کو مسلسل فروغ دے رہے ہیں۔ آپ بھی ان سے تحریک لیں اور خود بھی کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ بہت مطمئن محسوس کریں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، دو دن پہلے میں وارانسی میں تھا اور وہاں میں نے ایک بہت ہی شاندار تصویری نمائش دیکھی۔ کاشی اور آس پاس کے نوجوانوں نے جو لمحات کیمرے میں قید کیے ہیں  ، وہ حیرت انگیز ہیں۔ اس میں بہت سی تصاویر ہیں  ، جو موبائل کیمرے سے لی گئی ہیں۔ درحقیقت، آج جس کے پاس موبائل ہے  ، وہ مواد تخلیق کرنے والا بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو  ، ان کے ہنر اور صلاحیتوں کو دکھانے میں بھی بہت مدد کی ہے۔ ہمارے بھارت کے نوجوان ساتھی کنٹینٹ کریئیٹر  کے میدان میں حیرت انگیز کام کر رہے ہیں۔  چاہے کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، آپ کو ہمارے نوجوان دوست مختلف موضوعات پر مختلف مواد کا اشتراک کرتے ہوئے  مل جائیں گے۔ سیاحت ہو، سماجی کاز، عوامی شرکت ہو یا زندگی کا متاثر کن سفر، ان سے متعلق مختلف قسم کے مواد سوشل میڈیا پر دستیاب ہیں۔ مواد تیار کرنے والے ملک کے نوجوانوں کی آواز آج بہت موثر ہو چکی ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف کے لیے  ، ملک میں نیشنل کریئیٹرز ایوارڈ  شروع کیا گیا ہے۔ اس کے تحت مختلف کیٹیگریز میں  ، ان تبدیلی سازوں کو نوازنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں  ، جو سماجی تبدیلی کی موثر آواز بننے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مقابلہ  مائی گوو  پر چل رہا ہے اور میں مواد تخلیق کرنے والوں سے  ، اس میں شامل ہونے کی درخواست کروں گا۔ اگر آپ بھی ایسے دلچسپ مواد تخلیق کرنے والوں کو جانتے ہیں تو انہیں نیشنل کریئیٹرز ایوارڈ کے لیے ضرور نامزد کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو، مجھے خوشی ہے کہ چند دن پہلے ہی الیکشن کمیشن نے ایک اور مہم شروع کی ہے – ’میرا پہلا ووٹ -  ملک کے لیے‘۔ اس کے ذریعے پہلی بار ووٹروں سے خاص طور پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کی درخواست کی گئی ہے۔ بھارت کو  ، جوش اور توانائی سے بھرپور اپنی نوجوان قوت پر فخر ہے۔ ہمارے نوجوان انتخابی عمل میں جتنا زیادہ حصہ لیں گے، اس کے نتائج ملک کے لیے اتنے ہی زیادہ فائدہ مند ہوں گے۔ میں پہلی بار ووٹروں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ ریکارڈ تعداد میں ووٹ  دیں۔ 18 سال کے ہونے کے بعد، آپ کو 18ویں لوک سبھا کے لیے رکن منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ 18ویں لوک سبھا بھی نوجوانوں کی امنگوں کی علامت ہوگی۔ اس لیے آپ کے ووٹ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ عام انتخابات کی اس ہلچل کے درمیان آپ نوجوانوں کو نہ صرف سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننا چاہیے بلکہ اس دوران ہونے والے بحث ومباحثہ سے بھی باخبر رہنا چاہیے اور یاد رکھیے گا  – ’میرا پہلا ووٹ - ملک کے لیے ‘۔ میں  ، ملک کے انفلوئنسسر سے بھی گزارش کروں گا، چاہے وہ کھیلوں کی دنیا سے ہوں، فلم انڈسٹری سے ہوں، ادب کی دنیا سے ہوں، دیگر پیشہ ور افراد ہوں یا ہمارے انسٹاگرام اور یوٹیوب  کے انفلوئنسر ہوں ، وہ بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ہمارے  فرسٹ ٹائم ووٹرس کو موٹیویٹ کریں۔

ساتھیو، ’من کی بات ‘ کے اس ایپی سوڈ میں میرے ساتھ اتنا ہی ۔ ملک میں لوک سبھا انتخابات کا ماحول ہے اور جیسا کہ پچھلی بار ہوا تھا، امکان ہے کہ مارچ کے مہینے میں بھی ضابطہ اخلاق نافذ ہو جائے گا۔ من کی بات کی یہ بڑی کامیابی ہے کہ گزشتہ 110  ایپی سوڈ میں  ، ہم نے اسے حکومت  کی پرچھائی سے بھی دور رکھا ہے۔ من کی بات میں ملک کی اجتماعی قوت اور ملک کی کامیابیوں کی بات  ہوتی ہے۔ ایک طرح سے یہ عوام کا، عوام کے لیے اور عوام  کے ذریعے تیار  ہونے والا پروگرام ہے لیکن پھر بھی، سیاسی روایات پر عمل کرتے ہوئے ، لوک سبھا انتخابات کے ان دنوں میں ’من کی بات‘ اب  اگلے تین ماہ تک نشر نہیں ہوگی۔ اب جب  ، ہم آپ کے ساتھ ’من کی بات میں بات کریں گے، تو یہ ’من کی بات کا 111واں  ایپی سوڈ  ہوگا۔ اگلی بار ’من کی بات‘  کا آغاز   111  ویں مبارک نمبر سے  ہوگا ،   تو اس سے  اچھی اور کیا بات ہے لیکن ساتھیو، آپ کو میرے لیے ایک کام کرتے رہنا ہے ۔ ’ من کی بات‘ بھلے ہی تین ماہ کے لیے رک جائے، لیکن ملک کی کامیابیاں تھوڑے ہی رکیں گی  ۔  اس لیے ’من کی بات ‘ ہیش ٹیگ (#) کے ساتھ سماج اور ملک کی کامیابیوں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہیں۔ . کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان نے مجھے ایک اچھا مشورہ دیا۔ تجویز یہ ہے کہ ’من کی بات کی اب تک کی اقساط کی چھوٹی ویڈیوز کو یوٹیوب شارٹس کی شکل میں شیئر کیا جانا چاہیے۔ اس لیے میں ’من کی بات کے سننے والوں سے گزارش کروں گا کہ اس طرح کے شارٹس کو بڑے پیمانے پر شیئر کریں۔

ساتھیو، اگلی بار جب میں آپ سے بات کروں گا تو میں آپ سے نئی توانائی اور نئی معلومات کے ساتھ ملوں گا۔ اپنا خیال رکھنا، بہت بہت شکریہ۔  نمسکار !

……………………

ش ح  ۔ و ا  ۔ ع ا

U.No. 5340



(Release ID: 2008804) Visitor Counter : 88