وزیراعظم کا دفتر

ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 14 FEB 2024 8:35PM by PIB Delhi

آپ سبھی عزت مآب شخصیات

آپ سبھی عالی مرتبت شخصیات

خواتین و حضرات

نمسکار

ورلڈگونمنٹ سمٹ میں  کلیدی خطبہ دینا میرے لئے انتہائی اعزاز کی بات ہے ۔اورمجھے تو  یہ موقع دوسری بار مل رہا ہے ۔ میں عزت مآب شیخ محمد بن راشد جی  کی اس دعوت اور گرمجوشی سے پر خیرمقدم کے لئے انتہائی شکرگزار ہوں۔ میں اپنے برادر عزت مآب شیخ محمد بن زائد کا بھی شکریہ ادا کرتا ہو ں۔ حالیہ دنوں میں مجھے ان سے کئی بار ملنے کاموقع ملاہے ۔ وہ صرف لیڈر آف  وژن ہی نہیں ہیں  بلکہ لیڈر آف ریزالو اورلیڈرآف کمٹمنٹ بھی ہیں ۔

ساتھیو،

ورلڈ گورنمنٹ سمٹ  دنیا بھر کے  تھاٹ لیڈرس کوایک پلیٹ فارم پر لانے کاایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے ۔ اس میں عزت مآب شیخ محمد بن راشد کی صاحب بصیرت قیادت ، اس کا بہت بڑا رول ہے ۔ دبئی جس طرح گلوبل اکنامی، کامرس اور ٹکنالوجی کا مرکز بن رہا ہے ، یہ بہت بڑی بات ہے ۔ کووڈ کے دوران ایکسپو 2020 کا  انعقاد ہو یا پھر حال ہی میں سی او پی 28 کا انعقاد، یہ ‘ دبئی اسٹوری ’ کی بہترین مثالیں ہیں ۔ میں آپ کو اس سمٹ کے لئے مبارکباد دیتا ہوں ۔ اس کی کامیابی کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ۔

ساتھیو،

آج ہم 21 ویں صدی میں ہیں۔ ایک طرف دنیا جدت پسندی کی طرف بڑھ رہی ہے، تو پچھلی صدی سے چلے آرہے چیلنجز بھی اتنےہی وسیع ہورہے ہیں ۔ غذائی تحفظ ہو، ہیلتھ سیکورٹی ہو ، آبی تحفظ ہو،  توانائی کا تحفظ ہو، تعلیم ہو، سماج کو شمولیت  پر مبنی بنانا ہو، ہر سرکار اپنے شہریوں کے تئیں کئی ذمہ داریوں کی پابند ہے۔ ٹکنالوجی ہر طرح سے ،چاہے وہ منفی ہو یامثبت ، ا یک اہم ڈسرپٹر ثابت ہورہی ہے۔ دہشت گردی آئے دن ایک نئی شکل کے ساتھ انسانیت کے سامنے نئے چیلنجز لے کر آرہی ہے ۔ آب وہوا سے متعلق چیلنجز بھی وقت کےساتھ اوربڑے ہوتے جارہے ہیں ۔ ایک طرف ڈومسٹک کنسرنس ہیں تو دوسری طرف بین الاقوامی نظام منتشر نظر آتا ہے  ا وران سب کے درمیان ہر سرکارکے سامنے  اپنی معنویت کو بچانے کا بھی بہت بڑی چیلنج ہے۔ ان سوالوں،  ان چیلنجوں،  ان  حالات کے بیچ ورلڈ گورنمنٹ سمٹ کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے ۔

ساتھیو،

آج ہر سرکار کےسامنے سوال ہے کہ وہ کس   نظریہ کے ساتھ آگے بڑھے۔ میرامانناہے کہ آج دنیاکو ایسی سرکاروں کی ضرورت ہے جو شمولیت پر مبنی ہو، جو سب کو ساتھ لے کر چلے۔ آج دنیا کو  ایسی سرکاروں کی ضرورت ہے جواسمارٹ ہو، جوٹکنالوجی کو بڑی تبدیلی کاوسیلہ بنائے، آج دنیاکو ایسی سرکاروں کی ضرورت ہو جو کلین ہو ، جو بدعنوانی سے دور ہو، جو شفاف  ہو۔ آج دنیا کو ایسی سرکاروں کی ضرورت ہے جوگرین ہو ، جو  آب وہوا سےمتعلق چیلنجوں کےتئیں سجیدہ ہو، آج دنیاکو ضرورت ہے ایسی سرکاروں کی جو ایز آف لیونگ، ایز آف جسٹس، ایز آف موبلیٹی، ا یز آف انوویشن اور ایز آف ڈوئنگ بزنس کو اپنی ترجیح بناکر چلیں ۔

دوستو،

ہیڈ آف دی گورنمنٹ کے طور پر مسلسل کام کرتےہوئے مجھے23 سال ہونےجارہے ہیں ،میں نے 13 سال ہندوستان کی ایک بڑی ریاست گجرات کی سرکار میں رہتے ہوئے لوگوں کی خدمت کی ہے اوراب مجھے مرکزی حکومت میں  ملک کے عوام کی خدمت کرتے ہوئے10 سال ہونے جارہے ہیں ۔ میں مانتاہوں کہ سرکارکی کمی بھی نہیں ہونی چاہئے اور سرکار کا دباؤ بھی نہیں ہونا چاہئے بلکہ میں تو یہ مانتاہوں کہ لوگوں کی زندگی میں سرکار کا دخل کم سے کم ہو،یہ یقینی بنانا بھی سرکار کاہی کام ہے ۔

ہم اکثرکئی ماہرین کو سنتے ہیں  کہ کووڈکے بعد دنیا بھر میں سرکاروں پر اعتماد کم ہوا ہے،لیکن ہندوستان میں ہم نےبالکل برعکس تجربہ دیکھا۔ گزشتہ برسوں میں حکومت ہند پر ملک کے لوگوں کا اعتماد مزید مستحکم ہوا ہے ، لوگوں کوہماری سرکار کےارادےاورعزم دونوپر اعتمادہے۔  یہ کیسے ہوا؟کیوں کہ ہم نے گورننس میں عوامی جذبات کو ترجیح دی ہے۔ ہم ملک کے عوام کی ضرورتوں کے تئیں حساس ہیں ۔ ہم نے  لوگوں کی ضرورتوں اور لوگوں کے خوابوں ، دونوں کو پورا کرنے پر توجہ دی ہے ۔

ان 23 برسوں میں سرکار میں میرا سب سے بڑا اصول رہا ہے –منیمم گورنمنٹ ، میکسمم گورننس۔ میں نے ہمیشہ ایسا ماحول پیدا کرنے پر زور  دیا ہے جو  شہریوں میں انٹرپرائز اور ا نرجی  دونوں کو مزید بڑھائے ۔  ہم ٹاپ ڈاؤن اور باٹم اپ اپروچ کے ساتھ ساتھ  ہول آف سوسائٹی  اپروچ کو لے کر بھی چلے ہیں ۔ ہم نے ہولسٹک ا پروچ  پر زور دیا ہے، عوام کی شراکت داری کو زیادہ ترجیح دی ہے ۔ ہم نے کوشش کی کہ کوئی مہم بھلےہی سرکار شروع  کرے لیکن وقت کےساتھ ملک کے عوام اس کی باگ ڈور خود سنبھال لیں۔عوامی شراکت  داری کے اسی اصول پر چلتے ہوئے ہم نے ہندوستان میں کئی بڑےٹرانسفارمیشن دیکھےہیں ۔ ہماری صفائی  ستھرائی کی مہم ہو  ، لڑکیوں کی تعلیم کو بڑھانے کی مہم ہو، ڈیجیٹل خواندگی ہو،ان کی کامیابی عوام کی شراکت  سےہی یقینی ہوئی ہے ۔

ساتھیو،

سماجی اورمالی شمولیت  ہماری سرکارکی ترجیح رہی ہے۔ ہم نے پچاس کروڑ سے زیادہ ایسے لوگوں کو بینکنگ سے جوڑا ہے جن کے پاس بینک کھاتہ نہیں تھا۔ ہم نے ان کوبیدار بنانے کےلئےبڑی  مہم چلائی ۔ آج اسی کانتیجہ ہے کہ آج ہم فنٹیک میں ،ڈیجیٹل ادائیگی میں بہت آگےنکل گئے ہیں ۔ ہم نے خواتین کی قیادت والی ترقی کو فروغ دیاہے۔ ہم ہندوستانی خواتین کو معاشی ،سماجی اور سیاسی اعتبار سے بااختیار بنارہےہیں۔ کچھ ماہ پہلے ہی قانون بناکر ہم نے ہندوستان کی خواتین کو پارلیمنٹ میں ریزرویشن بھی دیا ہے ۔ ہم آج ہندوستان کےنوجوانوں کےلئے نئے مواقع  پیدا کررہے ہیں، اس کے ہنرمندی کے فروغ پرتوجہ مرکوز کررہے ہیں ۔ بہت کم وقت میں ہی ہندوستان دنیا کاتیسرا  سب سے  بڑااسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام ، یعنی اسٹارٹ ا پ ایکو سسٹم   کااتنا بڑا جمپ، آج ہم تیسرے نمبرپر پہنچ گئے ہیں ۔

ساتھیو،

سب کا ساتھ سب کا وکاس کے منتر پر چلتے ہوئے ہم لاسٹ مائل ڈلیوری اور سیچوریشن کی اپروچ پر زوردے رہے ہیں ۔ سیچوریشن کی اپروچ یعنی سرکار کی اسکیموں کے فوائد سے کوئی بھی استفادہ کنندہ چھوٹے نا، سرکار خود اس تک پہنچے۔گورننس کے اس ماڈ ل میں   امتیازی سلوک اور بدعنوانی دونوں کی ہی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ ایک مطالعہ کےمطابق ہندوستان میں پچھلے دس برسوں میں 250 ملین لوگوں کو غریبی سے باہر نمالا ہے اور اس کےپیچھے اس گورننس ماڈل کابڑا رول رہا ہے ۔

ساتھیو،

جب سرکاریں شفافیت کو ترجیح دیتی ہیں تو اس کے نتیجےبھی ملتے ہیں، اورہندوستان اس کی بھی ا یک مثال ہے ۔ آج ہندوستان کے 130 کروڑ سے زیادہ شہریوں کے پاس ان کی ڈیجیٹل  شناخت ہے، لوگوں کی یہ ڈیجیٹل شناخت،ان کے بینک، ان کے موبائل، سب ا ٓپس میں مربوط  ہیں۔ ہم نے ٹکنالوجی کی مدد سے ایک سسٹم تیار کیا ہے -  ڈائریکٹ بنفٹ ٹرانسفر(ڈی بی ٹی) اس نظام کی مدد سے ہم نے پچھلے دس سال میں لوگوں کے بینک کھاتوں میں 400 ارب ڈالر سے زیادہ براہ راست منتقل کئے ہیں ۔ ایسا کرکے ہم نےبدعنوانی کی بہت بڑی گنجائش کو جڑ سے ہی ختم کردیاہے ۔ ہم نے ملک کے 33 ا رب ڈالر سے زیادہ غلط ہاتھوں میں جانے سے بھی بچایا ہے ۔

دوستو،

جہاں تک آب  وہوا میں تبدیلی کی با ت ہے تواس سےنمٹنے کےلئے بھی ہندوستان کی ایک اپنی اپروچ ہے۔ ہندوستان آج سولر،  ونڈ، ہائیڈرو کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی ایندھن ، گرین ہائیڈروجن پر بھی کام کررہا ہے ۔  ہماری ثقافت  ہمیں سکھاتی ہے کہ فطرت سے جتنا حاصل کیا ہے ، اسے لوٹانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے ،اس لئے ہندوستان نے دنیا کو ایک نئی راہ دکھائی ہے، جس پر چلتے ہوئے ہم ماحولیات کی کافی مدد کرسکتے ہیں ۔ یہ راہ ہے- مشن لا ئف یعنی لائف اسٹائل فارانوائرنمنٹ کی، یہ مشن پرو پلانٹ پیپل کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہم کاربن کریڈٹ کی اپروچ کو بھی کافی عرصے سے دیکھ رہے ہیں ۔ اب اس سے آگے بڑھ کر ہمیں گرین کریڈٹ کے بارے میں سوچنا چاہئے ۔ میں نے یہاں دبئی میں ہی سی او پی 28 کے دوران کافی تفصیل سے اس پربات کی تھی۔

ساتھیو،

جب ہم مسقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو ہر سرکار کےسامنے آج کئی سوال ہیں ۔ ہم اپنی نیشنل ساورینٹی اور انٹرنیشنل انٹرڈپنڈینس میں توازن کیسے لائیں ؟ اپنے قومی مفاد کےلئے کام کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی حکمرانی کے تئیں اپنی عہد بستگی پر قائم کیسے رہیں؟ نیشنل پروگریس کی توسیع کرتے ہوئے ہم عالمی بھلائی کےلئے زیادہ سے زیادہ تعاون کیسے کریں ؟ ہم  اپنے کلچر  اور ٹریڈیشن سے وزڈم لیتے ہوئے بھی یونیورسل ویلیوز کو مالامال کیسے کریں؟ ہم ڈیجیٹل ٹکنالوجی  کافائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے منفی اثرات ،  ا ن ا ثرات سے سماج کو کیسے بچائیں؟ ہم امن عالم کےلئےکوشش کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف کیسے مل کر کام کریں؟ آج جب ہم اپنے ملک کو ٹرانسفارم کررہےہیں تو  کیا گلوبل  گورننس  انسٹی ٹیوشنس میں بھی ا صلاح نہیں ہونی چاہئے ؟  ایسے کئی سوال ہمارے سامنے ہیں ۔ ان سارے سوالوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی ہمیں اپنی سرکاروں کو سمت دینی ہے، مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہے ۔

  • ہمیں مل  کر ایک مربوط، تعاون  اور شراکت  پرمبنی  دنیا کی قدروں کو فروغ دینا ہوگا۔
  • ہمیں ترقی پذیر دنیا کی تشویش اور عالمی فیصلہ سازی میں  عالمی خطہ جنوب کی شراکت داری کو فروغ دینا ہوگا۔
  • ہمی عالمی خطہ جنوب کی آواز سننی ہوگی ، ان کی ترجیحات کو  سامنے لانا ہوگا۔
  • ہمیں ضرورتمند  ملکوں کے ساتھ اپنے وسائل اوراپنی صلاحیتوں کو ساجھاکرنا ہوگا۔
  • ہمیں مصنوعی ذہانت، اے آئی اور کرپٹو کرنسی، سائبر جرائم  سے پیدا ہورہے چیلنجو ں کے لئے عالمی پروٹوکول  بنانےہوں گے۔
  • ہمیں اپنی نیشنل ساورینٹی کومقدم رکھتے ہوئےبین الاقوامی قوانین کا لحاظ بھی رکھنا ہوگا۔

انہی جذبات کےساتھ آگے بڑھتے ہوئے،ہم نہ  صرف  سرکاروں کے سامنے چیلنجوں کا حل نکالیں  گے بلکہ عالمی بھائی چارےکوبھی مضبوطی فراہم کریں گے۔ ایک وشوبندھو کے طور پر ہندوستان اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہا  ہے۔ اپنی جی 20 صدارت کے دوران بھی ہم نے اسی جذبےکوآگے بڑھایا ۔ہم ‘‘ایک کرہ ارض، ایک خاندان، ا یک مستقبل ’’ اسی جذبے  سے چلے۔

دوستو،

ہم سبھی کے پاس گورننس کے تعلق سے اپنےتجربات ہیں۔ ہمیں نہ صرف ایک دوسرے کےساتھ کام کرناہےبلکہ ایک دوسرے سے سیکھنا بھی ہے۔ یہی اس سمٹ کا بھی مقصد ہے۔ یہاں سے حاصل ہونےوالےحل، دنیاکے مستقبل کوشکل دینےوالے ہوں گے۔ اسی یقین کےساتھل آپ سبھی کو بہت نیک  خواہشات!

آپ کا شکریہ

آپ کا بہت بہت شکریہ

******

ش ح۔ف ا ۔ف ر

 (U: 4981)



(Release ID: 2006198) Visitor Counter : 55