وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

’من کی بات‘ کی104ویں قسط میں وزیراعظم کے خطاب کا متن (27 اگست ، 2023 ء )

Posted On: 27 AUG 2023 11:45AM by PIB Delhi

میرے پیارے پریوار جن،  نمسکار۔ من کی بات کے اگست کے ایپی سوڈ میں ایک بار پھر آپ کا    دِلی خیر مقدم  ہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی ساون کے مہینے میں 'من کی بات' پروگرام دو بار ہوا ہو لیکن اس بار  ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ساون کا مطلب ہے ،مہاشیو کا مہینہ، تہواروں اور جوش کا مہینہ۔ چندریان کی کامیابی نے ،جشن کے اس ماحول کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ چندریان کو چاند پر پہنچے تین دن سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ کامیابی اتنی عظیم ہے کہ اس پر کسی بھی قسم کی بحث ناکافی ہوگی۔ آج جب میں ، آپ  سے بات کر رہا ہوں تو مجھے اپنی ایک پرانی نظم کی چند سطریں یاد آ رہی ہیں...

آسمان میں سر اٹھاکر

گھنے بادلوں کو چیر کر

روشنی کا سنکلپ  لے

ابھی تو سورج اُگا ہے۔

 

درِڑھ نِشچے کے ساتھ چل کر

ہر مشکل کو پار کر

گھور اندھیرے کو مٹانے

ابھی تو سورج اُگا ہے

 

آسمان میں سر اٹھاکر

گھنے بادلوں کو چیرکر

ابھی تو سورج اُگا ہے ۔

 

میرے پریوار جَن ، 23 اگست کو بھارت اور بھارت کے چندریان نے ثابت کر دیا ہے کہ عزم کے کچھ سورج چاند پر بھی طلوع ہوتے ہیں۔ مشن چندریان نئے بھارت کے جذبے کی علامت بن گیا ہے، جو جیت کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کسی بھی حالت میں کیسے جیتنا ہے۔

ساتھیو ، اس مشن کا ایک پہلو رہا ہے ، جس پر  ،میں آج آپ سب سے خصوصی طور پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس بار میں نے لال قلعہ سے  کہا تھا کہ ہمیں خواتین کی قیادت میں ترقی کو ایک قومی کردار کے طور پر مضبوط کرنا ہے۔ جہاں خواتین کی قوت میں  اضافہ ہوتا ہے ،وہیں ناممکن کو بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ بھارت کا مشن چندریان بھی عورت کی قوت  کی زندہ مثال ہے۔ اس پورے مشن میں بہت سی خواتین سائنسدان اور انجینئرز براہ راست شامل رہی ہیں۔ انہوں نے پروجیکٹ ڈائریکٹر، مختلف سسٹمز کے پروجیکٹ مینیجر جیسی کئی اہم ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ بھارت کی بیٹیاں اب خلا ء کو بھی چیلنج کر رہی ہیں ، جسے لامحدود سمجھا جاتا ہے۔ جب کسی ملک کی بیٹیاں اتنی جرأت  مند ہو جائیں تو اس ملک کو ترقی سے کون روک سکتا ہے!

ساتھیو ، ہم نے اتنی اونچی اڑان بھری ہے کیونکہ آج ہمارے خواب بھی بڑے ہیں اور ہماری کوششیں بھی بڑی ہیں۔ چندریان 3 کی کامیابی میں ہمارے سائنسدانوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سے ہم وطنوں نے تمام کلپرزوں کی  یقینی  فراہمی  اور تکنیکی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کیا ہے۔ جب سب کی کوششیں یکجا ہوئیں تو کامیابی بھی مل گئی۔ یہ چندریان 3 کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ میری خواہش ہے کہ مستقبل میں بھی ہمارا خلائی شعبہ اجتماعی کوششوں سے اس طرح کی بے شمار کامیابیاں حاصل کرے۔

میرے پریوار جَن ، ستمبر کا مہینہ بھارت کی صلاحیتوں کا گواہ ہونے والا ہے۔ بھارت اگلے ماہ منعقد ہونے والی جی – 20   سربراہ کانفرنس  کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے 40   ملکوں کے  سربراہان اور کئی عالمی تنظیموں کے سربراہان  دارالحکومت دلّی  آ رہے ہیں۔ یہ جی – 20   سربراہ اجلاس کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی شرکت ہوگی۔ اپنی صدارت کے دوران  ، بھارت نے جی – 20  کو ایک زیادہ جامع فورم بنایا ہے۔ بھارت کی دعوت پر افریقی یونین بھی جی – 20  میں شامل ہوا اور افریقہ کے لوگوں کی آواز  ، دنیا کے اس اہم پلیٹ فارم تک پہنچی۔  ساتھیوں، جب سے بھارت نے گزشتہ سال بالی میں جی – 20  کی صدارت سنبھالی ہے، اتنا کچھ ہوا ہے کہ  اس پر ہمیں فخر  محسوس ہوتا ہے۔ دلّی میں بڑے  بڑے پروگرام  منعقد کرنے کی روایت سے ہٹ کر  ، ہم انہیں ملک کے  الگ الگ شہروں میں لے گئے۔ ملک بھر کے 60 شہروں میں اس سے متعلق تقریباً 200 اجلاس منعقد کیے گئے۔ جی – 20  کے مندوبین  جہاں بھی گئے،  وہاں لوگوں نے ان کا  گرمجوشی سے  ، اُن کا استقبال کیا۔ یہ مندوبین ہمارے ملک کے تنوع اور ہماری متحرک جمہوریت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ بھارت میں بہت سے امکانات ہیں۔

ساتھیو ،  ہماری جی – 20 کی صدارت ایک عوامی صدارت ہے، جس میں عوامی شرکت کا جذبہ  سب سے اوپر ہے۔ جی – 20  کے  ، جو گیارہ  رابطہ گروپ تھے ، اُن میں تعلیمی ادارے ،  شہری سماج ، نوجوان، خواتین، ہمارے  ارکانِ پارلیمنٹ ،  صنعت کار اور شہری انتظامیہ سے وابستہ لوگوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے ملک بھر میں منعقد ہونے والی تقریبات سے کسی نہ کسی طرح ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ لوگ وابستہ  رہے ہیں۔ عوامی شرکت کی ہماری اس کوشش میں نہ صرف ایک بلکہ دو  - دو عالمی ریکارڈ بھی بن چکے ہیں۔ وارانسی میں منعقدہ جی – 20   کوئز میں 800 اسکولوں کے سوا   لاکھ طلباء کی شرکت ایک نیا عالمی ریکارڈ بن گئی ۔ ساتھ ہی لمبانی کاریگروں نے بھی کمال کیا۔ 450 کاریگروں نے تقریباً 1800 منفرد پیچز  کا ایک حیرت انگیز مجموعہ بنا کر اپنی مہارت اور کاریگری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جی -20   میں آنے والا ہر نمائندہ ہمارے ملک کے فنی تنوع کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایسا ہی ایک عظیم الشان پروگرام سورت میں منعقد کیا گیا۔ 15 ریاستوں سے 15,000 خواتین نے وہاں منعقد 'ساڑی واکاتھون' میں حصہ لیا۔ اس پروگرام نے نہ صرف سورت کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دیا بلکہ 'ووکل فار لوکل' کو بھی تقویت ملی اور مقامی کے گلوبل بننے کی راہ بھی ہموار کی۔ سری نگر میں جی -20   اجلاس کے بعد کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ میں ، تمام ہم وطنوں سے گزارش کروں گا کہ آیئے ، مل کر  جی -20   سربراہ اجلاس کو کامیاب  بنائیں اور ملک کی شان بڑھائیں ۔

میرے  پریوار جنوں ، 'من کی بات' کے ایپی سوڈ میں، ہم اکثر اپنی نوجوان نسل کی صلاحیتوں پر بات کرتے ہیں۔ آج کھیل کود ایک ایسا شعبہ ہے ، جہاں ہمارے نوجوان مسلسل نئی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ آج 'من کی بات' میں میں ایک ایسے ٹورنامنٹ کے بارے میں بات کروں گا ، جہاں حال ہی میں ہمارے کھلاڑیوں نے قومی پرچم بلند کیا ہے۔ چند روز قبل چین میں ورلڈ یونیورسٹی گیمز کا انعقاد ہوا۔ بھارت نے اس بار ان کھیلوں میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے کھلاڑیوں نے مجموعی طور پر 26 تمغے جیتے  ، جن میں سے 11 گولڈ میڈلز تھے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اگر ہم 1959 سے اب تک منعقد ہونے والے تمام ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں جیتنے والے تمام میڈلز کو بھی شامل کر لیں تو یہ تعداد صرف 18 تک پہنچتی ہے۔ ان تمام دہائیوں میں صرف 18  ، جب کہ اس بار ہمارے کھلاڑیوں نے 26 میڈلز جیتے ہیں۔ اس لیے کچھ نوجوان کھلاڑی طلباء ، جنہوں نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں تمغے جیتے ہیں، فی الحال فون لائن پر مجھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ پہلے میں آپ کو  ، ان کے بارے میں بتاتا ہوں۔ یوپی کی رہنے والی پرگتی نے تیر اندازی میں تمغہ جیتا ہے۔ آسام کے رہنے والے املان نے ایتھلیٹکس میں تمغہ جیتا ہے۔ یوپی کی رہنے والی پرینکا نے ریس واک میں تمغہ جیتا ہے۔ مہاراشٹر کی رہنے والی ابھیدنیہ نے شوٹنگ میں تمغہ جیتا ہے۔

مودی جی:- نمسکار میرے پیارے نوجوان کھلاڑیوں۔

نوجوان کھلاڑی:- نمستے سر۔

مودی جی:-  مجھے آپ  سے بات کرکے بہت اچھا  لگ رہا ہے۔ سب سے پہلے، میں بھارت کی یونیورسٹیوں سے منتخب ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں… آپ لوگوں نے بھارت کا نام روشن کیا ہے۔ آپ نے ورلڈ یونیورسٹی گیمز میں اپنی کارکردگی سے ہر  شہری کا سر فخر سے بلند  کر دیا ہے۔ تو سب سے پہلے میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

پرگتی، میں  ، اِس بات چیت کی شروعات آپ سے کر رہا ہوں۔  بتائیے ، کہ دو میڈل جیتنے کے بعد ، جب آپ یہاں سے  گئیں ، تب یہ سوچا تھا  کیا اور اتنی بڑی کامیابی حاصل کی تو کیا محسوس ہو رہا ہے ؟

پرگتی:- سر، میں بہت فخر محسوس کر رہی  تھی ، مجھے بہت اچھا لگ رہا  تھا کہ میں اپنے ملک کا جھنڈا اتنا اونچا لہرا کر واپس آئی  ہوں… یہ ٹھیک ہے کہ ایک بار میں گولڈ فائٹ میں پہنچ گئی تھی ، میں   اُس میں ہار گئی تھی تو مجھے افسوس ہو رہا تھا۔ لیکن دوسری بار میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اب کچھ بھی ہو جائے ، اس کو نیچے نہیں جانے دینا ہے ۔ اسے  ہر حال میں سب سے اونچا لہرا کر ہی آنا ہے ۔ جب ہم آخر میں فائٹ جیت گئے تو  وہیں پوڈیم پر ، ہم لوگوں نے بہت اچھی طرح جشن منایا تھا ۔ وہ لمحہ بہت اچھا تھا۔ میں اتنا فخر محسوس کر  رہی تھی کہ  جس کا کوئی حساب نہیں تھا ۔

مودی جی:- پرگتی، آپ کو جسمانی طور پر ایک بڑی پریشانی کا سامنا تھا۔ آپ اس میں سے  ابھر کر آئیں ۔ یہ اپنے آپ میں ملک کے نوجوانوں کے لیے بڑا انسپائرنگ ہے۔  کیا ہوا تھا آپ کو ؟

پرگتی:- سر، 5 مئی 2020 ء  میں مجھے برین ہیمرج ہوا تھا ۔ میں وینٹی لیٹر پر تھی۔ اس بات کا کوئی یقین نہیں تھا کہ میں زندہ رہوں گی یا نہیں اور اگر بچی تو میں کیسے  بچوں گی؟ لیکن  اتنا تھا …  کہ ہاں، مجھے اندر سے ہمت تھی کہ مجھے  جانا ہے واپس گراؤنڈ پر کھڑا ہونا ہے  ،  تیر  چلانے کے لئے ۔  میرے  لئے میری زندگی بچائی ہے تو  سب سے بڑا ہاتھ بھگوان کا ، اس کے بعد ڈاکٹر کا اور پھر آرچری کا ۔ 

مودی جی:- املان بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ املان، مجھے بتائیں کہ آپ کی ایتھلیٹکس میں اتنی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی!

املان:- جی نمسکار سر۔

مودی جی :- نمسکار، نمسکار

املان:- سر، پہلے ایتھلیٹکس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پہلے ہم فٹ بال میں زیادہ تھے۔ لیکن جیسا کہ میرے بھائی کے دوست نے مجھے بتایا کہ املان آپ کو ایتھلیٹکس کے مقابلوں کے لیے جانا چاہیے۔ تو میں نے سوچا ٹھیک ہے، تو پہلی بار جب میں نے اسٹیٹ میٹ کھیلا، میں اس میں ہار گیا۔ مجھے شکست پسند نہیں آئی۔ تو آہستہ آہستہ، میں ایتھلیٹکس میں آ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ اب مزہ آنے لگا ہے۔ تو ویسے ہی میری دلچسپی بڑھتی گئی۔

مودی جی:- املان ذرا یہ بتاؤ کہ تم نے زیادہ تر مشق کہاں کی!

املان:- میں نے زیادہ تر حیدرآباد میں پریکٹس کی ہے، سائی ریڈی  سر کے ماتحت۔ پھر اس کے بعد بھونیشور شفٹ ہوا  تو وہاں سے میرا پیشہ ورانہ  آغاز ہوا ۔

اچھا  ، پرینکا بھی ہمارے ساتھ ہے۔ پرینکا، آپ 20 کلو میٹر ریس واک ٹیم کا حصہ تھیں۔ آج پورا ملک آپ کو سن رہا ہے اور وہ اس کھیل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہمیں بتائیں کہ اس کے لیے کس قسم کی مہارت کی ضرورت ہے۔ اور آپ کے کیریئر کہاں  کہاں سے کہاں پہنچی ؟

پرینکا:- میرے جیسے ایونٹ میں  ، مطلب کافی سخت ہے کیونکہ ہمارے پانچ جج کھڑے ہوتے  ہیں ۔  اگر ہم بھاگ بھی لیے تو بھی وہ ہمیں نکال دیں گے یا اگر ہم سڑک سے تھوڑا سا بھی  اٹھ جاتے ہیں ، جمپ آ جاتی ہے تو بھی وہ ہمیں نکال دیتے ہیں ۔ یا  پھر ہم نے گھٹنا موڑ لیا تو بھی ہمیں نکال دیتے ہیں اور  میرے لئے تو وارننگ بھی دو آ گئی تھیں ۔ اس کے بعد میں نے اپنی رفتار  پر اتنا قابو کیا کہ  کہیں نہ کہیں تین میڈل  تو یہاں سے جیتنا  ہی ہے  کیونکہ ہم  ملک کے  لیے ہم یہاں پر آئے ہیں اور ہمیں خالی ہاتھ نہیں جانا  ہے ۔

مودی جی:-  ہاں، اور  پتا جی ، بھائی وغیرہ سب ٹھیک ہیں ؟

پرینکا:- جی سر، سب ٹھیک ہے، میں سب سے کہتی ہوں کہ آپ ہمیں بہت حوصلہ دیتے ہیں، واقعی سر، مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے، کیونکہ انڈیا میں ورلڈ یونیورسٹی جیسے کھیلوں کو اتنا پوچھا بھی نہیں جاتا ہے   لیکن اب ہمیں اس کھیل میں بھی بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے… ہم ٹویٹس دیکھ رہے ہیں… ہر کوئی ٹوئیٹ کر رہا ہے کہ ہم نے بہت سارے تمغے جیتے ہیں، تو یہ بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے کہ اولمپکس کی طرح اس کو بھی  اتنا بڑھاوا مل رہا ہے۔

مودی جی: ٹھیک ہے، پرینکا، میری طرف سے مبارکباد۔ تم نے بڑا نام  روشن کیا ہے،  ابھی ہم  ابھیدنیا سے بات  کرتے  ہیں ۔

ابھیدنیا :- نمستے سر۔

مودی جی: اپنے بارے میں بتائیں۔

ابھیدنیا:- سر میں کولہاپور، مہاراشٹر سے ہوں، میں شوٹنگ میں 25 میٹر اسپورٹس پسٹل اور 10 میٹر ایئر پسٹل دونوں ایونٹس کرتی ہوں۔ میرے والدین دونوں ہائی اسکول کے اساتذہ ہیں اور میں نے 2015 ء میں شوٹنگ شروع کی۔ جب میں نے شوٹنگ شروع کی تو کولہاپور میں اتنی سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔ وڈگاؤں سے کولہاپور تک بس کے ذریعے سفر کرنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے، پھر واپس آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ، اور ٹریننگ کے چار گھنٹے، اس طرح، سفر اور تربیت کے لیے 6-7 گھنٹےتو آنے جانے میں  ہی نکل جاتے تھے ۔ میرا سکول بھی  مِس ہوتا تھا ، تب ممی پاپا نے کہا کہ بیٹا ایک کام کرو، ہم تمہیں ہفتہ اتوار کو شوٹنگ رینج میں لے جائیں گے، باقی وقت تم دوسرے گیمز کرو۔ اس لیے میں بچپن میں بہت زیادہ گیمز کھیلتی  تھی، کیونکہ میرے والدین دونوں ہی کھیلوں میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھے، مالی مدد اتنی زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی اتنی معلومات دستیاب تھیں۔ اس لیے میری ماں کا ایک بڑا خواب تھا… میں چاہتی تھی کہ میں ملک کی نمائندگی کروں اور پھر ملک کے لیے تمغہ جیتوں۔ اس لیے ان کے خواب کو پورا کرنے کے لیے میں بچپن سے ہی کھیلوں میں بہت دلچسپی لیتی تھی اور پھر میں نے تائیکوانڈو بھی کیا، اس میں بھی میں بلیک بیلٹ ہوں، اور باکسنگ، جوڈو، فینسنگ اور ڈسکس تھرو جیسے کئی کھیل کرنے کے بعد ، پھر   2015 ء میں شوٹنگ  میں آ گئی ۔ پھر میں نے 2-3 سال تک بہت جدوجہد کی اور پہلی بار میں ملیشیا میں یونیورسٹی چیمپئن شپ کے لیے منتخب ہوئی  اور اس میں مجھے کانسے کا تمغہ ملا، تو مجھے وہاں سے ایک  پُش  ملا۔ پھر میرے اسکول نے میرے لیے ایک شوٹنگ رینج بنائی… میں وہاں تربیت لیتی تھی اور پھر انہوں نے مجھے تربیت کے لیے پونے بھیج دیا۔ تو  یہاں پر گگن نارنگ اسپورٹس فاؤنڈیشن ہے، گن فار گلوری… میں اب اس کے تحت ٹریننگ کر رہی ہوں… گگن صاحب نے مجھے بہت سپورٹ کیا اور میرے کھیل کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔

مودی جی:- ٹھیک ہے، اگر آپ چاروں مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، تو میں اسے سننا چاہوں گا۔ پرگتی ہو ، املان ہو ، پرینکا  ہو اور ابھیدنیا ہو ،  آپ سب میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، اس لیے اگر آپ کچھ کہنا چاہیں تو میں ضرور سنوں گا۔

املان:- سر، میرا ایک سوال ہے سر  ۔

مودی جی:- جی۔

املان:-  سر آپ کو کون سا کھیل زیادہ پسند ہے؟

مودی جی:- بھارت کو کھیلوں کی دنیا میں بہت کھلنا چاہیے اور اسی لیے میں ان چیزوں کو بہت زیادہ فروغ دے رہا ہوں، لیکن ہاکی، فٹ بال، کبڈی، کھو کھو، یہ ہماری زمین سے جڑے کھیل ہیں،  اس میں تو ہمیں  کبھی پیچے نہیں رہنا چاہیئے  اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے لوگ تیر اندازی میں اچھا کر رہے ہیں، وہ شوٹنگ میں اچھا کر رہے ہیں اور دوسری بات یہ کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں اور یہاں تک کہ ہمارے خاندانوں میں بھی کھیلوں کے تئیں وہ جذبہ نہیں ہے  ، جو پہلے تھا۔ پہلے جب بچہ کھیلنے جاتا تھا تو وہ روکتے تھے اور اب زمانہ بدل گیا ہے اور آپ لوگ جو کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں ، اس سے تمام گھر والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ہر کھیل میں ہمارے بچے  ، جہاں بھی جاتے ہیں، ملک کے لیے کچھ نہ کچھ کر کے واپس لوٹتے ہیں اور ایسی خبریں آج ملک میں نمایاں طور پر دکھائی جاتی ہیں ، بتائی بھی جاتی ہیں … اسکولوں اور کالجوں میں زیر بحث بھی  رہتی ہیں۔ خیر! مجھے بہت اچھا لگا۔ میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ بہت سی نیک خواہشات۔

نوجوان کھلاڑی:- بہت شکریہ! شکریہ  سر! شکریہ

مودی جی:- شکریہ! نمسکار۔

میرے  پریوار جَن ، اس بار 15 اگست کو ملک نے 'سب کا پریاس' کی طاقت دیکھی۔ تمام  ہم وطنوں کی کوششوں نے 'ہر گھر ترنگا ابھیان' کو 'ہر من ترنگا ابھیان' میں بدل دیا۔ اس مہم کے دوران کئی ریکارڈز بھی بنائے گئے۔ ہم وطنوں نے کروڑوں میں ترنگے خریدے۔ تقریباً 1.5 کروڑ ترنگے 1.5 لاکھ ڈاک خانوں کے ذریعے فروخت کیے گئے۔ اس کے ذریعے ہمارے مزدوروں، بنکروں اور خاص کر خواتین نے بھی کروڑوں روپے کمائے ہیں۔ اس بار ہم وطنوں نے ترنگے کے ساتھ سیلفی پوسٹ کرنے کا نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ پچھلے سال 15 اگست تک تقریباً 5 کروڑ ہم وطنوں نے ترنگے کے ساتھ سیلفی پوسٹ کی تھی۔ اس سال یہ تعداد بھی 10 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔

ساتھیو ، اس وقت ملک میں حب الوطنی کے جذبے 'میری مٹی، میرا دیش' کو بیدار کرنے کی مہم زوروں پر ہے۔ ستمبر کے مہینے میں ملک کے ہر گاؤں میں ہر گھر سے مٹی جمع کرنے کی مہم چلائی جائے گی۔ ملک کی مقدس مٹی ہزاروں کی تعداد میں امرت کلشوں میں جمع کی جائے گی۔ اکتوبر کے آخر میں ہزاروں لوگ امرت کلش یاترا کے ساتھ ملک کی راجدھانی دلّی پہنچیں گے۔ دلّی میں اسی مٹی سے امرت واٹیکا  کی تعمیر ہوگی ۔ مجھے یقین ہے کہ ہر اہل وطن کی کوششیں اس مہم کو کامیاب بنائیں گی۔

میرے  پریوار جنوں ، اس بار مجھے سنسکرت زبان میں بہت سے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساون کے مہینے کی پورنیما کو سنسکرت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

सर्वेभ्य: विश्व-संस्कृत-दिवसस्य हार्द्य: शुभकामना:

سرویبھیا ، وشو  - سنسکرت – دِوسسیہ ہاردیہہ ، شبھ کامناہا

سنسکرت کے عالمی دن پر آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سنسکرت دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اسے بہت سی جدید زبانوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔ سنسکرت اپنی قدامت  کے ساتھ ساتھ اس کی سائنسی اور گرامر کے لیے بھی مشہور ہے۔ بھارت کا بہت قدیم علم سنسکرت زبان میں ہزاروں سالوں سے محفوظ ہے۔ یوگا، آیوروید اور فلسفہ جیسے موضوعات پر تحقیق کرنے والے لوگ اب زیادہ سے زیادہ سنسکرت سیکھ رہے ہیں۔ بہت سے ادارے بھی اس سمت میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ جیسے کہ سنسکرت پروموشن فاؤنڈیشن بہت سے کورس چلاتی ہے جیسے یوگ کے لیے سنسکرت، آیوروید کے لیے سنسکرت اور بدھ مت کے لیے سنسکرت۔ 'سنسکرت بھارتی' لوگوں کو سنسکرت سکھانے کی مہم چلاتی ہے۔ اس میں آپ 10 دن کے 'سنسکرت گفتگو کیمپ' میں حصہ لے سکتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج لوگوں میں سنسکرت کے بارے میں بیداری اور فخر بڑھ گیا ہے۔ اس کے پیچھے گزشتہ برسوں میں ملک کا خصوصی تعاون بھی ہے۔ مثال کے طور پر، 2020 ء میں تین سنسکرت ڈیمڈ یونیورسٹیوں کو مرکزی یونیورسٹیاں بنا دیا گیا۔ مختلف شہروں میں سنسکرت یونیورسٹیوں کے بہت سے کالج اور انسٹی ٹیوٹ بھی چلائے جا رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اداروں میں سنسکرت کے مراکز بہت مقبول ہو رہے ہیں۔

ساتھیو ، آپ نے اکثر ایک چیز کا تجربہ کیا ہوگا، جڑوں سے جڑنے کے لیے، اپنی ثقافت، ہماری روایت سے جڑنے کے لیے، ایک بہت ہی طاقتور ذریعہ ہے - ہماری مادری زبان۔ جب ہم اپنی مادری زبان سے جڑتے ہیں تو قدرتی طور پر ہم اپنی ثقافت سے جڑ جاتے ہیں۔ ہم اپنے سنسکاروں سے جڑ جاتے ہیں، ہم اپنی روایت سے جڑ جاتے ہیں، ہم اپنی قدیم شان سے جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح، بھارت کی ایک اور مادری زبان ہے، شاندار تیلگو زبان۔ 29 اگست کو تیلگو ڈے کے طور پر منایا جائے گا۔

अन्दरिकी तेलुगू भाषा दिनोत्सव शुभाकांक्षलु।

اندریکی تیلگو بھاشا دنوتسو شُبھا کانکشلو ۔

آپ سب کو تیلگو ڈے پر بہت بہت مبارکباد۔ تیلگو زبان کے ادب اور ورثے میں بھارتی ثقافت کے بہت سے انمول  رتن پوشیدہ ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بھی بہت ساری کوششیں کی جارہی ہیں کہ پورے ملک کو تیلگو کی اس وراثت کا فائدہ ملے۔

میرے  پریوار جنوں ، ہم نے 'من کی بات' کی کئی قسطوں میں سیاحت کے بارے میں بات کی ہے۔ چیزوں یا مقامات کو ذاتی طور پر دیکھنا، ان کو سمجھنا اور چند لمحوں کے لیے جینا، ایک مختلف تجربہ پیش کرتا ہے۔

سمندر کو کوئی کتنا ہی بیان کرے، ہم سمندر کو دیکھے بغیر اس کی وسعت کو محسوس نہیں کر سکتے۔ ہمالیہ کے بارے میں کوئی کتنی ہی بات کرے، ہمالیہ کو دیکھے بغیر ہم اس کی خوبصورتی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ اس لیے میں آپ سب سے اکثر گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی موقع ملے ،  ہمیں اپنے ملک کی خوبصورتی اور تنوع دیکھنے ضرور جانا چاہیے۔ اکثر ہم ایک اور چیز بھی دیکھتے ہیں…دنیا کے کونے کونے میں تلاش کرنے کے باوجود ہم اپنے ہی شہر یا ریاست میں بہت سی بہترین جگہوں اور چیزوں سے  انجان  ہوتے ہیں۔

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ہی شہر کے تاریخی مقامات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ دھن پال جی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ دھنپال جی بنگلور کے ٹرانسپورٹ آفس میں ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔ تقریباً 17 سال قبل انہیں سائیٹ سینگ ونگ میں ذمہ داری دی گئی تھی۔ اب لوگ اسے بنگلورو درشینی کے نام سے جانتے ہیں۔ دھن پال جی سیاحوں کو شہر کے مختلف سیاحتی مقامات پر لے جایا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک سفر پر ایک سیاح نے ان سے پوچھ لیا کہ بنگلور میں ٹینک کو سینکی ٹینک کیوں کہا جاتا ہے؟  انہیں بہت برا لگا کہ  انہیں جواب معلوم نہیں تھا۔ ایسے میں  انہوں نے اپنے علم کو بڑھانے پر توجہ دی۔ اپنے ورثے کو جاننے کے شوق میں  انہیں بہت سے پتھر اور نوشتہ جات ملے۔ دھن پال جی کا ذہن اس کام میں اس قدر مگن تھا کہ انہوں نے ایپی گرافی یعنی نوشتہ جات سے متعلق مضمون میں ڈپلومہ بھی کیا۔ اگرچہ وہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں، لیکن بنگلورو کی تاریخ کو تلاش کرنے کا  ، ان کا جذبہ اب بھی  بر قرار ہے۔

ساتھیو ، مجھے آپ کو برائن ڈی کھارپرن کے بارے میں بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ وہ میگھالیہ کے رہنے والے ہیں  اور اسپیالوجی میں بہت دلچسپی رکھتے ہے۔ سادہ زبان میں اس کا مطلب ہے – غاروں کا مطالعہ۔ برسوں پہلے ان میں یہ دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی  ، جب انہوں نے کئی کہانیوں کی کتابیں پڑھیں۔ 1964 ء میں، انہوں نے ایک اسکولی طالب علم کے طور پر اپنا پہلا ایکسپلوریشن کیا ۔ 1990 ء میں انہوں نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر ایک انجمن قائم کی اور اس کے ذریعے انہوں نے میگھالیہ کے نامعلوم غاروں کے بارے میں  پتہ لگانا شروع کیا۔ کچھ ہی  وقت میں، انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ میگھالیہ میں 1700 سے زیادہ غاریں دریافت کیں اور ریاست کو عالمی غار کے نقشے پر  پیش کیا ۔ بھارت کی سب سے لمبی اور گہری غاریں میگھالیہ میں موجود ہیں۔ برائن جی اور ان کی ٹیم نے غار حیوانات یعنی غار کی ان مخلوقات کی دستاویز بھی کی ہے، جو دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ میں اس پوری ٹیم کی کوششوں کی  ستائش کرتا ہوں، ساتھ ہی میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میگھالیہ کے غاروں کو دیکھنے کا منصوبہ بنائیں۔

میرے  پریوار جنوں ، آپ سب جانتے ہیں کہ ڈیری سیکٹر ہمارے ملک کے اہم ترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ اس نے ہماری ماؤں اور بہنوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے مجھے گجرات کی بناس ڈیری کے ایک دلچسپ اقدام کا علم ہوا۔ بناس ڈیری ایشیا کی سب سے بڑی ڈیری سمجھی جاتی ہے۔ یہاں روزانہ اوسطاً 75 لاکھ لیٹر دودھ پراسس کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے دوسری ریاستوں میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ یہاں سے دیگر ریاستوں میں دودھ کی بروقت ترسیل کے لیے اب تک ٹینکروں یا دودھ والی ٹرینوں کا سہارا لیا جاتا تھا لیکن اس میں بھی کم چیلنجز نہیں تھے۔ پہلے تو لوڈنگ اور ان لوڈنگ میں کافی وقت لگتا تھا اور اکثر دودھ بھی خراب ہو جاتا تھا۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے بھارتی ریلوے نے ایک نیا تجربہ کیا۔ ریلوے نے پالن پور سے نیو ریواڑی تک ٹرک آن ٹریک کی سہولت شروع کی۔ اس میں دودھ کے ٹرکوں کو براہ راست ٹرین پر لادا جاتا ہے۔ یعنی ٹرانسپورٹیشن کا بڑا مسئلہ اس سے دور ہو گیا ہے۔ ٹرک آن ٹریک سہولت کے نتائج بہت تسلی بخش رہے ہیں۔ پہلے جو دودھ پہنچنے میں 30 گھنٹے لگتے تھے ، اب آدھے سے بھی کم وقت میں پہنچ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے جہاں ایندھن سے ہونے والی آلودگی رک گئی ہے ، وہیں ایندھن کی قیمت میں بھی بچت ہوئی ہے۔ اس سے ٹرکوں کے ڈرائیوروں کو بھی کافی فائدہ ہوا ہے، ان کی زندگی آسان ہو گئی ہے۔

ساتھیو ، اجتماعی کوششوں سے آج ہماری ڈیریاں بھی جدید سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ بناس ڈیری نے بھی ماحولیاتی تحفظ کی سمت میں کس طرح ایک قدم آگے بڑھایا ہے ،  یہ سیڈ بال ٹری پلانٹیشن مہم سے ظاہر ہوتا ہے۔ وارانسی دودھ یونین ہمارے ڈیری کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے کھاد کے انتظام پر کام کر رہی ہے۔ کیرالہ کی مالابار دودھ یونین ڈیری کی کوشش بھی بہت منفرد ہے۔ یہ  مویشیوں کی بیماریوں کے علاج کے لیے آیورویدک ادویات تیار کرنے میں مصروف ہے۔

ساتھیو ، آج بہت سے لوگ ایسے ہیں  ، جو ڈیری کو اپنا کر  ، اس میں تنوع پیدا کر رہے ہیں۔ آپ کو امن پریت سنگھ کے بارے میں بھی معلوم ہوگا، جو راجستھان کے کوٹا میں ڈیری فارم چلا رہے ہیں۔ ڈیری کے ساتھ ساتھ  ، انہوں نے بایو گیس پر بھی توجہ دی اور دو بایو گیس پلانٹ لگائے ، جس کی وجہ سے ان کے بجلی پر ہونے والے اخراجات میں تقریباً 70 فیصد کمی آئی ہے۔ ان کی یہ کوشش ملک بھر کے ڈیری فارمرز کو متاثر کرنے والی ہے۔ آج بہت سی بڑی ڈیریاں بایو گیس پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔ اس قسم کی کمیونٹی سے چلنے والی ویلیو ایڈیشن بہت پرجوش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے رجحانات پورے ملک میں جاری رہیں گے۔

میرے  پریوار جنوں ، آج من کی بات میں اتنا ہی ہے۔ تہواروں کا موسم بھی آ گیا ہے۔ آپ سب کو بھی رکھشا بندھن کی پیشگی مبارکباد۔ جشن منانے کے وقت ہمیں ووکل فار لوکل کا منتر بھی یاد رکھنا ہے۔ ’آتم نر بھر بھارت‘ کی یہ مہم ملک کے  ہر باشندے کی اپنی مہم ہے اور تہوار کے ماحول کے دوران، ہمیں مقدس مقامات اور ان کے ارد گرد کو   تو ہمیشہ کے لئے صاف رکھنا  ہی ہے ۔  اگلی بار  آپ سے پھر 'من کی بات'  ہو گی ۔  کچھ نئے موضوعات کے ساتھ ملیں گے۔ ہم  ، ہم وطنوں کی کچھ نئی کوششوں کی ، اُن کی کامیابی پر ، جی بھر کے  بات کریں گے ۔ تب کے لیے مجھے وداع دیجیے ۔ بہت بہت شکریہ ۔

نمسکار  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح ۔ و ا ۔ ع ا  )

U.No.  8883


(Release ID: 1952661) Visitor Counter : 310