وزیراعظم کا دفتر

کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز کے تیسرے ایڈیشن کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 25 MAY 2023 9:57PM by PIB Delhi

اتر پردیش کے وزیر اعلی جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی ، کھیل کود کے مرکزی وزیر جناب انوراگ ٹھاکرجی ، کابینہ میں میرے ساتھی نشیت پرمانک جی، اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک جی ، دیگر معززین، اور کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں حصہ لینے والے تمام کھلاڑی،  آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔  آج یوپی پورے ملک کے کھیلوں کی صلاحیت رکھنے والے  نوجوانوں سنگم بنا ہوا ہے۔ کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں جو 4000 کھلاڑی آئے ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق الگ الگ  ریاستوں سے ہے الگ الگ علاقوں سے ہے۔ میں اتر پردیش  کاایم پی  ہوں۔ میں اتر پردیش کے عوام کا نمائندہ ہوں۔ اور اس لیے، یوپی کا ایک ایم پی ہونے کے ناطے 'کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز' میں یوپی آنے والے  تمام کھلاڑیوں کا میں خصوصی طور پر استقبال کرتا ہوں۔

ان کھیلوں کی اختتامی تقریب کا اہتمام  کاشی میں کیا جائے گا۔کاشی کا ایم پی ہونے کے ناطے میں  اس کو لے کر بھی بہت پرجوش ہوں۔ آج جب ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز کا تیسرا ایڈیشن کا اہتمام  اپنے آپ میں بہت خاص ہے۔ یہ ملک کے نوجوانوں میں ٹیم اسپرٹ بڑھانے، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو بڑھانے کا ایک بہت ہی اچھا ذریعہ بنا ہے۔ ان گیمز کے دوران نوجوانوں کا ایک دوسرے کے علاقوں  سے تعارف  ہو گا۔ یوپی کے الگ الگ شہروں میں ہونے والے میچز میں ان شہروں  سے بھی نوجوانوں کاایک کنیکٹ بنے گا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جو نوجوان کھلاڑی  کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں شرکت کے لیے آئے ہیں وہ ایک ایسا تجربہ لے کر جائیں  گے جو زندگی بھر ان کے لیے یادگار لمحہ بنے رہے  گا۔ میں آپ سبھی کے لئے آنے والے مقابلوں کے سلسلہ میں  بہت   بہت  نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیو،

گزشتہ  9 برسوں میں ہندوستان میں کھیلوں کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ یہ نیا دور ہندوستان کو صرف  کھیلوں کی ایک بڑی طاقت بنانے کا ہی  نہیں ہے۔ بلکہ یہ کھیلوں کے ذریعے معاشرے کو بااختیار بنانے کا بھی  ایک نیا دور ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ملک میں کھیلوں کے تئیں بے حسی کا احساس پایا جاتا تھا۔ بہت کم لوگوں نے سوچا تھا کہ کھیل ایک کیریئر بھی بن  سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ کھیلوں کو حکومتوں  کی جانب سے جو تعاون اور مدد ملنی چاہئے  تھی وہ  ملتی  نہیں تھی۔ نہ تواسپورٹس  انفرااسٹرکچر پر اتنی  توجہ دی  جاتی تھی اور نہ ہی کھلاڑیوں کی ضروریات کا خیال رکھا  جاتا  تھا۔ اسی لیے غریب اور متوسط ​​طبقے کے بچوں کے لئے ، گاؤں اور دیہات کے بچوں کے لیے کھیلوں میں آگے بڑھ پانا بہت مشکل تھا۔ معاشرے میں یہ احساس بھی بڑھ رہا تھا کہ کھیل صرف خالی  وقت گزارنے کے لیے ہوتے ہیں۔ اکثر والدین بھی یہ محسوس کرنے لگے  تھے کہ بچے کو اس پیشے میں جانا چاہیے جس سے اس کی زندگی 'سیٹل' ہو جائے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اس 'سیٹل' ہوجانے کی ذہنیت کی وجہ سےجانے کتنےعظیم کھلاڑی  ملک نے کھو دیئے ہوں گے۔ لیکن آج مجھے خوشی ہے کہ کھیلوں کے تئیں والدین اور معاشرے کے نظریے میں بڑی تبدیلی آئی ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کھیل کو ایک پرکشش پروفیشن کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ اور اس میں کھیلو انڈیا مہم نے بڑا رول ادا کیا ہے۔

ساتھیو،

کھیلوں کے تئیں پچھلی حکومتوں کے رویے کا ایک واضح ثبوت دولت مشترکہ کھیلوں کے دوران ہونے والا گھپلہ تھا۔ کھیلوں کے جو  دنیا میں  ہندستان کی دھاک جمانے کے کام آسکتے تھے ، انہی میں گھوٹالہ کردیا  گیا۔ ہمارے گاؤں  دیہات  کے بچوں کو کھیلنے کا موقع ملے،اس  کے لیے  پہلے ایک اسکیم چلا کرتی تھی۔ پنچایت یووا کریڈا اور کھیل ابھیان، بعد میں اس کا نام بدل کر راجیو گاندھی کھیل ابھیان کردیا گیا۔ اس  ابھیان میں بھی فوکس  صرف نام بدلنے پر تھا ، ملک میں کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے کو ترقی دینے پر زیادہ زور نہیں دیا گیا۔

پہلے گاؤں ہو یا شہر، ہر کھلاڑی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا تھا کہ اسے کھیلوں کی مشق کے لیے گھر سے بہت دور جانا پڑتا تھا۔ اس میں کھلاڑیوں کا  کافی وقت گزرجاتا تھا، کئی بار انہیں دوسرے شہروں میں جاکر  رہنا پڑتا تھا۔ بہت سے نوجوان تو اس وجہ سے  اپنا پیشن  تک  چھوڑنے پر مجبورجاتے تھے۔ ہماری حکومت آج کھلاڑیوں کی اس دہائیوں پرانی مشکل کو بھی حل کر رہی ہے۔  اربن اسپورٹس انفرااسٹرکچرکے لئے جو اسکیم تھی اس میں بھی  پچھلی حکومت نے 6 سالوں میں صرف 300 کروڑ روپے خرچ کیے جبکہ  کھیلو انڈیا مہم کے تحت، ہماری حکومت  کھیلوں کے بنیادی ڈھانچے پر تقریباً 3000 کروڑ روپے خرچ  کرچکی ہے۔ کھیلوں کے بڑھتے ہوئے انفرااسٹرکچر کی وجہ سے  اب زیادہ کھلاڑیوں کے لیے گیم میں شامل ہونا آسان ہو گیا ہے۔ مجھے اطمینا ن ہے  کہ اب تک کھیلو انڈیا گیمز میں 30 ہزار سے زیادہ ایتھلیٹ حصہ لے چکے ہیں۔ اس میں بھی 1500 کھیلو انڈیا ایتھلیٹس کی شناخت کرکے انہیں مالی امداد دی جا رہی ہے۔ انہیں جدید اسپورٹس اکیڈمیوں میں اعلیٰ درجے کی تربیت بھی دی جا رہی ہے۔9 سال پہلے کے مقابلے میں اس سال کا  مرکزی کھیل بجٹ میں بھی 3 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔

آج دیہات کے پاس بھی جدید کھیلوں کا انفراسٹرکچر تیار کیا جا رہا ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی اب بہتر گراؤنڈز، جدید اسٹیڈیم، جدید تربیتی سہولیات تعمیر ہو رہی ہیں۔ یوپی میں بھی کھیلوں کے پروجیکٹوں پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کئے جارہے ہیں۔ لکھنؤ میں جو سہولتیں پہلے سے موجود تھیں ان کو بڑھا دیا گیا ہے۔ آج وارانسی میں سگرا اسٹیڈیم جدید شکل  میں سامنے آرہا ہے۔  یہاں پر تقریباً 400 کروڑ روپے خرچ کر کے نوجوانوں کے لیے جدید سہولیات تعمیر کی جا رہی ہے۔ کھیلو انڈیا پروگرام کے تحت ہی  لال پور میں سنتھیٹک ہاکی میدان ، گورکھپور کے ویر بہادر سنگھ اسپورٹس کالج میں ملٹی پرپز ہال، میرٹھ میں سنتھیٹک ہاکی گراؤنڈ اور سہارنپور میں سنتھیٹک رننگ ٹریک کے لیے مدد فراہم کی گئی ہے۔ آنے والے وقت میں، کھیلو انڈیا پروگرام کے تحت ایسی  ہی سہولیات کی مزیدتوسیع کی جائے گی۔

ساتھیو،

ہم نے اس بات پر بھی توجہ مرکوز کی ہے کہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع ملے۔ جتنے زیادہ  کھیلاڑی کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں  اتنا ہی  ان کا فائدہ ہوتا ہے، اس کی صلاحیتوں میں نکھار آتا ہے۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں، ہمیں اپنے کھیل  کہاں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ہماری خامیاں  کیا ہیں، غلطیاں کیا ہیں، ہمارے چیلنجز کیا ہیں، کچھ سال پہلے کھیلو انڈیا اسکول گیمز کے آغاز کے پیچھے ایک بڑی وجہ  یہ بھی تھی۔ آج   اس کی توسیع کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز اور کھیلو انڈیا ونٹر گیمز تک ہوچکی ہے۔ ملک کے ہزاروں کھلاڑی اس پروگرام کے تحت حصہ لے رہے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بہت سے ایم پی سانسد کھیل پرتیوگیتا چلاتے ہیں۔ اس میں ہزاروں کی تعداد میں ایک ایک پارلیمانی حلقے  میں  نوجوان، بیٹے بیٹیاں کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ آج ملک میں  اس کے خوشگوار نتائج بھی  حاصل ہورہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ہمارے کھلاڑیوں نے کئی بین الاقوامی مقابلوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کے نوجوان   ہمارے کھلاڑیوں کی خود اعتمادی کتنی بلند ہے۔

ساتھیو،

کھیلوں سے متعلق مہارت ہو، یا کھلاڑیوں کو بہترین بنانے کے لیے دیگر شعبوں کی مہارتیں ہوں، حکومت ہر قدم پر کھلاڑیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہماری قومی تعلیمی پالیسی میں کھیلوں کو ایک  مضمون  کے طور پر پڑھانے کی تجویز ہے۔ اسپورٹس  اب نصاب کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ ملک کی پہلی نیشنل اسپورٹس یونیورسٹی کی تعمیر  سے اس میں مزید مدد ملے گی۔ اب ریاستوں میں بھی اسپورٹس اسپشیلائزڈ ہائر ایجوکیشن کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس میں اتر پردیش قابل ستائش کام کر رہا ہے۔ میرٹھ میں میجر دھیان چند کھیل یونیورسٹی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کے علاوہ آج ملک بھر میں 1000 کھیلو انڈیا سینٹر بھی قائم کیے جا رہے ہیں۔ تقریباً 2 درجن نیشنل سینٹرز آف ایکسی لینس بھی کھولے گئے ہیں۔ان سینٹرس پر  کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے تربیت اور اسپورٹس سائنس کی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ کھیلو انڈیا نے بھارت کے روایتی کھیلوں کا وقار بھی بحال کیا ہے۔گٹکا، ملاکھمب، تھانگ ٹا، کلیری پایٹو اور یوگااسن  جیسے مختلف  شعبوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہماری حکومت  اسکالرشپ بھی دے رہی ہے۔

ساتھیو،

کھیلو انڈیا پروگرام سے آج ایک اور حوصلہ افزا  نتیجہ ہماری بیٹیوں کی شرکت  کی شکل میں آیا ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں کھیلو انڈیا ویمن لیگ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس میں ابھی تک مختلف عمر کی تقریباً 23 ہزار خاتون  ایتھلیٹ حصہ لے چکی ہیں۔ کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز میں بڑی تعداد میں خاتون  ایتھلیٹ شرکت  کررہی ہیں۔ میں ان کھیلوں میں حصہ لینے والی بیٹیوں  کے لئے   خاص طور پر اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آپ تمام نوجوان ساتھیوں نے ایک ایسے وقت میں کھیل کے میدان میں قدم رکھا ہے جو یقیناً ہندوستان کا دور ہے۔ آپ کی صلاحیتوں، آپ کی ترقی میں ہندوستان کی ترقی مضمر ہے۔ آپ ہی مستقبل کے چیمپئن ہیں۔ ترنگے کی شان کو بڑھانے  کی ذمہ داری  آپ سب پر ہے۔ اس لیے کچھ باتیں ہمیں ضرور یاد رکھنی چاہئیں۔ ہم اکثر  کھیل  کے جذبے ٹیم اسپرٹ  کی بات کرتے ہیں ۔ یہ کھل کا جذبہ آخر  کیا ہے؟ کیا یہ صرف ہار اور جیت کو تسلیم کرنے تک محدود ہے؟ کیا یہ صرف ٹیم ورک تک ہی  محدود ہے؟ کھیل کےجذبے کا مفہوم اس سے بھی وسیع تر ہے۔ کھیل ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ کر اجتماعی کامیابی کی  تحریک دیتا ہے۔ کھیل ہمیں مریادہ پر عمل کرنا سکھاتا ہے، اصولوں  پر  چلنا سکھاتا ہے۔ میدان میں بہت بار  حالات آپ کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بعض اوقات فیصلے آپ کے خلاف بھی ہو۔ لیکن کھلاڑی اپنا حوصلہ نہیں کھوتا، ہمیشہ قوانین کا پابند رہتا ہے۔ اصول و ضوابط کی حدود میں رہتے ہوئے صبر کے ساتھ اپنے حریف پر کیسے قابو پایا جائے، یہی ایک  کھلاڑی کی پہچان ہوتی ہے۔ ایک فاتح تبھی عظیم کھلاڑی بنتا ہے جب وہ ہمیشہ کھیل کے جذبے  اور اصولوں پر عمل کرتا ہے۔ایک فاتح تب ہی عظیم کھلاڑی بنتا ہے جب  اس کے ہر  طرز عمل س معاشرہ تحریک لیتا ہے۔ اس لیے آپ تمام نوجوان دوست اپنے کھیل میں ان باتوں کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی ان یونیورسٹی گیمز میں کھیلیں گے اور کھلیں گے بھی۔ ایک بار پھر آپ سب کو بہت بہت مبارک ۔خوب کھیلئے،خوب آگے بڑھیئے! شکریہ!

*********

ش ح۔ ا گ ۔ ج

Uno5494



(Release ID: 1927438) Visitor Counter : 138