وزیراعظم کا دفتر

گاندھی نگر، گجرات میں مختلف پروجیکٹوں کے افتتاح اور سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 12 MAY 2023 5:00PM by PIB Delhi

گجرات کے وزیراعلی  جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، سی آر پاٹل، حکومت گجرات کے وزراء، پی ایم آواس یوجنا کے تمام مستفید خاندان، دیگر تمام معززین اور گجرات کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔

آج گجرات کے میرے جن  ہزاروں بھائیوں اور بہنوں  نے  گھر میں  داخلہ لیا ہے ، ان کے ساتھ  ہی ، میں بھوپیندر بھائی اور ان کی ٹیم کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔ ابھی مجھے گاؤں اور شہروں سے متعلق ہزاروں کروڑ روپے کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھنے اور افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس میں غریبوں کے لیے گھر، پانی کے منصوبے، شہری ترقی کے لیے ضروری منصوبے اور صنعتی ترقی سے متعلق کچھ منصوبے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمام مستفید ہونے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، خاص طور پر ان بہنوں کو جنہیں آج اپنا پکا گھر ملا ہے۔

بی جے پی کے لیے ملک کی ترقی ایک کنویکشن اور عزم ہے۔ ہمارے لیے قوم کی تعمیر ایک مسلسل  چلنے والا مہایگیہ ہے۔ ابھی  گجرات میں دوبارہ بی جے پی کی حکومت بنے چند ماہ ہی ہوئے ہیں، لیکن جس رفتار سے ترقی ہوئی ہے، مجھے بہت  ہی مزہ آرہا ہے اورمیں خوشی محسوس کر رہا ہوں۔

حال ہی میں گجرات کے لئے وقف  غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے 3 لاکھ کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا۔ ایک طرح سے، گجرات نے بہت سے فیصلوں میں محروم افراد کو ترجیح دیتے ہوئے سبقت حاصل کی ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں، گجرات کے تقریباً 25 لاکھ مستفیدین کو آیوشمان کارڈ دیئے گئے  ہیں۔ گجرات کی تقریباً 2 لاکھ حاملہ خواتین کو پردھان منتری ماترو وندنا یوجنا سے مدد ملی ہے۔

اس دوران گجرات میں 4 نئے میڈیکل کالج کھلے ہیں۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد گجرات میں جدید انفراسٹرکچر کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کے کام شروع ہو ئے ہیں۔ ان سے گجرات کے ہزاروں نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے والے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ گجرات کی ڈبل انجن حکومت دوگنی رفتار سے کام کر رہی ہے۔

ساتھیوں،

پچھلے 9 برسوں میں پورے ملک میں جو بے مثال تبدیلی آئی ہے، اس کا تجربہ آج ہر شہری کو ہو رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب ملک کے لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے بھی ترستے تھے۔ برسوں  برس کے انتظار کے بعد لوگوں نے اس غیر موجودگی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا تھا۔ ہر کوئی مانتا تھا کہ اب نصیب میں ہے، زندگی پوری کرو، اب بچے بڑے ہو کر کرنا ہوگا تو کریں گے، ایسی مایوسی، اکثر لوگوں نے مان لیا تھا کہ جو جھگی جھونپڑی میں پیدا ہوگا، اس کی آنے والی نسلیں بھی  جھگی جھونپڑیوں میں  ہی اپنی زندگی بسر کریں گی۔ ملک اب اس مایوسی سے نکل رہا ہے۔

آج ہماری حکومت ہر کمی کو دور کر کے ہر غریب تک پہنچنے کا کام کر رہی ہے۔ ہم اسکیموں کی 100 فیصد سیچوریشن کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ یعنی حکومت خود اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں تک جا رہی ہے۔ حکومت کے اس طرز عمل سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا خاتمہ ہوا ہے اور امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوا ہے۔ ہماری حکومت مستفدین تک پہنچنے کے لیے نہ تو مذہب دیکھتی ہے اور نہ ذات پات۔ اور جب ایک گاؤں میں 50 لوگوں کا ملنا طے ہو اور 50 لوگ مل جائیں، چاہے وہ کسی بھی مسلک کا ہو، کسی بھی ذات کا ہو، اس کی پہچان نہ ہو، چاہے کوئی بھی ہو، لیکن سب کو ایک بار مل جاتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جہاں کوئی تفریق نہیں ہے، وہی حقیقی سیکولرازم بھی ہے۔ سماجی انصاف کی بات کرنے والے، جب آپ سب کی خوشی کے لیے، سب کی سہولت کے لیے کام کرتے ہیں، جب سب کو ان کے حقوق دلانے کے لیے 100فیصد کام کرتے ہیں، تو میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی سماجی انصاف نہیں ہوتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر کے کوئی سوشل جسٹس نہیں ہوتا  ہے ، جس راستے پر ہم چل رہے ہیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ جب غریب اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے کم فکر مند ہوتے ہیں تو ان  کی خوداعتماد ی بڑھ جاتی ہے۔

کچھ عرصہ قبل تقریباً 40 ہزار،  38 ہزار ویسے غریب خاندانوں کو اپنا پکا گھر ملا ہے۔ ان میں سے تقریباً 32 ہزار مکانات گزشتہ 125 دنوں میں  بن  کر تیار ہوئے  ہیں۔ مجھے ابھی ان میں سے بہت سے فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اور ان کی باتیں سن کر آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ ان گھروں کی وجہ سے ان میں کتنی خود اعتمادی تھی اور جب ہر خاندان میں اتنی خود اعتمادی پیدا ہو جائے تو وہ معاشرے کی کتنی بڑی طاقت بن جاتا ہے۔ غریب کے ذہن میں جو اعتماد پیدا ہوتا ہے اور وہ محسوس کرتا ہے کہ ہاں یہ اس کا حق ہے اور یہ معاشرہ اس کے ساتھ ہے، وہ بڑی طاقت بن جاتا ہے۔

ساتھیوں،

پرانی پالیسیوں پر چلتے ہوئے ناکام پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے   نہ ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور نہ ہی ملک کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس سے پہلے کی حکومتیں کس نقطہ نظر  کے ساتھ کام کر رہی تھیں ،  آج ہم کس سوچ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ سمجھا بہت ضروری ہے۔  ہمارے ملک میں غریبوں کو مکان فراہم کرنے کی اسکیمیں ایک عرصے سے چل رہی تھیں۔ لیکن 10-12 سال پہلے کے اعداد و شمار بتاتے تھے کہ ہمارے گائوں میں تقریباً 75 فیصد خاندان ایسے تھے جن کے گھر میں پکے ٹوائلٹ نہیں تھے۔

غریبوں کے گھر کی اسکیموں میں بھی اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا جو پہلے چل رہی تھیں۔ گھر صرف سر ڈھانپنے کی چھت نہیں، بھرنے کی جگہ نہیں۔ گھر ایک عقیدے کی جگہ ہے، جہاں خواب بنتے ہیں، ، جہاں  ایک خاندان کے حال اور مستقبل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے 2014 کے بعد ہم نے غریبوں کے گھر کو صرف ایک پکی چھت تک محدود نہیں رکھا۔ بلکہ، ہم نے گھر کو غربت کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ٹھوس بنیاد بنایا ہے، غریبوں کو بااختیار بنانے، ان کے وقار کے لیے ایک ذریعہ بنایا ہے۔

آج حکومت کے بجائے استفادہ کنندہ خود فیصلہ کرتا ہے کہ پی ایم آواس یوجنا کے تحت اس کا گھر کیسے بنے گا۔ اس کا فیصلہ دہلی سے نہیں ہوتا، گاندھی نگر سے نہیں ہوتا، خود ہی طے کرتا ہے۔ حکومت براہ راست اس کے بینک اکاؤنٹ میں رقم جمع کرتی ہے۔ مکان زیر تعمیر ہے، یہ ثابت کرنے کے لئے  ہم مختلف مراحل پر گھر کی جیو ٹیگنگ کرتے ہیں ۔آپ بھی جانتے ہیں کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ گھر کا پیسہ مستحق تک پہنچنے سے پہلے ہی کرپشن کا شکار ہو جاتا تھا۔ جو گھر بنتے تھے، وہ رہنے کے قابل نہیں  ہوتے تھے۔

بھائیو اور بہنو،

آج پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت جو گھر بنائے جارہے ہیں وہ صرف ایک اسکیم تک محدود نہیں ہیں، یہ کئی اسکیموں کا پیکج ہے۔ اس میں سوچھ بھارت ابھیان کے تحت ایک بیت الخلا بنایا گیا ہے۔ اس میں سوبھاگیہ یوجنا کے تحت بجلی کا کنکشن دستیاب ہے۔ اس میں اجولا اسکیم کے تحت مفت ایل پی جی گیس کنکشن دستیاب ہے۔ اس میں جل جیون ابھیان کے تحت نل سے پانی دستیاب ہے۔

پہلے یہ تمام سہولیات حاصل کرنے کے لیے غریبوں کو سالہا سال سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تھے۔ اور آج ان تمام سہولیات کے ساتھ ساتھ غریبوں کو مفت راشن اور مفت علاج کی سہولت بھی  مل رہی  ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ غریبوں کو کتنا بڑا حفاظتی ڈھال ملا ہے۔

ساتھیوں،

پی ایم آواس یوجنا غریبوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بااختیار بنانے میں بھی بڑی طاقت دے رہی ہے۔ پچھلے 9 سالوں میں تقریباً 4 کروڑ پکے گھر غریب خاندانوں کو فراہم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً 70 فیصد مکانات بھی خواتین کے نام پر ہیں۔ یہ کروڑوں بہنیں وہ ہیں جن کے نام پر پہلی بار جائیداد کا اندراج ہوا ہے۔ ہمارے ملک گجرات میں یہ بھی مشہور ہے کہ گھر آدمی کے نام، گاڑی آدمی کے نام، کھیت آدمی کے نام، سکوٹر بھی آدمی کے نام، اور شوہر کا نام لیکن اگر شوہر نہ رہے تو بیٹے کے نام پر کیا جاتا ہے، ماں کے نام پر عورت کے نام پر کچھ نہیں ہوتا۔ مودی جی نے اس صورت حال کو بدل دیا ہے، اور اب ماں کا نام ماؤں بہنوں کے نام پر سرکاری اسکیموں کے فائدے میں شامل کرنا ہوگا، یا تو ماں کو  ہی حق دیا جا تا  ہے۔

 پی ایم آواس یوجنا کی مدد سے بنے ہر گھر کی قیمت  اب -5-50 ہزار میں گھر نہیں بنتے ، 1.5 لاکھ پونے دو لاکھ تک خرچ  ہوتا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ پردھان منتری آواس یوجنا میں رہنے گئے ہیں ان کے پاس لاکھوں کے گھر ہیں اور وہ لاکھوں کے مکانات کے مالک بن گئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ کروڑوں عورتیں لکھ  پتی بن گئی ہیں، اور اس لیے میری  لکھ پتی دیدی  ہند ستان کے ہر کونے سے مجھے آشیرواد دیتی ہے، تاکہ میں ان کے لئے  زیادہ کام کرسکوں۔

ساتھیوں،

ملک میں بڑھتی ہوئی شہری کاری کے پیش نظر بی جے پی حکومت بھی مستقبل کے چیلنجوں کو ذہن میں  بھی رکھتے ہوئے کام کر رہی ہے۔ ہم نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے راجکوٹ میں ایک ہزار سے زیادہ گھر بنائے ہیں۔ یہ گھر کم وقت میں، کم خرچ میں بنائے گئے ہیں اور اتنے ہی  زیادہ محفوظ ہیں۔ لائٹ ہاؤس پروجیکٹ کے تحت ہم نے یہ تجربہ ملک کے 6 شہروں میں کیا ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی سے آنے والے وقتوں میں غریبوں کو مزید سستے اور جدید گھر دستیاب ہونے جا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

ہماری حکومت نے رہائش سے متعلق ایک اور چیلنج پر قابو پالیا ہے۔ پہلے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں من مانی ہوتی تھی، دھوکہ دہی کی شکایات آتی تھیں۔ متوسط ​​خاندانوں کو تحفظ دینے کے لیے کوئی قانون نہیں تھا۔ اور یہ جو  بڑے بڑے بلڈر منصوبے لے کر آتے تھے، ان کی اتنی خوبصورت تصویریں ہوتی تھیں، گھر میں  ہی طے ہوتا ہے کہ یہ گھر خریدیں گے۔ اور جب دیتے تھے تب دوسرا ہی دیتے تھے،  لکھا ہوا ایک ہوتا تھا ، دیتے تھے دوسرا۔

ہم نے(ریرا)  RERA قانون بنایا۔ اس سے متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو قانونی تحفظ مل گیا ہے۔ اور جو ڈیزائن پیسے دیتے وقت دکھایا گیا تھا، اب ویسا گھر بنانا بلڈرز کی مجبوری ہے، ورنہ جیل میں انتظام رہتا ہے۔  یہی نہیں بلکہ آزادی کے بعد پہلی بار ہم متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو گھر بنانے کے لیے سود کے ساتھ بینک قرضوں سے متوسط ​​طبقے کی مدد کا انتظام کیا گیا ہے۔

گجرات نے بھی اس میدان میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ گجرات میں ایسے 5 لاکھ متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کو 11,000 کروڑ روپے امداد کے طور پر دے کر حکومت نے ان کی زندگی کا خواب پورا کیا ہے۔

ساتھیوں،

آج ہم سب مل کر آزادی کےامرت کال میں ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے لئے  کوشش کر رہے ہیں۔ ان 25 سالوں میں ہمارے شہر خاص طور پر ٹائر-2، ٹائر-3 شہر معیشت کو تیز کریں گے۔ گجرات میں بھی ایسے بہت سے شہر ہیں۔ ان شہروں کا نظام بھی مستقبل کے چیلنجز کے مطابق تیار کیا جارہا ہے۔ امرت مشن کے تحت ملک کے 500 شہروں میں بنیادی سہولیات کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ ملک کے 100 شہروں میں جو ا سمارٹ سہولیات ترقی کررہی ہیں ، وہ بھی انہیں جدید بنا رہی ہیں۔

ساتھیوں،

آج ہم شہری منصوبہ بندی میں زندگی کی آسانی اور معیار زندگی دونوں پر یکساں زور دے رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ کے سفر میں زیادہ وقت نہ گزارنا پڑے۔ آج اسی سوچ کے ساتھ ملک میں میٹرو نیٹ ورک کو بڑھایا جا رہا ہے۔ سال 2014 تک ملک میں 250 کلومیٹر سے بھی کم میٹرو نیٹ ورک تھا۔ یعنی 40 سالوں میں 250 کلومیٹر میٹرو روٹ بھی نہیں بن سکا تھا۔ جبکہ گزشتہ 9 سالوں میں 600 کلومیٹر کے نئے میٹرو روٹس بنائے گئے ہیں، ان پر میٹرو چلنی شروع ہو گئی ہے۔

آج ملک کے 20 شہروں میں میٹرو چل رہی ہے۔ آج آپ دیکھتے ہیں کہ میٹرو کی آمد سے احمد آباد جیسے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کتنا آسان ہوگیا ہے۔ جب شہروں کے آس پاس کے علاقے جدید اور تیز رفتار رابطے سے منسلک ہوں گے تو اس سے اہم شہر پر دباؤ کم ہو گا۔ جڑواں شہروں جیسے احمد آباد-گاندھی نگر کو بھی آج وندے بھارت ایکسپریس جیسی ٹرینوں سے جوڑا جا رہا ہے۔ اسی طرح گجرات کے کئی شہروں میں الیکٹرک بسوں میں بھی تیزی سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔

ساتھیوں،

غریب ہو یا متوسط ​​طبقہ، ہمارے شہروں میں معیار زندگی اسی وقت ممکن ہے جب ہمیں صاف ستھرا  ماحول اور  خالص ہوا ملے۔ اس کے لیے ملک میں مشن موڈ پر کام جاری ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ ہزاروں ٹن میونسپل فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ پہلے ملک میں اس بارے میں کوئی سنجیدگی نہیں تھی۔ گزشتہ  سالوں میں، ہم نے فضلہ کے انتظام پر بہت زور دیا ہے۔ 2014 میں جہاں ملک میں صرف 14 سے 15 فیصد کچرے کی پروسیسنگ ہوتی تھی، آج 75 فیصد کچرے پر کارروائی ہو رہی ہے۔ اگر ایسا پہلے ہو جاتا تو آج ہمارے شہروں میں کچرے کے پہاڑ کھڑے نہ ہوتے۔ اب مرکزی حکومت بھی ایسے کچرے کے پہاڑوں کو ختم کرنے کے لیے مشن موڈ پر کام کر رہی ہے۔

ساتھیوں،

گجرات نے ملک کو واٹر مینجمنٹ اور واٹر سپلائی گرڈ کا بہترین ماڈل دیا ہے۔ جب کوئی 3000 کلومیٹر مین پائپ لائن اور 1.25 لاکھ کلومیٹر سے زیادہ کی ڈسٹری بیوشن لائنوں کے بارے میں سنتا ہے تو  اسے جلدی یقین نہیں آتا کہ اتنا بڑا کام ۔ لیکن یہ بھگیرتھ کام گجرات کے لوگوں نے کرکے دیکھا یا  ہے۔ اس سے تقریباً 15000 دیہاتوں اور 250 شہری علاقوں میں پینے کا صاف پانی پہنچ گیا ہے۔ اس طرح کی سہولیات سے بھی  گجرات میں ہر کسی کی زندگی، خواہ وہ غریب ہو یا متوسط، آسان ہو رہی ہے۔ گجرات کے لوگوں نے جس طرح امرت سرووروں کی تعمیر میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا ہے وہ بھی قابل ستائش ہے۔

ساتھیوں،

ہمیں ترقی کی اسی رفتار کو مسلسل برقرار رکھنا ہے۔ سب کی کوششوں سے امرت کال  کے ہمارے عزم کی تکمیل ہوگی۔  آخر میں ایک بار پھر میں آپ سب کو ترقیاتی کاموں کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ جن خاندانوں کا خواب پورا ہو چکا ہے، انہیں گھر مل گیا ہے، اب وہ ایک نیا عزم لے کر اس خاندان کو آگے بڑھانے کی طاقت جمع کریں۔ ترقی کے امکانات بے پناہ ہیں، آپ بھی اس کے حقدار ہیں اور یہ ہماری بھی کوشش ہے، آئیے مل کر ہندوستان کو تیز رفتار بنائیں۔ گجرات کو مزید خوشحالی کی طرف لے جائیں۔ اس جذبے کے ساتھ  آپ سب کا بہت بہت شکریہ!

***

 اعلان دست برداری :وزیراعظم کی تقریر کا کچھ حصہ گجراتی زبان میں بھی ہے ، جسے یہاں ترجمہ کردیا گیا ہے۔

 

ش  ح۔ ا ک ۔ ج

UNO-5084



(Release ID: 1923882) Visitor Counter : 145