وزیراعظم کا دفتر
’مشن موڈ میں سیاحت کی ترقی‘ کے موضوع پر پوسٹ بجٹ ویبینار سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
03 MAR 2023 1:37PM by PIB Delhi
نمسکار،
اس ویبینار میں موجود تمام معززین کا خیرمقدم ہے ۔ آج کا نیا ہندوستان نئے ورک کلچر کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس بار بھی بجٹ کو خوب پذیرائی ملی ہے، ملک کے عوام نے اسے بہت مثبت انداز میں لیا ہے۔ اگر پرانا ورک کلچر ہوتا تو ایسے بجٹ ویبینار کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہ ہوتا۔ لیکن آج ہماری حکومت بجٹ سے پہلے اور بجٹ کے بعد ہرحصص دار سے تفصیلی بات چیت کرتی ہے، انہیں ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ بجٹ کا زیادہ سے زیادہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے، بجٹ کو مقررہ مدت کے اندر کیسے نافذ کیا جائے، یہ ویبینار بجٹ میں مقرر کردہ اہداف کے حصول میں ایک محرک کا کام کرتا ہے۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ مجھے حکومت کے سربراہ کے طور پر کام کرتے ہوئے 20 سال سے زیادہ کا تجربہ حاصل ہے۔ اس تجربے کا ایک نچوڑ یہ بھی ہے کہ جب تمام حصص دار کسی پالیسی سے متعلق فیصلے میں شامل ہوتے ہیں تو مطلوبہ نتیجہ بھی مقررہ وقت کے اندر برآمدہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں میں ہونے والے ویبیناروں میں ہزاروں لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوئے، دن بھر سبھی نے بہت گہرائی سے غوروفکر کیا اور میں کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل کے لیے بہت اہم تجاویز سامنے آئیں ۔اب آج جو بجٹ ہے اس پر فوکس کیا اور بہت اچھی تجاویز سامنے آئیں کہ کیسے آگے بڑھنا ہے۔ اب آج ہم یہ بجٹ ویبنار ملک کے سیاحتی شعبے کی بازیابی کے لیے کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
ہندوستان میں سیاحت کے شعبے کو ایک نئی اونچائی دینے کے لیے ہمیں لیک سے ہٹ کر سوچنا ہوگا اور طویل مدتی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ جب بھی کسی سیاحتی مقام کو ترقی دینے کی بات آتی ہے تو کچھ چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں، جیسے کہ اس جگہ کیا امکانات ہیں؟ سفر میں آسانی کے لیے وہاں بنیادی ڈھانچے کی کیا ضرورت ہے، اسے کیسے پورا کیا جاسکے گا؟ اس پورے سیاحتی مقام کو فروغ دینے کے لیے ہم اور کون سے جدید طریقے اپنا سکتے ہیں۔ ان تمام سوالات کے جوابات آپ کو اپنے مستقبل کے لائحہ عمل کی منصوبہ بندی کرنے میں بہت مدد فراہم کریں گے۔ اس وقت ہمارے ملک میں سیاحت کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ ساحلی سیاحت، بیچ ٹورازم، مینگروو ٹورازم، ہمالیائی ٹورازم، ایڈونچر ٹورازم، وائلڈ لائف ٹورازم، ایکو ٹورازم، ہیریٹیج ٹورازم،اسپرچوئل ٹورازم ، ویڈینگ ڈیسٹی نیشن ، کانفرنسوں کے ذریعہ ٹورازم ، کھیلوں کے ذریعہ ٹورازم جیسے بہت سے شعبے ہیں۔ اب دیکھیں، رامائن سرکٹ، بدھ سرکٹ، کرشن سرکٹ، نارتھ ایسٹ سرکٹ، گاندھی سرکٹ، سب ہماری عظیم گرو روایات کا حصہ ہیں، اور ایسے متعدد تیرتھ علاقوں سے پورا پنجاب بھرا ہوا ہے۔ ہمیں ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس سال کے بجٹ میں ملک میں مسابقتی جذبے کے ساتھ چیلنج روٹ کے ذریعے ترقی کے لیے ملک کے کچھ سیاحتی مقامات کو منتخب کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ چیلنج ہر حصص دار کو ٹھوس کوششیں کرنے کی ترغیب دے گا۔ بجٹ میں سیاحتی مقامات کی ہمہ گیر ترقی پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے لیے اس بات پر تفصیلی بحث ہونی چاہیے کہ ہم مختلف حصص داروں کو کس طرح شامل کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
جب ہم سیاحت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک فینسی (رئیسانہ) لفظ ہے، یہ صرف ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو معاشرے کے اعلیٰ آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن ہندوستان کے تناظر میں سیاحت کا دائرہ بہت وسیع ہے، بہت قدیم ہے۔ یہاں صدیوں سے یاترائیں ہوتی آرہی ہیں، یہ ہماری ثقافتی سماجی زندگی کا حصہ رہی ہیں اور جب وسائل نہیں تھے، ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں تھا، بہت مشکل تھی تب بھی لوگ پریشانیاں اٹھاکر بھی سفر پر نکلتے تھے۔ چاردھام یاترا ہو، 12 جیوترلنگ ہوں یا 51 شکتی پیٹھ ہوں، ایسی بہت سی یاترائیں تھیں جنہوں نے ہمارے عقیدے کو مقامات سے جوڑ دیا۔ یہاں ہونے والی یاترا ؤں نے ملک کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا کام بھی کیا ہے۔ ملک کے کئی بڑے شہروں کی پوری معیشت، اس پورے ضلع کی پوری معیشت یاترا پر منحصر تھی۔ یاترا کی اس پرانی روایت کے باوجود، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ان جگہوں پر زمانے کے مطابق سہولیات کو بڑھانے کے لیے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پہلے سینکڑوں سال کی غلامی اور پھر آزادی کے بعد کی دہائیوں میں ان مقامات کی سیاسی طور پر نظر اندازگی نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔
اب آج کا ہندوستان اس صورتحال کو بدل رہا ہے۔ جب مسافروں کے لیے سہولیات میں اضافہ ہوتا ہے تو مسافروں میں کشش کیسے بڑھ جاتی ہے، ان کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور ہم یہ ملک میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ جب وارانسی میں کاشی وشوناتھ دھام کی تعمیر نونہیں ہوئی تھی ، اس وقت تقریباً 70-80 لاکھ لوگ ایک سال میں مندر کے درشن کے لئے آتے تھے۔ کاشی وشوناتھ دھام کی تعمیر نو کے بعد، وارانسی آنے والوں کی تعداد پچھلے سال 7 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی طرح جب کیدارگھاٹی میں تعمیر نو کا کام نہیں ہوا تھا تو وہاں سالانہ صرف 4-5 لاکھ لوگ درشن کے لیے آتے تھے۔ لیکن پچھلے سال 15 لاکھ سے زیادہ عقیدت مندوں نے بابا کیدار کے درشن کیے تھے۔ میرا گجرات کا پرانا تجربہ ہے تو وہ تجربہ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔ بڑودہ کے قریب گجرات میں پاوا گڑھ نامی ایک تیرتھ مقام ہے۔ جب وہاں تعمیر نو کا کام نہیں ہوا تھا اوروہ پرانی حالت میں تھا، تو بمشکل 2 ہزار، 5 ہزار، 3 ہزار لوگ وہاں آتے تھے، لیکن وہاں تزئین و آرائش ہوئی، کچھ انفرااسٹرکچر بنایا گیا، سہولیات دی گئیں تو اس پاوا گڑھ کی تعمیر نو کے بعد وہاں اوسطاً 80 ہزار لوگ آتے ہیں۔ یعنی سہولتیں بڑھیں تو اس کا سیدھا اثر مسافروں کی تعداد پر پڑا، سیاحت کو بڑھانے کے لیے اردگرد ہونے والی چیزیں بھی بڑھنے لگیں اور لوگوں کی زیادہ تعداد کےآنے کا مطلب ہے کہ مقامی سطح پر کمائی کے زیادہ مواقع، روزگار اور خود روزگار کے زیادہ مواقع۔ اب دیکھئے، میں دنیا کے سب سے اونچے مجسمہ ’ اسٹیچو آف یونٹی ‘ کی مثال بھی دوں گا ۔اس مجسمے کی تعمیر کے بعد ایک سال کے اندر 27 لاکھ لوگ اسے دیکھنے آئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ہندوستان کے مختلف مقامات پر شہری سہولیات میں اضافہ کیا جائے، اچھی ڈیجیٹل کنیکٹیویٹی ہو، اچھے ہوٹل-اسپتال ہوں، گندگی کا کوئی نام نشان نہ ہو، بہترین انفرااسٹرکچر ہو، تو ہندوستان کا سیاحت کا شعبہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
ساتھیو،
مجھے آپ سے بات کرتے ہوئے احمد آباد شہر میں ایک کانکریا تالاب ہے۔ اُس کانکریا جھیل پروجیکٹ کے موضوع کے بارے میں بھی کچھ کہنے کو دل چاہتا ہے۔ اب یہ کانکریا جھیل پروجیکٹ شروع ہونے سے پہلے وہاں عام طور پر لوگ نہیں جاتے تھے، ایسے ہی وہاں سے گزرنا پڑے ، تو کوئی وہاں نہیں جاتا تھا۔ ہم نے وہاں نہ صرف وہاں جھیل کو پھر سے فروغ دیا ہے، بلکہ فوڈ اسٹالس میں کام کرنے والوں کے ہنر کے فروغ میں بھی اضافہ کیا ہے ۔ جدید بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ہی ہم نے وہاں صفائی ستھرائی پر بہت زور دیا ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ آج وہاں داخلے کی فیس ہونے کے باوجود یومیہ اوسطاً 10 ہزار لوگ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے ہر سیاحتی مقام، اپنا ایک آمدنی کا ماڈل بھی تیار کر سکتا ہے۔
ساتھیو،
یہ ایک ایسا وقت ہے ، جب ہمارے گاؤں بھی سیاحت کا مرکز بن رہے ہیں۔ بہتر ہوتے بنیادی ڈھانچے کی وجہ سےہمارے دور-دراز کے گاؤں، اب سیاحت کے نقشے پر آ رہے ہیں۔ مرکز ی حکومت نے سرحد سے ملحقہ جو گاؤں ہیں، وہاں وائبرینٹ بارڈر گاؤں اسکیم شروع کی ہے۔ ایسے میں ہوم اسٹے، چھوٹے ہوٹل، چھوٹے ریسٹورینٹ ہوں، ایسے ہی بہت سے کاروبار کے لئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کا کام ہم سب کو مل کر کے انجام دینا ہے۔
ساتھیو،
آج میں ایک بات بھارت آنے والے غیر ملکی سیاحوں کے حوالے سے بھی بتاؤنگا۔ آج جس طرح سے دنیا میں بھارت کے تئیں دلچسپی بڑھ رہی ہے، بھارت آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں محض 2 لاکھ غیر ملکی سیاح ہی آئے تھے، جبکہ اس سال جنوری میں 8 لاکھ سے زیادہ غیر ملکی سیاح بھارت آئے۔ بیرون ملک سے جو سیاح بھارت آ رہے ہیں، ہمیں انہیں بھی پروفائل کر کے اپنا ٹارگٹ گروپ طے کرنا ہے۔غیر ملکوں میں رہنے والے وہ لوگ جن میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی استعداد ہوتی ہے، ہمیں انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھارت لانے کے لئے مخصوص طریقۂ کار بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسے سیاح بھلے ہی کم دن بھارت میں رہیں گے، لیکن زیادہ رقم خرچ کرکے جائیں گے۔ آج جو غیر ملکی سیاح بھارت آتے ہیں اور اوسط 1700 ڈالر خرچ کرتے ہیں، جبکہ امریکہ میں بین الاقوامی مسافر اوسطاً 2500 ڈالر اور آسٹریلیا میں تقریباً 5 ہزار ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ بھارت میں بھی زیادہ خرچ کرنے والے سیاحوں کے لئے بہت کچھ ہے۔ ہر ریاست کو اس سوچ کے ساتھ بھی اپنی سیاحتی پالیسی میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جیسے میں آپ کوایک اور مثال دوں گا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ کسی مقام پر رکنے والا جو سیاح ہوتا ہے، وہ برڈ واچر ہوتا ہے۔ یہ لوگ مہینوں-مہینوں کسی ملک میں ڈیرا ڈلے رہتے ہیں۔ بھارت میں تو الگ الگ قسم کے پرندے ہیں، ہمیں ایسے ممکنہ سیاحوں کو بھی بنیاد بنا کر اپنی پالیسیاں مرتب کرنی ہوں گی۔
ساتھیو،
ان سب کوششوں کے درمیان، آپ کو سیاحت کے سییکٹر کو درپیش ایک بنیادی چیلنج پر بھی کام کرنا ہے۔ یہ ہے ہمارے یہاں پروفیشنل ٹورسٹ گائیڈز کی کمی۔ گائیڈز کے لئے مقامی کالجوں میں سرٹیفیکیٹ کورسز ہوں، مقابلے ہوں، بہت اچھےنوجوان اس پیشے میں آگے آنے کے لئے سخت محنت کریں گے اور ہمیں بہترین مختلف زبانیں بولنے والے اچھے ٹورسٹ گائڈ ملیں گے۔ اسی طرح سے ڈیجیٹل ٹورسٹ گائیڈ بھی تو دستیاب ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بھی کر سکتے ہیں۔ کسی ایک خاص ٹورسٹ ڈسٹیشن میں جو گائیڈز کام کر رہے ہیں، ان کا ایک مخصوص لباس یا وردی بھی ہونی چاہیے۔اس سے لوگوں کو پہلی نظر میں ہی معلوم ہو جائے گا کہ سامنے والا جو شخص ہے، وہ ٹورسٹ گائڈ ہے اور وہ ہماری اس کام میں مدد کرے گا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جب کوئی بھی سیاح کسی مقام پر پہنچتا ہے، تو اس کے دل میں سوالوں کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ وہ مختلف سوالوں کا فوری حل چاہتا ہے۔ ایسے میں گائڈ ان تمام سوالات کے جوابات تلاش کرنے میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
مجھے یقین ہے کہ اس ویبینار کے دوران آپ سیاحت سےجڑے ہر پہلو پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ آپ بہتر حل کے ساتھ سامنے آئیں گے اور میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں، جیسے سیاحت کے لئے مان لیجئے ہر ریاست ایک یا دو بہت ہی اچھے سیاحتی مقام تیار کرنے پر زور دیتی ہے، تو وہ اس کی شروعات ایسے کریں کہ ہم طے کریں کہ اسکول سے بچے جو ٹورسٹ کے طور پر نکلتے ہیں،
تمام اسکول سیاحت پر جانے کے لئے دو یا تین دن کا پروگرام بناتے ہیں۔آپ طے کرسکتے ہیں بھائی فلانے ڈیسٹی نیشن میں شروع میں ہردن 100 طلباء آئیں گے ،اس کے بعد200 ،پھر 300اور پھر 1000 طلباء یومیہ آئیں گے۔
الگ الگ اسکولوں سے آئے ہوئے طلباء اور اساتذہ ان سیاحتی مقامات کا دید ار کرنے کے ساتھ ساتھ رقوم بھی خرچ کرتے ہیں ،جس سے ان سیاحتی مقامات پرموجود افراد کا بہت فائدہ ہوتا ہے اور جب بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدشروع ہوتی ہے ،تو وہاں دکان اورکاروبار شروع ہوجاتا ہے۔
فرض کریں کہ ہماری تمام ریاستیں فیصلہ کریں کہ شمال مشرق کی اشٹ لکشمی ہماری 8 ریاستوں میں ہوں ۔ ہر سال ہر ریاست میں 8 یونیورسٹی طے کریں کہ ہر یونیورسٹی شمال مشرق کی ایک ریاست میں پانچ دن اور 7 دن ٹور پررہیں گی ، دوسری یونیورسٹی دوسری ریاست میں، تیسری یونیورسٹی تیسری ریاست میں ٹور کرے گی۔ آپ دیکھیں آپ کی ریاست میں 8 یونیورسٹیاں ایسی ہوں گی جہاں ہمارے نوجوانوں کو شمال مشرق کی 8 ریاستوں کا مکمل علم ہوگا۔
اسی طرح آج کل شادی کی تقریب کا مقام ایک بڑا کاروبار بن گیا ہے، یہ ایک بڑا سیاحتی مقام بن گیا ہے۔ لوگ باہر کے ملکوں میں جاتے ہیں، کیا ہم اپنی ریاستوں میں شادی ہال میں خصوصی پیکجوں کے ساتھ شہریوں کو سہولت دے سکتے ہیں اور میں یہ کہوں گا کہ ہمارے ملک میں ایسا ماحول بنایا جائے کہ گجرات کے لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ 2024 میں اگر یہاں سے شادیاں ہوں گی تو ہمارے لیے شادی کا مقام تمل ناڈو میں ہوگا اور ہم تمل طریقے سے شادی کریں گے۔ اگر گھر میں 2 بچے ہوں تو کوئی یہ سوچے گا کہ ایک ہم آسامی طریقے سے شادی کرنا چاہتے ہیں، دوسرا یہ کہ ہم پنجابی طریقے سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ شادی کا مقام وہیں بنائیں گے، جہاں آپ تصور کر سکتے ہیں۔شادی کے ہال سے بڑے کاروبار کا امکان ہے ۔ ہمارے ملک کے اعلیٰ طبقے کے لوگ تو بیرون ملک جا رہے ہوں گے لیکن متوسط طبقے کے افراد ویڈنگ ڈسٹینیشن پر جاتے ہیں اور جب اس میں بھی کچھ نیا پن آتا ہے تو یہ شادی ان کی زندگی میں یادگار بن جاتی ہے۔ ہم ابھی تک اس کا استعمال نہیں کر رہے ہیں، کچھ ویڈنگ ڈسٹینیشن اپنے طریقے سے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح کانفرنسوں میں آج دنیا کے لوگ کانفرنسوں کے لیے آتے ہیں۔ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ایسا انفراسٹرکچر تیار کرنا چاہیے،جس کی طرف لوگ راغب ہوں اور لوگوں سے کہیں کہ جگہ کا بندوبست کریں تاکہ لوگ کانفرنس کے انعقاد کے لئے ان سے رجوع کریں اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ کانفرنسوں کے لیے آئیں گے، وہ ہوٹلوں میں بھی رہیں گے اور مہمان نوازی کی صنعت کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک مکمل ماحولیاتی نظام تیار ہو گا۔ اسی طرح کھیلوں کی سیاحت ایک بہت اہم شعبہ ہے، ہم مدعو کریں۔ اب دیکھئے ابھی قطر میں فٹبال کا میچ ہوا، پوری دنیا نے قطر کی معیشت پر بڑا اثر ڈالا، دنیا بھر سے لاکھوں لوگ آئے۔ ہم چھوٹے سے شروع کریں، بہت بڑے ہو سکتے ہیں۔ ہمیں یہ راستے تلاش کرنے ہوں گے، بنیادی ڈھانچے پر کام کرنے کے لئے آگے آنا ہوگا ،شروعات میں لوگ ان مقامات پرنہیں آئیں گے لیکن اسکول اور کالج کے بچے حکومت کی میٹنگوں کے لیے ضرور آئیں گے۔ اگر ہم اپنی کسی ڈسٹینیشن کو اہمیت دینا شروع کر دیں تو خود بخود زیادہ لوگ آنا شروع ہو جائیں گے اور پھر وہاں انتظامات ہو جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں کم از کم 50 سیاحتی مقامات کو اس طرح سے تیار کیا جانا چاہئے کہ دنیا کے ہر گوشے میں موجود فرد کو معلوم ہو کہ اگر وہ ہندوستان جائیں گے تو اس جگہ کا دورہ ضرور کریں گے۔ ہر ریاست کو فخر ہونا چاہیے کہ دنیا کے اتنے ممالک سے لوگ ہماری جگہ پر آتے ہیں۔ ہم دنیا کے بہت سے ممالک سےفائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ہم وہاں کے سفارت خانے کو لٹریچر بھیجیں گے، وہاں کے سفارت خانے کو کہیں گے کہ دیکھو، اگر آپ سیاحوں کے لیے مدد چاہتے ہیں تو ہم آپ کی اس طرح مدد کریں گے۔ ہمیں پورے نظام کو بہت جدید بنانا ہے اور ہمارے ٹور آپریٹرز کو بھی ایک نئے زاویے سے سوچنا ہے اور ہمارے پاس کوئی سیاحتی مقام نہیں ہونا چاہیے۔ہمیں ہمارے ایپس اور ڈجیٹل کنٹوٹی کو بہت جدید تربنانا ہوگا اور ہمارے سیاحتی مقامات ایسے نہیں ہونے چاہئیں جس کے ایپس یو این اور ہندوستان کی سبھی زبانوںمیں نہ ہوں۔ اگر ہم اپنی ویب سائٹ صرف انگریزی اور ہندی میں بنائیں تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ یہی نہیں، ہمارے سیاحتی مقامات پر اشارے تمام زبانوں میں ہونے چاہئیں۔ اگر کوئی عام خاندان آیا ہے، بس لے گیا ہے اور اگر انہیں وہاں تمل میں اشارے ملیں تو وہ بہت آسانی سے وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، ایک بار جب ہم اس کی عظمت کو سمجھ لیں گےتو یقیناً ہم سیاحت کو سائنسی انداز میں آگے لے جا سکتے ہیں۔میں امید کرتا ہوں کہ آج کےاس ویبنار میں مزید تفصیل سے بات کریں اور یہاں روزگار کے بہت سے مواقع ہیں جیسے زراعت، رئیل اسٹیٹ کی ترقی اور انفراسٹرکچر، ٹیکسٹائل میں ۔ اتنی ہی طاقت سیاحت میں روزگار اور بہت سے مواقع کی ہیں۔ میں آپ کو مدعو کرتا ہوں اور آج کے ویبنار کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ
************
ش ح۔ م م ۔ ع ح ۔ ش م ۔ م ص ۔رم۔ ک ا
(U: 2279)
(Release ID: 1903884)
Visitor Counter : 230
Read this release in:
Odia
,
Malayalam
,
Manipuri
,
Assamese
,
Bengali
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Tamil
,
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Telugu
,
Kannada