وزارت خزانہ
حکومت کی طرف سے پہلے سے کئے گئے اقدامات سے، افراط زر کو آر بی آئی کی قابل برداشت حدود میں لایا گیا
صارفین کی قیمت کی افراط زر اور تھوک قیمتوں کی افراط زر میں کمی ہوکر دسمبر 2022 میں یہ بالترتیب 5.7 فیصد اور 5.0 فیصد ہوگئیں
Posted On:
31 JAN 2023 1:54PM by PIB Delhi
حکومت ہند اور بھارتی ریزرو بینک آر بی آئی کی طرف سے کئے گئے فوری اوروافر اقدامات سے بڑھتی ہوئی افراط زر کو قابو پانے اور اسے مرکزی بینک کی قابل برداشت حد میں لانے میں مدد ملی ہے۔ یہ بات خزانے اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن کی طرف سے آج پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے 23-2022 کے اقتصادی جائزے میں کہی گئی ہے۔
صارفین قیمت کی افراط زر (سی پی آئی)
جائزْے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں صارفین کی قیمت افراط زر 2022 میں تین مرحلوں سے گزری۔ اپریل 2022 تک بڑھنے والا مرحلہ ، جب اس میں 7.8 فیصد کا اچھال آیا، تب اس میں 7.0 فیصد کا اگست 2022 تک ایک ٹھہراؤ آیا اس کے بعد دسمبر 2022 تک اس میں 5.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اضافے کا یہ مرحلہ عام طور پر روس – یوکرین جنگ کے سبب ہوا اور ملک کے کچھ علاقوں میں زیادہ گرمی کے سبب فصلوں کے خراب ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ گرمی کے موسم میں زیادہ گرمی اور اس کے بعد ملک کے کچھ علاقوں میں غیر مساویانہ بارش سے زراعت کے شعبے پر اثر پڑا جس کی وجہ سے سپلائی میں کمی آگئی اور کچھ بڑی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔
حکومت ہند اور بھارتی ریزرو بینک آر بی آئی کی طرف سے تیز رفتاری سے کئے گئے وافر اقدامات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی افراط زر پر قابو پایا گیا اور افراط زر کو مرکزی بینک کی قابل برداشت حد کے اندر لایا گیا۔ اچھے مانسون کی وجہ سے بھی وافر خوراک سپلائی کو یقینی بنانے میں مدد ملی۔
تھوک قیمت افراط زر(ڈبلیو پی آئی)
جائزے میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو پی آئی پر مبنی افراط زر کووڈ-19 دور میں کم رہی اور اس میں اقتصادی سرگرمیوں کے طور پر وبا کے بعد کے دور میں دوبارہ رفتار پیدا ہوئی۔ روس – یوکرین تنازع کی وجہ سے اس بوجھ میں اور بھی زیادتی ہوگئی، جیسا کہ عالمی سپلائی چین میں خرابی پیدا ہوئی کیونکہ لازمی ا شیاء کی نقل وحمل آزادانہ ہوگئی تھی۔ نتیجے کے طور پر تھوک افراط زر کی شرح مالی سال 2022 میں تقریباً 13.0 فیصد تک پہنچ گئی۔ ڈبلیو پی آئی میں مئی 2022 میں 16.6 فیصد سے کم ہوکر ستمبر 2022 میں 106 فیصد ہوگئی اور دسمبر 2022 میں یہ اور کم ہوکر 5.0 فیصد ہوگئی۔ ڈبلیو پی آئی میں اس اضافے کی وجہ جزوی طور پر خوراک کی افراط زر میں اضافہ رہی اور جزوی طور پر بیرون ملک افراط زرہی۔
ڈبلیو پی آئی اور سی پی آئی رجحانات:
اقتصادی جائزے میں مشورہ دیا گیا ہے کہ اونچی تھوک قیمت کے انڈیکس ڈبلیو پی آئی کی افراط زر اور کم صارف قیمت کے انڈیکس سی پی آئی کی افراط زر کے درمیان فرق کی وجہ سے مئی 2022 میں دو عندیوں کا فرق اور خردہ قیمتوں کے باہر سے آئے ہوئے اثرات کی وجہ سے یہ بڑا فرق پیدا ہوا۔ تاہم افراط زر سے متعلق دو پیمانوں کے درمیان فرق ، اسی وقت سے کم ہوتا گیا جس سے فرق پیدا ہونے کے اس رجحان کی عکاسی ہوتی ہے۔
جائزے میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو پی آئی اور سی پی آئی عندیوں کے درمیان یہ فرق دو وجوہات سے پیدا ہوا ہے۔ ایک تو یہ کہ خام تیل، لوہا، ایلومینیم اور کپاس جیسی اشیاء کی افراط زر میں کمی کی وجہ سے ڈبلیو پی آئی میں کمی آئی۔ دوسرے یہ کہ سی پی آئی افراط زر میں خدمات کی قیمتوں میں اضافے کے سبب اضافہ ہوا۔
گھریلو خردہ افراط زر:
خردہ قیمتوں کی افراط زر، زراعت اور متعلقہ شعبوں، ہاؤسنگ، کپڑے کی صنعتوں اور دوا سازی کے شعبوں کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2023 میں خردہ افراط زر کی اصل وجہ خوراک کی زیادہ افراط زر رہی۔ خوراک کی افراط زر اپریل سے دسمبر 2022 کے درمیان 4.2 فیصد اور 8.6 فیصد کے درمیان رہی۔ مالی سال 2022 میں خوردنی تیلوں کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے عالمی پیداوار میں کمی آئی اور مختلف ملکوں نے اس کی برآمد پر محصول عائد کردیئے۔ بھارت خوردنی تیلوں کی اپنی 60 فیصدضرورت درآمد سے پوری کرتا ہے، جس کی وجہ سےیہ بین الاقوامی قیمتوں کے اتار چڑاؤ کے تئیں کافی حساس رہتاہے۔
جائزے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں خردہ افراط زر شرحوں میں خاطر خواہ اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ زیادہ تر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں رواں سال میں شہری افراط زر کی بہ نسبت دیہی افراط زر زیادہ رہی ہے۔
حکومت نے قیمتوں میں اضافے والے حساس شعبوں کو متاثر ہونے سے بچانے کے لیے خوراک کو یقینی بنانے کی ایک نئی مربوط اسکیم پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا یکم جنوری 2023 کو شروع کی ہے جس کا مقصد 80 کروڑ سے زیادہ افراد کو مفت اناج فراہم کرنا ہے۔
قیمتوں میں استحکام کے لیے پالیسی اقدامات:
آر بی آئی کی مالی پالیسی سے متعلق کمیٹی نے نقد رقم کی مطابقت سے متعلق سہولت کے تحت اپنی ریپوریٹ میں اضافہ کیا ہے۔ اس نے یہ اضافہ مئی اور دسمبر 2022 کے درمیان 225 بیسس پوائنٹس تک کیا ہے۔ پہلے یہ 4.0 فیصد تھی جسے بڑھا کر 6.25 فیصد کردیا گیا۔ مرکزی حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر محصول میں کمی ، گیہوں کی مصنوعات کی برآمدات پر پابندی، چاول پر برآمداتی ڈیوٹی عائد کرنے، درآمداتی محصول میں کمی اور دالوں کے محصول میں کمی، محصولات کو معقول بنانے اور خوردنی تیلوں اور خوردنی بیجوں پر ذخیرے کی حدود قائم کرنے ، پیاز اور دالوں کے اضافی ذخیرے موجود رکھنے اور مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام سامان پر عائد درآمداتی ڈیوٹی کو معقول بنانے جیسے مالی اقدامات کئے۔
اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کا افراط زر سے متعلق بندوبست قابل ذکر رہا ہے اور یہ ان ترقی یافتہ معیشوں سے مختلف رہ سکتا ہے جو اب بھی افراط زر کی شرحوں سے جوجھ رہی ہیں۔ترقی یافتہ معیشتوں میں سست رفتاری کی وجہ سے افراط زر کے اندیشے عالمی مصنوعات کی قیمتوں سے پیدا ہوتے ہیں جو مالی سال 2023 کی بہ نسبت مالی سال 2024 میں کم ہوجائیں گے۔ اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2024 میں افراط زر کی وجہ سے درپیش چیلنج اس سال کے مقابلے کافی کم ہوجائیں گے۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
U: 1041
ش ح۔ ا س۔ ر ا
(Release ID: 1895079)
Visitor Counter : 224