دیہی ترقیات کی وزارت

 اختتام سال کا جائزہ -2022: محکمہ زمینی وسائل (دیہی ترقی کی وزارت)


ہندوستان کے 6.56 لاکھ دیہاتوں میں سے 6.20 لاکھ دیہاتوں میں زمینی ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا عمل مکمل،  جس میں 29 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 94 فیصد سے زیادہ علاقوں کا احاطہ کیا گیا ہے

ملک میں کل 1.66 کروڑ میں سے 1.17 کروڑ سے زیادہ کیڈسٹرل میپس (زمینی  رقبے کے نقشے) کو ڈیجیٹل کیا گیا ہے

5,254 دفاتر میں سے تقریباً 4,000 سب رجسٹرار دفاتر اراضی ریکارڈ ز کے ساتھ مربوط

 اراضی کی معلومات  کے بندوبست  کانظام 321 اضلاع میں شروع کیا گیا اور 24 ریاستوں میں منفرد لینڈ پارسل شناختی نمبر شروع کیا گیا

ہریانہ، مہاراشٹر اور اتر پردیش میں زمینی ریکارڈ اور رجسٹریشن ڈیٹا بیس کے ساتھ ای کورٹس کو جوڑنے کا تجرباتی ٹیسٹ کامیابی سے انجام دیا گیا

26 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو لینڈ ریکارڈ ایپلی کیشن سافٹ ویئر اور رجسٹریشن ڈیٹا بیس کے ساتھ ای کورٹس ایپلیکیشن سافٹ ویئر کے انضمام کے لیے متعلقہ ہائی کورٹس سے ضروری منظوری ملی

سی-  ڈی اے سی، پونے کی طرف سے شروع کردہ  22  درج فہرست   زبانوں میں سے کسی بھی مقامی زبان میں دستیاب ح

Posted On: 22 DEC 2022 9:15AM by PIB Delhi

زمینی وسائل کا محکمہ دو اسکیمیں نافذ کر رہا ہے یعنی (i) ڈیجیٹل انڈیا لینڈ ریکارڈز ماڈرنائزیشن پروگرام(ڈی آئی ایل آر ایم پی) اور (ii) پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا (ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے  ایس وائی)  کا اہم ترقیاتی عنصر۔ اسکیموں اور کامیابیوں کا ایک مختصر خلاصہ ذیل میں درج ہے۔

  1. ڈیجیٹل انڈیا  کے زمینی  ریکارڈز کی تجدید کاری  پروگرام(ڈی آئی ایل آر ایم پی)

مرکزی وزارت دیہی ترقی کے تحت محکمہ زمینی وسائل(ڈی او آئی آر) نے آج انکشاف کیا ہے کہ ملک کے 94 فیصد سے زیادہ دیہاتوں میں زمینی ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن مکمل ہو چکی ہے۔ ایک سال کے آخر کے بیان میں زمینی ریکارڈز کے محکمے(  ڈی او ایل آر) نے کہا، 29 ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقے ملک کے کل 6,56,792 گاؤں میں سے 6,20,166 گاؤں میں حقوق کا ریکارڈ (آر او آر)94 فیصد سے زیادہ علاقوں میں مکمل ہو چکا ہے۔

اسی طرح 27 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں (کل 5,254 ایس آر اوز میں سے 4,905 سب رجسٹرار دفاتر) میں رجسٹریشن کا کمپیوٹرائزیشن 93 فیصد سے زیادہ مکمل ہوا اور لینڈ ریکارڈ کے ساتھ سب رجسٹرار دفاتر (ایس آر اوز) کا انضمام ۔ 20 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں (کل ایس آر اوز 5,254 میں سے 3983 ایس آر اوز) 75 فیصد سے زیادہ مکمل ہو چکا ہے۔

زمینی رقبوں کے نقشوں کو 21 ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں (کل 1,66,61,435 نقشوں میں سے 1,17,33,176 نقشے) 70 فیصد سے زیادہ میں ڈیجیٹائز کیا گیا ہے۔

زمینی رقبوں کے نقشے ، جنہیں بھو نقشہ بھی کہا جاتا ہے، زمینی ریکارڈ کی ایک ڈیجیٹل شکل ہے جو زمین کے ٹکڑوں کے مختلف حصوں کی لمبائی، رقبہ اور سمت کی بنیاد پر تمام حدود کو ظاہر کرتی ہے۔ ان نقشوں کے ذریعے، آپ اپنی ضروریات کی بنیاد پر مختلف خطوں میں زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کی  صورت حال  کو دیکھ سکتے ہیں۔

ڈیجیٹل انڈیا لینڈ ریکارڈ ماڈرنائزیشن پروگرام ( سابقہ  نیشنل لینڈ ریکارڈ ماڈرنائزیشن پروگرام) کو سنٹرل سیکٹر اسکیم کے طور پر یکم اپریل 2016 سے 100فیصد فنڈنگ کے ساتھ تبدیل کیا گیا تھا۔

ڈی آئی ایل آر ایم پی کا مقصد ایک جدید، جامع اور شفاف لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم تیار کرنا ہے جس کا مقصد ایک مربوط لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم تیار کرنا ہے جو دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ: (i) زمین پر حقیقی وقت کی معلومات کو بہتر بنائے گا۔ (ii) زمینی وسائل کے استعمال کو بہتر بنائے گا؛ (iii) زمینداروں اور پراسپیکٹرز دونوں کو فائدہ پہنچائے گا؛ (iv) پالیسی اور منصوبہ بندی میں معاونت کرے گا؛ (v) زمینی تنازعات کو کم کرے گا؛ (vi) دھوکہ دہی/ بے نامی لین دین کی جانچ کرے گا (vii) ریونیو/رجسٹریشن دفاتر کے بذات خود کی ضرورت کو  ختم کرے گا (viii) مختلف تنظیموں/ایجنسیوں کے ساتھ معلومات کے اشتراک کو فعال کرے گا۔ حکومت نے ڈی آئی ایل آر ایم پی کی توسیع کو پانچ سال یعنی 2022-2021 سے 2026-2025  تک کی منظوری دے دی ہے۔

 مربوط  زمینی معلومات  کے بندوبست کا نظام ، زمین کے مالکان، متعلقہ افسروں/ ایجنسیوں اور دلچسپی رکھنے والے افراد/ کاروباری افراد وغیرہ کو زیر بحث زمین کے کسی بھی پلاٹ کی منصفانہ مجموعی صورت حال  سے آگا ہ کرنے کے لئے  تمام دستیاب، متعلقہ معلومات تک ایک نظر میں آن لائن سنگل  ونڈو تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اس پروگرام کے اجزاء میں بڑے پیمانے پر بینکوں، عدالتوں کے ساتھ انسلاک، سرکل ریٹ، رجسٹری، آدھار نمبر (رضامندی سے) وغیرہ شامل ہیں۔ یہ نظام پہلے ہی 321 اضلاع میں شروع کیا جا چکا ہے۔

منفرد لینڈ پارسل شناختی نمبر(یو ایل پی آئی این) یا بھو آدھار

منفرد لینڈ پارسل شناختی نمبر(یو ایل پی آئی این) سسٹم ہر زمینی پارسل کے لیے 14 ہندسوں کا الفا- عددی منفرد آئی ڈی ہے جو پارسل کے عمودی خطوں کے جیو کوآرڈینیٹ پر مبنی ہے جو بین الاقوامی معیار کا ہے اور الیکٹرانک کامرس کوڈ مینجمنٹ ایسوسی ایشن(ای سی سی ایم اے) کے معیار کے مطابق ہے۔ اور اوپن جیواسپیشل کنزور شیم(او جی سی) کے معیار کو پورے ملک میں نافذ کیا جا رہا ہے۔ یو ایل پی آئی این میں پلاٹ کی ملکیت کی تفصیلات کے علاوہ اس کے سائز اور طول بلد اور عرض البلد کی تفصیلات ہوں گی۔ یہ رئیل اسٹیٹ کے لین دین میں سہولت فراہم کرے گا، پراپرٹی ٹیکس کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے گا اورآفات سے نمٹنے کے لئے منصوبہ بندی اور ردعمل کی کوششوں وغیرہ کو بہتر بنائے گا۔

یو ایل پی آئی این، اب تک، 24 ریاستوں ۔ آندھرا پردیش، جھارکھنڈ، گوا، بہار، اڈیشہ، سکم، گجرات، مہاراشٹر، راجستھان، ہریانہ، تریپورہ، چھتیس گڑھ، جموں و کشمیر، آسام، مدھیہ پردیش، ناگالینڈ، میزورم، تمل ناڈو، پنجاب، دادر اور نگر حویلی، اور دمن اور دیو، ہماچل پردیش، مغربی بنگال، اتر پردیش اور اتراکھنڈ میں شروع کیا جا چکا ہے ۔ مزید، یو ایل پی آئی این کی تجرباتی  جانچ 8 مزید ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقے  کیرالہ، کرناٹک، پڈوچیری، انڈمان اور نکوبار، منی پور، دہلی، لداخ اور تلنگانہ میں کی گئی ہے۔

عام دستاویز رجسٹریشن سسٹم(این جی ڈی آر ایس)

کاموں/دستاویزات کے اندراج کے لیے یکساں عمل کے لیے، ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ‘‘ون نیشن ون رجسٹریشن سافٹ ویئر یعنی نیشنل جنرک ڈاکومنٹ رجسٹریشن سسٹم(این جی ڈی آر ایس)’’ نافذ کیا جا رہا ہے۔

نومبر 2022 تک، این جی ڈی آر ایس کو اب تک 17 ریاستوں/ مرکز کے زیرانتظام علاقے، یعنی پنجاب، انڈمان اور نکوبار، منی پور، گوا، جھارکھنڈ، میزورم، ہماچل پردیش، مہاراشٹر، دادر اور نگر حویلی اور جموں و کشمیر، چھتیس گڑھ، تریپورہ، لداخ ۔ ، بہار، آسام، میگھالیہ اور اتراکھنڈ میں نافذ کیا گیا ہے ۔

  1. لینڈ ریکارڈ/رجسٹریشن ڈیٹا بیس کے ساتھ ای کورٹس کا ربط

ای کورٹس کو لینڈ ریکارڈ اور رجسٹریشن ڈیٹا بیس کے ساتھ جوڑنے کا مقصد عدالتوں کو مستند معلومات فراہم کرنا ہے جس کے نتیجے میں مقدمات کو تیزی سے نمٹانے اور بالآخر زمینی تنازعات میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دیگر چیزوں کے ساتھ فوائد میں شامل ہیں: (i) ریکارڈ آف رائٹس کے ٹھوس اور مستند شواہد پر عدالتوں کے لیے براہ راست  کی معلومات، زمینی رقبوں کا نقشہ  بشمول اراضی کا حوالہ اور وراثتی تفصیلات، (ii) درخواستوں کے منطور کرنے کا فیصلہ کرنے کے ساتھ ساتھ تنازعات کو نمٹانے کے لیے مفید معلومات ، (iii) ملک میں زمینی تنازعات کی مقدار کو کم کرنے اور کاروبار کرنے میں آسانی اور زندگی میں آسانی کو فروغ دینے کا باعث بن سکتا ہے۔

ای کورٹس کو لینڈ ریکارڈ اور رجسٹریشن ڈیٹا بیس کے ساتھ جوڑنے کا  تجرباتی  ٹیسٹ تین ریاستوں یعنی ہریانہ، مہاراشٹر اور اتر پردیش میں محکمہ انصاف کے تعاون سے محکمہ میں قائم ایک کمیٹی کے ذریعے کامیابی کے ساتھ انجام دیا گیا ہے۔

اب تک، 26 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے لینڈ ریکارڈ ایپلیکیشن سافٹ ویئر اور رجسٹریشن ڈیٹا بیس کے ساتھ ای کورٹس ایپلیکیشن سافٹ ویئر کے انضمام کے لیے متعلقہ ہائی کورٹس سے ضروری منظوری حاصل کی ہے۔ ان ریاستوں میں شامل ہیں: تریپورہ، مدھیہ پردیش، راجستھان، آسام، اروناچل پردیش، میزورم، ناگالینڈ، ہماچل پردیش، بہار، اتر پردیش، منی پور، مغربی بنگال، انڈمان اور نکوبار جزائر، تلنگانہ، جھارکھنڈ، دہلی، سکم، میگھالیہ، پنجاب، ہریانہ، چندی گڑھ، کرناٹک، چھتیس گڑھ، تامل ناڈو، پڈوچیری اور آندھرا پردیش۔

تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں شیڈول VIII کی تمام زبانوں میں لینڈ ریکارڈ کی متنقلی

فی الحال، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں حقوق کا ریکارڈ مقامی زبانوں میں رکھا جاتا ہے۔ لسانی رکاوٹیں معلومات تک رسائی اور قابل فہم شکل میں استعمال کے لیے سنگین چیلنجز کا باعث ہیں۔ ملک کی زمینی  بندوبست  میں لسانی رکاوٹوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے، حکومت نے سنٹر فار ڈیولپمنٹ آف ایڈوانسڈ کمپیوٹنگ(سی- ڈی اے سی) پونے کی تکنیکی مدد سے، مقامی زبان میں دستیاب حقوق کے ریکارڈ کو آئین کے ذریعہ تسلیم شدہ 22 زبانوں میں سے کسی میں بھی منتقل کرنے کی ایک پہل کی ہے۔ اراضی  ٹیسٹ 8 ریاستوں - بہار، مہاراشٹر، گجرات، پڈوچیری، یو پی، تامل ناڈو، تریپورہ اور جموں و کشمیر کے یو ٹی میں جاری ہے اور جلد ہی کل ہند کی بنیاد پر مذکورہ اقدام شروع کرنے کا ہدف ہے۔

  1. پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا (ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی) کا واٹرشیڈ ڈیولپمنٹ جزو

زمینی وسائل کا محکمہ 2010-2009 سے ایک مرکز کے ذریعہ اسپانسر کردہ اسکیم (سی ایس ایس) ‘انٹیگریٹڈ واٹرشیڈ مینجمنٹ پروگرام’(آئی ڈبلیو ایم پی) کو بارانی اور  بنجر (ناقابل کاشت)  علاقوں کی ترقی کے لیے نافذ کر رہا ہے۔

آئی ڈبلیو ایم پی کو 2016-2015  میں، پردھان منتری کرشی سنچائی یوجنا کی سرپرست اسکیم کے واٹرشیڈ ڈیولپمنٹ جزو کے طور پر ضم کیا گیا تھا۔ جو سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں، ان میں پہاڑی سلسلوں کی نگہداشت ، ڈرینیج لائن ٹریٹمنٹ، مٹی اور نمی کا تحفظ، بارش کے پانی کی ذخیرہ کاری ، نرسری میں اضافہ، جنگلات، باغبانی، چراگاہوں کی ترقی، اثاثہ  نہ رکھنے والے افراد کے لئے ذریعہ معاش وغیرہ شامل ہیں۔

واٹرشیڈ ڈویلپمنٹ پروگرام زمین کی تنزلی، مٹی کے کٹاؤ، پانی کی کمی، موسمی غیر یقینی صورتحال وغیرہ کے مسائل کا سب سے موزوں حل ثابت ہوئے ہیں۔ یہ پروگرام زرعی پیداوار اور پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، غربت کو کم کرنے اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں معاش کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے  ایس وائی 1.0 کے تحت، تقریباً 29.50 ملین ہیکٹررقبے پر محیط 6382 پروجیکٹوں کو نافذ کرکے نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔

 پانی کی ذخیرہ کاری  کے لئے 2015-2014  اور 2022-2021 کے درمیان، 7.65 لاکھ ڈھانچے بنائے گئے / پھر سے  بحال کئے گئے ، 16.41 لاکھ ہیکٹر اضافی رقبہ کو حفاظتی آبپاشی کے تحت لایا گیا اور اس پروگرام سے 36.34 لاکھ کسانوں کو فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ، تقریباً 1.63 لاکھ ہیکٹر رقبہ کو شجرکاری (جنگل بانی/باغبانی وغیرہ) کے تحت لایا گیا ہے، 3.36 لاکھ ہیکٹر قابل کاشت بنجر زمینوں کا رقبہ مکمل شدہ واٹر شیڈ ترقیاتی منصوبوں میں اور 2019-2018 سے 2022-2021 تک 388.66  کام کاج کے  افرادی  مہیا کئے گئے۔ مکمل ہونے والے منصوبوں کی اختتامی مرحلے  کی تشخیص سے واٹرشیڈ مداخلتوں کی وجہ سے  پانی کی سطح کی بلندی ، فصل کی پیداواری صلاحیت، دودھ کی پیداوار اور فی کس آمدنی وغیرہ میں کافی بہتری کا پتہ چلتا ہے۔ ڈبلیو ڈی سی1.0،  31مارچ 2021 کو بند کر دیا گیا تھا۔

ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی 2.0: حکومت نے 2022-2021سے 2026-2025 کی مدت کے لیے  ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی 2.0کے طور پر پروگرام کو جاری رکھنے کی منظوری دی ہے جس کا  اصل  ہدف 4.95 ملین ہیکٹر اور مرکزی حصہ کے طور پر 8,134 کروڑ روپے کے اشاراتی   مالیاتی اخراجات ہیں۔

ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی 2.0کے تحت، 2022-2021 سے 2026-2025 کے دوران 28 ریاستوں اور2  مرکز کے زیرانتظام علاقے( جموں وکشمیر اور لداخ) میں کل 1110 واٹرشیڈ ترقیاتی پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی تھی جس میں تقریباً  4.95 ملین ہیکٹر رقبہ شامل تھا ۔ اسکیم کے آغاز سے لے کر، 2022-2021 اور 2023-2022 کے دوران (12.12.2022 تک) ریاستوں کو مرکزی حصہ کے طور پر 1537.41 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

ڈبلیو ڈی سی  1.0اور ڈبلیو ڈی سی 2.0 کے تحت پیش رفت ذیل میں دی گئی ہے:

ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی 1.0 کے تحت  اصل  کامیابیاں

اشاریے/ پیمانے

حصولیابیاں

 (2015-2014 سے 2022-2021 تک)

تیار کئے گئے/ جدید بنائے گئے پانی کے ذخیرہ کاری کے ڈھانچوں کی تعداد

7,64,686

حفاظتی سینچائی کے تحت لایا گیا اضافی علاقہ(ہیکیٹیئر)

16,40,954

استفادہ کرنے والے کسانوں کی تعداد

36,34,020

شجر کاری( جنگل بانی/ باغبانی وغیرہ) کے تحت لایا گیا علاقہ(لاکھ ہیکیٹئر میں)

1.626

تکمیل شدہ واٹر شیٹ ترقیاتی پروجیکٹوں میں  ساز گار بنائے جانے لائق بے کار زمینوں پر مشتمل علاقہ ( لاکھ ہیکٹیئر میں)

 

3.36

پیدا کئے گئے کام کاج کے افرادی دنوں کی تعداد(لاکھ افرادی دنوں میں)

388.66

 

2019-2018 کے دوران نیتی آیوگ کے ذریعہ دیئے گئے اشاریے

ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی2.0  کے تحت اصل  کامیابیاں

اشاریے/ پیمانے

حصولیابیاں

(2023-2022 سے دوسرے سہ ماہی تک)

بنجر ہوجانے والے/ بارانی علاقے کی ترقی(ہیکیٹئر)

72,063.90

مٹی اور نمی کے تحفظ والی سرگرمیوں کے تحت لایا گیا علاقہ(ہیکیٹئر)

63,165.71

شجر کاری( جنگل بانی/ باغبانی وغیرہ) کے تحت لایا گیا علاقہ(ہیکیٹئر میں)

27,596.98

نو تعمیر/ تجدید شدہ پانی کی ذخیرہ کاری کے ڈھانچوں کی تعداد

4,139.00

متنوع فصلوں / کاشت کاری کے نظام میں تبدیلی کے تحت آنے والا علاقہ(ہیکیٹئر)

3,963.49

صفر/ واحد فصل سے دوگنی یا زیادہ فصل تک لایا گیا علاقہ(ہیکیٹئر)

2,705.30

کاشت کئے گئے علاقے میں اضافہ(ہیکیٹئر)

3,167.39

استفادہ  کرنے و الے کسانوں کی تعداد

1,03,437

احتیاطی سنیچائی کے تحت لایا گیا علاقہ( ہیکیٹئر)

13,239.61

مہیا کئے گئے افرادی دنوں کی تعداد(افرادی دن)

17,59,897

 ڈبلیو ڈی سی- پی ایم کے ایس وائی 2.0 اسکیم کو 15 دسمبر 2021 کو منظوری دی گئی تھی۔

*************

ش ح ۔س ب ۔ رض

U. No.14441

 



(Release ID: 1887037) Visitor Counter : 161