وزیراعظم کا دفتر

اروناچل پردیش میں گرین فیلڈ ہوائی اڈے 'ڈونی پولو' اور دیگر ترقیاتی پروجیکٹوں کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 19 NOV 2022 2:47PM by PIB Delhi

 

جئے ہند۔

جئے ہند۔

مادر ہند زندہ باد۔

مادر ہند زندہ باد۔

اروناچل پردیش کے گورنر جناب بی ڈی مشرا جی، اروناچل پردیش کے مقبول نوجوان وزیر اعلیٰ پیما کھانڈو جی، میرے کابینہ کے رفیق کار کرن رجیجو جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب چونا مین جی، معزز اراکین پارلیمنٹ، ایم ایل اے، میئرز، دیگر تمام معززین اور اروناچل پردیش کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو!

میں نے کئی بار اروناچل کا دورہ کیا ہے۔ میں جب بھی آتا ہوں، نئی توانائی، نئے جوش، نئے ولولے کے ساتھ رخصت ہوتا ہوں۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں اروناچل میں اتنی بار آیا ہوں، شاید شمار کروں تو بھی کچھ غلطی ہو جائے، اتنی بار آیا ہوں۔ لیکن اتنا بڑا پروگرام پہلی بار دیکھا اور وہ بھی صبح ساڑھے 9 بجے۔ اروناچل میں پہاڑوں سے لوگوں کے آنے کا مطلب ہے کہ یہ آپ کی زندگی میں ترقیاتی کاموں کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے اور اسی لیے آپ اتنی بڑی تعداد میں آشیرواددینے آئے ہیں۔

بھائی بہنوں

اروناچل کی عوام ،  اروناچل کے لوگوں کی قربت، جب بھی آپ اروناچل کے لوگوں کو دیکھیں گے، وہ ہمیشہ ہنستے  رہتے ہیں، ان کے چہرے مسکراتے رہتے ہیں۔ اروناچل کے لوگوں کے چہروں پر کبھی بے حسی اور، مایوسی نہیں جھلکتی ہے۔ اور نظم و ضبط، مجھے لگتا ہے کہ سرحد پر نظم و ضبط کیسا ہوتا ہے، یہ میرے اروناچل کے ہر گھر، ہر خاندان، ہر فرد کی زندگی میں نظر آتا ہے۔

ہمارے وزیر اعلی پیما جی کی قیادت میں یہ ڈبل انجن حکومت کی محنت، ترقی کا عزم آج اروناچل کو اس نئی بلندی پر لے جا رہا ہے۔ میں پیما جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔

آپ کو یاد ہوگا، اورابھی  پیما جی نے بھی بتایا کہ فروری 2019 میں اس ہوائی اڈے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا اور یہ خوش قسمتی مجھے نصیب ہوئی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہم ایسا ورک کلچر لے کر آئے ہیں، جس کا سنگ بنیاد ہم ہی رکھتے ہیں، اس کا افتتاح بھی ہم ہی کرتے ہیں۔ لٹکانا، لٹکنا، بھٹکانا، وہ وقت گزر گیا۔ لیکن میں کچھ اور  بات کرنا چاہتا ہوں، میں نے فروری 2019 میں اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا جب مئی 2019 میں الیکشن ہونے والے تھے۔ یہ سارے سیاسی مبصرین جن کی آنکھوں پر پرانے زمانے کی عینکیں لٹک رہی ہیں، یہ لوگ شور مچانے لگے، لکھنے لگے، بولنا شروع ہو گئے، ایئرپورٹ-ایئرپورٹ کچھ نہیں بننے والا، یہ تو الیکشن ہے، ہے نا؟ مودی یہاں پتھر رکھنے آئے ہیں۔ اور یہاں ایسا نہیں ہو رہا، وہ ہر چیز میں، ہر چیز میں الیکشن دیکھتے ہیں۔ ہر چیز میں کسی بھی اچھے کام کو الیکشن کے رنگ سے رنگنا فیشن بن گیا ہے۔

آج اس ہوائی اڈے کا افتتاح ان تمام لوگوں کے لیے کرارا جواب ہے، ان کے  منہ پر طمانچہ ہے۔ اور میری ان سیاسی مبصرین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے پرانے چشمے اتار دیں، یہ ملک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، اسے سیاست کے ترازو سے تولنا چھوڑ دیں۔ جو تبصرہ نگار اسے انتخابی اعلان کہتے تھے، آج تین سالوں میں وہ ہمارے ایئرپورٹ کو اس جدید عظیم الشان شکل میں ڈھلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ کی موجودگی میں، لاکھوں لوگوں کے سامنے ، آج پورا اروناچل آن لائن جڑا ہوا ہے، پورا اروناچل جڑا ہوا ہے۔ یہ بھی بڑے فخر کی بات ہے۔

یہاں آج نہ الیکشن ہے اور نہ ہی کوئی الیکشن آنے والا ہے۔ اس کے باوجود یہ ہو رہا ہے، کیونکہ آج ملک میں جو حکومت ہے، اس کی ترجیح ملک کی ترقی، ملک کے عوام کی ترقی ہے۔ سال کے 365 دن، دن کے 24 گھنٹے، ہم صرف ملک کی ترقی کے لیے کام کرتے ہیں۔ اورآپ  دیکھئے، ابھی میں جہاں سورج طلوع ہوتا ہے، اس اروناچل میں ہوں اور شام کو جہاں سورج غروب ہوتا ہے، دمن میں میں جا کر لینڈ کروں گا اور درمیان میں کاشی جاؤں گا۔ یہ محنت صرف ایک خواب کے ساتھ جاری ہے، ہم پورے دل سے کام کر رہے ہیں – میرا  ملک آگے بڑھے ۔ ہم نہ تو انتخابی فائدے اور نقصانات کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں اور نہ ہی وہ لوگ ہیں جو چھوٹے چھوٹے ارادوں سے کام کرتے ہیں تاکہ انتخابات کے فوائد حاصل ہوں۔ ہمارا خواب صرف اور صرف ماں بھارتی ہے ، ہندوستان ہے ، 130 کروڑ شہری ہیں۔

آج اس ہوائی اڈے کے ساتھ 600 میگاواٹ کامینگ ہائیڈرو پروجیکٹ کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔ ترقی کی پرواز اور ترقی کے لیے توانائی کا یہ امتزاج اروناچل کو ایک نئی رفتار سے نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔ اس کامیابی کے لیے، میں اروناچل پردیش کے اپنے پیارے بھائیوں اور بہنوں، تمام شمال مشرقی ریاستوں کے بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، میں اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہوں۔

آزادی کے بعد، شمال مشرق نے بالکل مختلف دور کا مشاہدہ کیا ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ غفلت اور بے حسی کا شکار رہا ہے۔ اس وقت جو لوگ دہلی میں بیٹھ کر پالیسیاں بناتے تھے ان کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ کسی طرح یہاں سے الیکشن جیت جائیں۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ صورتحال کئی دہائیوں تک جاری رہی۔ جب اٹل جی کی حکومت بنی تو پہلی بار اسے بدلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ پہلی حکومت تھی جس نے شمال مشرق کی ترقی کے لیے ایک الگ وزارت بنائی۔

لیکن ان کے بعد آنے والی حکومت نے اس رفتار کو آگے نہیں بڑھایا۔ اس کے بعد 2014 کے بعد تبدیلی کا ایک نیا دور شروع ہوا، جب آپ نے مجھے خدمت کا موقع دیا۔ پہلے کی حکومتیں سوچتی تھیں کہ اروناچل پردیش بہت دور ہے، شمال بہت دور ہے۔ دور دراز سرحد پر رہنے والے لوگوں کو پہلے آخری گاؤں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ہماری حکومت نے انہیں آخری گاؤں نہیں، آخری سرا نہیں بلکہ ملک کا پہلا گاؤں سمجھنے کا کام کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں شمال مشرق کی ترقی ملک کی ترجیح بن گئی۔

اب یہ ثقافت ہو یا زراعت، تجارت ہو یا کنیکٹوٹی – شمال مشرق کو آخری نہیں بلکہ اولین ترجیح ملتی ہے۔  بات تجارت کی ہو یا سیاحت کی، ٹیلی کام کی ہو یا ٹیکسٹائل کی – شمال  مشرق کو آخری نہیں بلکہ اولین ترجیح ملتی ہے۔ ڈرون ٹیکنالوجی سے لے کر زرعی پروازوں تک، ہوائی اڈوں سے بندرگاہوں سے رابطے تک – شمال مشرق اب ملک کی ترجیح ہے۔

چاہے وہ ہندوستان کا سب سے لمبا پل ہو یا سب سے لمبا ریل روڈ پل، ریل لائن بچھانا ہو یا ریکارڈ رفتار سے شاہراہیں بنانی ہو – شمال مشرق ملک کے لیے سب سے پہلے ہے۔ اس کے نتیجے میں آج شمال مشرق میں امید اور مواقع کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے، ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔

آج کا یہ پروگرام جدید ہندوستان کے اس نقطہ نظر کی ایک بہترین مثال ہے۔ ڈونی پولو ہوائی اڈہ اروناچل پردیش کا چوتھا آپریشنل ہوائی اڈہ ہے۔ آزادی کے بعد سات دہائیوں میں پورے شمال مشرق میں صرف 9 ہوائی اڈے تھے۔ جبکہ ہماری حکومت نے صرف آٹھ سالوں میں سات نئے ہوائی اڈے بنائے ہیں۔ یہاں ایسے بہت سے علاقے ہیں، جو آزادی کے 75 سال بعد اب فضائی رابطے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب شمال مشرق سے آنے اور جانے والی پروازوں کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

ساتھیو،

ایٹا نگر کا یہ ڈونی پولو ہوائی اڈہ اروناچل پردیش کے ماضی اور ثقافت کا بھی گواہ  بن رہا ہے۔ اور مجھے بتایا گیا، پیما جی بتا رہے تھے کہ ڈونی کا مطلب سورج اور پولو کا مطلب ہے چاند۔ اور مجھے اروناچل کی ڈونی پولو ثقافت میں ترقی کا سبق بھی نظر آتا ہے۔ روشنی ایک ہی ہے لیکن سورج کی روشنی اور چاند کی ٹھنڈک، دونوں کی اپنی اہمیت ہے، اپنی اپنی طاقت ہے۔ اسی طرح جب ہم ترقی کی بات کرتے ہیں، چاہے وہ بڑے منصوبے ہوں یا عوامی بہبود کی اسکیمیں جو غریبوں تک پہنچتی ہیں، دونوں ہی ترقی کے اہم پہلو ہیں۔

آج جتنی اہمیت ایئرپورٹ جیسے بڑے انفراسٹرکچر کو دی جاتی ہے، اتنی ہی اہمیت غریبوں کی خدمت اور ان کے خوابوں کو دی جاتی ہے۔ آج اگر ایئرپورٹ بنتا ہے تو فلائٹ پلان پر بھی کام ہوتا ہے کہ عام آدمی کو اس کا فائدہ کیسے ملے۔ فلائٹ سروس شروع ہونے کے بعد ہم اس بات کے لیے کام کرتے ہیں کہ کس طرح سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو، چھوٹے تاجر، دکاندار، ٹیکسی ڈرائیور اس سے کیسے مستفید ہوں۔

ساتھیوں،

آج اروناچل پردیش کے سرحدی علاقوں میں انتہائی ناقابل رسائی بلندیوں پر سڑکیں اور شاہراہیں بنائی جا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت سڑکوں کی تعمیر پر تقریباً 50 ہزار کروڑ روپے مزید خرچ کرنے جا رہی ہے۔ جب اتنا انفراسٹرکچر ہوگا تو بڑی تعداد میں سیاح بھی آئیں گے۔ اروناچل کے ہر کونے میں قدرت نے بہت خوبصورتی عطا کی ہے۔ ہر گاؤں میں سیاحت کے بے پناہ امکانات ہیں۔ ہوم اسٹے اور مقامی مصنوعات کے ذریعہ ہر خاندان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گاؤں تک پہنچنے کا انتظام ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج اروناچل پردیش کے 85 فیصد سے زیادہ گاؤں تک پردھان منتری گرام سڑک  بنائی جا چکی ہیں۔

ساتھیوں،

ہوائی اڈے اور بہتر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بعد، اروناچل میں کارگو کی سہولیات کے بہت زیادہ امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔  اس سے یہاں کے کسان آسانی سے اروناچل سے باہر بڑے بازاروں میں اپنی پیداوار فروخت کر سکیں گے، انہیں آج کے مقابلے کئی گنا زیادہ پیسے ملیں گے۔ اروناچل کے کسانوں کو بھی پی ایم کسان سمان ندھی کے بڑے فائدے مل رہے ہیں۔

ساتھیوں،

بانس کی کاشت اس بات کی بھی ایک مثال ہے کہ ہماری حکومت شمال مشرق کے لیے کس طرح کام کر رہی ہے۔ بانس یہاں کے طرز زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ آج بانس کی مصنوعات پورے ملک اور دنیا میں مقبول ہو رہی ہیں۔ لیکن انگریزوں کے دور سے ہی بانس کاٹنے پر ایسی قانونی پابندیاں تھیں کہ یہ ہمارے قبائلی بھائیوں اور بہنوں، ہمارے شمال مشرقی علاقے کے لوگوں کی زندگی میں رکاوٹ بن گیا تھا۔ تو ہم نے اس قانون کو بدل دیا، اور اب آپ بانس اگا سکتے ہیں، بانس کاٹ سکتے ہیں، بانس بیچ سکتے ہیں، بانس کی قیمت بڑھا سکتے ہیں، اور کھلے بازار میں جا کر کاروبار کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم فصلیں اگاتے ہیں، ہم بانس بھی اگا سکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

غریب جیسے ہی زندگی کی بنیادی افکار سے آزاد ہوتا ہے، وہ اپنے لیے اور ملک کے لیے ترقی کی نئی جہتیں پیدا کرنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج غریبوں میں سے غریب لوگ غفلت اور بدحالی سے باہر آئے ، انہیں باوقار زندگی ملے، یہی ملک کی ترجیح ہے۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ پہاڑوں میں تعلیم اور علاج ہمیشہ ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ لیکن اب صحت کی اچھی سہولیات کے ساتھ ساتھ آیوشمان بھارت اسکیم کے ذریعہ 5 لاکھ روپے کے مفت علاج کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ہر غریب کو پکا مکان دیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں، مرکزی حکومت 500 کروڑ روپے خرچ کرکے ایکلویہ ماڈل اسکول کھول رہی ہے، تاکہ کوئی بھی قبائلی بچہ پڑھائی میں پیچھے نہ رہ جائے ۔

کسی نہ کسی وجہ سے تشدد کی راہ پر چلے جانے والے نوجوانوں کو الگ پالیسی کے ذریعہ قومی دھارے میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کے لیے علیحدہ فنڈ بنایا گیا ہے۔ اسٹارٹ اپ انڈیا کی طاقت میں شامل ہونے کے لیے، اروناچل پردیش بھی اروناچل اسٹارٹ اپ پالیسی کے ذریعہ قدم  سے  قدم ملا رہا ہے۔ یعنی ہماری ترقی کا لافانی دھارا، جو اوپر سے شروع ہوتا ہے، گاؤں کے غریبوں، نوجوانوں، عورتوں تک پہنچ کر آج ان کی طاقت بن رہا ہے۔

ساتھیوں،

2014 کے بعد ملک نے ہر گاؤں کو بجلی فراہم کرنے کی مہم شروع کی۔ اروناچل پردیش کے دیہاتوں کو بھی اس مہم سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ یہاں ایسے کئی گاؤں تھے، جہاں آزادی کے بعد پہلی بار بجلی پہنچی تھی۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے سوبھاگیہ اسکیم بنا کر ہر گھر کو بجلی کے کنکشن سے جوڑنے کی مہم شروع کی۔ یہاں اروناچل میں بھی ہزاروں گھرانوں کو مفت بجلی کے کنکشن سے جوڑا گیا۔ اور جب یہاں کے گھروں میں بجلی پہنچی تو نہ صرف گھروں میں روشنی پھیلی بلکہ یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں بھی روشنی آئی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہم اروناچل پردیش میں ترقی کے سفر کو ہر گاؤں اور ہر گھر تک لے جانے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سرحدی دیہات کو وائبرنٹ بارڈر ولیج کا درجہ دے کر بااختیار بنایا جائے۔ جب سرحد سے ملحق ہر گاؤں میں امکانات کے نئے دروازے کھلیں گے تو وہاں سے ہی خوشحالی کا آغاز ہو  گا۔

وائبرینٹ بارڈر ولیج پروگرام کے تحت سرحدی گاؤں سے نقل مکانی روکنے اور وہاں سیاحت کو فروغ دینے کے منصوبے پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ سرحدی علاقوں کے نوجوانوں کو این سی سی سے جوڑنے کے لیے حکومت کی طرف سے ایک خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ این سی سی میں سرحد کے ساتھ واقع گاؤں کے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہو۔ این سی سی میں شامل ہونے والے ان گاؤں کے بچے فوجی افسران سے تربیت حاصل کریں گے۔ اس سے نہ صرف نوجوانوں کے روشن مستقبل کی راہ ہموار ہوگی بلکہ ان میں ملک کی خدمت کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اور اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ 

ساتھیوں،

سب کا ساتھ-سب کا وکاس کے منتر پر عمل کرتے ہوئے، ڈبل انجن  کی  حکومت اروناچل پردیش کی ترقی اور لوگوں کے لیے زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ کاش ترقی کا یہ ارون یہاں اسی طرح اپنی روشنی پھیلاتا رہے۔

میں ایک بار پھر پیما جی اور ان کی پوری حکومت کو حکومت ہند کی ان تمام اسکیموں کو آگے بڑھانے میں ان کے سرگرم تعاون کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور میں پورے شمال مشرق کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ہماری ماؤں اور بہنوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں۔

میں آپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں، آپ کا بہت بہت شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

12710

 



(Release ID: 1877301) Visitor Counter : 123