وزارت اطلاعات ونشریات

اِفّی کیوں؟#

Posted On: 08 NOV 2022 3:02PM by PIB Delhi

 

....

اِفّی ووڈ، 8 نومبر 2022 #

 

ہم نے کیا کہا، اِفّی؟ جی ہاں، یقیناً، ہم امید کرتے ہیں کہ آپ اس فلمی جشن سے واقف ہوں گے جو ہمارے اور آپ کے بھی  دلوں کے دروازے پر دستک دے رہا ہے؟

 

جی ہاں، اِفّی، ہندوستان کا بین اقوامی فلمی میلہ ہے۔ زائد از 70 سال قبل  1952 میں اس کی شروعات ہوئی تھی اور ہر سال نومبر کے مہینے میں اس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔2004 میں پہلی بار گوا میں انعقاد کے بعد میلے کو اس خوبصورت سیاحتی ریاست میں ایک گھر ملا ہےجہاں وہ جو ہر سال واپس آتا ہے۔ 2014 میں گوا کو اِفُی کا مستقل مقام قرار دیا گیا۔

 

امید ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ اِفّی کا انعقاد حکومت کے علاوہ کوئی اور نہیں کرواتا۔جی ہاں، یہ میلہ ہر سال حکومت ہند کی طرف سے میزبان ریاست گوا کی حکومت کے تعاون سے منعقد کیا جاتا ہے۔

 

لہذا قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے اور جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آپ کے ذہن میں پہلے ہی پیدا ہو چکا ہے کہ: #اِفّی کیوں؟

#اِفّی کیوں؟

 

ہاں، ہم اِفّی کا انعقاد کیوں کراتے ہیں؟ ہم کوئی بھی فلمی میلہ کیوں منعقد کرتے ہیں؟ اور خاص طور پر حکومت خود فلم فیسٹیول کیوں کرواتی ہے؟ اور ہاں، واپس وہی سوال کہ حکومت خاص طور پر اِفّی کا انعقاد کیوں کرتی ہے؟

 

بلاشبہ، ہم یہ سوالات بیان بازی کیلئے نہیں پوچھ رہے ہیں، ہم کسی بھی طرح سے بھی کچھ تجویز نہیں کر رہے ہیں، جیسا کہ کچھ لوگ جو اسے پڑھ رہے ہیں ایسا سوچ سکتے ہیں  کہ ہمیں اِفّی کا انعقاد نہیں کرنا چاہیے۔ اس لئے ہم یہ سوالات اس بات کی جڑوں تک جانے کے لئے پوچھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں – دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حکومت کی طرف سے منعقد کئے جانے والے اس عظیم بین اقوامی فلمی میلے کے پیچھے ایک ساتھ مل کر سیکھنے، دریافت  اور  دریافتِ نو کرنے کا جذبہ کار فرما ہے۔

 

اور سوال صرف اِفّی کے انعقاد کا نہیں ہے۔ درحقیقت، تیوہار کا انعقاد اپنے آپ میں ایک اختتام نہیں ہے، کیا ایسا ہے؟

 

لہذا،یہ قدرتی طور پر عوامی شرکت، مشغولیت اور شراکت کے حوالے سے بھی ان سوالات کی طرف جاتا ہے کہ عام لوگ اِفّی میں کیوں شرکت کرتے ہیں؟ وہ کیا دیکھنے کے منتظر ہیں، وہ میلے سے کیا معنی اخذ کرتے ہیں؟

 

اور اِفّی کے فلمی میلے کے ناظرین کون لوگ ہیں؟ وہ کون لوگ ہونے چاہئیں؟ کیایہ لوگ فلمساز، فلمی برادری والے، فلم سے محبت کرنے والے اور فلموں  کے ماہرین ہیں؟یا کچھ دوسرے بھی ہیں؟ کیایہ عام آدمی، "سڑکوں پر نطر آنے والے مردوں اور عورتوں" کے لیے ہے؟ یایہ صرف  مخصوص ناظرین کے لئے ہے؟

 

آئیے اولین اِفّی کا سفر کریں: جہاں سے یہ سب شروع ہوا۔

 

جیسا کہ ہم اس طرح کے مخصوص سوالات پر غور کرنا جاری رکھتے ہیں، آئیے، جیسا کہ ہمیں ہمیشہ لازمی طور پر کرتے ہیں، ابتدا کی طرف مڑتے ہیں۔ آئیے سنتے ہیں کہ اِفّی کے اولین میلے کی مجلسِ منتظمہ کے سربراہ سی ایم اگروالکا کیا کہنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‘‘جب ہندوستان میں بین اقوامی فلمی میلے کے انعقاد کی تجویز پہلی بار پیش کی گئی تو ایک سوال جو اکثر پوچھا جاتا ہے پوچھا گیا اس طرح کے فیسٹیول کا مقصد کیا ہے، اس سے کا مقصد حل ہوگا؟ اس ک جواب دو تہوں میں تھا: سب سے پہلے، یہ کہا گیا کہ کوئی بھی فلمی میلہ جس ملک میں منعقد کیا جاتا ہے اس ملک کے فلمی شائقین کو میلے میں شرکت کرنے والے تمام فلم ساز ممالک کی بہترین فلمیں دیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔دوئمیہ کہ ایک بین اقوامی فلمی میلہ موشن پکچر کی صنعتوں میں مصروف لوگوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ مشترکہ تشویش کے معاملات پر ملاقات اور تبادلہ خیال کرسکیں۔ آرٹ کی اس شکل کی پیشرفت کا موازنہ کرسکیں اور اس کی مستقبل کی ترقی کے لئے ٹھوس منصوبے بناسکیں’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جی ہاں، یہی صحیح ہے، یہ ایشیا کے قدیم ترین فلمی میلوں میں سے ایک اولین میلے کے منتظم کے الفاظ ہیں، اس میلے کا پہلی بار انعقاد 1952 میں بمبئی میں ہوا تھا۔ یہ الفاظ انہوں نے 24 جنوری 1952 کو اپنے خطبہ استقبالیہ کے دوران ادا کئے۔

 

چیئرپرسن نے سنیمیٹک میڈیم کے زبردست اثر و رسوخ ، بحیثیت انسان ایک دوسرے کے ساتھ ہمارے تعلقات اور ہمارے ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی شعبوں پر بھی سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اظہار خیال کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

‘‘اس میلے میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلموں میں سے کچھ ایسی ہیں جو یہ ظاہر کریں گی کہ تفریح کی ایک نئی شکل کے طور پر شروع ہونے والی موشن پکچر انسانی تعلقات، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں کس حد تک دخیل ہوئی ہے۔خاص طور پر تعلیم کے میدان میں اس نے نئی راہیں کھولی ہیں، جن کی اہمیت کا اندازہ ابھی ایک حد تک ہی کیا جا سکتا ہے۔ ثقافتی میدان میں اس نے بین اقوامی ثقافت کی بنیاد رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اور کرتا جا رہا ہے۔لیکن انسانی رشتوں کے کسی بھی شعبے میں موشن پکچر بین اقوامی تعلقات کے میدان کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے؛ قوموں کے ثقافتی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے اس کی قوت برائے خیریا برائی سب پر عیاں ہے۔دوسری اقوام کے تئیں  قوم کے لوگوں کے قومی رویے اور موشن پکچر کے درمیان تعلقکم واضح نہیں ہونا چاہے’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیئرپرسن نے مختلف قوموں کے لوگوں کے درمیان باہمی خیر سگالی اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کے لیے سنیما کی طاقت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ یہ کس طرح ’’عالمی سطح پر ادب کا آغاز کرتا ہے‘‘۔

 

"موشن پکچرز بنانے اور تقسیم کرنے میں حقیقی بین اقوامی تعاون، بشمول افراد اور خیالات کا تبادلہ باہمی خیر سگالی اور افہام و تفہیم کا باعث بن سکتا ہے۔ ہر وہ موشن پکچر جو بیرون ملک بھیجی جاتی ہے تاکہ دوسرے ممالک کے لوگ اسے دیکھ سکیں، ایک سفیر ہے جو اسے تیار کرنے والے ملک کے لوگوں کی طرف سے پوری دنیا کے عوام کے لئے بھیجی جاتی ہے۔ یہ ایک عالمگیر زبان بولتی ہے جسے سب سمجھ سکتے ہیں۔ وہ لوگ جو زبان کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں وہ اسکرین کے ذریعہ وہ سیکھنے کے شوقین ہوتے ہیں جو وہ ریڈیویا پریس سے دوسرے ممالک میں اپنے ساتھیوں کے بارے میں نہیں سیکھ سکتے۔ اور وہ اسکرین سے جو کچھ سیکھتے ہیں اس سے نسلی عدم اعتماد اور نفرت کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 

چونکہیہ ایک آفاقی زبان مین باتیں کرتی ہے اس لئے موشن پکچر دنیا بھر کے ادب کا آغاز پیش کرتی ہے ~ ایک ایسا ادب جو بنی نوع انسان کی تمام یا تقریباً تمام سرگرمیوں کو مسلسل ریکارڈ کر رہا ہے۔ ہماری تفریح​​اور معلومات کے لئے، یہ ماضی کو دوبارہ تخلیق کرتی ہے، حال کو زندہ کرتی ہے، اور آنے والے کل کے حوالے سے، یہ ہمیں اس قابل بناتی ہے کہ "مستقبل میں وہاں تک غوطہ لگائیں جہاں تک انسانی آنکھ دنیا کا نظارہ اور تمام عجائبات دیکھ سکتی ہے‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہندوستان کے بین اقوامی فلمی میلے کے پہلے ایڈیشن میں مندوبین کا استقبال کرتے ہوئےمنتظم نے مشاہدہ کیا تھاکہ بین اقوامی فلمی میلوں کو بین اقوامی تبادلے کے منصوبے تیار کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ کوئی ملک جو فلمیں بین اقوامی شائقین کو بھیجتا ہے وہ اپنے لوگوں کے طرز زندگی اوربڑے مسائل کے بارے میں ان کے رویے کو غلط انداز میں پیش نہ کرے۔

 

اس طرح چیئرپرسن نے عظیم قوم ہندوستان کے بین اقوامی فلمی میلے کو متاثر کرنے والے عظیم مقصد کی طرف واپس لوٹتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ موجودہ فیسٹیول اپنی نوعیت کا ہندوستان کا پہلا اور یقیناً ایشیا کا پہلا فیسٹیول مسابقانہ نہیں ہے، بلکہ یہ نمائندگی پر مبنی فیسٹیول ہے۔ یہاں ہم حریفوں کی طرح نہیں ملتے، بلکہ ایک دوسرے کے فن اور ہنرمندی کو دیکھنے اور اسے سراہنے کے لئے اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس لئے اکٹھاہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھیں، ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں، ہر کسی کی طرز زندگی سے کچھ سیکھیں اور دنیا کے لوگوں میں ایک زیادہ مالا مال ثقافتی زندگی کو فروغ دے سکیں۔

 

ہمیں بتائیے کہ یہ گہرے احساسات آپ کو کیا باور کراتے ہیں۔ کیا یہ آپ کے دل ک وچھوتے ہیں۔ آئی ایف ایف آئی، فلموں اور زندگی کو آپ کس طرح سراہتے ہیں اور اگر آپ کو کچھ کمی یا خامی دکھائی دیتی ہے، تو ہمیں بتائیے کہ ہم آئی ایف ایف آئی کو اور بہتر کس طرح بنا سکتے ہیں۔

 

اور ہاں ہمیں یہ بھی بتایئے کہ ہیش وہائی اِفّی ؟ آپ اپنے جواب اور اپنی آراء

 

iffi-pib[at]nic[dot]in

 

پر بھیج سکتے ہیں اور بہتر ہوگا کہ آپ اسے ٹوئیٹ کر کے پوری دنیا کے سامنے لائیں اور ہیش ٹیگ وہائی اِفّی استعمال کرنا یاد رکھیں تاکہ آپ کا جواب ضرور ہم تک پہنچے۔

 

53ویں آئی ایف ایف آئی کی تمام تازہ ترین اطلاعات فیسٹیول ویب سائٹ

 

www.iffigoa.org

 

پر پی آئی بی ویب سائٹ

 

pib.gov.in

 

، ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹا گرام پر آئی ایف ایف آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور پی آئی بی کے سوشل میڈیا ہینڈل

 

ُPIBgoa

 

سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ہمیں ان تقریبات اور گہما گہمی کے بارے میں اپنی آراء بتاتے رہئے اور ان خوشیوں کو آپس میں بانٹتے رہئے۔

***

ش ح۔ ع س۔ ک ا



(Release ID: 1874564) Visitor Counter : 202