وزیراعظم کا دفتر

گجرات کے امباجی میں مختلف ترقیاتی کاموں  کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 30 SEP 2022 10:53PM by PIB Delhi

’’بول ماری ماں، بول ماری ماں!‘‘

جے ماں امبے!

آج ماں کے پانچویں ’سوروپ‘، اسکند ماتا کی پوجا کا دن ہے۔ اس مبارک موقع پر آج ماں امبے کے درشن اور پوجن کرنے کی خوش قسمتی حاصل ہو رہی ہے۔ امباجی میں ماتا کے درشن کرنے کے لیے ایک طرح سے میں کہوں تو ماں کی گود میں ہی ہماری زندگی گزری ہے، آپ سب کی بھی گزری ہے اور ہم ہمیشہ محسوس کرتے ہیں، جب بھی یہاں آتے ہیں ایک نئی توانائی، نیا حوصلہ لے کر جاتے ہیں، نیا اعتماد لے کر جاتے ہیں۔ اس بار ایسے وقت میں یہاں آیا ہوں، جب ترقی یافتہ ہندوستان کا ایک بڑا عزم ملک نے کیا ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنوں نے لیا ہے کہ 25 سال کے اندر اندر ہم ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنا کر رہیں گے۔ ماں امبا کے آشیرواد سے ہمیں ہمارے سبھی عزائم  کے حصول کے لیے طاقت ملے گی، توانائی ملے گی۔ اس مقدس موقع پر مجھے بناس کانٹھا کے ساتھ ساتھ گجرات کے متعدد ضلعوں کو ہزاروں کروڑ روپے کی اسکیموں کا تحفہ دینے کا موقع بھی ملا ہے۔ آج جن 45 ہزار سے زیادہ گھروں کا افتتاح اور قریب افتتاح اور سنگ بنیاد ملا دیں تو 61 ہزار، ان سبھی مستفیدین کو بھی میری طرف سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ان بہنوں کو خاص مبارکباد، جنہیں آج اپنا گھر ملا ہے۔ اس بار آپ سبھی کی دیوالی نئے گھر میں منے گی، اپنے خود کے گھر میں منے گی۔ ہمیں خوشی ہوگی کہ نہیں ہوگی، خود کے گھر میں دیوالی منانے کی بات کی جائے، جس نے زندگی جھونپڑی میں گزاری ہو، تب وہ خود کے پکے گھر میں دیوالی منائے، تبیہ اس کی زندگی کی بڑی سے بڑی دیوالی ہوگی کہ نہیں ہوگی۔

بھائیوں اور بہنوں،

جب ہم خواتین کی عزت کی بات کرتے ہیں، تو ہمارے لیے یہ بہت  معمولی سی بات لگتی ہے۔ لیکن جب ہم سنجیدگی سے اس پر غور کرتے ہیں، تو پاتے ہیں کہ ہمارے اخلاق و آداب میں خواتین کی عزت کتنی رچی بسی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں جو طاقتور لوگ ہوتے ہیں، جہاں طاقت  کی چرچہ ہوتی ہے ان کے ساتھ ان کے والد کا نام جڑتا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ وہ فلاں بھائی کا لڑکا بہادر ہے، ایسا کہتے ہیں کہ نہیں۔ بھارت میں ہمارے یہاں  بہادر مردوں کے ساتھ ماں کا نام جوڑا گیا ہے۔ میں مثال دیتا ہوں، آپ بھی سوچئے، اب دیکھئے، ارجن،  عظیم  بہادر مرد تھے، لیکن کبھی ہم یہ نہیں سنتے ہیں کہ پانڈو پتر ارجن، ایسا نہیں بولتے لوگ، لوگ کیا کہتے ہیں۔ ہم جب بھی سنتے ہیں تو ان کا نام پارتھ سنا، یہ پارتھ کیا ہے، جو پرتھا یعنی کنتی کے بیٹے ہیں۔ ارجن کا جب ذکر آتا ہے تو کونتیہ کے بیٹے کنتی پتر کے نام سے بھی جانا گیا ہے۔ اسی طرح سے بھگوان شری کرشن،  سب سے طاقتور ان کا بھی جب تعارف پیش کیا جاتا ہے تو دیوکی نندن کہتے ہیں۔ دیوکی کا بیٹا کرشن، اس طرح سے کہتے ہیں۔ ہنومان جی کی بات آتی ہے تو ہنومان جی کو بھی، ہنومان جی سے بڑا کوئی بہادر تو ہم نے کبھی سنا نہیں ہے، لیکن ان کی بھی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ انجنی پتر ہنومان یعنی ماں کے نام کے ساتھ بہادروں کے نام ہمارے ملک میں، یہ ماں کے نام کی عظمت کو،  خواتین کی عظمت کو، خواتین کی طاقت کی اہمیت ہمیں ہمارے اخلاق و آداب کی پونجی کے ساتھ ہمیں ملی ہوئی ہے۔ اتنا ہی نہیں، یہ ہمارے اخلاق و آداب ہی ہیں کہ ہم اپنے ملک بھارت کوبھی ماں کے طور پر دیکھتے ہیں، خود کو ماں بھارتی کی اولاد مانتے ہیں۔

ساتھیوں،

ایسی عظیم ثقافت سے جڑے ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں یہ بھی ہم نے دیکھا کہ گھر کی جائیداد پر، گھر کے مالی فیصلوں پر، زیادہ تر حق باپ کا یہ بیٹے کا رہا۔ ہم سب کو معلوم ہے گھر ہو تو مرد کے نا، گاڑی ہو تو مرد کے نام پر، دکان ہو تو مرد کے نام پر، کھیت ہو تو مرد کے نام پر۔ عورت کے نام پر کچھ نہیں ہوتا، اور  شوہر جو گزر جائے تو سب کچھ بیٹے کے نام پر ہو جاتا ہے۔ ہم نے فیصلہ لیا ہے کہ  پردھان منتری آواس جو ہم دیں گے، دین دیال آواس جو ہم دیں گے اس میں  ماں کا بھی نام ہوگا۔ اس لیے 2014 کے بعد ہم نے فیصلہ لیا کہ غریبوں کو سرکار جو پکے گھر بنا کر دے رہی ہے، وہ ماں کے نام ہوگا یا پھر ماں اور اس کے شوہر کے نام پر ہوگا، ماں یا اس کے بیٹے  کے مشترکہ نام پر ہوگا۔ ابھی تک ملک میں غریبوں کو 3 کروڑ سے زیادہ گھر بنا کر ہم نے غریبوں کو دیے ہیں۔ یہ جو خوشی آپ جن لوگوں کے چہروں پر دیکھ رہے تھے نہ اس ملک کے 3 کروڑ لوگوں کو گھر ملا ہے اور ایسی ہی خوشی ان کے چہرے پر آج نظر آ رہی ہے اور جن میں سے زیادہ گھروں کی مالکن  مائیں بہنیں ہیں۔ اپنا گھر ہونے کی وجہ سے، اب جو یہ گھر ملا ہے نہ، اس گھر کی جو قیمت ہے تو اس سے بھی یہ سبھی  بہنیں لکھ پتی ہو گئی ہیں۔، آپ سبھی کو پیچھے برابر سنائی دے رہا ہے نا۔ میں گجرات سرکار کو مبارکباد دوں گا کہ وہ ہر غریب کو پکا گھر دینے کی مہم کو تیزی سے پورا کرنے میں مصروف ہے۔ میں بھوپندر بھائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پچھلے سال ہی ڈیڑھ لاکھ گھر گجرات میں پورے ہو چکے ہیں۔ تہواروں کے اس موسم میں غریب خاندانوں کی بہنوں کو اپنا باورچی خانہ چلانے میں مسئلہ نہ ہو، اس لیے سرکار نے مفت راشن کی اسکیم بھی آنے والے تین مہینے کے لیے اور بڑھا دی ہے۔ مشکل وقت میں ملک کے 80 کروڑ سے زیادہ ساتھیوں کو راحت دینے والی اس اسکیم پر مرکزی حکومت تقریباً 4 لاکھ کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ گزشتہ 2 دہائیوں سے ماؤں بہنوں کو با اختیار بنانے کے لیے کام کرنے کا بہت بڑا موقع مجھے ملا ہے۔ بناس کانٹھا تو اس کا ایک بہت بڑا گواہ رہا ہے۔ مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی کہ جہاں ماتا امباجی اور ماتا نلیشوری وراجمان ہیں، وہاں بیٹیوں کی پڑھائی کو لے کر بھی ہم پیچھے کیوں ہیں؟ اس لیے میں نے جب ماں نرمدا سے بناس کانٹھا کے کھیت کھلہان کو لہلہانے  کا عہد کیا تھا، تب آپ سے میں نے ماں سرسوتی کو بھی گھر میں جگہ دینے کی اپیل کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں بہنوں سے بار بار کہتا تھا کہ بیٹیاں نہیں پڑھیں گی، تو ماں سرسوتی گھر میں نہیں آئیں گی۔ جہاں سرسوتی نہ ہو، وہاں لکشمی جی کبھی پاؤں تک نہیں رکھتی ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ بناس کانٹھا کی بہنوں نے، آدیواسی خاندانوں  نے میری اپیل کو قبول کیا۔ آج ماں نرمدا کا پانی یہاں کی تقدیر بدل رہا ہے، تو بیٹیاں بھی بڑے شوق سے اسکول کالج جا رہی ہیں۔ کم غذائیت کے خلاف لڑائی میں بھی بناس کانٹھا نے بہت تعاون دیا ہے۔ زچگی کے دوران ماؤں کو سکھڑی (ریسپی) تقسیم کا پروگرام ہو یا پھر دودھ عطیہ دینے کی مہم، بناس کانٹھا نے کامیابی کے ساتھ اسے آگے بڑھایا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

ماں کی خدمت کا جو عزم ہم نے یہاں کیا، 2014 کے بعد اس کے لیے پورے ملک میں کام چل رہا ہے۔ ماؤں بہنوں بیٹیوں کی زندگی کی ہر مشکل، ہر  پریشانی، ہر اڑچن کو دور کرنے کے لیے، انہیں بھارت کی ترقی کے سفر کا ساتھی بنایا جا رہا ہے۔ بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ سے لے کر ملک کی فوج میں بیٹیوں کی مکمل حصہ داری تک، بیٹیوں کے لیے مواقع کے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔ ٹوائلٹس ہوں، گیس کنکشن ہوں، ہر گھر جل ہو، جن دھن کھاتے ہوں، مدرا یوجنا کے تحت مل رہے بنا گارنٹی کے قرض ہوں، مرکزی حکومت کی ہر بڑی اسکیم کے مرکز میں ملک کی ماؤں کی طاقت ہے، خواتین کی طاقت ہے۔

ساتھیوں،

جب ماں خوش ہوتی ہے، تو خاندان خوش ہوتا ہے، جب خاندان خوش ہوتا ہے، تو سماج خوش ہوتا ہے، اور سماج خوش ہوتا ہے تو ملک خوش ہوتا ہے میرے بھائیوں۔ یہی صحیح ترقی ہے، اسی ترقی کے لیے ہم مسلسل کام کر رہے ہیں۔ آپ مجھے بتائیے، یہاں مندر کے سامنے جو اتنا جام لگتا تھا، اس سے چھٹکارہ ملنا چاہیے تھا کہ نہیں ملنا چاہیے تھا؟ وہاں امن کا ماحول چاہیے تھا کہ نہیں چاہیے تھا؟ ماربل لے کر جو یہ بڑے بڑے ٹرک مندر کے سامنے سے گزرتے ہیں، ان کے لیے الگ راستہ ہونا چاہیے تھا کہ نہیں چاہیے تھا؟ آج نئی ریل لائن اور بائی پاس کی شکل میں ہم سبھی کی یہ آرزوئیں پوری کر رہے ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

آج میں آپ کو ایک حیرانی کی بات بھی بتاؤں گا۔ آپ سب کو یہ جان کر بڑی حیرانی ہوگی کہ آج جس تارنگا ہل امباجی آبو روڈ، مہسانہ یہ جو ریل لائن کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے نا، ملک جب غلام تھا، انگریز جب حکومت کرتے تھے، انگریزوں کے زمانے میں یہ ریل لائن بنانے کا فیصلہ انگریزوں نے 1930 میں کیا تھا، یعنی قریب قریب سو سال پہلے، فائلیں پڑی ہیں۔ اس کا تصور انگریزوں کے زمانے میں کیا گیا تھا۔ یعنی اس علاقے میں ریل لائن کی کتنی اہمیت تھی، ریل لائن کی ضرورت کتنی تھی، یہ سو سال پہلے پہچان لیا گیا تھا۔ لیکن ساتھیوں، شاید یہ کام بھی پرماتما نے، ماں امبا نے مجھے ہی کرنے کے لیے کہا ہوگا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد یہ کام نہیں ہوا۔ آزادی کی اتنی دہائیوں تک یہ فائل سڑتی رہی۔ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو اس کے پیچھے لگا ہوا تھا، اس کی تجویز رکھی تھی۔ لیکن تب ہماری کوئی سنوائی نہیں ہوئی، سرکار کچھ اور تھی۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج جب ملک آزادی کے 75 سال پورے کر رہا ہے، تب ہماری ڈبل انجن کی سرکار کو اسے ماتا کے چرنوں میں پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس ریل لائن سے اور بائی پاس سے جام اور دوسرے مسائل سے تو نجات ملی گی ہی، ساتھ ہی ماربل صنعت کو بھی تقویت ملے گی۔ ویسٹرن ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور کا ایک بہت بڑاحصہ اسی علاقے میں ہے، جو آج  شروع ہو گیا ہے۔ ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور سے یہاں کا ماربل، اور یہ ہمارے کسان تو یہاں آلو کی کھیتی کرنے میں مشغول ہو گئے اب، سبزیوں کی کھیتی کر رہے ہیں، ٹماٹر کی کھیتی کر رہے ہیں اور دودھ میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔ ان ساری چیزوں کے لیے بہت آسانی سے راستہ مل جائے گا، آسانی سے انہیں پہنچانا آسان ہو جائے گا۔ کسانوں کو خاص فائدہ اس لیے بھی ہوگا کیوں کہ آنے والے وقت میں  اسپیشل کسان ریل بھی یہاں سے چل سکتی ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

سب سے بڑا فائدہ یہاں کی سیاحتی صنعتوں کو ہونے والا ہے۔ یہاں تو امباجی ماں خود وراجمان ہیں اور جب میں وزیر اعلیٰ تھا تو ہم نے یہاں 51 شکتی پیٹھوں کی بھی تعمیرکی ہے۔ ماں امبا خود 51 شکتی پیٹھوں میں سے ایک ہیں اور ہم نے دنیا بھر میں جہاں جہاں ماں امبا کا مقام ہے اس کی ریپلکا یہاں بنائی ہے یعنی ایک طرح سے یہ 51 تیرتھ علاقوں کی یاترا امبا جی میں آنے سے ہو جاتی ہے۔ لیکن میں نے دیکھا ہے، ابھی بھی لوگ اتنی تیزی سے آتے ہیں کہ ماں امبا کے درشن کیے، پھر بھاگ جاتے ہیں۔ میں ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ جو امبا جی آئے گا اس کو دو تین دن یہاں رہنا پڑے، اتنی ساری چیزیں مجھے کھڑی کر دیتی ہیں تاکہ یہاں پوری روزی روٹی بڑھ جائے۔ دیکھئے پاسمیں گبر، اب ہم گبر کو بدل رہے ہیں، آپ کو نظر آتا ہوگا۔ کسی نے سوچا ہوگا کیا؟ آج گبر تیرتھ علاقے کی ترقی کے لیے میں گجرات کی سرکار کی بہت تعریف کرتا ہوں۔ اب  اجیت ناتھ جین مندر، تارنگا ہل، ان کے درشن بھی آسان ہو جائیں گے جیسے پالی تلا کی اہمیت بڑھ گئی ہے، ویسے تارنگا ہل کی بھی اہمیت بڑھے گی۔ یہ آپ لکھ کر کے رکھئے۔ ٹرین چلے گی تو زیادہ تیرتھ یاتری یہاں آئیں گے، ہوٹل گیسٹ ہاؤس، دکان ڈھابے والوں کی یعنی ان کی آمدنی بڑھے گی۔ چھوٹے چھوٹے دکانداروں کو کام ملے گا۔ نوجوانوں کے لیے گائیڈ سے لے کر ٹیکسی سروسز تک نئے موقعے ملیں گے۔ اور دھروئی ڈیم سے لے کر کے امباجی تک پورا بیلٹ مجھے تیار کرنا ہے۔ جیسے آپ اسٹیچو آف یونٹی پر جا کر کے دیکھتے ہیں ویسا ہی میں یہاں کرنا چاہتا ہوں۔ پورا ایک علاقہ دھروئی ڈیم میں واٹر اسپورٹس کو لے کر امکانات ہیں، اب انہیں بھی مزید وسعت ملے گی۔

بھائیوں اور بہنوں،

ایک طرف عقیدت اور صنعتوں کا یہ گلیارہ ہے اور دوسری طرف ہمارا بارڈر ہے، جہاں ہمارے  بہادر جوان ملک کی حفاظت میں تعینات رہتے ہیں۔ حال ہی میں سرکار نے سوئیگام تعلقہ میں سیما درشن پروجیکٹ کی شروعات کی ہے۔ کوشش یہ ہے ملک بھر سے لوگ یہاں آ کر سیدھے ہمارے بی ایس ایف کے جوانوں کے تجربات کو دیکھیں، جان سکیں۔ یہ پروجیکٹ قومی اتحاد کے پنچ پرن (پانچ عزائم) کو بھی طاقت دینے والا ہے اور یہاں سیاحت سے جڑے نئے روزگاروں بھی پیدا کرے گا۔ میٹھا تھراد ڈیسہ سڑک کے چوڑی ہونے سے بھی اس پروجیکٹ کو مضبوطی ملے گی۔ ڈیسہ میں ایئرفورس اسٹیشن میں رن وے اور دوسرا انفراسٹرکچر بننے سے ہماری فضائیہ کی طاقت بھی اس علاقے میں بڑھنے والی ہے۔ اسٹریٹجک لحاظ سے یہ ایئرفورس اسٹیشن ملک کے لیے بہت اہم ہوگا۔ جب اتنا بڑا اسٹیشن یہاں بن رہا ہے، تب آس پاس تجارت و کاروبار بھی بڑھے گا۔ یہاں دودھ پھل سبزی سے لے کر مختلف قسم کی ضرورتیں پیدا ہوں گی، جس سے یہاں کے کسانوں، مویشی پروروں، سبھی کا فائدہ طے ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

گزشتہ 2 دہائیوں کی مسلسل کوششوں سے بناس کانٹھا کی تصویر بدل چکی ہے۔ نرمدا کے پانی، سجلام سفلام اور ڈرپ اریگیشن نے  حالات کو بدلنے میں بڑا رول نبھایا ہے۔ اس میں بہنوں کا رول، اس رول میں بہنوں کا رول  سب سے آگے رہا ہے۔ بناس کانٹھا میں کبھی انار کی کھیتی ہوگی، انگور کی کھیتی ہوگی، آلو اور ٹماٹر اتنے بڑے پیمانے پر پیدا ہوں گے، کچھ سال پہلے تک یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج جو پروجیکٹ شروع ہوئے ہیں، وہ کسانوں، نوجوانوں، عورتوں، سبھی کی زندگی بدلنے کا کام کریں گے۔ ایک بار پھر ماں امبا کے چرنوں میں وندن کرتے ہوئے آپ سبھی کو ترقیاتی پروجیکٹوں کی بہت بہت مبارکباد۔ آپ کا بھرپور آشیرواد ہمیں ایسے ہی ملتا رہے گا، اسی امید کے ساتھ بہت بہت شکریہ۔ اور سب سے پہلے مجھے تو آپ سے معافی مانگنی ہے، کیوں کہ مجھے یہاں آتے ہوئے دیر ہو گئی، مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ مجھے لگا تھا کہ یہاں سے سیدھے نکلیں گے اور پہنچ جائیں گے۔ راستے میں اتنی بڑی تعداد میں  گاؤوں والوں سے ملاقات ہوئی، تو فطری طور پر میرا من ہو رہا تھا کہ ان کے پیر چھونے کا۔ تو ایسا کرتے کرتے مجھے پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ اس لیے آپ سب کو زیادہ انتظار کرنا پڑا، اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ لیکن اپنے بناس کانٹھا کے بھائیوں، اور اب تو پاس میں اپنا  کھیڈ برہما بھی ہے، ہمارے سابر کانٹھا کا پٹہ بھی سامنے آتا ہے۔ ہم سب کو ترقی اور پیش رفت کی نئی بلندی پر پہنچنا ہے۔ اوریہ 25 سالوں کا بڑا موقع ہمارے پاس ہے، آج دنیا میں لوگوں کی بھارت کے لیے  دلچسپی بڑھی ہے۔ ہم یہ موقع جانے دے سکتے ہیں؟ یہ موقع ہم جانے دے سکتے ہیں کیا؟ محنت کرنی پڑے گی کہ نہیں کرنی پڑے گی، ترقی کے کاموں میں تیزی زور دینا پڑے گا کہ نہیں۔ سب کو ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہیے کہ نہیں۔ یہ کریں گے، تبھی  ترقی ہوگی بھائیوں اوریہ ترقی کرنے کے لیے آپ نے ہمیشہ ساتھ اور تعاون دیا ہے۔ یہی میری طاقت ہے، یہی میری پونجی ہے۔ یہی آپ سبھی کا آشیرواد ہمیں نیا نیا کرنے کے لیے حوصلہ دیتا ہے۔ اور اس لیے اس ماتا کے دھام میں آپ سبھی گجرات کے باشندوں کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 10914



(Release ID: 1864089) Visitor Counter : 152