وزیراعظم کا دفتر

وزیر اعظم نے گریٹر نوئیڈا میں بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن عالمی ڈیری سربراہ ملاقات 2022 کا افتتاح کیا


‘‘بھارت کے ڈیری سیکٹر کی خصوصیت ‘بڑے پیمانے پر پیداوار’ سے زیادہ ‘عوام کے ذریعہ پیداوار’ ہے’’

‘‘بھارت میں ڈیری کوآپریٹو پوری دنیا میں سب سےمنفرد ہے اور غریب ممالک کے لیے یہ ایک اچھا کاروباری ماڈل ثابت ہو سکتا ہے’’

‘‘ڈیری کوآپریٹیوس ملک کے دو لاکھ سے زیادہ گاؤوں میں تقریباً دو کروڑ کسانوں سے دن میں دو بار دودھ اکٹھا کرتی ہیں اور اسے صارفین تک پہنچاتی ہیں’’

‘‘صارفین سے حاصل ہونے والی رقم کا 70 فیصد سے زیادہ  حصہ براہ راست کسان کو جاتا ہے’’

‘‘خواتین ہی بھارت کے ڈیری سیکٹر کی اصل قائدین ہیں’’

‘‘ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کا ڈیری کا شعبہ گندم اور چاول کی پیداوار کی مشترکہ قیمت سے زیادہ ہے’’

بھارت نے 2014 میں 146 ملین ٹن دودھ پیدا کیا تھا۔ اب یہ  تعداد بڑھ کر 210 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ یعنی اس میں تقریباً 44 فیصدکا اضافہ ہوا ہے

‘‘بھارت کی دودھ کی پیداوار عالمی شرح نمو کے 2 فیصد کے مقابلے 6 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے’’

‘‘بھارت ڈیری جانوروں کا سب سے بڑا ڈیٹا بیس بنا رہا ہے اور ڈیری سیکٹر سے وابستہ ہر جانور کو ٹیگ کیا جا رہا ہے’’

‘‘ہم نے 2025 تک، 100فیصدجانوروں کو کھر اور منہ کی بیماری اور بروسیلوسس سے بچانے کا عزم کیا ہے’’

‘‘ہمارے سائنسدانوں نے جِلد کی بیماری کے لیے دیسی ویکسین بھی تیار کر لی ہے’’

‘‘بھارت ایک ڈیجیٹل نظام پر کام کر رہا ہے جو مویشیوں کے شعبے کی تمام تر کارروائیوں کا احاطہ کرےگا’’





Posted On: 12 SEP 2022 12:36PM by PIB Delhi

 

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج گریٹر نوئیڈا کے انڈیا ایکسپو سینٹر اور مارٹ میں منعقدہ بین الاقوامی ڈیری فیڈریشن عالمی ڈیری اجلاس (آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس) 2022 کا افتتاح کیا۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ڈیری کےشعبہ سے تعلق رکھنے والے  دنیا کی تمام معزز شخصیات آج بھارت میں جمع ہوئی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ عالمی ڈیری اجلاس خیالات کے تبادلے کا ایک بہترین ذریعہ بننے جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈیری سیکٹر کی صلاحیت نہ صرف دیہی معیشت کو تقویت دیتی ہے بلکہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کی روزی روٹی کا ایک بڑا ذریعہ بھی ہے۔

وزیر اعظم نے بھارت کے ثقافتی منظر نامے میں ‘پشو دھن’ اور دودھ سے متعلق کاروبار کی مرکزیت کو اجاگر کیا۔اس سے بھارت کے ڈیری سیکٹر کو بہت سی منفرد خصوصیات  حاصل ہوئی  ہیں۔وزیر اعظم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ دنیا بھرکے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس بھارت میں ڈیری سیکٹر کوچلانے والے ملک کے چھوٹے کسان ہے ۔بھارت کا ڈیری سیکٹر ‘‘بڑے پیمانے پر پیداوار’’ سے زیادہ ‘‘عوام کے ذریعہ پیداوار’’ کی خصوصیت کا حامل ہے ۔ ایک، دو یا تین مویشی رکھنے والے ان چھوٹے کسانوں کی کوششوں کی بنیاد پر بھارت سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔انہوں نے بتایا کہ یہ شعبہ ملک میں 8 کروڑ سے زیادہ خاندانوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

بھارت کے ڈیری نظام کی دوسری منفرد خصوصیت کی وضاحت کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو کا اتنا بڑا نیٹ ورک ہےکہ پوری دنیا میں اس کی مثال کہیں اور نہیں مل سکتی۔جناب مودی نے کہا کہ یہ ڈیری کوآپریٹیوس ملک کے دو لاکھ سے زیادہ گاؤوں میں تقریباً دو کروڑ کسانوں سے دن میں دو بار دودھ اکٹھا کرتے ہیں اور اسے صارفین  تک پہنچاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس حقیقت کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کرائی کہ اس سارے عمل میں کوئی بچولیا نہیں ہے اور صارفین سے جو رقم وصول کی جاتی ہے اس کا 70 فیصد سے زیادہ براہ راست کسانوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا ‘‘پوری دنیا میں کسی اور ملک میں یہ تناسب نہیں ہے’’۔انہوں نے ڈیری سیکٹر میں ادائیگی کے ڈیجیٹل نظام کی کارکردگی پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ اس میں دیگر ممالک کو سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔

وزیر اعظم کے مطابق ایک اور منفرد خصوصیت دیسی نسلیں ہیں جو بہت سے منفی حالات کا سامنا کر سکتی ہیں۔انہوں نے گجرات کے کچھ علاقے کی مضبوط بھینس کی نسل بنی بھینس کی مثال دی۔ انہوں نے بھینسوں کی دیگر نسلوں جیسے مرہ،  مہسانہ، جعفرآبادی،  نیلی راوی، اور پنڈھرپوری کے بارے میں بھی بات کی اور ادھرگائے کی نسلوں میں انہوں نے گر، ساہیوال، راٹھی، کنکریج، تھرپارکر اور ہریانہ کا ذکر کیا۔

ایک اور منفرد خصوصیت کے طور پر، وزیر اعظم نے ڈیری سیکٹر میں خواتین کی طاقت کو اجاگر کیا، وزیر اعظم نے اس بات کو نمایاں کیاکہ بھارت کے ڈیری سیکٹر میں  افرادی قوت میں خواتین کی نمائندگی 70 فیصدہے۔‘‘خواتین ہی بھارت کے ڈیری سیکٹر کی حقیقی قائد  ہیں‘‘، انہوں نے مزید کہا،‘‘صرف یہی نہیں، بھارت میں ڈیری کوآپریٹیو س کی ایک تہائی سے زیادہ ممبران خواتین ہیں۔’’ انہوں نے کہا کہ ساڑھے آٹھ لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کا ڈیری سیکٹر گیہوں اور چاول کی مشترکہ قیمت سے زیادہ ہے۔اور ان سب کو بھارت کی خواتین کی طاقت چلارہی ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حکومت نے 2014 سے بھارت کے ڈیری سیکٹر کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ اس سے دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے جس سے کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے اس بات کی طرف بھی  اشارہ کیا کہ‘‘بھارت میں 2014 میں دودھ کی پیداوار جو146 ملین ٹن تھی  اب یہ بڑھ کر 210 ملین ٹن ہو گئی ہے۔ یعنی  اس میں تقریباً 44 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘‘بھارت کی دودھ کی پیداوار عالمی شرح نمو کے 2 فیصد کے مقابلے 6 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے’’۔

وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت   متوازی ڈیری  ماحولیاتی نظام تیار کرنے پر کام کر رہی ہے جہاں پیداوار بڑھانے پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ شعبوں کے چیلنجوں سے بھی نمٹا جا رہا ہے۔ کسانوں کے لیے اضافی آمدنی، غریبوں کو بااختیار بنانا، سوچھتا، کیمیکل سے پاک کھیتی، صاف توانائی اور مویشیوں کی دیکھ بھال، اس ماحولیاتی نظام میں ایک دوسرے سے باہمی طور پر منسلک ہیں۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مویشی پروری اور ڈیری کو دیہات میں سبز اور پائیدار ترقی کے ایک طاقتوروسیلے کے طور پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ راشٹریہ گوکل مشن، گوبردھن یوجنا، ڈیری سیکٹر کا ڈیجیٹلائزیشن اور مویشیوں کی یونیورسل ٹیکہ کاری جیسی اسکیمیں اور سنگل یوز پلاسٹک پر پابندی جیسے اقدامات اسی سمت میں اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔

جدید ٹکنا لوجی کے استعمال پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ڈیری جانوروں کا سب سے بڑا ڈیٹا بیس  تیا رکر رہا ہے اور ڈیری سکٹر  سے وابستہ ہر جانور کو  نشان زد  کای جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا۔”ہم جانوروں کی بائو  مٹرےک شناخت کر رہے ہیں۔ ہم نے اس کا نام رکھا ہے ۔پشو آدھار”۔

جناب مودی نے ایف پی ایز اور خواتن کے سیلف - ہیلپ گروپس اور اسٹارٹ اپس جیسے  بڑھتے ہوئے کاروباری ڈھانچوں  پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے  میں  حالیہ دنوں میں  1000 سے زیادہ اسٹارٹ اپ سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے گوبردھن یوجنا میں  ہونے والی پیشرفت کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ اس کا مقصد ایسی   صورتحال تک پہنچنا ہے جہاں ڈیری پلانٹ گوبر سے اپنی بجلی خود تیار کریں۔ اس کے نتجے میں    پیدا ہونے والی کھاد سے  کاشتکاروں کو بھی مدد ملے گی۔

کھیتی باڑی کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ مویشی  پروری  اور کھیتی باڑی میں تنوع کی ضرورت ہوتی ہے اور یک فصلی کاشتکاری ہی اس مسئلے کا  واحد حل نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ آج ہندوستان مقامی نسلوں اور ہائبرڈ دونوں نسلوں پر یکساں توجہ دے رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے موسمیاتی تبدیلیوں  سے ہونے والے نقصان کے خطرے کو بھی کم کیا  جاسکے گا۔

وزیر اعظم نے ایک اور بڑے مسئلے پر توجہ دی جو کسانوں کی آمدنی کو متاثر کر رہی ہے  اور یہ مسئلہ جانوروں کی بیماریاں ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا‘‘جب جانور بیمار  ہوتا ہے تو اس سے کسان کی زندگی متاثر ہوتی ہے، اس کی آمدنی متاثر ہوتی ہے۔ اس سے جانور کی کارکردگی، اس کے دودھ اور دیگر متعلقہ مصنوعات کے معیار پر بھی اثر پڑتا ہے’’، وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اس سمت میں، ہندوستان جانوروں کی عالمی ویکسینیشن کی سمت کام کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا۔ ‘‘ ہم نے عزم کیا ہے کہ 2025 تک، ہم 100فیصد جانوروں کو پاؤں اور منہ کی بیماری  اور بروسلو سس کے خلاف ویکسین دیں گے۔ ہم اس دہائی کے آخر تک ان بیماریوں سے مکمل طور پر آزاد ہونے کا ہدف رکھتے ہیں ”۔

وزیر اعظم نے  اس رائے کااظہار کیا کہ  ماضی قریب میں۔ لمپی نامی بیماری  کی وجہ سے ہندوستان کی بہت سی ریاستوں میں مویشیوں کا نقصان ہوا ہے اور سب کو یقین دلایا کہ مرکزی حکومت مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اپنی سطح پر پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس کے بعد  وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ‘‘ہمارے سائنسدانوں نے جلد کی بیماری  کے لئے دیسی ویکسین بھی تیار  کی ہے۔’’ وزیر اعظم نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وبا کو قابو  میں رکھنے کیلئے  جانوروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، چاہے وہ جانوروں کی ویکسینیشن  ہو یا کوئی اور جدید ٹکنا لوجی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان اپنے شراکت دار ممالک سے سیکھنے  کی کوشش کرتے ہوئے ڈیری کے شعبے میں  تعاون کرنے کے لےہمیشہ خواہش مندہے۔ جناب مودی نے مزید کہا کہ ‘‘ہندوستان نے اپنے فوڈ سیٹ کے معیارات  پر تیزیی سے کام کیا  ہے’’۔

وزیراعظم نے اپنے خطاب کے اختتام میں اس بات کا اعادہ کیا  کہ ہندوستان ایک ڈیجیٹل   نظام پر کام کر رہا ہے جو مویشیوں  کے شعبے میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک کی تمام سرگرمیوں  کااحاطہ کرے گا۔ یہ اس شعبے کو بہتر بنانے کےلئے درکار صحیح  معلومات فراہم کرے گا۔ اس  چوٹی کانفرنس میں  اس کام کو سامنے رکھا جائے گا جو اس طرح کی بہت سی ٹکنا لوجیز کے حوالے سے دنیا بھر میں  ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نے تمام حاضرین پر زور دیا کہ وہ اس شعبے سے متعلق مہارت کو شیئر کرنے کے طریقے تجویز کریں۔وزیر اعظم نے تمام حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ‘‘ہندوستان میں  ڈیری انڈسٹری کے عالمی رہنماؤں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہندوستان میں   ڈیری سیکٹر  کو بااختیار  بنانے کی مہم میں  شامل ہوں۔ میں بین  الاقوامی ڈیری فیڈ ریشن کو ان کے بہترین کام اور شراکت کے لئے  بھی سراہتا ہوں’’۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتہ  ناتھ، ماہی پروری، حیوانات اور ڈیری کے مرکزی وزیر جناب پرشوتم روپالا، ماہی پروری، حیوانات اور ڈیری کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر ایل مروگن، زراعت اور فوڈ پروسیسنگ  کے مرکزی وزیر مملکت  شری سنجیو  کمار بالیان، ممبران پارلیمنٹ ، سریندر سنگھ ناگر اور ڈاکٹر مہیش  شرما، انٹرنیشنل  ڈیری فیڈریشن کے صدر،جناب پی برازلے   اور انٹرنیشنل  ڈیری فیڈریشن کی ڈائریکٹر جنرل محترمہ کرولن ایمونڈ  اس موقع پر موجود تھے۔ اس موقع پر  75 لاکھ کسانوں کو  ٹکنا لوجی کے ذریعے اس تقریب سے جوڑا گیا ۔

پس منظر

چارروزہ انٹر نیشنل ڈیری فیڈریشن –ورلڈ ڈیری فیڈریشن  2022 ، جس کا انعقاد 12 سے 15 ستمبر تک  ہوا، عالمی اور ہندوستانی ڈیری اسٹیک  ہولڈرز کا ایک اجتماع ہے جس میں صنعت کے رہنما، ماہرین، کسان اور پالیسی پلانرز شامل ہیں   جو 'غذائت  اور معاش کے لےڈیری' کے موضوع پر  توجہ مرکوزکر رہے  ہیں ۔ آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس  2022 میں50 ممالک سے تقریباً 1500 شرکاء کی شرکت متوقع ہے۔ اس طرح کی آخری چوٹی کانفرنس تقریباً نصف صدی قبل 1974 میں  ہندوستان میں  منعقد ہوئی تھی۔

ہندوستانی ڈیری انڈسٹری اس اعتبار سے منفرد ہے کیونکہ یہ ایک کوآپریٹو ماڈل پر مبنی ہے جو چھوٹے اور معمولی ڈیری کسانوں، خاص طور پر خواتین کو بااختیار  بناتی ہے۔ وزیر اعظم کے ویژن کے تحت حکومت نے ڈیری سیکٹر  کی بہتری کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں   جس کے نتیجے میں  پچھلے آٹھ سالوں  میں  دودھ کی پیداوار میں  44 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی ڈیری انڈسٹری کی کامیابی  کی کہانی، جو  دودھ کی عالمی پیداوار کا تقریباً 23 فیصد حصہ رکھتی ہے، تقریباً 210 ملین ٹن سالانہ پیدا کرتی ہے، اور 8 کروڑ سے زیادہ ڈیری فارمرز کو بااختیار بناتی ہے،   آئی ڈی ایف ڈبلیو ڈی ایس 2022 میں نمائش میں دکھایا جائے گا۔ اس سربراہی اجلاس ہندوستانی ڈیری کو بھی مدد فراہم کرے گا۔ اس چوٹی کانفرنس سے کسانوں کو عالمی بہترین طریقوں سے آگاہی حاصل کرنے میں مدد ملے گی ۔

 

*************

 

 

 

ش ح – ش ر - س ب ۔ رض - م ش

 

U. No.10166



(Release ID: 1858687) Visitor Counter : 215