وزیراعظم کا دفتر

اتر پردیش کے جالون میں بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 16 JUL 2022 4:05PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی - جئے، بھارت ماتا کی - جئے، بھارت ماتا کی - جئے، بندیل کھنڈ کی جا ویدویاس کی جنم استھلی، اور ہمائی بائیسا مہارانی لکشمی بائی کی جا دھرتی پے، ہمیں بیر بیر بیرا آبے اَوسر ملو۔ ہمیں بھوتئی پرسنتا ہے، نمسکار!

اتر پردیش کے مقبول وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ جناب کیشو پرساد موریہ جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب برجیش پاٹھک جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی اور اسی علاقے کے رہنے والے جناب بھانوپرتاپ سنگھ جی، یوپی حکومت کے وزراء، ایم پی، ایم ایل اے، دیگر عوامی نمائندے، اور بندیل کھنڈ کی میری پیاری بہنو اور بھائیو،

یوپی کے لوگوں کو، بندیل کھنڈ کی تمام بہنوں اور بھائیوں کو، جدید بندیل کھنڈ ایکسپریس وے، اس کے لیے بہت بہت مبارکباد، بہت سی نیک خواہشات۔ یہ ایکسپریس وے بندیل کھنڈ کی شاندار روایت کے لیے وقف ہے۔ جس سرزمین نے لاتعداد سورما پیدا کیے، جہاں کے خون میں بھارت بھکتی بہتی ہے، جہاں کے بیٹے  - بیٹیوں کی بہادری اور محنت نے ہمیشہ ملک کا نام روشن کیا ہے، اُس بندیل کھنڈ کی دھرتی کو  آج ایکسپریس وے کا یہ تحفہ دیتے ہوئے اترپردیش کے رکن پارلیمنٹ کے ناطے، اتر پردیش کے عوامی نمائندے کے ناطے مجھے خاص خوشی مل رہی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

میں کئی دہائیوں سے اتر پردیش کا دورہ کررہا ہوں۔ یوپی کے آشیرواد سے آپ سب نے پچھلے آٹھ سال سے ملک کے پردھان سیوک کے طور پر کام کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ لیکن میں نے ہمیشہ دیکھا ہے، اگر اتر پردیش میں دو اہم چیزیں شامل کی جائیں، اگر اس کی کمی کو پورا کیا جائے، تو اترپردیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بڑی طاقت کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔ پہلا مسئلہ تھا یہاں کی خراب امن و امان کی صورت حال۔ جب میں پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ کیا حال تھا آپ جانتے ہیں۔ اور دوسری حالت تھی ہر لحاظ سے ناقص کنیکٹوٹی۔ آج یوگی آدتیہ ناتھ جی کی قیادت میں اترپردیش کے لوگوں نے مل کر اترپردیش کی پوری تصویر بدل دی ہے۔ یوگی جی کی زیر قیادت حکومت میں امن و امان کی صورت حال میں بھی بہتری آئی ہے اور کنکٹیوٹی بھی تیزی سے بہتر ہورہی ہے۔ آزادی کے بعد کی سات دہائیوں میں یوپی میں ٹریفک کے جدید ذرائع کے لئے جتنا کام ہوا، اس سے زیادہ کام آج ہورہا ہے۔ میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ ایسا ہو رہا ہے یا نہیں؟ یہ ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ آنکھوں کے سامنے نظر آتا ہے یا نظر نہیں آتا؟ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے سے چترکوٹ سے دہلی کا فاصلہ تقریباً 3-4 گھنٹے کم ہوا ہے، لیکن اس کا فائدہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ ایکسپریس وے نہ صرف یہاں کی گاڑیوں کو رفتار دے گا بلکہ یہ پورے بندیل کھنڈ کی صنعتی ترقی کو بھی تیز کرنے والا ہے۔ اس کے دونوں طرف، اس ایکسپریس وے کے دونوں طرف بہت سی صنعتیں قائم ہونے والی ہیں، یہاں اسٹوریج کی سہولیات، کولڈ اسٹوریج کی سہولیات بننے والی ہیں۔ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی وجہ سے اس علاقے میں زراعت پر مبنی صنعتیں لگانا بہت آسان ہوجائے گا، زرعی پیداوار کو نئی منڈیوں تک پہنچانا آسان ہوجائے گا۔ بندیل کھنڈ میں بن رہے ڈیفنس کوریڈور کو بھی اس سے بہت مدد ملے گی۔ یعنی یہ ایکسپریس وے بندیل کھنڈ کے کونے کونے کو ترقی، خود کے روزگار اور نئے مواقع سے بھی جوڑنے والا ہے۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا جب یہ مانا جاتا تھا کہ جدید ذرائع آمدورفت پر پہلا حق صرف بڑے بڑے شہروں کا ہے۔ ممبئی ہو، چنئی ہو، کولکاتہ ہو، بنگلورو ہو، حیدرآباد ہو، دہلی ہو، سب کچھ ان کو ہی ملے۔ لیکن اب حکومت بدل گئی ہے، مزاج بھی بدل گیا ہے اور یہ مودی ہے، یہ یوگی ہے، اب اس پرانی سوچ چھوڑکر، اسے پیچھے رکھ کر  ہم نئے انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ سال 2017 کے بعد سے اتر پردیش میں کنیکٹیوٹی کے جو کام شروع ہوئے ان میں بڑے شہروں کے ساتھ ہی چھوٹے شہروں کو بھی مساوی ترجیح دی گئی ہے۔ یہ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے چترکوٹ، باندہ، ہمیرپور، مہوبا، جالون، اوریا اور اٹاوہ سے ہوکر گزر رہا ہے۔ پوروانچل ایکسپریس وے لکھنؤ کے ساتھ ساتھ بارہ بنکی، امیٹھی، سلطان پور، ایودھیا، امبیڈکر نگر، اعظم گڑھ، مئو اور غازی پور سے بھی گزر رہا ہے۔ گورکھپور لنک ایکسپریس وے امبیڈکرنگر، سنت کبیرنگر اور اعظم گڑھ کو جوڑتا ہے۔ گنگا ایکسپریس وے میرٹھ، ہاپوڑ، بلند شہر، امروہہ، سنبھل، بدایوں، شاہجہاں پور، ہردوئی، اناؤ، رائے بریلی، پرتاپ گڑھ اور پریاگ راج کو جوڑنے کا کام کرے گا۔ دکھائی دیتا ہے کتنی بڑی طاقت پیدا ہو رہی ہے۔ اترپردیش کا ہر کونا نئے خوابوں کو لے کر، نئے عزائم کو لے کر اب تیز رفتاری سے دوڑنے کے لیے تیار ہوچکا ہے، اور یہی تو سب کا ساتھ ہے، سب کا وکاس ہے۔ کوئی پیچھے نہ رہے، سب مل کر آگے بڑھیں، اسی سمت میں ڈبل انجن والی حکومت مسلسل کام کر رہی ہے۔ یوپی کے چھوٹے اضلاع کو فضائی سروس سے جوڑنے کے لیے تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔ ماضی قریب میں، پریاگ راج، غازی آباد میں نئے ایئرپورٹ ٹرمینل بنائے گئے، کشی نگر میں نئے ایئرپورٹ کے ساتھ ہی نوئیڈا کے جیور میں ایک اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ پر کام چل رہا ہے۔ مستقبل میں یوپی کے کئی اور شہروں کو، وہاں بھی ہوائی روٹ سے جوڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسی سہولیات سے سیاحت کی صنعت کو بھی کافی تقویت ملتی ہے۔ اور آج جب میں یہاں اسٹیج پر آ رہا تھا، تو اس سے پہلے میں اس بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کا پرزنٹیشن دیکھ رہا تھا، ایک ماڈیول لگایا، وہ دیکھ رہا تھا، اور میں نے دیکھا کہ اس ایکسپریس وے کے بغل میں جو جو جگہیں ہیں وہاں پر کئی سارے قلعے ہیں، صرف جھانسی کا ایک قلعہ ہے، ایسا نہیں ہے، کئی سارے قلعے ہیں۔ آپ میں سے جو بیرون ملک کی دنیا کو جانتے ہیں وہ جانتے ہوں گے، یورپ کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں قلعوں کو دیکھنے کی ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت چلتی ہے اور دنیا بھر سے لوگ پرانے قلعوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ آج بندیل کھنڈ ایکسپریس وے بننے کے بعد میں یوگی جی کی حکومت سے کہوں گا کہ آپ بھی ان قلعوں کو دیکھنے کے لیے ایک شاندار سرکٹ ٹورازم بنائیے، دنیا بھر کے سیاح یہاں آئیں اور میرے بندیل کھنڈ کی اس طاقت کو دیکھیں۔ اتنا ہی نہیں، میں یوگی جی سے ایک اور گزارش کروں گا، آپ اترپردیش کے نوجوانوں کے لیے، اس بار جب سردی کا موسم شروع ہوجائے، موسم ٹھنڈی کا شروع ہوجائے تو قلعے پر چڑھنے کا مقابلہ منعقد کروائیں، اور روایتی راستے سے نہیں، مشکل سے مشکل راستہ طے کیجئے اور نوجوان کو بلائیے۔ کون جلدی سے جلدی چڑھتا ہے، کون قلعے پر سوار ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اتر پردیش کے ہزاروں نوجوان اس مقابلے سے جڑنے کے لیے آجائیں گے اور اس کی وجہ سے لوگ بندیل کھنڈ آئیں گے، رات کو قیام کریں گے، کچھ خرچ کریں گے، روزی روٹی کے لیے بہت بڑی طاقت کھڑی ہوجائے گی۔ ساتھیو، ایک ایکسپرے وے کتنے طرح کے کاموں کے مواقع کو جنم دے دیتا ہے۔

 ساتھیو،

آج جس طرح سے یوپی ڈبل انجن والی حکومت میں جدید ہو رہا ہے، یہ واقعی بے مثال ہے۔ جس یوپی میں، ذرا یاد رکھنا دوستو، میں جو کہہ رہا ہوں۔ یاد رکھوگے؟ یاد رکھو گے؟ ذرا ہاتھ اوپر کرکے بتاؤ، یاد رکھوگے؟ پکا یاد رکھوگے؟ بار بار لوگوں کو بتاؤ گے؟ تو یاد رکھئے، جس یوپی میں سریو نہر پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں 40 سال لگے، جس یوپی میں گورکھپور فرٹیلائزر پلانٹ 30 سال تک بند پڑا تھا، جس یوپی میں ارجن ڈیم پروجیکٹ کو مکمل ہونے میں 12 سال لگے، جس یوپی میں امیٹھی رائفل کارخانہ صرف ایک بورڈ لگا کرکے پڑا ہوا تھا۔ جس یوپی میں رائے بریلی ریل کوچ فیکٹری ڈبے نہیں بناتی تھی، صرف ڈبوں کو رنگ و روغن کرکے کام چلارہی تھی، اس یوپی میں اب انفرا اسٹرکچر کا کام اتنی سنجیدگی سے ہو رہا ہے کہ اس نے اچھی اچھی ریاستوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ دوستو، اب پورے ملک میں یوپی کی شناخت بدل رہی ہے۔ آپ کو فخر ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا ہے؟ آج یوپی کا نام روشن ہو رہا ہے، آپ کو فخر ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا ہے؟ اب پورا ہندوستان یوپی کی طرف بہت اچھی نگاہ سے دیکھ رہا ہے، آپ کو لطف آرہا ہے کہ نہیں آرہا ہے؟

اور ساتھیو،

بات صرف ہائی ویز یا ایئر ویز کی نہیں ہے۔ تعلیم کا میدان ہو، مینوفیکچرنگ کا میدان ہو، زراعت ہو، یوپی ہر میدان میں ترقی کررہا ہے۔ پچھلی حکومت کے دور میں یوپی میں ہر سال یہ بھی یاد رکھنا، رکھوگے؟ رکھوگے؟ ذرا ہاتھ اوپر کرکے بتاؤ، رکھوگے؟ سابقہ ​​حکومت کے دوران یوپی میں ہر سال اوسطاً 50 کلومیٹر ریل لائنیں دگنی ہوتی تھیں۔ کتنا؟ کتنے کلومیٹر؟ کتنے کلومیٹر؟ - پچاس۔ ہمارے آنے سے پہلے ریلوے لائن کو ڈبل کرنے کا کام 50 کلومیٹر۔ میرے اتر پردیش کے نوجوانو، مستقبل کیسے بناتے ہیں، آج اوسطاً 200 کلومیٹر کا کام ہورہا ہے۔ 200 کلومیٹر ریل لائن کو ڈبل کرنے کا کام جاری ہے۔ 2014 سے پہلے یوپی میں صرف 11000 کامن سروس سینٹر تھے۔ ذرا اعداد و شمار یاد رکھئے، کتنے؟ کتنے؟ 11 ہزار۔ آج یوپی میں ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ کامن سروس سینٹر کام کر رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار یاد رکھوگے؟ ایک وقت میں یوپی میں صرف 12 میڈیکل کالج ہوا کرتے تھے۔ اعداد و شمار یاد رہا، کتنے میڈیکل کالج؟ ذرا زور سے بتائیے، کتنے؟ 12 میڈیکل کالج۔ آج یوپی میں 35 سے زیادہ میڈیکل کالج ہیں اور 14 نئے میڈیکل کالجوں پر کام جاری ہے۔ مطلب کہاں 14 اور کہاں 50۔

 بھائیو اور بہنو،

آج ملک ترقی کے جس دھارے پر گامزن ہے، اس کے مرکز میں دو بڑے پہلو ہیں۔ ایک ہے ارادہ اور دوسرا ہے مریادا۔ ہم نہ صرف ملک کے حال کے لیے نئی سہولتیں پیدا کر رہے ہیں بلکہ ملک کے مستقبل کی تعمیر بھی کررہے ہیں۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے ذریعے، ہم 21ویں صدی کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہیں۔

 اور ساتھیو،

ترقی کے لیے ہماری جذبۂ خدمت ایسا ہے کہ ہم وقت کی مریادا کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ ہم وقت کی مریادا پر عمل کیسے کرتے ہیں، اس کی بے شمار مثالیں ہمارے اسی اترپردیش میں ہیں۔ کاشی میں وشوناتھ دھام کی تزئین کاری کا کام ہماری حکومت نے شروع کیا اور ہماری ہی حکومت نے اسے مکمل کرکے دکھایا۔ ہماری حکومت نے گورکھپور ایمس کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور اس کا افتتاح بھی اسی حکومت میں ہوا۔ دہلی - میرٹھ ایکسپریس وے کا سنگ بنیاد بھی ہماری حکومت نے رکھا اور اس کا افتتاح بھی ہماری حکومت میں ہوا۔ بندیل کھنڈ ایکسپریس وے بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس کا کام اگلے سال فروری میں مکمل ہونا تھا، لیکن یہ 7-8 ماہ پہلے ہی سروس کے لیے تیار ہے میرے دوستو۔ اور کورونا کے حالات کے باوجود کتنی دشواریاں ہیں، ہر خاندان جانتا ہے۔ ان مشکلات کے درمیان ہم نے یہ کام وقت سے پہلے کیا ہے۔ ایسے ہی کام سے ہر اہل وطن کو احساس ہوتا ہے کہ جس جذبے سے اس نے اپنا ووٹ دیا اس کا صحیح معنی میں احترام ہورہا ہے اور اس کا صحیح استعمال ہورہا ہے۔ میں اس کے لیے یوگی جی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔

 ساتھیو،

جب میں کسی سڑک کا افتتاح کرتا ہوں، کسی اسپتال کا افتتاح کرتا ہوں، کسی فیکٹری کا افتتاح کرتا ہوں تو میرے دل میں ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ میں ان ووٹروں کو عزت دے رہا ہوں جنہوں نے یہ حکومت بنائی ہے اور ملک کے سبھی ووٹرز کو سہولیات فراہم کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج پوری دنیا بھارت کی طرف بڑی امید سے دیکھ رہی ہے۔ ہم اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہے ہیں، اگلے 25 سالوں میں بھارت جس بلندی پر پہنچے گا اس کا روڈ میپ بنا رہے ہیں۔ اور آج جب میں بندیل کھنڈ کی سرزمین پر آیا ہوں تو جھانسی کی رانی لکشمی بائی کے علاقے میں آیا ہوں۔ یہاں سے، بہادروں کی اس سرزمین سے، میں ہندوستان کے چھ لاکھ سے بھی زیادہ گاؤوں کے لوگوں کو اپنی مخلصانہ دعائیں پیش کرتا ہوں۔ کہ آج ہم آزادی کا جو جشن منا رہے ہیں۔ اس کے لیے سیکڑوں برسوں تک ہمارے آباء و اجداد نے لڑائیاں لڑی ہیں، قربانیاں دی ہیں، اذیتیں جھیلی ہیں۔ جب 5 سال باقی ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ابھی سے منصوبہ بندی کریں، آنے والے مہینے میں 15 اگست تک ہر گاؤں میں بہت سے پروگرام ہونے چاہئیں۔ گاؤں مل کر پروگرام کریں، آزادی کا امرت مہوتسو منانے کی منصوبہ بندی کریں۔ بہادروں کو یاد کریں، قربانی دینے والوں کو یاد کریں، مجاہدین آزادی کو یاد کریں، ہر گاؤں میں نیا عزم لینے کا ایک ماحول بنے۔ میں بہادروں کی اس سرزمین سے آج تمام ہم وطنوں سے یہ گزارش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج بھارت میں ایسا کوئی بھی کام نہیں ہونا چاہئے جس کی بنیاد بھارت کے حال اور بہتر مستقبل کی آرزو سے وابستہ نہ ہو۔ ہم کوئی بھی فیصلہ کریں، کوئی بھی فیصلہ لیں، کوئی بھی پالیسی بنائیں، اس کے پیچھے سب سے بڑی سوچ یہی ہونی چاہیے کہ اس سے ملک کی ترقی میں مزید تیزی آئے گی۔ ہر وہ بات، جو ملک کو نقصان پہنچاتی ہو، ملک کی ترقی کو متاثر کرتی ہو، ہمیں اس سے ہمیشہ دور رہنا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھارت کو ترقی کا یہ بہترین موقع ملا ہے۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں اس عرصے میں ملک کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے کر اسے نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے، نیا بھارت بنانا ہے۔

 ساتھیو،

نئے بھارت کے سامنے ایک ایسا چیلنج بھی ہے جس پر اگر ابھی توجہ نہ دی گئی تو بھارت کے نوجوانوں کا، آج کی نسل کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ آپ کا آج گمراہ ہوجائے گا اور آپ کا آنے والا کل اندھیرے میں سمٹ جائے گا دوستو۔ اس لیے ابھی سے جاگنا ضروری ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں مفت کی ریوڑی بانٹ کر ووٹ لینے کا کلچر لانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ریوڑی کلچر ملک کی ترقی کے لیے بہت خطرناک ہے۔ ملک کے لوگوں اور خاص کر میرے نوجوانوں کو اس ریوڑی کلچر سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ریوڑی کلچر کے لوگ آپ کے لیے کبھی بھی نئے ایکسپریس وے، نئے ہوائی اڈے یا ڈیفنس کوریڈور نہیں بنائیں گے۔ ریوڑی کلچر کے لوگوں کو لگتا ہے کہ عوام الناس کو مفت ریوڑی بانٹ کر انہیں خرید لیں گے۔ ہمیں مل کر ان کی اس سوچ کو شکست دینا ہے، ملک کی سیاست سے ریوڑی کلچر کو ختم کرنا ہے۔

ساتھیو،

ریوڑی کلچر سے الگ ہم ملک میں سڑکیں بنا کر، نئے ریل روٹ بنا کر، لوگوں کی امنگوں کو پورا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ہم غریبوں کے لیے کروڑوں پکے مکان بنا رہے ہیں، کئی دہائیوں سے نامکمل آبپاشی کے منصوبے مکمل کررہے ہیں، چھوٹے بڑے کئی ڈیم بنا رہے ہیں، بجلی کے نئے کارخانے لگا رہے ہیں، تاکہ غریب، کسان کی زندگی آسان ہو اور نوجوانوں کا مستقبل اندھیروں میں نہ ڈوب جائے۔

ساتھیو،

اس کام میں محنت لگتی ہے، دن رات کام کرنا پڑتا ہے، عوام کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنا پڑتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ملک میں جہاں بھی ہماری ڈبل انجن والی حکومت ہے وہ ترقی کے لیے اتنی محنت کر رہی ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت مفت کی ریوڑی تقسیم کرنے کا شارٹ کٹ نہیں اپنا رہی ہے، ڈبل انجن والی حکومت ریاست کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔

اور ساتھیو،

آج میں آپ کو ایک اور بات بھی بتاؤں گا۔ ملک کی متوازن ترقی، چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں بھی جدید سہولیات کی رسائی، یہ کام بھی حقیقی معنوں میں سماجی انصاف کا کام ہے۔ جس مشرقی بھارت کے لوگوں کو، جس بندیل کھنڈ کے لوگوں کو دہائیوں تک سہولیات سے محروم رکھا گیا، آج جب وہاں جدید انفرا اسٹرکچر تعمیر ہو رہا ہے، تو سماجی انصاف بھی ہو رہا ہے۔ یوپی کے جن اضلاع کو پسماندہ مان کر انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تھا، وہاں جب ترقی ہورہی ہے، تو یہ بھی ایک طرح کا سماجی انصاف ہے۔ گاؤں گاؤں کو سڑکوں سے جوڑنے کے لیے تیزی سے کام کرنا، گھر گھر تک رسوئی گیس کا کنکشن پہنچانا، غریبوں کو پکے گھر فراہم کرنا، گھر گھر بیت الخلاء بنانا، یہ سارے کام بھی سماجی انصاف کو مضبوط کرنے والے قدم ہیں۔ ہماری حکومت کے سماجی انصاف کے کاموں سے بندیل کھنڈ کے لوگوں کو بھی بہت فائدہ ہورہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہماری حکومت بندیل کھنڈ کے ایک اور چیلنج کو کم کرنے کے لیے مسلسل کام کر رہی ہے۔ ہم ہر گھر تک پائپ سے پانی کی فراہمی کے لیے جل جیون مشن پر کام کر رہے ہیں۔ اس مشن کے تحت بندیل کھنڈ کے لاکھوں خاندانوں کو پانی کے کنکشن دیے گئے ہیں۔ ہماری ماؤں، ہماری بہنوں کو اس کا بہت فائدہ ہوا ہے، اس کی وجہ سے ان کی زندگی سے مشکلات کم ہوئی ہیں۔ ہم بندیل کھنڈ میں ندیوں کا پانی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی مسلسل کوششیں کررہے ہیں۔ رتولی ڈیم پروجیکٹ، بھوانی ڈیم پروجیکٹ اور مژگاؤں-چلی اسپرنکلر ایریگیشن پروجیکٹ انہی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ کین- بیتوا لنک پروجیکٹ کے لیے ہزاروں کروڑ روپے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ اس سے بندیل کھنڈ کے بہت بڑے حصے کی زندگی بدلنے والی ہے۔

ساتھیو،

میری بندیل کھنڈ کے ساتھیوں سے ایک اور گزارش بھی ہے۔ آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر ملک نے امرت سرووروں کی تعمیر کا عہد لیا ہے۔ بندیل کھنڈ کے ہر ضلع میں 75 امرت سروور بھی بنائے جائیں گے۔ یہ آبی تحفظ کے لیے، آنے والی نسلوں کے لیے بہت بڑا کام ہورہا ہے۔ آج میں آپ سب سے کہوں گا کہ اس نیک مقصد میں مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آئیں۔ امرت سروور کے لیے گاؤں گاؤں تار سروس مہم چلنی چاہئے۔

بھائیو اور بہنو،

بندیل کھنڈ کی ترقی میں بہت بڑی طاقت یہاں کی کاٹیج انڈسٹریز کا بھی ہے۔ آتم نربھر بھارت کے لئے ہماری حکومت کے ذریعہ اس کاٹیج روایت پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ میک ان انڈیا بھارت کی اسی کاٹیج روایت سے مضبوط ہونے والا ہے۔ آج میں آپ کو اور ہم وطنوں کو ایک مثال دینا چاہتا ہوں کہ کس طرح چھوٹی کوششیں بڑا اثر ڈالتی ہیں۔

ساتھیو،

بھارت، ہر سال کروڑوں روپے کے کھلونے دنیا کے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا رہا ہے۔ اب بتائیے کہ چھوٹے بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے کھلونے بھی باہر سے لائے جاتے تھے۔ جبکہ بھارت میں کھلونے بنانا تو خاندانی اور روایتی صنعت رہی ہے، خاندانی کاروبار رہا ہے۔ اس کے پیش نظر میں نے بھارت میں کھلونا صنعت سے نئے سرے سے کام کرنے کی درخواست کی تھی۔ لوگوں سے بھارتی کھلونوں کو خریدنے کی اپیل بھی کی تھی۔ اتنے کم وقت میں حکومت کی سطح پر جو کام کرنا ضروری تھا، وہ بھی ہم نے کیا۔ ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اور ہر ہندوستانی کو فخر ہوگا، میرے ملک کے لوگ سچی بات کو کیسے دل سے لیتے ہیں، اس کی یہ مثال ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بیرون ملک سے آنے والے کھلونوں کی تعداد کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔ میں ہم وطنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہی نہیں اب بھارت سے کھلونے بڑی تعداد میں بیرون ملک جانے لگے ہیں۔ اس سے کس کو فائدہ ہوا؟ ہمارے زیادہ تر کھلونا بنانے والے غریب خاندان، دلت خاندان، پسماندہ خاندان، قبائلی خاندان ہیں۔ ہماری خواتین کھلونے بنانے کے کام سے وابستہ رہتی ہیں۔ اس صنعت سے ہمارے ان سب لوگوں کو فائدہ ہوا ہے۔ جھانسی، چترکوٹ، بندیل کھنڈ میں تو کھلونوں کی بڑی خوش حال روایت رہی ہے۔ ان کی بھی ڈبل انجن کی حکومت کے ذریعے حوصلہ افزائی کی رہی ہے۔

ساتھیو،

سورماؤں کی سرزمین بندیل کھنڈ کے بہادروں نے کھیل کے میدان پر بھی فتح کا جھنڈا لہرایا ہے۔ ملک کا سب سے بڑا اسپورٹس اعزاز اب بندیل کھنڈ کے بیٹے میجر دھیان چند کے نام پر ہی ہے۔ دھیان چند جی نے جس میرٹھ میں کافی وقت گزارا تھا، وہاں پر ان کے نام سے ایک اسپورٹس یونیورسٹی بھی بنائی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہماری جھانسی کی ہی ایک بٹیا شیلی سنگھ نے بھی کمال کرکے دکھایا۔ ہمارے ہی بندیل کھنڈ کی بیٹی شیلی سنگھ نے لمبی چھلانگ میں نئے نئے ریکارڈ بنانے والی، شیلی سنگھ نے گزشتہ سال انڈر ٹوینٹی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ بھی جیتا ہے۔ بندیل کھنڈ ایسے نوجوان ٹیلنٹ سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا خوب موقع ملے، یہاں سے نقل مکانی بند ہو، یہاں جدید انفرا اسٹرکچر تعمیر ہو، اسی سمت میں ہماری حکومت کام کررہی ہے۔ یوپی ایسے ہی اچھی حکمرانی کی نئی پہچان کو مضبوط کرتا رہے، اسی خواہش کے ساتھ، آپ سبھی کو بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کے لئے پھر سے بہت بہت مبارکباد، اور پھر سے یاد دہانی کراتا ہوں کہ 15 اگست تک پورا مہینہ ہندوستان کے ہر گھر میں، ہر گاؤں میں آزادی کا جشن منایا جانا چاہئے،  شاندار طریقے سے منایا جانا چاہیے، آپ سب کو بہت بہت مبارک باد، بہت بہت شکریہ۔

پوری طاقت سے بولئے، بھارت ماتا کی  – جئے، بھارت ماتا کی – جئے، بھارت ماتا کی – جئے۔ بہت بہت شکریہ۔

 

******

 

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.7642

16.07.2022



(Release ID: 1842075) Visitor Counter : 225