وزیراعظم کا دفتر

’من کی بات‘ کی 90ویں کڑی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (26.06.2022)

Posted On: 26 JUN 2022 11:49AM by PIB Delhi

نئی دہلی،  26/جون 2022 ۔ میرے پیارے ہم وطنو، سلام۔ مجھے ’من کی بات‘ کے لیے آپ سب کی طرف سے بہت سے خطوط موصول ہوئے ہیں، سوشل میڈیا اور نمو ایپ پر بھی بہت سے پیغامات موصول ہوئے ہیں، میں اس کے لیے آپ کا بہت مشکور ہوں۔ اس پروگرام میں ہماری کوشش ہے کہ ہم ایک دوسرے کی متاثر کن کوششوں پر تبادلہ خیال کریں، عوامی تحریک کے ذریعے تبدیلی کی کہانی پورے ملک کو سنائیں۔ اس کڑی میں آج میں آپ سے ملک کی ایک ایسی عوامی تحریک پر بات کرنا چاہتا ہوں، جس کی ملک کے ہر شہری کی زندگی میں بہت اہمیت ہے۔ لیکن، اس سے پہلے، میں آج کی نسل کے نوجوانوں سے، 24-25 سال کے نوجوانوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، اور یہ سوال بہت سنجیدہ ہے، اور میرے سوال پر ضرور غور کریں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ کے والدین آپ کی عمر کے تھے تو ایک بار ان سے زندگی کا حق بھی چھین لیا گیا تھا! آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ناممکن ہے، لیکن میرے نوجوان دوستو! یہ ہمارے ملک میں ایک بار ہوا تھا۔ یہ برسوں پہلے سنہ انیس سو پچھتر کی بات ہے۔ جون کا وہی وقت تھا جب ایمرجنسی لگائی گئی تھی۔ اس میں ملک کے شہریوں سے تمام حقوق چھین لیے گئے تھے۔ ان حقوق میں سے ایک ’حق زندگی اور ذاتی آزادی‘ کا حق بھی تھا جو آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت تمام ہندوستانیوں کو دیا گیا ہے۔ اس وقت ہندوستان کی جمہوریت کو کچلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ملک کی عدالتیں، ہر آئینی ادارہ، پریس، سب کنٹرول میں تھے۔ سنسرشپ کا یہ حال تھا کہ منظوری کے بغیر کوئی چیز چھاپی نہیں جا سکتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب مشہور گلوکار کشور کمار نے حکومت کی تعریف کرنے سے انکار کیا تو ان پر پابندی لگا دی گئی۔ ریڈیو پر ان کی انٹری ہٹا دی گئی۔ لیکن بہت سی کوششوں، ہزاروں گرفتاریوں اور لاکھوں لوگوں پر مظالم کے بعد بھی ہندوستانی عوام کا جمہوریت پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا، بالکل نہیں ہوا۔ ہندوستان کے لوگوں کے لیے جمہوریت کی جو قدریں صدیوں سے چلی آرہی ہیں، جمہوری جذبہ جو ہماری رگوں میں ہے، آخرکار اس کی فتح ہوئی ہے۔ ہندوستان کے عوام نے جمہوری طریقے سے ایمرجنسی ہٹاکر جمہوریت قائم کی۔ آمرانہ ذہنیت، آمرانہ رجحان کو جمہوری طریقے سے شکست دینے کی ایسی مثال پوری دنیا میں ملنا مشکل ہے۔ ایمرجنسی کے دوران، ہم وطنوں کی جدوجہد کا، گواہ رہنے کا، شراکت دار رہنے کا اعزاز مجھے بھی حاصل ہوا - جمہوریت کے ایک سپاہی کے طور پر۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کر رہا ہے، امرت مہوتسو منا رہا ہے، ہمیں ایمرجنسی کے اس خوفناک دور کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ آنے والی نسلوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ امرت مہوتسو نہ صرف سیکڑوں سالوں کی غلامی سے آزادی کی فتح کی داستان کا احاطہ کرتا ہے، بلکہ آزادی کے بعد 75 سال کے سفر کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ تاریخ کے ہر اہم مرحلے سے سبق سیکھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اپنی زندگی میں آسمان سے متعلق تصورات نہ کی ہوں۔ بچپن میں ہر کسی کو آسمان کے چاند اور ستارے، ان کی کہانیاں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ نوجوانوں کے لیے آسمان کو چھونا خوابوں کو سچ کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ آج جب ہمارا ہندوستان بہت سارے میدانوں میں کامیابی کے آسمان کو چھو رہا ہے تو آسمان یا خلا اس سے کیسے اچھوتے رہ ​​سکتے ہیں! پچھلے کچھ سالوں میں ہمارے ملک میں خلائی شعبے سے متعلق کئی بڑے کام ہوئے ہیں۔ ملک کی ان کامیابیوں میں سے ایک اِن- اسپیس نامی ایجنسی کا قیام ہے۔ ایک ایجنسی جو خلائی شعبے میں ہندوستان کے نجی شعبے کے لیے نئے مواقع کو فروغ دے رہی ہے۔ اس آغاز نے خاص طور پر ہمارے ملک کے نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ مجھے کئی نوجوانوں کی طرف سے اس سے متعلق پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں۔ کچھ دن پہلے جب میں اِن- اسپیس کے ہیڈ کوارٹر کا افتتاح کرنے گیا تو میں نے بہت سے نوجوان اسٹارٹ اپس کے خیالات اور جوش کو دیکھا۔ میں نے بھی کافی دیر تک ان سے بات کی۔ جب آپ ان کے بارے میں جانیں گے تو آپ بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں گے، مثال کے طور پر خلائی اسٹارٹ اپس کی تعداد اور رفتار کو دیکھیں۔ چند سال پہلے تک، ہمارے ملک میں، خلائی شعبے میں، کسی نے اسٹارٹ اپس کے بارے میں سوچا تک نہیں تھا۔ آج ان کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ یہ تمام اسٹارٹ اَپس ایسے آئیڈیاز پر کام کر رہے ہیں، جن کے بارے میں یا تو پہلے سوچا بھی نہیں گیا تھا، یا پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، چنئی اور حیدرآباد میں دو اسٹارٹ اپس ہیں –  اگنی کول اور اسکائی روٹ! یہ اسٹارٹ اپس ایسی لانچ گاڑیاں تیار کررہے ہیں جو چھوٹے پے لوڈ کو خلا میں لے جائیں گی۔ اس کی وجہ سے خلائی لانچنگ کی لاگت کا تخمینہ بہت کم ہونے کا اندازہ ہے۔ اسی طرح حیدرآباد کا ایک اور اسٹارٹ اپ، دھرو اِسپیس، سیٹلائٹ ڈیپلائر اور سیٹلائٹس کے لیے ہائی ٹیکنالوجی سولر پینلز پر کام کر رہا ہے۔ میں ایک اور خلائی اسٹارٹ اپ دگنترا کے تنویر احمد سے بھی ملا تھا، جو خلا کے کچرے کی نقشہ بندی کی کوشش کررہے ہیں۔ میں نے انھیں ایک چیلنج بھی دیا ہے، کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی پر کام کریں، جس سے خلا کے کچرے کے نپٹارے کا حل نکالا جاسکے۔ دگنترا اور دھرو اِسپیس دونوں 30 جون کو اسرو کی لانچ وہیکل سے اپنا پہلا لانچ کرنے جا رہے ہیں۔ اسی طرح بنگلور میں واقع خلائی اسٹارٹ اپ ایسٹروم کی بانی نیہا بھی ایک حیرت انگیز آئیڈیا پر کام کررہی ہیں۔ یہ اسٹارٹ اپ ایسے فلیٹ انٹینا بنا رہا ہے جو نہ صرف چھوٹے ہوں گے بلکہ ان کی قیمت بھی بہت کم ہوگی۔ اس ٹیکنالوجی کی مانگ پوری دنیا میں ہوسکتی ہے۔

ساتھیو، اِن- سپیس کے پروگرام میں، میری ملاقات مہسانہ کی ایک اسکول کی طالبہ بیٹی تنوی پٹیل سے بھی ہوئی۔ وہ ایک بہت ہی چھوٹے سیٹلائٹ پر کام کررہی ہے، جو اگلے چند مہینوں میں خلا میں بھیجا جانے والا ہے۔ تنوی نے مجھے گجراتی زبان میں اپنے کام کے بارے میں بتایا۔ تنوی کی طرح ملک کے تقریباً ساڑھے سات سو اسکولی طلباء امرت مہوتسو میں ایسے 75 سیٹلائٹس پر کام کر رہے ہیں اور یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طلباء ملک کے چھوٹے شہروں سے ہیں۔

ساتھیو، یہ وہی نوجوان ہیں، جن کے ذہن میں چند سال پہلے خلائی شعبے کی تصویر ایک خفیہ مشن کی طرح تھی، لیکن، ملک نے خلائی اصلاحات کیں، اور وہی نوجوان اب اپنا سیٹلائٹ لانچ کر رہے ہیں۔ جب ملک کا نوجوان آسمان کو چھونے کے لئے تیار ہے تو پھر ہمارا ملک کیسے پیچھے رہ سکتا ہے؟

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں، اب ایک ایسے موضوع پر بات کرتے ہیں جو آپ کو پرجوش بنائے گا اور متاثر کرے گا۔ اولمپکس کے بعد بھی وہ ایک کے بعد ایک کامیابی کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔نیرج نے فن لینڈ میں پاو ونورمی گیمز میں چاندی کا تمغہ جیتا۔ یہی نہیں، انھوں نے اپنے ہی جیویلن تھرو کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ نیرج نے ایک بار پھر کورتانے گیمز میں طلائی تمغہ جیت کر ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔ انھوں نے یہ گولڈ ایسے حالات میں جیتا جب وہاں کا موسم بھی بہت خراب تھا۔ یہ ہمت آج کے نوجوانوں کی پہچان ہے۔ اسٹارٹ اپس سے لے کر کھیلوں کی دنیا تک، ہندوستان کے نوجوان نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔حال ہی میں منعقدہ کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں ہمارے کھلاڑیوں نے بھی کئی ریکارڈ بنائے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ان گیمز میں کل 12 ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں- اتنا ہی نہیں، خواتین کھلاڑیوں کے نام 11 ریکارڈز درج ہوچکے ہیں۔ منی پور کی ایم مارٹینا دیوی نے ویٹ لفٹنگ میں آٹھ ریکارڈ بنائے ہیں۔

اسی طرح سنجنا، سوناکشی اور بھاؤنا نے بھی مختلف ریکارڈ بنائے ہیں۔ اپنی محنت سے ان کھلاڑیوں نے بتایا ہے کہ آنے والے وقت میں بین الاقوامی کھیلوں میں ہندوستان کی ساکھ کتنی بڑھنے والی ہے۔ میں ان تمام کھلاڑیوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

ساتھیو، کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کی ایک اور خاص بات سامنے آئی ہے۔اس بار بھی بہت سے ایسی صلاحیتیں سامنے آئی ہیں، جن کا تعلق بہت ہی عام گھرانوں سے ہیں۔ان کھلاڑیوں نے اپنی زندگی میں بہت جدوجہد کی ہے اور کامیابی کے اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ان کی کامیابی میں ان کے خاندان اور ان کے والدین کا بھی بڑا کردار ہے۔

70 کلومیٹر سائیکلنگ میں گولڈ میڈل جیتنے والے سری نگر سے تعلق رکھنے والے عادل الطاف کے والد ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں، لیکن انھوں نے اپنے بیٹے کے خوابوں کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، سر فخر سے بلند ہوگیا۔ دھنش کے والد بھی ایک سادہ کارپینٹر ہیں۔سانگلی کی بیٹی کاجول سرگار، کے والد چائے بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ کاجول اپنے والد کے کام میں ہاتھ بھی بٹاتی تھی اور ویٹ لفٹنگ کی پریکٹس بھی کرتی تھی۔ ان کی اور ان کے گھر والوں کی یہ محنت رنگ لائی اور کاجول نے ویٹ لفٹنگ میں خوب تعریفیں حاصل کیں۔روہتک کی تنو نے بھی ایسا ہی کرشمہ کیا ہے۔تنو کے والد راجبیر سنگھ روہتک میں اسکول بس ڈرائیور ہیں۔تنو نے کشتی میں گولڈ میڈل جیت کا اپنا اور اپنے خاندان کا، اپنے والد کا خوابسچ کرکے دکھایا ہے۔

ساتھیو، کھیلوں کی دنیا میں اب ہندوستانی کھلاڑیوں کا دبدبہ تو بڑھ ہی رہا ہے، ساتھ ہی ہندوستانی کھیلوں کی ایک نئی شناخت بھی بن رہی ہے، جیسے کہ اس بار کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں اولمپک میں شامل ہونے والے مقابلوں کے علاوہ پانچ  دیسی کھیلوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، یہ پانچ کھیل ہیں- گتکا، تھانگ تا، یوگاسن، کلریپایٹو اور ملّ کھمب۔

ساتھیو، بھارت میں ایک ایسے کھیل کا بین الاقوامی ٹورنامنٹ ہونے جا رہا ہے، جس کھیل کا جنم ہمارے اپنے ہی ملک میں صدیوں پہلے پیدا ہوا تھا، بھارت میں ہوا تھا، یہ 28 جولائی سے شروع ہونے والا شطرنج اولمپیاڈ ہے۔ اس بار شطرنج اولمپیاڈ میں 180 سے زائد ممالک حصہ لے رہے ہیں۔کھیل اور فٹنس کی ہماری آج کی بحث ایک اور نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے- یہ نام ہے تلنگانہ کی کوہ پیما پورنا مالاوتھ کا۔پورنا نے ’سیوین سمٹس چیلنج‘ کو مکمل کرکے کامیابی کا ایک اور پرچم لہرایا ہے۔ سیون سمٹس چیلنج یعنی دنیا کی سات سب سے مشکل اور بلند پہاڑیوں پر چڑھنے کا چیلنج۔ پورنا نے اپنے بلند حوصلوں کے ساتھ شمالی امریکہ کی سب سے بلند چوٹھی ’ماؤنٹ دینالی‘ کی کوہ پیمائی مکمل کرکے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔پورنا بھارت کی وہی بیٹی ہے جس نے صرف 13 سال کی عمر میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا تھا۔

ساتھیو، جب کھیل کی بات آتی ہے، تو آج میں متالی راج کے بارے میں بھی بات کرنا چاہوں گا، جو ہندوستان کی سب سے باصلاحیت کرکٹرز میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے اسی مہینے کرکٹ کو خیرباد کہنے کا اعلان کیا ہے، جس نے کئی کھیل شائقین کو جذبات سے مغلوب کردیا ہے۔ متالی نہ صرف ایک غیر معمولی کھلاڑی رہی ہیں، بلکہ بہت سے کھلاڑیوں کے لیے ایک تحریک بھی رہی ہیں۔ میں متالی کو ان کے مستقبل کے لئے ڈھیر ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ’من کی بات‘ میں ہم ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ یعنی کچرے سے حصول دولت  سے وابستہ کامیاب کوششوں پر بات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال میزورم کی راجدھانی آئیزول ہے۔ آئیزول میں ایک خوبصورت ندی ’چٹے لوئی‘ ہے، جو برسوں کی عدم توجہی کے باعث گندگی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ اس ندی کو بچانے کی کوشش گزشتہ چند سالوں سے شروع ہوئی ہے۔ اس کے لیے مقامی ایجنسیاں، رضاکار تنظیمیں اور مقامی لوگ مل کر سیو چٹے لوئی ایکشن پلان بھی چلا رہے ہیں۔ اس ندی کی صفائی مہم نے کچرے سے دولت کے حصول کا موقع بھی پیدا کیا ہے۔ دراصل یہ ندی اور اس کے کنارے پلاسٹک اور پولی تھین کے کچرے سے بھرے پڑے تھے۔ ندی کو بچانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے اس پولی تھین یعنی دریا سے نکلنے والے کچرے سے سڑک بنانے کا فیصلہ کیا، میزورم کے ایک گاؤں میں ریاست کی پہلی پلاسٹک سڑک بنائی گئی، یعنی صفائی بھی اور ترقی بھی۔

ساتھیو، ایسی ہی ایک کوشش پڈوچیری کے نوجوانوں نے بھی اپنی رضاکارانہ تنظیموں کے ذریعے شروع کی ہے۔ پڈوچیری سمندر کے کنارے واقع ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کے ساحلوں اور سمندر کی خوبصورتی کو دیکھنے آتی ہے۔ لیکن، پلاسٹک کی وجہ سے آلودگی پڈوچیری کے سمندری ساحل پر بھی بڑھ رہی تھی، اس لیے اپنے سمندر، ساحلوں اور ماحولیات کو بچانے کے لیے یہاں کے لوگوں نے ’ری سائیکلنگ فار لائف‘ مہم شروع کی ہے۔ آج، پڈوچیری کے کرائیکل میں ہر روز ہزاروں کلو گرام کچرا جمع کیا جاتا ہے اور اسے الگ الگ کیا جاتا ہے۔ اس میں جو آرگینک کچرا ہوتا ہے اس سے کھاد بنائی جاتی ہے، باقی دوسری چیزوں کو الگ کرکے ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی کوششیں نہ صرف متاثر کن ہیں، بلکہ سنگل یوز پلاسٹک کے خلاف ہندوستان کی مہم کو بھی تقویت دیتی ہیں۔

ساتھیو، اس وقت جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، ہماچل پردیش میں ایک انوکھی سائیکلنگ ریلی بھی نکل رہی ہے۔ میں آپ کو اس بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ سائیکل سواروں کا ایک گروپ صفائی کا پیغام لے کر شملہ سے منڈی کے لئے نکلا ہے۔ یہ لوگ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر کا یہ فاصلہ پہاڑی سڑکوں پر صرف سائیکل چلاکر پورا کریں گے۔ اس گروپ میں بچے بھی ہیں اور بوڑھے بھی۔ اگر ہمارا ماحول صاف ستھرا ہو، ہمارے پہاڑ اور دریا، ہمارے سمندر صاف رہیں تو ہماری صحت بھی بہتر ہوتی جاتی ہے۔ آپ مجھے ایسی کوششوں کے بارے میں لکھتے رہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے ملک میں مانسون کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں بارش بڑھ رہی ہے۔ یہ وقت ’پانی‘ اور ’پانی کے تحفظ‘ کے لیے خصوصی کوششیں کرنے کا بھی ہے۔ ہمارے ملک میں صدیوں سے یہ ذمہ داری معاشرے نے مل کر اٹھائی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، ’من کی بات‘ میں ہم نے ایک بار اسٹیپ ویلس یعنی باوڑیوں کی وراثت پر بات کی تھی۔ باوڑی ان بڑے کنوئیں کو کہتے ہیں جن تک سیڑھیوں سے  اترکر پہنچتے ہیں۔ راجستھان کے اودے پور میں ایسی ہی سیکڑوں سال پرانی ایک باوڑی ہے – ’سلطان کی باوڑی‘۔ اسے راؤ سلطان سنگھ نے تعمیر کروایا تھا، لیکن نظر انداز ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ جگہ ویران ہوتی گئی اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی۔ ایک دن کچھ نوجوان اسی طرح گھومتے پھرتے اس سیڑھی پر پہنچے اور اس کی حالت دیکھ کر بہت دکھی ہوئے۔ ان نوجوانوں نے اسی لمحے سلطان کی باوڑی کی تصویر اور تقدیر بدلنے کا عزم کیا۔ انھوں نے اپنے اس مشن کو’سلطان سے سر- تان‘ کا نام دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سر-تان  کیا ہے؟ درحقیقت ان نوجوانوں نے اپنی کاوشوں سے نہ صرف اس باوڑی کا کایاکلپ کیا بلکہ اسے موسیقی کے سر اور تان سے بھی جوڑ دیا ہے۔ سلطان کی باوڑی کی صفائی اور سجاوٹ کے بعد وہاں سُر اور سنگیت کا پروگرام ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کا اتنا چرچا ہے کہ بیرون ملک سے بہت سے لوگ اسے دیکھنے آنے لگے ہیں۔ اس کامیاب کوشش کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ مہم شروع کرنے والے نوجوان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ اتفاق سے اب سے چند دن بعد یکم جولائی کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس ڈے ہے۔ میں ملک کے تمام چارٹرڈ اکاؤنٹٹس کو پیشگی مبارکباد دیتا ہوں۔ ہم اپنے آبی ذخائر کو موسیقی اور دیگر سماجی پروگراموں سے جوڑکر ان کے بارے میں بیداری کا اسی طرح کا احساس پیدا کرسکتے ہیں۔ پانی کا تحفظ دراصل زندگی کا تحفظ ہے۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ آج کل کتنے ’ریور فیسٹیول‘ ہونے لگے ہیں۔ آپ کے شہروں میں بھی اس طرح کے جو بھی آبی ذخائر ہیں، وہاں کچھ نہ کچھ پروگرام ضرور کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمارے اپنشدوں کا ایک جیون منتر ہے – ’چریوتی-چریوتی-چریوتی‘ – آپ نے بھی اس منتر کو ضرور سنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے - چلتے رہو، چلتے رہو۔ یہ منتر ہمارے ملک میں بہت مقبول اس لئے ہے، کیونکہ مسلسل چلتے رہنا، متحرک بنے رہنا ہماری فطرت کا حصہ ہے۔ بحیثیت قوم ہم ہزاروں سالوں پر محیط ترقی کے سفر کے ذریعے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ایک معاشرے کے طور پر، ہم ہمیشہ نئے خیالات، نئی تبدیلیوں کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ہماری ثقافتی حرکیات اور سفر نے اس میں بہت تعاون کیا ہے۔ اسی لیے ہمارے رشیوں منیوں نے تیرتھ یاترا جیسی مذہبی ذمہ داریاں ہمیں سونپی تھیں۔ ہم سب الگ الگ تیرتھ یاتراؤں پر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ اس بار چاردھام یاترا میں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً مختلف دیو یاترائیں بھی ہوتی ہیں جن میں نہ صرف عقیدت مند بلکہ ہمارے بھگوان بھی یاترا پر نکلتے ہیں۔ ابھی کچھ دنوں میں یکم جولائی سے بھگوان جگن ناتھ کی مشہور یاترا شروع ہونے والی ہے۔ اڑیسہ میں پوری کی یاترا سے ملک کا ہر باشندہ واقف ہے۔ لوگوں کی کوشش ہے کہ انہیں اس موقع پر پوری جانے کی سعادت حاصل ہو۔ دوسری ریاستوں میں بھی جگن ناتھ یاترا بڑے دھوم دھام سے نکالی جاتی ہے۔ بھگوان جگن ناتھ یاترا اساڑھ مہینے کی دویتیا سے شروع ہوتی ہے۔ ہماری کتابوں میں ’آشا ڈھسیہ  دوی تیے دوسے--- رتھ یاترا‘، سنسکرت کے اشلوکوں میں اس طرح کی تفصیل ملتی ہے۔ ہر سال گجرات کے احمد آباد میں اساڑھ دویتیہ سے رتھ یاترا نکلتی ہے۔ میں گجرات میں تھا، تو مجھے بھی ہر سال اس یاترا میں خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔ اساڑھ دویتیہ، جسے اساڑھی بج بھی کہا جاتا ہے، اس دن سے ہی کچھ کا نیا سال بھی شروع ہوتا ہے۔ میں اپنے تمام کچھی بھائیوں اور بہنوں کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتا ہوں۔ میرے لیے یہ دن بھی بہت خاص ہے۔  مجھے یاد ہے، اساڑھ دویتیہ سے ایک دن پہلے، یعنی اساڑھ کی پہلی تاریخ کو، ہم نے گجرات میں ایک سنسکرت اُتسو کی شروعات کی تھی، جس میں سنسکرت زبان میں گیت، سنگیت اور ثقافتی پروگرام ہوتے ہیں۔ اس تقریب کا نام ہے – ’آشا ڑھیہ پرتھم دیوس‘۔ اس تہوار کو یہ خاص نام دینے کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے۔ دراصل سنسکرت کے عظیم شاعر کالیداس نے میگھدوتم کو اساڑھ کے مہینے سے ہی بارش کی آمد پر میگھ دوتم لکھا تھا۔ میگھ دوتم میں ایک اشلوک ہے–آشاڑھیہ پرتھم دیوسے میگھم، آشی لشٹ سانم، یعنی اساڑھ کے پہلے دن پہاڑ کی چوٹیوں سے لپٹے ہوئے بادل۔ یہی اشلوک اس تقریب کا بنیاد بنا۔

ساتھیو، احمد آباد ہو یا پوری، بھگوان جگن ناتھ اپنی اس یاترا کے ذریعے ہمیں بہت گہرے انسانی پیغامات دیتے ہیں۔ بھگوان جگن ناتھ جگت کے مالک تو ہیں ہی لیکن ان کی یاترا میں غریبوں، محروموں کی خصوصی شرکت ہوتی ہے۔ بھگوان بھی معاشرے کے ہر طبقے اور فرد کے ساتھ چلتے ہیں۔  ایسے ہی ہمارے ملک میں جتنی بھی یاترائیں ہوتی ہیں ان میں غریب اور امیر، اونچ نیچ جیسی کوئی تفریق نظر نہیں آتی۔ ہر طرح کی تفریق سے اوپر اٹھ کر، یاترا ہی سب سے مقدم ہوتی ہے۔ جیسے کہ مہاراشٹر میں پنڈھرپور کی یاترا کے بارے میں آپ نے ضرور سنا ہوگا۔ پنڈھرپور کی یاترا میں نہ کوئی بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا ہوتا ہے۔ ہر کوئی وارکری ہوتا ہے، بھگوان وٹھل کا سیوک ہوتا ہے۔ ابھی 4 دن بعد ہی 30 جون سے امرناتھ یاترا بھی شروع ہونے جا رہی ہے۔ پورے ملک سے عقیدت مند امرناتھ یاترا کے لیے جموں و کشمیر پہنچتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے مقامی لوگ اس یاترا کی ذمہ داری یکساں عقیدت کے ساتھ لیتے ہیں، اور یاتریوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

ساتھیو، سبریمالا یاترا کی جنوب میں بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ سبریمالا پہاڑیوں پر بھگوان ایپّا کے درشن کرنے کے لئے یہ یاترا تب سے چل رہی ہے جب یہ راستہ پوری طرح جنگلات سے گھرا ہوا تھا۔ آج بھی لوگ جب ان یاتراؤں پر جاتے ہیں تو اسے مذہبی رسومات سے لے کر قیام تک، غریبوں کے لئے کتنے مواقع پیدا ہوتے ہیں، یعنی یہ یاترائیں ہمیں براہ راست غریبوں کی خدمت کا موقع فراہم کرتی ہیں اور غریبوں کے لئے فائدہ مند ہوتی ہیں۔ اسی لئے تو ملک بھی اب روحانی یاتراؤں میں عقیدت مندوں کے لئے سہولت بڑھانے کے لئے بہت کوششیں کر رہا ہے۔ اگر آپ بھی اس طرح کی یاترا پر جائیں گے تو آپ کو روحانیت کے ساتھ ساتھ ایک بھارت - شریسٹھ بھارت کے درشن بھی ہوں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ’من کی بات‘ کے ذریعے آپ سب کے ساتھ جڑنا ایک بہت ہی خوشگوار تجربہ رہا۔ ہم نے ہم وطنوں کی کامیابیوں اور حصول یابیوں پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سب کے درمیان ہمیں کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ آج ملک میں ویکسین کا ایک جامع حفاظتی ڈھال موجود ہے۔ ہم ویکسین کی 200 کروڑ خوراک کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ ملک میں تیزی سے احتیاطی خوراک بھی لگائی جا رہی ہیں۔ اگر آپ کی دوسری خوراک کے بعد احتیاطی خوراک کا وقت ہوگیا ہے، تو آپ یہ تیسری خوراک ضرور لیں۔ اپنے خاندان کے افراد خصوصاً بوڑھوں کو بھی احتیاطی خوراک لگوائیں۔ ہمیں ہاتھوں کی صفائی اور ماسک جیسی ضروری احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرنی ہیں۔ بارش کے موسم میں آس پاس کی گندگی سے ہونے والی بیماریوں کے تئیں بھی ہمیں محتاط رہنا ہے۔ آپ سب چوکس رہیں، صحت مند رہیں اور ایسی ہی توانائی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں۔ ہم اگلے مہینے پھر ملیں گے، تب تک کے لئے، بہت بہت شکریہ، نمسکار۔

 

******

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.6908



(Release ID: 1837094) Visitor Counter : 247