وزیراعظم کا دفتر

راج بھون ، ممبئی میں جل بھوشن بلڈنگ اورانقلابیوں سے متعلق گیلری کے افتتاح کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کامتن

Posted On: 14 JUN 2022 8:14PM by PIB Delhi

مہاراشٹرکے گورنر جناب بھگت سنگھ کوشیاری جی ، وزیراعلیٰ جناب اودے ٹھاکرے جی ، نائب وزیراعلیٰ جناب اجیت پوارجی ، جناب اشوک جی ، اپوزیشن کے لیڈرجناب دیویندرفڑنویس جی ، یہاں موجود دیگر معزز شخصیات ، خواتین وحضرات ، آج وٹ پورنیمابھی ہے اور سنت کبیر کی جینتی بھی ہے ۔ سبھی اہل وطن کو میں بہت بہت مبارکباد دیتاہوں ۔

एका अतिशय चांगल्या कार्यक्रमासाठी, आपण आज सारे एकत्र आलो आहोत। स्वातंत्र्य-समरातिल, वीरांना समर्पित क्रांतिगाथा, ही वास्तु समर्पित करताना, मला, अतिशय आनंद होतो आहे।

ساتھیو،

مہاراشٹرکا یہ راج بھون گذشتہ دہائیوں میں کئی جمہوری واقعات کا  گواہ رہاہے ۔ یہ ان  سنکلپوں کابھی گواہ رہاہے جو آئین  اور ملک کے مفاد میں یہاں حلف کے طورپرلئے گئے ۔ اب یہاں جل بھوشن بلڈنگ کا اورراج بھون میں قائم انقلابیوں سے متعلق گیلری کا افتتاح ہواہے ۔مجھے گورنر کی رہائش گاہ اور دفتر کے دوارپوجن میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا۔

یہ نئی عمارت مہاراشٹرکے سبھی لوگوں کے لئے ، مہاراشٹرکی گورننس کے لئے نئی توانائی دینے والا ہو ، اسی طرح گورنرصاحب نے کہاکہ یہ راج بھون نہیں ، لوک بھون ہے ، وہ صحیح معنوں میں عوام کے لئے ایک امید کی کرن بن کر ابھرے گا ، ایسامیرا مکمل یقین ہے ۔ اوراس اہم موقع کے لئے یہاں کے سبھی بھائی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ کرانتی گاتھا کے نرمان سے جڑے مورخ وکرم سمپت جی اوردوسرے سبھی ساتھیوں کا بھی میں استقبال کرتاہوں ۔

ساتھیو ،

میں راج بھون میں پہلے بھی کئی بارآچکاہوں ۔ یہاں کئی بار قیام بھی ہواہے ،مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس عمارت کی اتنی قدیم تاریخ کو ، اس کے آرٹ کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں ، جدت پسندی کا ایک خاکہ اپنا یاہے اس میں مہاراشٹرکی عظیم روایت کے مطابق شوریہ ، آستھا، ادھیاتم اور جدوجہدآزادی میں اس مقام کے رول کے بھی دیدارہوتے ہیں۔ یہاں سے وہ جگہ زیادہ دورنہیں ہے ، جہاں سے پوجیہ باپونے بھارت چھوڑو تحریک کاآغاز کیاتھا ۔ اس بھون نے آزادی کے وقت غلامی کی علامت کواترتے اور ترنگے کو شان سے لہراتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اب جو یہ نئی تعمیر ہوئی ہے ، آزادی کے ہمارے انقلابیوں کو جو یہاں جگہ ملی ہے ، اس سے قوم پرستی کی بنیاد مزید مستحکم ہوگی ۔

ساتھیو،

آج کی تقریب اس لئے بھی اہم ہے کہ کیونکہ ملک اپنی آزادی کے 75سال ، آزادی کا امرت مہوتسومنارہاہے ۔یہ وہ لمحہ ہے جب ملک کی آزادی ، ملک کی ترقی میں تعاون دینے والے ہرویر، ویرانگنا ،ہرسینانی ، ہرعظیم شخص ، ان کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے ۔مہاراشٹرنے تو کئی شعبوں میں ملک کو تحریک دی ہے ۔ اگرہم سماجی انقلاب کی بات کریں تو جگت گرو شری سنت تکارام مہاراج سے لے کر باباصاحب امبیڈکرتک سماجی مصلحین کی ایک انتہائی متمول وراثت ہے ۔

یہاں آنے سے پہلے میں دیہومیں تھا ، جہاں سنت تکارام شلا مند رکاافتتاح  کا مجھے موقع ملا۔مہاراشٹرمیں سنت گیانیشور ، سنت نامدیو، سمرتھ رام داس ، سنت چوکھامیلہ جیسے سنتوں  نے ملک کو قوت عطاکی ہے ۔ اگرسوراج کی بات کریں تو چھترپتی شیواجی مہاراج اور چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی آج بھی ہربھارتی میں قوم پرستی کے جذبے کو مزید قوت عطاکرتی ہے ۔ جب آزادی کی بات آتی ہے تو مہاراشٹرنے تو ایسے بے شمار ویرسینانی دیئے ، جنھوں نے اپنا سب کچھ جنگ آزادی میں قربان کردیا۔ آج دربارہال سے مجھے  وسیع سمندرنظرآرہاہے ، توہمیں مجاہد آزادی ، ویرونائک دامودرساورکر جی کی شجاعت  یادآتی ہے ۔ انھوں نے کیسے ہرتکلیف کو آزادی کے شعور میں بدل دیا ۔ وہ ہرنسل کو تحریک دینے والا ہے ۔

ساتھیو ،

جب ہم بھارت کی آزادی کی بات کرتے ہیں ، توشعوری یاغیرشعوری طورپر  اسے کچھ واقعات تک محدود کردیتے ہیں ۔جب کہ ہندوستان کی آزادی میں بے شمار لوگوں کا مجاہدہ اورریاضت شامل رہی ہے ۔ مقامی سطح پرواقع نے والے  مختلف حادثات کا مجموعی اثرملک پرپڑا تھا۔ ذرائع الگ تھے لیکن سنکلپ ایک تھا۔ لوک مانیہ تلک نے اپنے ذرائع سے ،  ان ہی کی ترغیب پانے والے چاپیکر بھائیوں اپنے طریقے سے آزادی کی راہ ہموارکی ۔

واسودیو بلونت فڑکے  نے اپنی نوکری چھوڑ کر مسلح انقلاب کی راہ اپنائی ، تو وہیں میڈم بھیکا جی کامانے  اپنی  خوشحال زندگی کو ترک کرکے  آزادی کی  مشعل روشن کی ۔ ہمارے آج کے ترنگے کی تحریک کا جو ذریعہ ہے ، اس جھنڈے کے لئے باعث تحریک میڈم کاما اور شیام جی کرشن ورما جیسے مجاہدین آزادی ہی تھے ۔ سماجی ، خاندانی ، نظریاتی کردار چاہے جو بھی رہے ہوں ، تحریک کا مقام چاہے ملک وبیرون ملک کہیں بھی رہاہو ،مقصد ایک تھا –ہندوستان کی مکمل آزادی ۔

ساتھیو،

آزادی کی جو ہماری تحریک تھی ، اس کی شکل مقامی بھی تھی اور گلوبل بھی تھی ۔جیسے غدرپارٹی ، دل سے قومی بھی تھی ، لیکن اسکیل میں گلوبل تھی ۔ شیام جی کرشن ورما کا انڈیا ہاؤس ، لندن میں ہندوستانیوں  کے اجتماع کا مقام تھا ، لیکن مشن ہندوستان کی آزادی تھی ۔ نیتا جی کی قیادت میں آزاد ہند سرکار ہندوستانی مفادات کے تئیں وقف تھی ، لیکن اس کادائرہ گلوبل تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی جنگ آزادی نے دنیا کے کئی ملکوں کی آزادی کی تحریکوں  کو تحریک دی ۔

لوکل سے گلوبل کایہی جذبہ ہمارے آتم نربھربھارت ابھیان کی بھی طاقت ہے ۔ ہندوستان کے لوکل کو آتم نربھرابھیان سے ملکی  اور بین الاقوامی سطح پرشناخت دی جارہی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ انقلابیوں کی گیلری سے ، یہاں آنے والوں کو قومی سنکلپوں کوثابت کرنے کی نئی تحریک ملے گی ، ملک کے لئے کرگذرنے کا جذبہ پیداہوگا۔

ساتھیو،

گذشتہ سات دہائیوں  مہاراشٹرنے ملک کی ترقی میں ہمیشہ سے اہم رول اداکیاہے ۔ ممبئی تو سپنوں کا شہرہی ہے ، مہاراشٹر کے ایسےکئی شہرہیں ، جو 21ویں صدی میں ملک کے گروتھ سینٹرہونے والے ہیں ۔ اسی سوچ کے ساتھ ایک طرف ممبئی کے انفرااسٹرکچرکو جدید بنایاجارہاہے توساتھ ہی باقی شہروں میں بھی جدید سہولیات بڑھائی جارہی ہیں ۔

آج جب  ہم ممبئی  لوکل میں غیرمعمولی اصلاح کو دیکھتے ہیں ، جب کئی شہروں میں میٹرونیٹ ورک کی توسیع کودیکھتے ہیں ، جب مہاراشٹرکے کونے کونے کو جدید نیشنل ہائی وے سے جڑے ہوئے دیکھتے ہیں تو ترقی کے مثبت ہونے کا احساس ہوتاہے ۔ ہم سبھی یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کہ سفرمیں پیچھے رہ گئے آدی واسی ضلعوں میں بھی آج ترقی کی نئی آرزو پیداہوئی ہے ۔

ساتھیو،

آزادی کے اس امرت کال میں ہم سبھی کو یہ یقینی بناناہے کہ ہم جو بھی کام کررہے ہیں ، جو بھی ہمارا رول ہے ، وہ ہمارے قومی عزم کو مضبوط کرے ۔یہی بھارت کی تیز رفتارترقی کا راستہ ہے ۔ اس لئے ملک کی ترقی میں سب کا پریاس کی بات کومیں پھردوہراناچاہتاہوں ۔ ہمیں ایک قوم کی شکل میں باہمی تعاون  اورکوآپریشن کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔ ایک دوسرے کو قوت عطاکرنا ہے ۔ اسی جذبے کے ساتھ ایک بارپھر جل بھوشن بھون  اورانقلابیوں کی گیلری کے لئے بھی میں سب کو مبارکباد دیتاہوں ۔

اوراب دیکھیں شاید دنیا کے لوگ ہمارامذاق اڑائیں گے کہ راج بھون ، 75سال سے یہاں سرگرمی جاری ہے ، لیکن نیچے بنکر ہے وہ سات دہائی تک کسی کو پتہ نہیں چلا۔ یعنی ہم کتنے لاپرواہ ہیں ، ہماری اپنی وراثت کے لئے ہم کتنے لاپرواہ ہیں ۔کھوج ۔کھوج کر  کے ہمارے تاریخ کے صفحات کو سمجھنا کو ، ملک کو اس سمت میں آزادی کا امرت مہوتسوایک وجہ بنے ۔

مجھے یاد ہے ابھی ہم نے بھی شیام جی کرشن ورما کی تصویر میں بھی دیکھا ، آپ حیران ہوں گے ہم نے کس طرح سے ملک میں فیصلے کئے ہیں ۔ شیام جی کرشن ورماجی کا انتقال 1930میں ہوا ۔ 1930میں ان کا انتقال ہوااورانھوں نے خواہش ظاہرکی تھی کہ میری استھی سنبھال کر رکھی جائے اورجب ہندوستان آزاد ہو تو آزادہندوستان کی اس سرزمین پر میری استھی لے جائی جائے ۔

1930کا واقعہ ، 100سال ہونے کے آئے ہیں ، سن کر کے آپ کے بھی رونگٹے کھڑے ہورہے ہیں ۔لیکن میرے ملک کی بدقسمتی دیکھئے ، 1930میں ملک کے لئے مرمٹنے والے شخص ، جس کی واحد خواہش تھی کہ آزادبھارت کی سرزمین پر میری استھی جائے ، ساتھ ہی آزادی کا جومیرا خواب ہے  میں نہیں میری استھی  محسوس کرے ، اور کوئی توقع نہیں تھی ۔ 15اگست 1947کے دوسرے دن یہ کام ہوناچاہیئے تھا کہ نہیں ہونا چاہیئے تھا ؟نہیں ہوا ۔اور شاید ایشورکا ہی کوئی سنکیت ہوگا۔

2003میں ، 73سال کے بعد ان استھیوں کو ہندوستان لانے کا موقع مجھے ملا ہے ۔ بھارت ماں کے ایک لعل کی استھی انتظارکرتی رہی دوستو، جس کو کندھے پراٹھاکرمجھے لانے کا موقع ملا، اور یہی ممبئی کے ایئرپورٹ پرمیں لے کر اتراتھا یہاں ۔ اوریہاں سے ویرانجلی یاترالے کر کے میں گجرات گیاتھا۔ اور کچھ  ، مانڈوی ان کی جائے پیدائش ، وہاں آج ویسا ہی انڈیاہاؤس بنایاہے جیسا لندن میں تھا۔ اورہزاروں کی تعداد میں اسٹوڈینٹس وہاں جاتے ہیں ، انقلابیوں کی اس داستان کو محسوس کرتے ہیں ۔

مجھے یقین ہے کہ آج جو بنکر کسی کو پتہ تک نہیں تھا ، جس بنکر کے اندروہ سامان رکھاگیاتھا ، جو کبھی ہندوستان کے انقلابیوں کی جان لینے کے لئے کام آنے والا تھا ، اسی بنکر میں آج میرے انقلابیوں کا نام ، یہ جذبہ ہوناچاہیئے ، اہل وطن میں بھی ۔ اورتبھی جاکر کے ملک کی نوجوان نسل کو تحریک ملتی ہے ۔اوراس لئے راج بھون کی یہ کوشش  انتہائی قابل ستائش ہے ۔

میں خاص کرکے محکمہ تعلیم کے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ ہمارے اسٹوڈینٹس کو ہم وہاں تو لے جاتے ہیں سال میں ایک بار ، دوبار ٹورکریں گے توکوئی بڑے بڑے پکنک پلیس پر لے جائیں گے ۔ تھوڑی عادت بنادیں ، کبھی انڈمان ونکوبار جاکرکے اس جیل کو دیکھیں جہاں ویرساورکرنے اپنی جوانی صرف کی تھی ۔ کبھی اس بنکر میں آکرکے دیکھیں کہ کیسے کیسے ویر پرشوں نے ملک کے لئے اپنی زندگی قربان کردی تھی ۔ بے شمارلوگوں نے اس آزادی کے لئے جنگ کی ہے ۔ اوریہ ملک ایسا ہے ہزار بارہ سوسال کی غلامی  کے دورمیں کوئی ایسا دن نہیں ہوگا جب ہندوستان کے کسی نہ کسی کونے میں آزادی کی شمع نہ روشن ہوجی ۔1200سال تک یہ ایک دماغ ، یہ مزاج اس ملک کے لوگوں کا ہے ۔ ہمیں اسے جاننا ہے ، پہچاننا ہے اور اس کو جینے کی

پھرسے ایک کوشش کرنی ہے اورہم کرسکتے ہیں ۔

ساتھیو،

اس لئے آج کا یہ موقع  میں کئی طرح سے اہم مانتاہوں ۔ میں چاہتاہوں کہ یہ  علاقہ  حقیقی معنوں میں  ملک کی نوجوان نسل کی تحریک کا مرکز بنے ۔میں اس کوشش کے لئے سب کو مبارکباددیتے ہوئے آپ سب کا شکریہ اداکرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتاہوں ۔

**********

 

)ش ح ۔  ف ا۔ ع آ)

u-6501a



(Release ID: 1834152) Visitor Counter : 143