وزارت خزانہ

کووڈ – 19 کے صدمے کے باوجود زرعی شعبہ 21-2020 ء میں 3.6 فی صد اور 22-2021 ء میں 3.9 فی صد کی شرح سے نمو پذیر ہوا


مجموعی قدر و قیمت میں اضافہ 22-2021 ء میں زرعی اور ذیلی شعبوں کے لئے 18.8 فی صد کے بقدر رہا

فصلوں میں تنوع کے پروگرام کے تحت آبی تحفظ اور خود کفالت کا التزام

ماحولیات کے تقاضوں سے مناسبت رکھنے والی زرعی پیداوار کے لئے بھارتی پراکرتک کرشی پَدھتی پروگرام

خوردنی تیلوں کی پیداوار میں 16-2015 ء سے 21-2020 ء کے درمیان 43 فی صد کا اضافہ

حکومت نے 22-2021 ء میں قومی خوراک سلامتی تحفظ ایکٹ کے تحت ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں 1052 لاکھ ٹن کے بقدر خوردنی اناج مختص کئے

59 لاکھ ہیکٹیئر سے زائد رقبے پر پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت 16-2015 ء سے چھوٹی آبپاشی کے ذریعے احاطہ کیا گیا

Posted On: 31 JAN 2022 3:01PM by PIB Delhi

نئی دلّی ، 31 جنوری / زرعی شعبہ ، جو 22-2021 ء میں مجموعی قدر و قیمت میں اضافے  ( جی وی اے ) میں 18.8 فی صد کا ذمہ دار رہا ، اُس نے گذشتہ دو برسوں میں افزوں نمو درج کی ہے ۔ 22-2021 ء میں یہ 3.9 فی صد اور 21-2020ء میں 3.6 کی نمو سے ہمکنار ہوا ، جس سے  کووڈ – 19 سے متاثرہ ریاستوں کی لچک ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ بات  مرکزی وزیر خزانہ اور کمپنی امور   محترمہ نرملا سیتا رمن کے ذریعے آج پارلیمنٹ میں  پیش کئے گئے 22-2021 ء کے اقتصادی جائزے  میں کہی گئی ہے ۔

          اِس جائزے میں ، اِن مثبت پہلوؤں کو اچھی مانسون ، قرض کی دستیابی کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے کئے گئے مختلف النوع اقدامات ، سرمایہ کاری میں بہتری  ، بہتر منڈی سہولتوں کی فراہمی ، بنیادی ڈھانچہ ترقیات کے فروغ  اور اِس شعبے میں  عمدگی کے حامل ساز و سامان کی بہم رسانی کا مرہون  منت قرار دیا گیا ہے ۔ اس میں یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ مویشی اور فشریز کو  افزوں نمو  حاصل ہوئی ہے اور اس نے ، اِس شعبے کی اچھی  کارکردگی میں اپنا تعاون فراہم کیا ہے ۔

مجموعی قدر و قیمت اضافہ اور مجموعی پونجی تشکیل

          معیشت کی مجموعی  جی وی اے میں  زراعت اور  معاون شعبوں کا حصص  سروے کے مطابق طویل المدت بنیاد پر  تقریباً 18 فی صد  کے قریب رہا ہے ۔  22-2021 ء میں  یہ 18.8 فی صد اور 21-2020 ء میں 20.2 فی صد کے بقدر تھا ۔  معاون شعبوں میں  ( مویشی ، جنگل بانی اور دیگر سرگرمیاں ، ماہی گیری اور  آبی جانوروں کی پرورش ) ایک دیگر رجحان  ، جو افزوں نمو کا تھا ، وہ دیکھا گیا اور یہ رجحان  فصل کے شعبے کے مقابلے میں مشاہدہ کیا گیا ۔  اِن معاون شعبوں کو   نمو   کے ذرائع  کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے  کاشت کاروں کی آمدنی   ( ڈی ایف آئی – 2018 ) کو دوگنا کرنے سے متعلق کمیٹی   نے یہ بھی سفارش کی تھی کہ  زرعی آمدنی کو فروغ دینے کے لئے لگاتار بنیادوں پر  ارتکاز پر مبنی پالیسی وضع کی جائے ۔

          سروے میں اِس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ  زراعت میں سرمایہ لگانے اور اِس کی شرح نمو میں  ایک براہ راست   رشتہ ہوتا ہے  ۔ زرعی شعبے میں مجموعی پونجی  تشکیل  جی وی اے کے پس منظر میں یعنی اس شعبے میں  نیرنگی  سے مملو رہی ہے یعنی نجی شعبے کی سرمایہ کاریاں مختلف النوع پیرائے میں کی گئی ہیں ، جب کہ سرکاری دائرۂ کار کی سرمایہ کاریاں گذشتہ برسوں 2 – 3 فی صد کے درمیان مستحکم رہی ہیں ۔  سروے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ کاشت کاروں کو  ادارہ جاتی قرضوں تک زیادہ بہتر رسائی  فراہم کرکے اور نجی کارپوریٹ شعبے  کی افزوں شرکت کے ذریعے زراعت کے شعبے میں نجی  شعبے کی  سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سروے میں   مکمل  زرعی  ویلیو چین کے ساتھ ساتھ  سرکاری سرمایہ کاری  میں اضافہ کرتے ہوئے کارپوریٹ سرمایہ کاریوں  کو  لانے کے لئے معقول پالیسی فریم ورک کی سفارش کی گئی ہے ۔

زرعی پیداوار

          سروے میں کہا گیا ہے کہ 22-2021 ء ( صرف خریف کی فصل کے لئے ) اولین پیشگی تخمینوں کے مطابق مجموعی خوردنی  اناج پیداوار کا تخمینہ 150.50 ملین ٹن  کی ریکارڈ سطح  کے بقدر کا  لگایا گیا ہے ۔ اس سے 21-2020 ء میں رونما ہوئی 0.94 ملین ٹن  خریف کی پیداوار کا اضافہ ظاہر ہوتا ہے ۔ سروے میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ چاول ، گیہوں اور موٹے اناجوں کی پیداوار   بالترتیب  ایک برس کی مدت میں  16-2015 ء اور 21-2020 ء کے دوران  2.7 ، 2.9 اور 4.8 فی صد کی مرکب سالانہ شرح نمو  کے حساب سے اضافے سے ہمکنار ہوئی ہے ۔ دالوں ، تلہنوں اور کپاس کے معاملے میں  ، اِس مدت کے دوران بالترتیب 7.9 ، 6.1 اور 2.8 فی صد کا اضافہ رونما ہوا ہے ۔  بھارت ، دنیا میں شکر پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے ۔  سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت چینی کی فاضل مقدار کا حامل ملک ہے ۔ اس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ 11-2010 ء سے یہ پیداوار  17-2016 ء کے علاوہ ، کھپت کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ہے ۔ یہ  صرف اس لئے ممکن ہو سکا ہے کہ  گنا کاشت کاروں کو واجبی اور منفعت بخش قیمتوں ( ایف آر پی ) کی فراہمی کو ممکن بنایا گیا ،   شکر کارخانوں کو ترغیبات کی فراہمی کے ذریعے  ، اُن کی تحلیلی قوت میں اضافہ کیا گیا  تاکہ وہ فاضل گنا ، شکر کو  ایتھنول کی پیداوار کے لئے استعمال کر سکیں نیز  شکر کارخانوں کو  نقل و حمل کے لئے مالی امداد فراہم کرکے ممکن ہو سکا ہے  ، جس کے نتیجے میں  وہ شکر کی برآمد کر سکے  ۔

فصلوں میں تنوع

          اقتصادی جائزے میں خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ فصلوں کی بوائی کا نظام  گنا ، دھان اور گیہوں پر منحصر ہے ،جس کے نتیجے میں  تازے زیر زمین پانی  کی خطرناک حد تک  کمی واقع ہو رہی ہے ۔ اس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ملک کے شمال مغربی خطے میں پانی کے معاملے میں  از حد  قلت کی سطحیں ریکارڈ کی گئی ہیں ۔

          پانی کے استعمال  کی اثر انگیزی کو فروغ دینے ، ہمہ گیر زراعت کو یقینی بنانے اور کاشت کاروں کی افزوں آمدنی کی فراہمی کی غرض سے حکومت اصل سبز انقلاب والی ریاستوں یعنی  پنجاب ، ہریانہ  اور مغربی اتر پردیش میں  راشٹریہ کرشی وکاس یوجنا  نام کی ذیلی اسکیم کے تحت 14-2013 ء سے فصل تنوع پروگرام نافذ کر رہی ہے تاکہ  دھان اگائے جانے والے رقبے پر دیگر ایسی ترغیباتی  فصلیں اگائی جائیں ، جن میں پانی کم درکار ہوتا ہے   اور ان فصلوں میں تلہن ، دالیں اور تغذیہ بخش اناج وغیرہ شامل ہیں ۔ اس پروگرام کے تحت  تمباکو کی  کاشت والے رقبے کو  بھی دیگر فصلوں کی جانب منتقل کرنے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اور تمباکو کے بدلے میں  آندھرا پردیش ،  بہار ، گجرات ، کرناٹک ، مہاراشٹر  ، مغربی بنگال  جیسی  نیز دیگر تمباکو پیدا کرنے والی ریاستوں میں دوسری فصلیں اگانے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔  سروے میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ  حکومت  کاشت کاروں کو  ، اُن کے ذریعے فصلوں میں تنوع پیدا کرنے  کی حوصلہ افزائی کے لئے قیمتوں پر مبنی پالیسی کا بھی استعمال کر رہی ہے ۔

پانی اور آبپاشی

          جائزے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ  ملک میں  60 فی صد زیر آبپاشی رقبہ  ایسا ہے ، جس میں پانی کی ضرورت  یعنی آبپاشی زیر زمین پانی کے استعمال کے ذریعے کی جاتی ہے ۔  بہت بڑے پیمانے پر  دلّی ، ہریانہ ، پنجاب اور راجستھان  ( 100 فی صد سے زیادہ ) زیر زمین پانی  ہی استعمال ہوتا ہے۔  اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ چھوٹی آبپاشی کے تحت افزوں احاطے کے ذریعے پانی کے تحفظ  کا از حد موثر استعمال ممکن ہے ، جائزے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ ریاستوں کو  دونوں یعنی اوسط اور طویل المدت بنیاد پر زیر زمین پانی کی بھرپائی  نیز  تحفظاتی منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔ 

          چھوٹی آبپاشی کے ذریعے احاطہ کئے جانے کے کام کو  توسیع دینے کے لئے وسائل کی بہم رسانی کے مقصد سے  19-2018 ء کے دوران نبارڈ کے تحت 5000 کروڑ روپئے کے بقدر کا چھوٹی آبپاشی فنڈ ( ایم آئی ایف ) بہم پہنچایا گیا تھا ۔  یکم دسمبر ، 2021 ء تک ، 3970.17 کروڑ روپئے کے بقدر  کی رقم کے ایم آئی ایف قرضوں  کے پروجیکٹوں کے ساتھ   چھوٹی آبپاشی والی رقبے کے لئے 12.81 لاکھ ہیکٹیئر زمین پر  منظوری دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ ، سروے میں یہ بات نمایاں کرکے پیش کی گئی ہے کہ 14 دسمبر ، 2021 ء تک پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا کے تحت مجموعی طور پر  59.37 لاکھ ہیکٹیئر کے بقدر کے رقبے پر ملک میں 16-2015 ء سے اب تک کی مدت میں چھوٹی آبپاشی اسکیم کے تحت احاطہ کیا جا چکا ہے ۔

قدرتی طریقۂ کاشت

          قدرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہتے ہوئے ماحول دوست طریقے اپناکر  ہمہ گیر زرعی پیداوار  بنائے رکھنے کے لئے  ،  کیمیاوی اشیاء سے مبرا زرعی پیداوار کو یقینی بنانے اور مٹی کی زر خیزی کے تحفظ کے لئے حکومت کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ اپنے طور پر قدرتی طریقۂ کاشت کی تکنیکات  اپنائیں  ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے حکومت سروے کے مطابق بھارتی پراکرتک کرشی پدھتی پروگرام  ( بی پی  کے پی)  نام کی ایک وقف اسکیم نافذ کر رہی ہے ۔

زرعی قرض اور مارکیٹنگ

          اقتصادی جائزے کے مطابق  22-2021 ء کے لئے زرعی قرض کی بہم  رسانی کے تحت 1650000 کروڑ روپئے کے بقدر کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے  اور 30 ستمبر ، 2021 ء تک ، اِس ہدف کے مقابلے میں  736589.05 کروڑ روپئے کے بقدر کی رقم تقسیم  کی جا چکی ہے ۔  اس کے علاوہ ، آتم نربھر بھارت پروگرام کے تحت ، حکومت نے  کسان کریڈٹ کارڈوں ( کے سی سی ) کے ذریعے 2.5 کروڑ کاشت کاروں کو قرض کی فراہمی کے لئے دو لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کے رعایتی قرض کی فراہمی  کا اعلان بھی کیا ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے بینکوں نے 17 جنوری ، 2022 ء تک  2.70 کروڑ مستحق کاشت کاروں کو کے سی سی جاری کر دیئے ہیں ۔  اس  کے علاوہ ، حکومت نے  19-2018 ء میں ماہی پروری اور مویشی پالن  کے شعبوں میں بھی کے سی سی سہولت  کی توسیع کر دی ہے ۔

          کاشت کاروں کو منڈیوں سے مربوط کرنے اور انہیں کاروبار کرنے میں آسانی فراہم کرنے اور اُن کی پیداوار کے لئے انہیں  منفعت بخش قیمتیں فراہم کرنے کی غرض سے حکومت لگاتار بنیاد پر منڈی روابط کو بہتر بنانے اور مارکیٹنگ کے بنیادی ڈھانچے کی اصلاح کے لئے کوشاں رہی ہے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ، اے پی ایم سی اداروں کو  زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ ( اے آئی ایف ) کے تحت  مستحق ادارے  تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ، قومی زرعی مارکیٹ ( ای – نام ) اسکیم کے تحت یکم دسمبر ، 2021 ء تک 18 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام تین علاقوں  کی 1000 منڈیوں کو  ای – نام پلیٹ فارم کے ساتھ مربوط کر دیا گیا ہے ۔

image001MLUW.jpg

 

          حکومت نے 28-2027 ء تک 10000 کے بقدر ایف پی او یعنی کاشت کاروں کی پیداواری تنظیموں کی تشکیل اور انہیں فروغ دینے کی غرض سے  کاشت کاروں کی 10000 پیداواری  تنظیموں کی تشکیل اور فروغ کی ایک مرکزی  شعبے کی اسکیم بھی شروع کی ہے ۔  جنوری ، 2022 ء تک  مجموعی طور پر 1063 ایف پی او ، اِس اسکیم کے تحت درج رجسٹرڈ کی جا چکی ہیں ۔ حکومت نے ماہ جولائی ، 2021 ء میں ایک  باقاعدہ امدادِ باہمی کی وزارت بھی تشکیل دی ہے تاکہ  امدادِ باہمی کے شعبے پر افزوں توجہ  مرکوز کی جا سکے ۔

خوردنی تیلوں سے متعلق  قومی مشن

          بھارت بناسپتی تیلوں کے معاملے میں دوسرا سب سے بڑا صارف اور صف اول کا درآمد کار ملک ہے ۔ سروے میں نمایاں کرکے یہ بات پیش کی گئی ہے کہ بھارت میں تلہنوں کی پیداوار 17-2016 ء سے مستحکم پیمانے پر نمو سے ہمکنار رہی ہے ۔ اس سے قبل اِس میں اتار چڑھاؤ دیکھا جا رہا تھا ۔  یہ پیداوار  16-2015 ء سے لے کر 21-2020 ء کے دوران  تقریباً 43 فی صد کی نمو سے ہمکنار ہوئی ہے ۔ اقتصادی جائزے میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ  بھارت میں  آبادی میں رونما ہونے والے اضافے ، شہری کرن اور اس کے نتیجے میں خوردنی عادات و اطوار میں رونما ہونے والی تبدیلی نیز روایتی طور پر کھانا تیار کرنے کے طور طریقوں میں رونما ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے خوردنی تیلوں کی مانگ   افزوں بنی رہے گی ۔ 

          خوردنی تیلوں کی بڑے پیمانے پر لگاتار در آمد کے پیش نظر ،  تیل کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے ، حکومت  قومی خوراک سلامتی مشن : تلہن ( این ایف ایس ایم – تلہن ) نام کی ایک مرکزی اسپانسر شدہ اسکیم 19-2018 ء سے ملک کے تمام  تر اضلاع میں نافذ کرتی آئی ہے ۔  اقتصادی جائزے میں نمایاں کرکے کہا گیا ہے کہ  اس اسکیم کے تحت حکومت نے  زیادہ پیداوار دینے والے  عمدگی کے حامل بیجوں کی دستیابی میں اضافے کی غرض سے 19-2018 ء اور 20-2019 ء کے دوران 36 تلہن مراکز قائم کئے ہیں ۔   2021 ء کی خریف کی فصل کے لئے مرکزی حکومت نے ، ریاستوں کو تقسیم کے لئے زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کے بیج پر  مبنی  تلہنوں کے 9.25 لاکھ چھوٹے کِٹ فراہم کئے تھے ۔ سروے میں کہا گیا کہ حکومت نے خوردنی تیلوں کے سلسلے میں قومی مشن  - آئل پالم  ( این ایم ای او – او پی) نافذ کیا تھا تاکہ   رقبے میں توسیع اور  قیمتوں پر ترغیبات فراہم کرنے کے طریقے کو بروئے کار لاکر  خوردنی تیلوں کی دستیابی کو منظم بنایا جا سکے ۔  اسکیم کا مقصد یہ ہےکہ   26-2025 ء تک  آئل پالم کی کاشت کے لئے اضافی طور پر 6.5 لاکھ ہیکٹیئر کے بقدر رقبے پر احاطہ کیا جا سکے اور اس طریقے سے  حتمی طور پر 10 لاکھ ہیکٹیئر  کے بقدر  رقبے کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے ۔ جائزے میں  انکشاف کیا گیا ہے کہ  فی الحال 3.70 لاکھ ہیکٹیئر کے بقدر رقبے پر پالم کی کاشت کی جا رہی ہے ۔ اس ساتھ ہی ، اِس اسکیم کا مقصد   26-2025 ء تک خام پالم آئل ( سی پی او ) کی پیداوار کو بڑھا کر 11.20 لاکھ ٹن اور  30-2029 ء تک بڑھا کر 28 لاکھ ٹن تک کرنا ہے ۔

خوراک انتظام

image002V7BY.jpg

 

image003P8PL.jpg

 

          بھارت ، دنیا بھر میں وسیع ترین خوراک انتظام پروگرام چلاتا ہے ۔  جائزے میں نمایاں کرکے یہ بات کہی گئی ہے کہ  22-2021 ء کے دوران حکومت نے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو قومی خوراک سلامتی ایکٹ 2013 اور دیگر بہبودی اسکیموں کے تحت 1052.77 لاکھ ٹن کے بقدر اناج  مختص کیا تھا ، جب کہ 21-2020 ء میں 948.48 لاکھ ٹن کے بقدر اناج مختص کیا گیا تھا ۔ حکومت نے   پردھان منتری غریب کلیان یوجنا  ( پی ایم جی کے وائی ) کے تحت ماہانہ فی کس 5 کلو گرام خوردنی اناج  کی اضافی فراہمی کے لئے  خوراک سلامتی  کے احاطے میں توسیع کر دی ہے ۔ اس اسکیم کے تحت 22-2021 ء کے دوران حکومت نے 21-2020 ء میں  437.37 ایل ایم ٹی خوردنی اناج  مختص کیا ۔ اس کے ساتھ ہی  322 ایل ایم ٹی خوردنی اناج  مفت بنیاد پر  تقریباً 80 کروڑ این ایف ایس اے استفادہ کنندگان کو مختص کیا گیا تاکہ  کووڈ – 19 کے وبائی مرض کے نتیجے میں پیدا ہوئی رکاوٹوں  اور اقتصادی پریشانیوں  سے ناداروں کو  نجات دلائی جا سکے اور اُن کی تکالیف کم کی جا سکیں ۔

image004L7QQ.jpg

 

          حکومت نے تین برسوں کی مدت کے لئے 14 فروری ، 2019 ء کو سرکاری نظامِ تقسیم کے تحت  چاول اور اس کی تقسیم کو محدود کرنے کی مرکزی اسپانسر شدہ پائلٹ اسکیم کو بھی منظوری دی تھی ۔  یہ اسکیم  پانچ اضلاع ( ہر ریاست میں ایک ضلع ) میں نافذ کی جا رہی ہے اور حکومت نے ، اِس پائلٹ اسکیم کے تحت ماہ دسمبر ، 2021 ء تک 3.38 ایل ایم ٹی کے  بقدر اناج تقسیم کیا ہے ۔

          سروے میں کہا گیا ہے کہ خریف  کے مارکیٹنگ سیزن ( کے ایم ایس ) 21-2020 ء کے دوران 601.85 لاکھ میٹرک ٹن کے بقدر چاول پیدا ہوا ہے ، جب کہ تخمینہ  642.58 ایل ایم ٹی کے بقدر کا تھا ۔ کے ایم ایس 22-2021 ء میں  مجموعی طور پر 566.58 ایل ایم ٹی دھان  ( 379.98 ایل ایم ٹی چاول کے برابر ) 16 جنوری ، 2022 ء کو  حاصل کیا گیا تھا ۔ 22-2021 ء کے آر ایم ایس کے دوران 389.92 ایل ایم ٹی  کے مقابلے میں 433.44 ایل ایم ٹی گیہوں  ، 21-2020 ء کے آر ایم ایس کے سیزن کے دوران حاصل کیا گیا تھا ۔ 21-2020 ء کے خریف اور ربیع مارکیٹنگ سیزن کے دوران مجموعی طور پر  11.87 ایل ایم ٹی موٹے اناج  حاصل کئے گئے ہیں ، جو گذشتہ پانچ برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مقدار ہے ۔

زرعی تحقیق اور تعلیم

          اقتصادی جائزے کے مطابق ، تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ  زرعی تحقیق اور ترقیات پر  صرف ہونے والا ایک روپیہ  کہیں بہتر نتائج دیتا ہے ۔  لہٰذا ، زراعت کے سلسلے میں تحقیق و ترقی پر  کیا جانے والا صرفہ نہ صرف یہ کہ خوراک سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے اشد ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ صرفی سماجی – اقتصادی نقطۂ نظر سے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔

          سروے میں کہا گیا ہے کہ زرعی تحقیق اور تعلیم   ماحولیاتی لحاظ سے ہمہ گیر عالمی خوراک نظام  کی ترقی  ،  خوراک اور  تغذیہ سلامتی کو یقینی بنانے  اور  لاگت میں کمی اور پیداوار کو زیادہ سے زیادہ کرکے زرعی آمدنی میں اضافے  کے لئے بھی ضروری ہے ۔  سروے میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے قومی  زرعی تحقیقی نظام نے اہم نتائج دیئے ہیں ۔  زرعی تحقیق کی بھارتی  کونسل ( آئی سی اے آر ) نے 2020 ء اور 2021 ء کے دوران  کھیتوں میں بوئی جانے والی 731 نئی اقسام / مخلوط فصلوں کے بیج  نوٹیفائیڈ / جاری کئے تھے ۔  زرعی تحقیق اور تعلیم  کا محکمہ ( ڈی اے آر ای ) نے حیاتیاتی لحاظ سے محدود اور  مختلف امراض وغیرہ کی مار جھیل سکنے کے لائق اقسام اور باغبانی سے متعلق فصلوں کے سلسلے میں 22-2021 ء کے دوران 35 خصوصی خوبیوں کی حامل اقسام وضع کی ہیں ۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

( ش ح – م ن – ع ا  ) 

U.No. 888



(Release ID: 1793944) Visitor Counter : 248