وزارت خزانہ

آتم نربھر بھارت کے تحت ساختیاتی اور عمل آوری سے متعلق اصلاحات سمیت مختلف پہل سے صنعتی شعبے کی کارکردگی بہتر ہوئی، شرح ترقی رواں مالی سال میں 11.8 فیصد رہنے کی امید


سرمایہ کاروں کی سہولت کے مطابق ایف ڈی آئی پالیسی سے ایف ڈی آئی کی روانی میں نیا ریکارڈ بنا،  سال 2020-21 میں 81.97 ارب امریکی ڈالر  کی سب سے زیادہ سالانہ ایف ڈی آئی آئی

صنعتی شعبے کو مجموعی بینک لون میں 4.1 فیصد کا اضافہ درج

پیداوار پر مبنی ترغیبی (پی ایل آئی) اسکیم سے لین دین کی لاگت میں کمی آئی، کاروبار کرنا مزید آسان ہوا

نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن (این آئی پی) ، نیشنل مونیٹائیزیشن پلانٹ (این این پی) سے بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھی

ادیم رجسٹریشن پورٹل اور ایم ایس ایم ای کی تشریح میں ترمیم سے پیداوار میں اضافہ ہوا، توسیع و ترقی میں آسانی ہوئی

4445 کروڑ روپے کے کل اخراجات والے 7 میگاانٹیگریٹیڈ ٹیکسٹائلس  اور ملبوسات کے پارکوں (متر) قائم کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا

حکومت نے سیمی کنڈیکٹر اور ڈسپلے مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کے فروغ کے لیے 76000 کروڑ روپے کے خرچ کو منظوری دی

قومی شاہراہوں / سڑکوں کی تعمیر میں پچھلے سال کے مقابلے 30.2 فیصد کا اضافہ درج

انڈین ریلوے نے نئی لائنوں اور کئی پٹری والے پروجیکٹوں کے ذریعے نئی پٹریوں میں سالانہ 1835 کلو میٹر لمبی پٹری جوڑی

تیل اور گیس کی تنظیموں کے ذریعے مانگ سے متعلق واضح تخمینہ کے اظہار کے لیے لکشیہ بھارت پورٹل لانچ کیا گیا

ایک کروڑ اضافی ایل پی جی کنکشن مہیا کرانے کے لیے ’اجولا2.0‘ لانچ کی گئی

حکومت نے ڈرونس سے متعلق ضابطوں کو آسان بنایا، ہوا بازی کے شعبے کی ترقی کےلیے پی ایل آئی اسکیم میں ترمیم کی

میری ٹائم انڈیا وژن 2030 میں بھارت کے سمندری علاقے کی مربوط اور تیز رفتار ترقی کا تصور کیا گیا ہے، 100 سال پرانے انلینڈ ویسل ایکٹ 1917 کی جگہ انلینڈ ویسل ایکٹ 2021 نے لے لی، جس سے نئے دور کا آغاز ہوا

مواصلات کے شعبے میں اصلاحات کے لیے 4جی کی توسیع کو فروغ حاصل ہوگا، روانی آئے گی اور 5جی نیٹ ورکوں میں  سرمایہ کاری کےلیے بہتر ماحول بنے گا

بھارت میں قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں سب سے تیز شرح ترقی درج کی گئی، جو 2.9 گنا بڑھ گئی اور شمسی توانائی کی صلاحیت 18 گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی،  گرین انرجی کوریڈور پروجیکٹوں کی شروعات کی گئی

Posted On: 31 JAN 2022 2:51PM by PIB Delhi

مالیات اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتارمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی سروے 2021-22 پیش کیا۔

کووڈ-19 وبائی مرض کے سبب پیدا ہوئی رکاوٹوں سے عالمی سطح پر صعنتی سرگرمیاں مسلسل متاثر ہوئیں۔ ویسے تو ہندوستانی صنعت اس معاملے میں الگ نہیں رہے، لیکن سال 2021-22 میں اس کی کارکردگی میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ ملک کی اقتصادیات کو سلسلہ وار طریقے سے کھولنے، ریکارڈ تعداد میں ٹیکہ کاری ہونے، صارفین کی مانگ بڑھنے، آتم نربھر بھارت ابھیان کے طور پر حکومت کے ذریعے صنعتوں کو لگاتار پالیسی سے متعلق تعاون فراہم کرنے اور سال 2021-22 میں آگے اور مضبوطی ملنے سے صنعتی شعبے کی کارکردگی بہتر ہوگئی ہے۔ سال 2020-21 کی پہلی ششماہی کے مقابلے سال 2021-22 کی پہلی ششماہی میں صنعتی شعبے کے شرح ترقی 22.9 فیصد درج کی گئی اور رواں مالی سال میں  صنعتی شرح ترقی 11.8 فیصد رہنے کی امید ہے۔  صنعتی شعبے کی کارکردگی بہتر ہوگئی ہے، جو صنعتی پیداوار کے اشاریہ (آئی آئی پی) کی مجموعی ترقی میں نظر آتا ہے۔ اپریل-نومبر 2021-22 کے دوران آئی آئی پی میں 17.4 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا، جبکہ اپریل-نومبر 2020-21 کے دوران اس میں 15.3 فیصد کی منفی شرح ترقی درج کی گئی تھی۔ آربی آئی –مطالعہ اور کارپوریٹ کی کارکردگی، جو پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹر کی چنندہ درج فہرست کمپنیوں کے نتائج پر مبنی ہے، کے مطابق وبائی مرض کے باوجود بڑی کمپنیوں کا مجموعی منافع – فروخت کا تناسب بڑھ کر اب تک کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گیا۔ مجموعی کاروباری ماحول میں اصلاحات کے درمیان ایف ڈی آئی کی آمد بڑھنے سے صنعتی دنیا کا منظر نامہ حوصلہ بخش محسوس ہوتا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001JA32.jpg

 

 

اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ صنعت میں پیداواری سطح بڑھانے کےلیے پیداوار پر مبنی ترغیب (پی ایل آئی) کی اسکیم شروع کرنے، طبعی اور ڈیجیٹل دونوں ہی طرح کے بنیادی ڈھانچہ کو بہت زیادہ فروغ دینے کے ساتھ ساتھ لین دین لاگت کم کرنے اور کاروبار میں سہولت بڑھانے کے لیے مسلسل اقدامات کرنے سے اقتصادی بازیافت کی رفتار بڑھے گی۔ نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن (این آئی پی) ، نیشنل مونیٹائزیشن پالیسی (این ایم پی) جیسی متعدد پہل کی گئی ہے، تاکہ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی رفتار بڑھ سکے۔ انڈین ریلوے کےلیے سرمایہ کے اخراجات کو کافی بڑھا دیا گیا ہے، جو سال 2009-2014 کے اوسطا 45980 کروڑ روپے سالانہ سے کافی بڑھ کر سال 2020-21 میں 155181 کروڑ روپے کی سطح پر پہنچ گیا ہے اور سال 2021-22 میں اس کے مزید بڑھ کر 215058 کروڑ روپے ہوجانے کا امکان ہے۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ سال 2014 میں کیے گئے سرمایہ سے متعلق اخراجات کے مقابلے 5 گنا اضافہ ہوا ہے۔  اس کے علاوہ سڑکوں کی یومیہ تعمیر سال 2019-20 کے 28 کلو میٹر سے کافی بڑھ کر سال 2020-21 میں 36.5 کلو میٹر ہوگئی، جو پچھلے سال کے مقابلے 30.4 فیصد کا اضافہ دکھاتا ہے۔ حکومت نے الیکٹرانک ہارڈویئر کے شعبے کو بھی کافی فروغ دینے کی شروعات کی ہے اور اس کے ساتھ ہی مواصلات کے شعبے میں ساختیاتی اور عمل آوری سے متعلق اصلاحات کو نافذ کیا گیا ہے۔

 

صنعتی پیداوار کا اشاریہ (آئی آئی پی)

آئی آئی پی کے تحت مینوفیکچرنگ سیکٹر کے 23 ذیلی گروپوں کا ڈیٹا دیا جاتا ہے۔ اپریل-نومبر 2021-22 کے دوران تمام 23 سیکٹروں میں مثبت اضافہ درج کیا گیا ہے۔ بڑے صنعتی گروپوں جیسے کہ کپڑے، ملبوسات، بجلی کے آلات، موٹر گاڑی میں مضبوط ری کوری درج کی گئی ہے،کپڑے اور ملبوسات جیسے محنت پر مبنی صنعت کی کارکردگی کا بہتر ہونا روزگار فراہمی کے نقطہ نظر سے کافی معانی رکھتا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002K8UX.jpg

 

 

آٹھ  بنیادی اشاریہ (آئی سی آئی)

اپریل-نومبر 2021-22 کے دوران آئی سی آئی کی شرح ترقی 13.7 فیصد رہی، جبکہ پچھلے مالی سال کی اسی مدت کے دوران اس میں 11.1 فیصد کی منفی شرح ترقی درج کی گئی تھی۔ آئی سی آئی میں یہ اضافہ عام طور سے اسٹیل، سیمنٹ، قدرتی گیس، کوئلہ اور بجلی کے شعبوں کی کارکردگی بہتر ہونے سے ہی ممکن ہوپائی ہے۔

سال 2019-20 (اپریل-نومبر) کے مقابلے سال 2021-22 (اپریل-نومبر) کے دوران آٹھ بنیادی صنعتوں کے اشاریے میں شامل خام تیل اور کھاد کو چھوڑ کر اس کے تقریبا تمام اجزا میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ فروری 2020 کی سطح کے مقابلے اسٹیل، خام تیل، کھاد، بجلی اور قدرتی گیس میں بہتری درج کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیل، کھاد، بجلی، قدرتی گیس اور کوئلے سے وابستہ اشاریے کی قیمت لاک ڈاؤن سے پہلے (نومبر2019) کی سطح سے زیادہ رہی ہے۔

یہ واضح ہے کہ کووڈ-19 کے سبب سال 2020-21 کی پہلی سہ ماہی کے دوران سرمایہ کا استعمال (سی یو) کافی حد تک کم ہوگیا تھا، کیونکہ ملک بھر میں سخت پابندیاں لگادی گئی تھیں۔ مجموعی سطح پر مینوفیکچرنگ سیکٹر میں سرمایہ کا استعمال مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں گھٹ کر 40 فیصد رہ گیا اور پھر مالی سال 2021 کی چوتھی سہ ماہی میں بڑھ کر 69.4 فیصد ہوگیا۔ حالانکہ مالی سال 2022 کی پہلی سہ ماہی میں یہ گھٹ کر 60.0 فیصد رہ گیا۔

اقتصادی کارکردگی سے متعلق حوصلے کی ایک دوسری علامت  آربی آئی کا تجارتی توقعاتی اشاریہ (بی ای آئی) ہے۔ اس اشاریہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں مانگ کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، جس کے لیے مختلف پیمانوں کو جوڑا جاتا ہے اور جن میں جامع تجارتی حالت، پیداوار، آرڈر بک، خام مال اور تیار اشیا کا ذخیرہ، منافع کا فرق، روزگار، برآمدات اور صلاحیتوں کا استعمال شامل ہیں۔  بی ای آئی میں پائیداری بنی رہی۔ سال 2020-21 کی پہلی سہ ماہی میں وبائی مرض کے اثرات بڑھنے کے سبب اس سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران اس میں معمولی گراوٹ درج کی گئی۔ اس کے بعد سے ہی   اس میں بہتری درج کی جارہی ہے۔  یہ مالی سال 2022 کی دوسری سہ ماہی میں بڑھ کر 124.1، مالی سال 2022 کی تیسری سہ ماہی میں بڑھ کر 135.7 ہوگئی، جبکہ اسی سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ 119.6 تھی۔ متعلقہ اعدادوشمار میں بہتری سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مینوفیکچررزمالی سال 2022 کی تیسری سہ ماہی میں مجموعی تجارت میں مزید اصلاحات کی امید کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مالی سال 2022 کی چوتھی سہ ماہی کے لیے امید کا اظہار کیا ہے۔ صلاحیتوں کے استعمال اور روزگار کے حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔

 

صنعتی دنیا کو قرض

صنعتی شعبے کو مجموعی بینک لون میں اکتوبر 2021 (سال در سال کی بنیاد پر) کے دوران 4.1 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا، جبکہ اکتوبر 2020 کے دوران اس میں 0.7 فیصد کی منفی شرح ترقی درج کی گئی تھی۔  کل غیرغذائی قرض میں صنعتی دنیا کی حصے داری اکتوبر 2021 میں 26 فیصد درج کی گئی۔ کچھ مخصوص صنعتوں جیسے کہ کانکنی، کپڑا، پٹرولیم، کولڈ پروڈکٹس اور جوہری ایندھن، ربر، پلاسٹک اور انفراسٹراکچر کو کل قرضے میں مسلسل اضافہ درج کیا گیا ہے۔

 

صنعتوں میں ایف ڈی آئی

حکومت کے ذریعے سرمایہ کاروں کی آسانی کے مطابق ایف ڈی آئی پالیسی بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں ایف ڈی آئی کی آمد بڑھ کر نئی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ بھارت میں ایف ڈی آئی کی آمد سال 2014-15 میں 45.14 ارب امریکی ڈالر خرچ کی گئی اور اس کے بعد سے اس میں لگاتار اضافہ درج کیا گیا ہے۔ بھارت میں سال 2020-21 میں 81.97 ارب امریکی ڈالر (عارضی)  کی اب تک کی سب سے زیادہ سالانہ ایف ڈی آئی کی آمد ہوئی، جو پچھلے سال کے مقابلے 10 فیصد کا اضافہ دکھاتا ہے۔ اس سے پہلے سال 2019-20 کے دوران اس میں 20 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا تھا۔ سال 2021-22 کے پہلے چھ مہینوں میں ایف ڈی آئی کی آمد 4 فیصد بڑھ کر 42.86 ارب امریکی ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی، جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں یہ 41.37 ارب امریکی ڈالر تھی۔

گزشتہ 7 مالی سالوں (2014-21) کے دوران بھارت میں 440.27 ارب امریکی ڈالر کی ایف ڈی آئی کی آمد ہوئی ہے، جو گزشتہ 21 برسوں کے دوران ملک میں ہوئی کل ایف ڈی آئی (763.83 ارب امریکی ڈالر)  کا تقریبا 58 فیصد ہے۔

 

سینٹرل پبلک سیکٹر انٹر پرائزز(سی پی ایس ای) کی کارکردگی

31 مارچ 2020 تک  کل ملا کر 256 سی پی ایس ای میں کام جاری تھا۔ سال 2019-20 کے دوران برسرعمل سی پی ایس ای کا کل منافع 93295 کروڑ روپے تھا۔ مرکزی خزانہ میں ایکسائز ڈیوٹی، جی ایس ٹی، کارپوریٹ ٹیکس،  ڈیویڈنڈ وغیرہ کے طور پر تمام سی پی ایس ای کا تعاون 376425 کروڑ روپے رہا۔تمام سیکٹروں والے سی پی ایس ای میں 1473810 ملازمین کام کررہے تھے، جن میں سے 921876 مستقل ملازم تھے۔

مرکزی بجٹ 2021-22 میں کیے گئے اعلانات کے مطابق حکومت نے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کے اسٹریٹجک ارتداد سرمایہ کی پالیسی کو منظوری دی ہے، جس سے تمام غیر اسٹریٹجک اور اسٹریٹجک سیکٹروں میں سرمایہ کاری کے لیے واضح خاکہ سامنے آئے گا۔ سی پی ایس ای کے لیے نئی پبلک سیکٹر انٹرپرائز پالیسی کے نفاذ کے لیے رہنما خطوط 13دسمبر 2021 کو نوٹیفائی کیے گیے ہیں۔ اس سے حکومت کو ارتداد سرمایہ کی رقم کا استعمال مختلف سماجی شعبوں اور ترقیاتی پروگراموں کی فنڈنگ میں کرنے میں مدد ملے گی، جبکہ  ارتداد سرمایہ سے ان سی پی ایس ای میں ذاتی سرمایہ، ٹیکنالوجی اور بہترین انتظامی طور طریقے بڑھ جائیں گے، جن کا ارتداد سرمایہ کیا گیا ہے۔

 

صنعت میں ہر ایک شعبے کے لحاظ سے کارکردگی اور مسائل

اسٹیل

معیشت کی ترقی کے لیے اسٹیل کی صنعت کی کارکردگی کافی اہم ہے۔ کووڈ-19 سے متاثر ہونے کے باوجود اسٹیل کی صنعت نے اپنی بحالی کرلی ہے۔ دراصل سال 2021-22 (اپریل-اکتوبر) میں خام اور تیار اسٹیل کی کل پیداوار بالترتیب 66.91 ایم ٹی اور 62.37 ایم ٹی کی ہوئی، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے بالترتیب 25.0 اور 28.9 فیصد زیادہ ہے، جبکہ اس دوران تیار اسٹیل کی کھپت پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے 25.0 فیصد بڑھ کر 57.39 ایم ٹی ہوگئی۔

 

کوئلہ

اپریل-اکتوبر 2021 میں کوئلہ کی پیداوار 12.24 فیصد بڑھ گئی، جبکہ اپریل –اکتوبر2020 کے دوران اس میں 3.91 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی تھی۔

 

بہت چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعت(ایم ایس ایم ای)

ایم ایس ایم ای کی مخصوص اہمیت کا اندازہ اس حقیققت سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2019-20 میں کل جی وی اے (موجودہ قیمت) میں ایم ایس ایم ای جی وی اے کی حصے داری 33.08 فیصد تھی۔ حکومت نے ایم ایس ایم ای کو مضبوطی اور ترقی فراہم کرنے کے لیے متعدد پہل کی ہے۔ آتم نربھر بھارت پیکیج کے تحت یکم جولائی 2020 سے ایم ایس ایم ای کی تشریح میں کی گئی ترمیم کے تحت مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر کے لیے سرمایہ کاری اور سالانہ تجارت کی یکساں شرط کا مشترکہ پیمانہ شروع کیا گیا۔ ایم ایس ایم ای کے لیے تجارت میں سہولت بڑھانے کے لیے حکومت کے ذریعے حال ہی میں اٹھائے گئے متعدداقدامات میں جولائی 2020 میں ادیم رجسٹریشن پورٹل شروع کرنا بھی شامل ہے۔

17 جنوری 2022 تک ادیم پورٹل پر کل 6634006 صنعتوں کا رجسٹریشن کیا گیا ہے، جن میں سے 6279858 بہت چھوٹی صنعتیں ہیں، جبکہ 319793 چھوٹی صنعتیں ہیں اور 34335 اوسط درجے کی صنعتیں ہیں۔

 

کپڑا

گزشتہ دہائی میں اس صنعت میں تقریبا 203000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور تقریبا 105 ملین لوگوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ روزگار ملا ہے، جن میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس صنعت کے کافی متاثر ہونے کے باوجود اس میں قابل ذکر ری کوری دیکھی گئی ہے۔ اپریل-اکتوبر2020 کے دوران ترقی میں اس کا تعاون 3.6 فیصد رہا ہے، جیسا کہ آئی آئی پی سے پتہ چلتاہے۔

اس سیکٹر میں مسابقتی صلاحیت بڑھانے میں ضروری تعاون کے تحت حکومت نے 4445 کروڑ روپے کے کل اخراجات والے 7 پی ایم میگا مربوط ٹیکسٹائل خطہ اور  ملبوسات پارک (متر) کے قیام کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس اسکیم سے آتم نربھر بھارت کا وژن مزید مضبوط ہونے اور عالمی کپڑے کے نقشے پر بھارت کی حیثیت بڑھنے کی امید ہے۔  پانچ ایف یعنی فارم سے فائبر، فائبر سے فیکٹری، فیکٹری سے فیشن، فیشن سے فارن سے متاثر پی ایم متر سے کپڑے کا شعبہ مضبوط ہوگا، جو کپڑے کی صنعت کی مکمل قدر کی کڑی کے لیے مربوط اور جدید انفراسٹراکچر کو تیار کرنے سے ممکن ہوگا۔

 

الیکٹرانکس صنعت

حکومت الیکٹرانکس ہارڈویئر مینوفیکچر نگ کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ لہذا حکومت نے 25 فروری 20219 کو قومی الیکٹرانکس پالیسی 2019 (این پی ای-2019) کو نوٹیفائی کیا ہے، تاکہ بھارت کو الیکٹرانکس سسٹم ڈیزائن اور مینوفیکچرنگ (ای ایس ڈی ایم) کے ایک عالمی مرکز کے طور پر قائم کیا جاسکے۔ یہ چپ سیٹ سمیت اہم پرزوں کو تیار کرنے کے لیے ملک میں متعلقہ صلاحیتوں کو فروغ دینے سے ممکن ہوگا۔

حال ہی میں حکومت نے سیمی کنڈکٹر اور ڈسپلے مینوفیکچرنگ سسٹم  کے فروغ کے لیے 76000 کروڑ روپے (10 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ) کے اخراجات کو منظوری دی ہے۔ اس صنعت کو فروغ دینے کا قدم حکومت نے ایسے وقت میں اٹھایا ہے، جب سپلائی چین میں بڑے پیمانے پر رکاوٹ کی وجہ سے عالمی معیشت میں سیمی کنڈکٹر کی شدید قلت محسوس کی جارہی ہے۔

 

فارما سیوٹیکلس

ہندوستانی فارما سیوٹیکلس صنعت کو کل مقدار کی بنیاد پر فارما سیوٹیکلس کی پیداوار کے معاملے میں پوری دنیا میں تیسرا مقام عطا کیا گیا ہے۔ بھارت جینرک دواؤں کا تیسرا سب سے بڑا سپلائر ہے، جس کی 20فیصد حصے داری عالمی سپلائی میں ہے اور جس کے دم پر بھارت کو ’دنیا کی دوا صنعت‘ کہا جاتا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے سال 2020-21 میں فارما سیوٹیکلس سیکٹر میں ایف ڈی آئی اچانک کافی تیزی سے بڑھا ہے، جو 200فیصد کا اضافہ دکھاتا ہے۔ فارما سیوٹیکلس سیکٹر میں غیرملکی سرمایہ کاری میں قابل ذکر اضافہ بنیادی طور پر دواؤں اور ٹیکوں کی کووڈ سے متعلق مانگ کو پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے ہی ممکن ہوپائی ہے۔

 

انفراسٹرکچر

نیشنل انفراسڑکچر پائپ لائن(این آئی پی)

انفراسٹرکچر میں پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ ، اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ انفراسٹرکچر میں پرائیویٹ حصے داری پر عالمی بینک ڈیٹا بیس کے مطابق پی پی پی پروجیکٹوں کی کل تعداد کے ساتھ ساتھ  متعلقہ سرمایہ کاری کے نقطہ نظر  سے بھی ترقی یافتہ ممالک میں بھارت کو دوسرا مقام عطا کیا گیا ہے۔

پی پی پی پروجیکٹوں کا لگانے والی پبلک-پرائیویٹ پارٹنر شپ تخمینی کمیٹی(پی پی پی اے سی) نے سال 2014-15 سے سال 2020-21 تک 137218 کروڑ روپے کی کل پروجیکٹ لاگت والے 66 پروجیکٹوں کو منظوری دی ہے۔ حکومت نے مالیاتی نقطہ نظر سے غیرمنافع بخش، لیکن سماجی / اقتصادی نقطہ نظر سے متوقع  پی پی پی پروجیکٹوں کو مالی تعاون فراہم کرانے کے لیے کم پڑ رہی رقم کی فنڈنگ (وی جی ایف) والی اسکیم شروع کی۔  اس اسکیم کے تحت کل پروجیکٹ لاگت کے 20 فیصد تک کی فنڈنگ گرانٹ کے طور پر کی جاتی ہے۔

سال 2024-25 تک 5 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی حاصل کرنے کے لیے بھارت کو ان تمام سالوں کے دوران تقریبا 1.4 ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ سال 2020-2025 کے دوران انفراسٹرکچر میں تقریبا 111 لاکھ کروڑ روپے (1.5 ٹریلین امریکی ڈالر) کی امکانی سرمایہ کاری والی نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن (این آئی پی) کا افتتاح کیا گیا، تاکہ ملک بھر میں عالمی سطح کا انفراسٹرکچر مہیا ہوسکے۔ این آئی پی کا آغاز 6835 پروجیکٹوں کے ساتھ کیا گیا، جن کی تعداد بڑھا کر 9000 سے بھی زیادہ کردی گئی ہے اور جو 34 انفراسٹرکچر سب سیکٹر کا احاطہ کرتی ہیں۔

 

نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی)

ایک مضبوط اثاثہ پائپ لائن ’این ایم پی‘ کو تیار کیا گیا ہے، تاکہ انفراسٹرکچر کے سرمایہ کاروں اور ڈیولپروں کو اس بارے میں جامع تصویر پیش کی جاسکے۔ مرکزی حکومت کے اہم اثاثوں کے لیے این ایم پی کی کل علامتی قدر 4 سالوں کی مدت میں 6.0 لاکھ کروڑ روپے (این آئی پی  کے تحت تصور کی گئی کل انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کا 5.4 فیصد) رہنے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

 

روڈ ٹرانسپورٹ

روڈ انفراسٹرکچر کو سماجی و اقتصادی اتحاد کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے اور ملک میں اقتصادی ترقی کےلیے یہ کافی اہم ہے۔ سال 2013-14 سے ہی قومی شاہراہوں/ سڑکوں کی تعمیر میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ سال 2020-21 میں 13327 کلو میٹر لمبی سڑکوں کی تعمیر کی گئی ہے، جبکہ سال 2019-20 میں 10237 کلو میٹر لمبی سڑکوں کی تعمیر کی گئی تھی اور جو پچھلے سال کے مقابلے 30.2 فیصد کا اضافہ دکھاتا ہے۔

 

ریلوے

ریلوے میں سال 2014-2021 کے دوران نئی لائنیں اور کئی پٹریوں والے پروجیکٹوں کے ذریعے نئی پٹریوں میں ہر سال 1835 کلو میٹر لمبی پٹریاں جوڑی گئیں، جبکہ سال 2009-2014 کے دوران روزانہ اوسطا 720 کلو میٹر لمبی پٹریاں جوڑی گئی تھیں۔ انڈین ریلوے (آئی آر) نئی دیسی ٹیکنالوجی جیسے کہ کوچ، وندے بھارت ریل گاڑیوں اور اسٹیشنوں کی ازسر نو ترقی پر فوکس کررہی ہے، تاکہ زیادہ محفوظ اور بہتر سفر کو یقینی بنایا جاسکے۔مالی سال 2021 کے دوران انڈین ریلوے نے 1.23 ارب ٹن مال کی ڈھلائی کی اور  1.25 ارب مسافروں کو سفر کرایا۔

انڈین ریلوے کے لیے سرمایہ سے متعلق خرچ (کیپیکس) کو سال 2009-2014 کے اوسطا 45980 کروڑ روپے سالانہ سے کافی بڑھا کر سال 2021-22 (بجٹ کا تخمینہ) کے دوران 215058 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔

 

شہری ہوابازی

بھارت دنیا کے ایک سب سے تیزی سے ترقی کررہے ہوابازی کے بازار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ بھارت میں گھریلو نقل وحمل سال 2013-14 کے تقریبا 61 ملین سے دوگنا سے بھی زیادہ بڑھ کر سال 2019-20 میں تقریبا 137 ملین کی سطح پر پہنچ گئی ہے، جو سالانہ 14 فیصد سے بھی زیادہ کے اضافہ کو دکھاتا ہے۔ حکومت ہند نے ہوابازی کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے مختلف پہل کی ہے، جن میں وبائی مرض کی پہلی لہر کے کمزور ہونے کےساتھ ہی گھریلو شعبے کو منظم طریقے سے کھولنا، مخصوص ممالک کے ساتھ ہوائی نقل وحمل ببل یا ہوائی سفر کے انتظامات کی شروعات کرنے، ایئر انڈیا کا ارتدادسرمایہ، ہوائی اڈوں کا پرائیویٹائزیشن اور ماڈرنائزیشن، علاقائی کنکٹی ویٹی اسکیم ’اڑان‘ کو فروغ دینا، رکھ رکھاؤ، مرمت اور ازسرنوتعمیر (ایم آر او) آپریشن کو فروغ دینا وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ بغیر انسان والاایئر کرافٹ سسٹم (یو اے ایس)، جسے ڈرون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، سے اقتصادیات کے تقریبا تمام شعبوں کو بڑے پیمانے پر فائدے ہورہے ہیں۔ حکومت نے اگست 2021 میں ڈرون ضابطہ 2021 کو لبرل بنادیا اور 15 ستمبر 2021 کو ڈرون کے لیے پی ایل آئی اسکیم شروع کی۔ اس طرح پالیسی سے متعلق اصلاح سے ڈرون کے شعبے کی بڑے پیمانے پر ترقی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اکتوبر 2021 میں کل ہوائی کارگو بڑھ کر 2.88 لاکھ ایم ٹی کو چھو گیا، جو کووڈ سے پہلے کی سطح (2.81 لاکھ ایم ٹی) سے زیادہ ہے۔

 

بندرگاہ

کسی بھی اقتصادیات میں بندر گاہ کے شعبے کی کارکردگی اس اقتصادیات کو تجارت کے نقطہ نظر سے مسابقتی بنانے میں کافی معنی رکھتی ہے۔ 13 اہم بندرگاہوں کی صلاحیت مارچ 2014 کے آخر میں 871.52 ملین ٹن سالانہ (ایم ٹی پی اے) تھی، جو مارچ 2021 کے آخر تک 79 فیصد بڑھ کر 1560.61 ایم ٹی پی اے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔

جولائی 2021 میں مرکزی کابینہ نے ایک اسکیم کو منظوری دی ہے، جس کے تحت وزارتوں اور سی پی ایس ای کے ذریعے جاری کیے گیے عالمی ٹینڈر کے تحت بھارت کی شپنگ کمپنیوں کو 5 سالوں کی مدت کے دوران 1624 کروڑ روپے کی مدد فراہم کی گئی ہے، تاکہ بھارت میں کاروباری جہازوں کو فروغ دیا جاسکے۔

عالمی سمندری شعبے میں بھارت کو سرفہرست بنانے کے مقصد سے میری ٹائم انڈیا وژن 2030 (ایم آئی وی2030) کو مارچ 2021 میں جاری کیا گیا، جو اگلی دہائی میں بھارت کے سمندری شعبے کی مربوط اور فوری ترقی کو یقینی بنانے والا بلیو پرنٹ ہے۔ ایم آئی وی 2030 میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی بندرگاہوں کی ترقی سے ایگزم کے صارفین کو اپنی کل لاگت میں سالانہ 6000-7000 کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔ ایم آئی وی 2030 میں  اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی بندرگاہوں پر عالمی سطح کے انفراسٹرکچر کی صلاحیت میں اضافہ اور ترقی کے لیے 100000-125000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

 

بین ممالک آبی گزرگاہ

انلینڈویسل ایکٹ2021 کے ذریعے ضابطے سے متعلق ترمیم کے تحت 100 سال سے بھی زیادہ پرانے انلینڈ ویسل ایکٹ 1917 کو بدل دیا گیا اور بین ممالک آبی نقل وحمل کے شعبے میں نئے دور کا آغاز ہوا۔

 

مواصلات

بھارت مواصلات کے شعبے میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا بازار ہے۔بھارت نے ٹیلی فون کے کل صارفین کی تعداد مارچ 2014 کے 933.02 ملین سے بڑھ کر مارچ 2021 میں 1200.88 ملین کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مارچ 2021 میں 45 فیصد صارفین دیہی ہندوستان میں تھے اور 55 فیصد صارفین شہری علاقوں میں تھے۔ بھارت میں انٹرنیٹ کی پہنچ  مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد مارچ 2015 کے 302.33 ملین سے بڑھ کر جون 2021 میں 833.71 ملین کی سطح پر پہنچ گئی۔

موبائل ٹاوروں کی تعداد بھی کافی بڑھ کر دسمبر 2021 میں 6.93 لاکھ کی سطح پر پہنچ گئی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ٹیلی کام آپریٹروں نے اس شعبے میں موجود صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے اور متعلقہ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اس موقع کا استعمال کیا ہے، جو حکومت کی ڈیجیٹل انڈیا مہم کو آگے بڑھانے میں اہم ثابت ہوگی۔

بھارت نیٹ پروجیکٹ کے تحت 27 ستمبر 2021 تک 5.46 لاکھ کلو میٹر لمبی آپٹیکل فائبر کیبل بچھائی گئی ہے، کل ملاکر 1.73 لاکھ گرام پنچایتوں (جی پی) کو آپٹیکل فائبر کیبل (او ایف سی) سے کنکٹ کیا گیا ہے اور 1.59 لاکھ گرام پنچایت کو او ایف سی پر متعلقہ سروس کے لیے  پوری طرح تیار ہیں۔

حکومت شمال مشرقی خطے کے لیے ایک وسیع ٹیلی کام ڈیولپمنٹ اسکیم  (سی ٹی ڈی پی) اور  جزیروں کے لیے بڑے پیمانے پر مواصلاتی ترقیاتی اسکیم نافذ کررہی ہے، تاکہ اب تک اس سے محروم گاؤوں کے ساتھ ساتھ شمال مشرقی خطے میں واقع قومی شاہراہوں پر بھی موبائل کنکٹی ویٹی فراہم کی جاسکے۔ ساختیاتی اور عمل آوری سے متعلق اصلاحات کو یقینی بنانے کےلیے متعدد کام کیے گئے ہیں۔  ان اصلاحات سے 4جی کی توسیع کو فروغ حاصل ہوگا، سیالیت آئے گی اور 5 جی نیٹ ورکوں میں سرمایہ کاری کےلیے موافق ماحول بنے گا۔

 

پٹرولیم، خام تیل اور قدرتی گیس

سال 2020-21 کے دوران خام تیل اور کنڈنسیٹ  کی پیداوار 30.49 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی) کی ہوئی۔ سال 2020-21 کے دوران قدرتی گیس کی پیداوار7 28.6 ارب  کیوبک میٹر (بی سی ایم) کی ہوئی، جبکہ سال 2019-20 میں 31.18 بی سی ایم کی پیداوار ہوئی تھی۔ سال 2020-21 کے دوران 221.77 ایم ایم ٹی خام تیل کی پروسیسنگ ہوئی، جبکہ سال 2019-20 کے دوران 254.39 ایم ایم ٹی خام تیل کی پروسیسنگ ہوئی تھی، جو سال 2020-21 کے لیے متعینہ 251.66 ایم ایم ٹی کے ہدف کا 88.1 فیصد ہے۔

حکومت نے شفافیت کو یقینی بنانے کےلیے کئی قدم اٹھائے ہیں۔ ستمبر 2021 میں شروع کیے گئے ’لکشیہ بھارت پورٹل‘ پر سبھی تیل اور گیس کی تنظیموں کے لیے ان کے ذریعے خریدی گئی مختلف اشیا کی تفصیلات کو اپ لوڈ کرنا ضروری بنایا ہے، جس میں آئندہ کی ضروریات بھی شامل ہیں۔

پٹرولیم کے شعبے نے کووڈ-19 کے سبب لگائے گئے لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران ملک بھر میں ایندھن کی سپلائی برقرار رکھتے ہوئے اہم رول نبھایا۔ 10 اگست 2021 کو ملک بھر میں پردھان منتری اجولا یوجنا ’اجولا2.0‘ کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ہوا، تاکہ پہلی بار پہلی مفت گیس فیلنگ اور اسٹوو دینے  کے ساتھ ساتھ ایک کروڑ اضافی ایل پی جی کنکشن  فراہم کیے جاسکیں۔

 

بجلی

بھارت میں بجلی کے شعبے میں قابل ذکر تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ ملک میں پہلے جہاں بجلی کی شدید قلت ہوتی تھی، وہیں اب بجلی کی مانگ مکمل طور پر پوری کی جارہی ہے۔ کل قائم شدہ بجلی کی صلاحیت اور خودکار طور پر استعمال ہونے والے بجلی کے پلانٹ (ایک میگاواٹ اور اس سے زیادہ کی مانگ والی صنعت) کی صلاحیت 31 مارچ 2021 کو 459.15 جی ڈبلیو تھی، جبکہ 31 مارچ 2020 کو یہ صلاحیت 446.35 جی ڈبلیو تھی اور جو 2.87 فیصد کے اضافہ کو دکھاتا ہے۔

 

قابل تجدید توانائی

بھارت نے قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اضافہ کے معاملے میں سبھی بڑی اقتصادیات میں سب سے تیز اضافہ درج کیا ہے۔ گزشتہ 7.5 سالوں کے دوران قابل تجدید توانائی کی صلاحیت 2.9 گنا اور شمسی توانائی کی صلاحیت 18 گنا سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔

قابل تجدید توانائی کے انخلا کو سہولت آمیز بنانے اور مستقبل کی ضروریات کے لیے گرڈ کو نئی شکل عطا کرنے کے لیے گرین انرجی کوریڈور (جی ای سی) پروجیکٹ شروع کیے گئے ہیں۔ ریاست کے اندر 9700 سی کے ایم ٹرانزیشن لائنوں کی ہدف شدہ صلاحیت کے جی ای سی اور 22600 ایم وی اے صلاحیت کے ذیلی مراکز والے  دوسرے اجزا جون 2022 تک مکمل ہوجانے کی امید ہے۔

*****

ش ح۔ ق ت۔ ت ع

U NO:883



(Release ID: 1793931) Visitor Counter : 352