وزیراعظم کا دفتر

من کی بات  کی 83ویں قسط میں  وزیر اعظم کے خطاب کا متن (28.11.2021)

Posted On: 28 NOV 2021 11:33AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج ہم ایک بار پھر ’من کی بات‘ کے لیے  ایک ساتھ جڑ  رہے ہیں۔ دو دن بعد دسمبر کا مہینہ بھی شروع ہو رہا ہے اور دسمبر آتے ہی  نفسیاتی طور پر ہمیں لگتا ہے کہ چلئے بھائی سال پورا  ہو گیا ہے۔ یہ سال کا آخری مہینہ ہے اور نئے سال کے لیے تانے بانے بننا  شروع کر دیتے ہیں۔اسی مہینے  نیوی ڈے  آرمڈ فورسز فلیگ ڈے بھی  ملک مناتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ 16 دسمبر کو1971 کی جنگ کی  گولڈن جوبلی بھی ملک منا رہا ہے۔ میں ان سبھی  مواقع پر ملک کی سیکورٹی فورسز یاد کرتا ہوں، اپنے بہادروں  کو یاد کرتا ہوں۔ اور خاص طور پر ان بہادر ماؤں کو یاد  کرتا ہوں جنہوں نے ایسے بہادروں کو جنم دیا۔ ہمیشہ کی طرح، اس بار بھی مجھے نمو ایپ پر، مائی جی او وی پر آپ کے بہت سارے مشورے  بھی ملے ہیں۔ آپ لوگوں نے مجھے اپنے خاندان کا حصہ  مانتے ہوئے  اپنی زندگی کے سکھ دکھ بھی ساجھا کئے ہیں۔ ان میں بہت سارے  نوجوان بھی ہیں، طلبا  اور طالبات بھی ہیں۔ مجھے  واقعی بہت اچھا لگتا ہے کہ’من کی بات‘ کا ہمارا یہ خاندان مسلسل بڑا تو ہوہی  رہا ہے،من سے بھی جڑ رہا ہے اور مقصد سے بھی جڑ رہا ہے اور ہمارےگہرے ہوتے رشتے، ہمارے اندر، مسلسل مثبت نظریات  کا ایک سلسلہ   پیدا کررہے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو، مجھے سیتا پور کے اوجسوی نے لکھا ہے کہ امرت مہوتسو سے متعلق تذکرے انہیں بہت پسند آرہے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ’من کی بات‘ سنتے ہیں اور جنگ آزادی کے بارے  کافی کچھ جاننے  سیکھنے کی  مسلسل کوشش کر رہا ہے۔ ساتھیو، امرت مہوتسو سیکھنے کے ساتھ ہی  ہمیں ملک کے لیے کچھ کرنے کی  بھی تحریک دیتا ہے اور اب تو ملک بھر میں  چاہے عام لوگ ہوں یا حکومتیں، پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ تک، امرت مہوتسو کی گونج ہے اور اس لگاتار اس مہوتسو سے متعلق  پروگرامون کا سلسلہ چل رہا ہے، ایسا ہی ایک دلچسپ پروگرام گزشتہ دنوں دہلی میں ہوا۔’’آزادی کی کہانی - بچوں کی زبانی‘‘پروگرام میں بچوں نے جنگی آزادی سے متعلق کہانیاں پورے جذبے کے ساتھ پیش کیں۔ خاص بات یہ بھی رہی کہ اس میں بھارت کے ساتھ ہی  نیپال، ماریشس، تنزانیہ، نیوزی لینڈ اور فجی کے طلبا  بھی شامل ہوئے۔ ہمارے ملک کا مہارتن او این جی سی۔ او این جی سی بھی  کچھ الگ طریقے سے امرت مہوتسو  منا رہا ہے۔ او این جی سی ان دنوں آئل فیلڈز اپنے طلباء کے لیے میں مطالعاتی دوروں کا اہتمام کر رہا ہے۔ ان دوروں میں، نوجوانوں کو او این جی سی کے آئل فیلڈ آپریشنز کی معلومات فراہم کرائی جارہی ہے۔  مقصد یہ ہے کہ  ہمارے ابھرتے ہوئے انجینئرز ملک کی تعمیر کی کوششوں میں پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ہاتھ بٹا سکیں۔

ساتھیو، آزادی میں اپنی قبائلی برادری کے تعاون کو دیکھتے ہوئے ملک نے جن جاتیہ گورو ہفتہ بھی منایا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اس سلسلے میں پروگرام بھی منعقد ہوئے۔ جزائر انڈمان اور نکوبار میں، جاروا اور اونگے، ایسی قبائلی برادریوں کے لوگوں نے اپنی ثقافت کا شاندار مظاہرہ کیا۔ ایک کمال کا کام ہماچل پردیش میں  اونا کے منی ایچر رائٹر رام کمار جوشی نے بھی  کیا ہے، انہوں نے ڈاک ٹکٹوں پر ہی  یعنی تنے چھوٹی ڈاکٹ ٹکٹوں پر نیتا جی سبھاش چندر بوس اور سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری  جی کے منفرد اسکیچ بنائے ۔ ہندی میں لکھے  ’رام‘  لفظ پر انہوں نے اسکیچ  تیار کئے  جس میں مختصراً  دونوں عظیم شخصیتوں کی سوانح عمری کو بھی درج کی ہے۔ مدھیہ پردیش کے کٹنی کے کچھ ساتھیوں نے بھی ایک یادگار داستان گوئی پروگرام کے بارے میں بتایا ہے۔ اس میں رانی درگاوتی کے ناقابل تسخیر حوصلے  اور قربانی کی یادیں تازہ کی گئی ہیں۔ ایسا ہی ایک پروگرام  کاشی میں ہوا۔ گوسوامی تلسی داس، سنت کبیر، سنت رے داس، بھارتندو ہریش چندر، منشی پریم چند اور جے شنکر پرساد جیسی عظیم ہستیوں کے اعزاز میں تین روزہ مہوتس کا اہتمام کیا گیا۔ الگ الگ  ادوار میں ان سبھی کا  ملک میں عوامی بیداری پھیلانے میں بہت  بڑا کردار  رہا ہے۔ آپ  کو یاد ہوگا ں کہ ’من کی بات‘ کی گزشتہ قسط  کے دوران میں نے تین مقابلوں کا ذکر کیا تھا، کمپٹیشن کی بات کہی تھی۔ ایک حب الوطنی کے گیت لکھنا، حب الوطنی سے جڑے، تحریک آزادی سے متعلق واقعات کی رنگولیاں بنانا اور ہمارے  بچوں کے ذہنوں میں  عظیم  الشان بھارت  کے خواب جگانے والی لوری لکھی جائے۔ مجھے امید ہے کہ ان مقابلوں کے لیے بھی آپ ضرور انٹری  بھی بھیج چکے ہوں گے، اسکیم بھی تیار کرچکے ہوں گے اور اپنے ساتھیوں سے ذکر کرچکے ہوں گے۔ مجھے امید ہے  بڑھ چڑک کرکے  بھارت  کے ہر کونے اس پروگرام کو آپ ضرور آگے بڑھائیں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس تذکرے سے اب میں آپ کو سیدھے ورنداون لے  کر چلتا  ہوں۔ ورنداون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھگوان کی محبت کا براہ راست مظہر ہے۔ ہمارے سنتوں نے بھی کہا ہے کہ

यह आसा धरि चित्त में, यह आसा धरि चित्त में,

कहत जथा मति मोर।

वृंदावन सुख रंग कौ, वृंदावन सुख रंग कौ,

काहु न पायौ और।

یعنی ورنداون کی شان، ہم سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق  بیان ضرور کرتے ہیں، لیکن ورنداون کی سکھ ہے، یہاں کا رس ہے، اس کاآخری سراکوئی نہیں پا سکتا، وہ تو  لامحدود ہے۔ تبھی تو  ورنداون دنیا بھر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر تا رہا ہے۔ اس کی چھاپ آپ کو دنیا کے کونے کونے میں مل جائے گی۔

مغربی آسٹریلیا کا ایک شہر  ہے پرتھ۔ کرکٹ کے شائقین اس جگہ  سے بخوبی واقف ہوں گے، کیونکہ پرتھ میں اکثر کرکٹ کے میچ ہوتے  رہتے ہیں۔ پرتھ میں ایک ’سیکرڈ انڈیا گیلری‘ کے نام سے ایک آرٹ گیلری بھی ہے۔ یہ گیلری سوان  ویلی کے ایک خوبصورت علاقے میں بنائی گئی ہے اور یہ  آسٹریلیا کی  رہنے والے جگت تارینی داسی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جگت تارینی جی ویسے تو ہیں  آسٹریلیا کی،  جنم بھی وہیں ہوا،  پرورش بھی وہیں ہوئی، لیکن 13 سال سے  بھی زیادہ کا عرصہ ورنداون  میں آکر انہوں نے گزارا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ آسٹریلیا  لوٹ تو  گئیں، اپنے ملک واپس  تو  گئیں، لیکن وہ ورنداون کو کبھی بھول نہیں پائی۔  اس لئے انہوں نے ورنداون اور اس کے روحانی اثر سے جڑنے کے لیے،  آسٹریلیا میں ہی ورنداون کھڑا کردیا۔ اپنے فن کو ہی ذریعہ بنا کر انہوں نے ایک حیرت انگیز ورنداون بنالیا۔ یہاں آنے والے لوگوں کو کئی طرح کے فن پارے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ انہیں بھارت کے سب سے زیادہ معروف  مقدس مقامات  ورنداون، نوادیپ اور جگن ناتھ پوری کی روایت اور ثقافت کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہاں پر بھگوان کرشن کی زندگی سے متعلق بہت سے فن پارے بھی آویزاں ہیں۔ ایک فن پارہ ایسا  بھی ہے، جس میں بھگوان کرشنا نے گووردھن پہاڑ کو اپنی چھوٹی انگلی پر اٹھا رکھا ہے، جس کے نیچے ورنداون کے لوگوں نے پناہ لی ہوئی ہے۔ جگت تارینی جی کی یہ شاندار کوشش، واقعی  ہمیں کرشن بھکتی کی طاقت کا  درشن کراتی ہے۔ میں انہیں اس کوشش کے لیے  بہت بہت نیک خواہشات پیش  کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو،  ابھی میں  آسٹریلیا کے پرتھ میں واقع ورنداون کی بات کر رہا تھا۔ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے کہ آسٹریلیا کا ایک  رشتہ ہمارے بندیل کھنڈ کے جھانسی سے بھی ہے۔ درحقیقت جھانسی کی رانی لکشمی  جب بائی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف قانونی لڑائی  لڑ رہی تھیں تو ان کے وکیل جان لینگ تھے۔ جان لینگ کا تعلق اصل میں آسٹریلیا سے تھا۔ بھارت  میں رہ کر  انہوں نے رانی لکشمی بائی کا مقدمہ لڑا تھا۔ ہماری  جنگ  آزادی میں جھانسی اور بندیل کھنڈ کا کتنا بڑا تعاون  ہے یہ ہم سب  جانتے ہیں۔ یہاں رانی لکشمی بائی اور جھلکاری بائی جیسی بہادر خواتین بھی ہوئی ہیں اور میجر دھیان چند جیسے کھیل رتن بھی اس خطے نے ملک کو دیئے ہیں۔

ساتھیو، بہادری صرف میدان جنگ میں ہی دکھائی جائے  ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ بہادری جب ایک عہد بن جاتی ہے اور پھیلتی ہے اور  ہر میدان میں بہت سے کام ہونے لگتے ہیں۔ مجھے  ایسی ہی  بہادری کے بارے میں محترمہ جیوتسنا نے خط لکھ کر بتایا ہے۔ جالون میں ایک روایتی ندی تھی - نون ندی۔ نون، یہاں کے کسانوں کے لیے پانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ نون ندی معدومیت کے دہانے پر پہنچ گئی، جو تھوڑا بہت وجود اس ندی کا بچا تھا، اس میں وہ نالے میں تبدیل ہو رہی تھی، اس  سے  کسانوں کے لیے آبپاشی کا مسئلہ  بھی پیدا ہوگیا تھا۔ جالون کے لوگوں نے اس صورتحال کو تبدیل کرنے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ اسی سال مارچ میں اس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ ہزاروں  گاؤں والے اور مقامی لوگ اپنی مرضی سے اس مہم سے جڑے۔ یہاں کی پنچایتوں نے گاؤں والوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شروع کیا اور آج اتنی کم مدت  میں اور بہت کم لاگت میں یہ ندی  پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔ بہت سے کسانوں کو اس سے فائدہ ہورہا ہے۔ جنگ کے  میدان سے الگ  بہادری کی یہ مثال ہمارے ہم وطنوں کی قوتِ ارادی کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اگر ہم پرعزم ہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں اور تبھی تو میں کہتا ہوں کہ سب کا پریاس۔

میرے پیارے ہم وطنو، جب ہم قدرت کا تحفظ کرتے ہیں تو بدلے میں قدرت بھی ہمیں تحفظ اور  حفاظت فراہم کرتی ہے۔اس بات کو  ہم اپنی ذاتی زندگی میں بھی محسوس کرتے ہیں اور ایسی ہی ایک مثال تمل ناڈو کے لوگوں نے بڑے پیمانے پر پیش کی ہے۔ یہ مثال  ہے تمل ناڈو کے توتو کوڑی ضلع کی۔ ہم جانتے ہیں کہ ساحلی علاقے بعض اوقات زمین کے  ڈوبنے کا خطرہ رہتا ہے۔ توتوکوڑی میں بھی  کئی  چھوٹے جزیرے اور ٹاپو ایسے تھے جن کے سمندر میں ڈوبنے کا خطرہ بڑھ  رہا تھا۔ یہاں کے لوگوں اور ماہرین نے اس قدرتی آفت سے بچنے کے لئے  قدرتی طریقہ ہی تلاش کیا۔ یہ لوگ اب ان جزائر پر پالمیرا کے درخت لگا رہے ہیں۔ یہ درخت سائیکلوں اور طوفانوں میں بھی کھڑے رہتے ہیں اور زمین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان اب اس علاقے کو بچانے کا ایک نیا اعتماد پیدا   ہوا ہے۔

ساتھیو، قدرت ہمارے لیے  خطرہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اس کا توازن بگاڑ تے ہیں  یا اس کے تقدست کو  تباہ کرتے ہیں۔ قدرت، ماں کی طرح ہماری پرورش بھی  کرتی ہے اور ہماری دنیا میں نئے  نئے رنگ بھی  بھر تی ہے۔

ابھی میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ میگھالیہ میں ایک فلائنگ بوٹ کی تصویر خوب  وائرل ہو رہی ہے۔ پہلی  ہی نظر یہ تصویر ہمیں اپنی جانب  متوجہ کرتی ہے۔ آپ میں سے بھی زیادہ تر لوگوں نے  اسے آن لائن  ضرور دیکھا ہوگا۔ ہوا میں تیرتی اس کشتی کو جب ہم  قریب سے دیکھتے ہیں تو  ہمیں پتہ چلتا ہے  کہ یہ تو ندی  کے پانی میں چل رہی ہے۔ ندی  کا پانی اتنا صاف ہے کہ ہمیں اس کی تلہٹی نظر آتی ہے  اور کشتی ہوا میں تیرتی سے  لگ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں کئی ریاستیں ہیں، کئی  علاقے  ہیں  جہاں لوگوں نے اپنی قدرتی وراثت کے رنگوں کو محفوظ  رکھا ہے۔ ان لوگوں نے قدرت کے ساتھ مل کر رہنے کے طرز زندگی کو آج بھی زندہ رکھا  ہے۔ یہ ہم سب  کو بھی  تحریک دیتی  ہے۔ ہمارے اردگرد جتنے بھی قدرتی وسائل ہیں، ہمیں ان کو بچانا چاہیے، انھیں پھر سے  ان کی اصلی شکل میں لانا چاہئیے۔ اسی میں ہم سب کا مفاد ہے،  دنیا کا مفاد  ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، حکومت جب اسکیمیں تیار کرتی ہے، بجٹ خرچ کرتی ہے،وقت پر پروجیکٹوں کو مکمل کرتی ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ کام کر رہی ہے۔ لیکن حکومت کے متعدد کاموں میں ترقی کی متعدد اسکیموں کے درمیان، انسانی احساسات سے جڑی باتیں  ہمیشہ ایک الگ ہی خوشی دیتی ہیں۔ حکومت کی کوششوں سے حکومت کی اسکیموں سے کیسے  کوئی زندگی  بدلی، اس بدلی ہوئی زندگی کا تجربہ کیا ہے؟ جب یہ سنتے ہیں تو  ہم بھی احساسات سے پر ہوجاتے ہیں۔  یہ  من کو اطمینان بھی دیتا ہے اور اس اسکیم  کو لوگوں تک پہنچانے کی تحریک بھی  دیتا ہے۔ ایک طرح سے یہ  ’سوانتہ:  سکھائے‘ ہی تو ہے اور اس لئے ’من کی بات‘  ہمارے ساتھ  دو ایسے ہی  ساتھی بھی جڑ  رہے ہیں جو اپنے حوصلوں سے ایک  نئی زندگی جیت کر آئے ہیں۔ انہوں نے آیوشمان بھارت اسکیم کی مدد سے اپنا علاج کرایا اور ایک  نئی زندگی شروع کی ہے۔ ہمارے پہلے ساتھی ہیں  راجیش کمار پرجاپتی ہیں، جو عارضہ قلب  سے پریشان تھے۔

تو آئیے راجیش جی سے بات کرتے ہیں۔

وزیر اعظم :  راجیش جی نمستے۔

راجیش پرجاپتی :  نمستے سر نمستے۔

وزیر اعظم :  راجیش جی آپ کو کیا بیماری تھی؟ پھر کسی ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے،  مجھے ذرا سمجھایئے، مقامی ڈاکٹر نے کہا ہو گا، پھر  کسی اور ڈاکٹر کے پاس گئے ہوں گے؟ پھر آپ فیصلہ نہیں کرتے  ہوں گے  یا کرتے  ہوں گے ،کیا کیا  ہوتا تھا؟

راجیش پرجاپتی:  جی مجھے دل  کا عارضہ لاھق ہوگیا تھا سر، میرے سینے میں جلن ہوتی تھی،سر، پھر میں نے ڈاکٹر کو دکھایا، ڈاکٹر نےپہلے توو بتایا کہ  ہوسکتا بیٹا تمہارے ایسڈ ہوگی، تو میں نے کافی دن تک  ایسڈ کی دوائی کرائی، اس سے جب مجھے فائدہ نہیں ہوا تو پھر ڈاکٹر کپور کو دکھایا، تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تمہاری علامات  ہیں اس کے بارے میں انجیوگرافی سے  پتہ چلے گا، پھر اس نے  ریفر کیا مجھے شری رام مورتی میں۔ پھر ملے ہم  امریش اگروال جی سے، تو انہوں نے میری انجیوگرافی کری۔ پھر انہوں نے بتایا کہ بیٹا یہ تو  تمہاری نس  بلاکیج ہے تو ہم نے کہا کہ سر  اس مین کتنا خرچ آئے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ کارڈ ہے آیوشمان والا، جو پی ایم جی نے بناکر دیا ۔ تو ہم نے کہا  سر ہمارے پاس ہے۔ تو انہوں نے میرا وہ کارڈ  لیا اور میرا سارا علاج اسی کارڈ سے ہوا ہے۔ سر اور جو  آپ نے یہ بنایا ہے  کارڈ ئی بہت  ہی اچھے طریقے سے  اور  ہم غریب آدمیوں  کے لیے بہت بڑی سہولت ہے اس سے۔ اور  آپ کا  کیسے میں شکریہ ادا کروں؟

وزیر اعظم : آپ کرتے کیا ہیں راجیش جی ؟

راجیش پرجاپتی :  سر، اس وقت تو میں پرائیویٹ نوکری کرتا ہوں سر

وزیر اعظم : اور آپ کی عمر کتنی ہے؟

راجیش پرجاپتی:  میری عمر 59 سال ہے۔ سر

وزیر اعظم :  اتنی چھوٹی عمر میں آپ کو عارضہ قلب ہوگیا۔

راجیش پرجاپتی: ہاں جی سر  کیا بتائیں اب۔

وزیر اعظم :   آپ کے خاندان میں  بھی  والد کو والدہ کو  یا ا س طرح کا عارضہ  پہلے رہا ہے کیا؟

راجیش پرجاپتی:  نہیں سر،  کسی کو  نہیں تھاسر، یہ  پہلا ہمارے ساتھ ہی  ہوا ہے۔

وزیر اعظم : یہ آیوشمان کارڈ حکومت ہند  یہ  کارڈ  دہتی ہے ،غریبوں کے لیے بہت بڑی اسکیم ہے، تو یہ آپ کو  پتہ کیسے چلا ؟

راجیش پرجاپتی:  سر یہ  تو اتنی بڑی اسکیم ہے، غریب آدمی کو اس سےبہت فائدہ ملتا ہے اور  اتنا  خوش ہیں سر، ہم نے اسپتال میں دیکھا ہے کہ اس کارڈ سے کتنے لوگوں کو سہولت ملتی  ہے جب ڈاکٹر سے کہتا ہے  کارڈ میرے پاس ہے سر۔ تو  ڈاکٹر  کہا ہے  ٹھیک ہے وہ کارڈ لے  کر آیئے میں اسی کارڈ سے  آپ کا ا علاج کردوں گا۔

وزیراعظم:  اچھا کارڈ نہ ہوتا تو آپ کو کتنا خرچ بولا تھا  ڈاکٹر نے ۔

راجیش پرجاپتی :  ڈاکٹر نے کہا تھا بیٹا اس میں بہت سارا  خرچ آئے گا۔ بیٹا اگر کارڈ نہیں ہوگا۔ تو میں نے کہا  سر کار تو ہے میرے پاس  تو انہوں نے کہا کہ  فوراً آپ  دکھائیے تو ہم نے فوراً دکھایا اسی کارڈ سے  سارا علاج  میرا کیا گیا، میرا  ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا، ساری دوائیں  بھی اسی  کارڈ سے نکالی گئی ہیں۔

وزیر اعظم:  تو راجیش جی، آپ کو اب سکون ہے، طبیعت  ٹھیک ہے۔

راجیش پرجاپتی:  جی سر، آپ کا بہت بہت شکریہ سر، آپ کی عمر  بھی اتنی لمبی ہو کہ ہمیشہ اقتدار میں ہی  رہیں، اور ہمارے خاندان کے لوگ  بھی آپ سے  اتنا  خوش ہیں، کیا کہیں  آپ سے۔

وزیر اعظم: راجیش جی، آپ مجھے اقتدار میں رہنے کی نیک خواہشات  مت دیجئے، میں آج بھی اقتدار میں نہیں ہوں اور مستقبل میں بھی اقتدار میں  جانا نہیں چاہتا ہوں۔ میں تو صرف خدمت میں پہ رہنا چاہتا ہوں، میرے لیے یہ عہدہ، یہ وزیراعظم ساری چیزیں  یہ اقتدار کے لیے  ہے ہی نہیں بھائی، خدمت کے لیے ہے۔

راجیش پرجاپتی: خدمت ہی تو چاہیئے ہم لوگوں کو اور کیا؟

وزیر اعظم: دیکھئے غریبوں کے لیے یہ آیوشمان بھارت اسکیم  یہ اپنے آپ میں ۔

راجیش پرجاپتی:  جی سر بہت بڑھیا چیز بات ہے۔

وزیر اعظم: لیکن دیکھئے راجیش جی، آپ ہمارا ایک  کام کیجئے، کریں گے؟

راجیش پرجاپتی: جی بالکل کریں گے سر۔

وزیراعظم: دیکھئے  ہوتاکیا ہے کہ لوگوں کو اس کا پتہ ہی  نہیں ہوتا ہے، آپ ایک ذمہ داری  نبھایئے ایسے جتنے غریب خاندان ہیں،  آپ کے آس پاس، ان کو اپنی یہ کیسے آپ کو  فائدہ ہوا، کیسے مدد  ملی یہ بتایئے؟

راجیش پرجاپتی: بالکل بتائیں گے سر۔

وزیر اعظم: اور ان کو کہئے  کہ وہ بھی ایسا کارڈ بنوالیں تاکہ  خاندان میں  پتہ نہیں کب کیا  مصیبت  آجائے اور آج غریب دوا  کی وجہ سے پریشان رہے  یہ تو  ٹھیک نہیں ہے۔ اب پیسوں کی وجہ سے  وہ دوا نہ لے اور بیماری کا علاج نہ کرے  تو یہ بھی بڑی تشویش  کی بات ہے اور غریب کو تو  کیا ہوتا ہے  جیسے  آپ کو یہ دل کا عارضہ ہوا تو کتنے مہینے تک تو آپ کام ہی نہیں  کرپائیں ہوں گے۔

راجیش پرجاپتی: ہم  تودس قدم نہیں چل پاتے تھے،  زینا  نہیں چڑھ  پاٹے تھے سر

وزیر اعظم: بس تو آپ راجیش جی، میرے  ایک اچھے  ساتھی بن کر  جنتے غریبوں کو آپ یہ آیوشمان بھارت اسکیم کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں، ویسے بیمار لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں، دیکھئے آپ کو بھی سکون ہوگا اور مجھے بہت خوشی ہوگی کہ چلئے کی  ایک راجیش جی کی طبیعت  تو  ٹھیک ہوئی لیکن راجیش جی نے سینکڑوں لوگوں کی طبیعت  ٹھیک کروادی، یہ آیوشمان بھارت اسکیم، یہ غریبوں کے لیے ہے، یہ متوسط ​​طبقے کے لیے ہے، یہ عام خاندانوں کے لیے ہے، تو گھر گھر اس بات کو پہنچائیں گے آپ۔

راجیش پرجاپتی: بالکل پہنچائیں گے سر۔ ہم  تو وہیں تین دن رکے نا اسپتال  میں سر  تو بیچارے بہت لوگ آئے ، ساری  سہولتیں ان کو بتائیں ، کارڈ ہوگا  تو مفت میں ہو جائے گا۔

وزیر اعظم: چلئے راجیش جی، اپنے آپ کو تندرست رکھئے، تھوڑی جسم کی فکر کیجئے، بچوں کی فک کیجئے اور بہت ترقی کیجئے، میری بہت نیک خواہشات ہیں  آپ کو۔

ساتھیو، ہم نے راجیش جی کی باتیں سنیں، آیئے اب  ہمارے ساتھ سکھ دیوی جی جڑ رہی ہیں، گھٹنوں کی تکلیف نے انہیں بہت پریشان کررکھا تھا، آئیے  ہم سکھ دیوی جی سے پہلے  ان کی تکلیف کی بات سکتے ہیں اور پھرسکھ کیسے آیا وہ سمجھتے ہیں۔

مودی جی - سکھ دیوی جی نمستے! آپ کہاں سے بول رہی ہیں؟

سکھ دیوی جی – دندپرا سے۔

مودی جی - یہ کہاں پڑتا ہے یہ؟

سکھ دیوی جی – متھرا میں۔

مودی جی متھرا میں، پھر تو سکھ دیوی جی، آپ کو نمستے بھی کہنا ہے اور ساتھ ساتھ رادھے۔رادھے بھی کہنا ہوگا۔

سکھ دیوی جی ہاں، رادھے۔ رادھے

مودی جی اچھا ہم نے سنا ہے کہ آپ کو تکلیف ہوئی تھی۔ آپ کا کوئی آپریشن ہوا۔ ذرا بتائیں گی کہ کیا با ت ہے؟

سکھ دیوی جی ہاں میرا گھٹنا خراب ہوگیا تھا، تو آپریشن ہوا ہے میرا۔ پریاگ ہسپتال میں۔

مودی جی آپ کی عمر کتنی ہے سکھ دیوی جی؟

سکھ دیوی جی عمر 40 سال۔

مودی جی 40 سال اور سکھ دیو نام، اور سکھ دیوی کو بیماری ہوگئی۔

سکھ دیوی جی بیماری تو مجھے 15۔16 سال سے ہی لگ گئی۔

مودی جی ارے باپ رے! اتنی چھوٹی عمر میں آپ کے گھٹنے خراب ہوگئے۔

سکھ دیوی جی وہ گٹھیا ۔ بائے بولتے ہیں جو جوڑوں میں درد سے گھٹنا خراب ہوگیا۔

مودی جی تو 16 سال سے 40 سال کی عمر تک آپ نے اس کا علاج ہی نہیں کرایا۔

سکھ دیوی جی نہیں، کروایا تھا۔ درد کی دوائی کھاتے رہے، چھوٹے۔ موٹے ڈاکٹروں نے تو ایسی دیسی دوائی ہے ویسی دوائی  ہے۔ جھولا چھاپ ڈاکٹروں نے تو ایسے ان سے گھٹنا چل بھی پائی  خراب ہوگئی، 1۔2 کلومیٹر پیدل چلی میں تو گھٹنا خراب ہوگیا میرا۔

مودی جی تو سکھ دیوی جی آپریشن کا خیال کیسے آیا؟ اس کے پیسوں کا کیا انتظام کیا؟ کیسے بنا یہ سب؟

سکھ دیوی جی میں نے وہ آیوشمان کارڈ سے علاج کروایا ہے۔

مودی جی تو آپ کو آیوشمان کارڈ مل گیا تھا؟

سکھ دیوی جی ہاں۔

مودی جی  اور آیوشمان کارڈ سے غریبوں کو مفت میں علاج ہوتا ہے۔ یہ معلوم تھا؟

سکھ دیوی جی اسکول میں میٹنگ ہو رہی تھی۔ وہاں سے ہمارے شوہر کو معلوم ہوا تو کارڈ بنوایا میرے نام سے۔

مودی جی ہاں۔

سکھ دیوی جی پھر علاج کروایا کارڈ سے، اور میں نے کوئی پیسہ نہیں لگایا۔ کارڈ سے ہی علاج ہوا ہے میرا۔ خوب بڑھیا علاج ہوا ہے۔

مودی جی اچھا ڈاکٹر پہلے اگر کارڈ نہ ہوتا تو کتنا خرچ بتاتے تھے؟

سکھ دیوی جی ڈھائی لاکھ روپئے، تین لاکھ روپئے۔ 6۔7 سال سے پڑی ہوں کھاٹ پر۔ یہ کہتی تھی کہ، ہے بھگوان مجھے لے لے تو، مجھے نہیں جینا۔

مودی جی 6۔7 سال سے کھاٹ پے تھی۔ باپ رے باپ۔

سکھ دیوی جی ہاں۔

مودی جی او ہو۔

سکھ دیوی جی بالکل اٹھا بیٹھا نہیں جاتا تھا۔

مودی جی تو ابھی آپ کا گھٹنا پہلے سے اچھا ہو اہے؟

سکھ دیوی جی میں خوب گھومتی ہوں۔ پھرتی ہوں۔ رسوئی کا کام کرتی ہوں۔ گھر کا کام کرتی ہوں۔ بچوں کو کھانا بناکر دیتی ہوں۔

مودی جی تو مطلب آیوشمان بھارت کارڈ نے آپ کو سچ مچ میں آیوشمان بنا دیا۔

سکھ دیوی جی بہت بہت شکریہ آپ کی اسکیم کی وجہ سے ٹھیک ہوگئی، اپنے پیرں پر کھڑی ہوگئی۔

مودی جی تو اب تو بچوں کو بھی مزہ آتا ہوگا۔

سکھ دیوی جی ہاں جی۔ بچوں کو تو بہت ہی پریشانی ہوتی تھی۔ اب ماں پریشان ہے تو بچہ بھی پریشان ہے۔

مودی جی دیکھئے ہماری زندگی میں سب سے بڑی خوشی ہماری صحت ہی ہوتی ہے۔ یہ خوشحال زندگی سب کو ملے یہی آیوشمان بھارت کا جذبہ ہے، چلئے سکھ دیوی جی میری جانب سے آپ کو بہت بہت مبارکباد، پھر سے ایک بار آپ کو رادھے۔ رادھے۔

سکھ دیوی جی رادھے۔رادھے، نمستے!

میرے پیارے اہل وطن، نوجوانوں کی اکثریت والے ملک میں تین چیزیں بہت معنی رکھتی ہیں۔ اب وہی تو کبھی کبھی نوجوان کی حقیقی شناخت بن جاتی ہے۔ پہلی چیز ہے خیال اور اختراع۔ دوسری ہےخطرہ مول لینے کا جذبہ اور تیسری ہے کسی بھی کام کو پورا کرنے کی ضد، خواہ کتنے بھی برعکس حالات کیوں نہ ہوں، جب یہ تینوں چیزیں آپس میں ملتی ہیں تو غیرمعمولی نتائج سامنے آتے ہیں۔ کرشمے ہوجاتے ہیں۔ آج کل ہم چاروں طرف سنتے ہیں ، اسٹارٹ اپ، اسٹارٹ اپ ، اسٹارٹ اپ۔ صحیح بات ہے، یہ اسٹارٹ اپ کا زمانہ ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ اسٹارٹ اپ کے میدان میں آج بھارت دنیا بھر میں ایک طرح سے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ سال در سال اسٹارٹ اپ کو ریکارڈ تعداد میں سرمایہ حاصل ہو رہا ہے۔ یہ شعبہ بہت تیز رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی اسٹارٹ اپ کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ آج کل ’یونی کارن‘ لفظ خوب سرخیوں میں ہے۔ آپ سب نے اس کے بارے میں سنا ہوگا۔ ’یونی کارن‘ ایک ایسا اسٹارٹ اپ ہوتا ہے جس کی قیمت کم سے کم ایک بلین ڈالر کے بقدر ہوتی ہے یعنی تقریباً سات ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ۔

ساتھیو، سال 2015 تک ملک میں بہ مشکل نو یا دس یونی کارن ہوا کرتے تھے۔ آپ کو یہ جان کر ازحد خوشی ہوگی کہ اب یونی کارنس کی دنیا میں بھی بھارت تیز اُڑان بھر رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسی سال ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ محض 10 مہینوں میں ہی بھارت میں ہر 10 دن میں ایک یونی کارن بنا ہے۔ یہ اس لیے بھی بڑی بات ہے کیونکہ ہمارے نواجوانوں نے یہ کامیابی کورونا وبائی مرض کے درمیان حاصل کی ہے۔ آج بھارت میں 70 سے زائد یونی کارنس ہو چکے ہیں۔ یعنی 70 سے زائد اسٹارٹ اپس ایسے ہیں جو ایک بلین سے زائد کی قیمت سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ساتھیو اسٹارٹ اپ کی کامیابی کی وجہ سے ہر کسی کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ہے  اور جس طرح سے ملک سے، غیر ممالک سے، سرمایہ کاروں سے اسے تعاون حاصل ہو رہا ہے۔ شاید کچھ برس قبل اس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

ساتھیو، اسٹارٹ اپس کے ذریعہ بھارتی نوجوان عالمی مسائل کے حل میں اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ آج ہم ایک نوجوان میور پاٹل سے بات کریں گے، انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر آلودگی کے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی ہے۔

مودی جی میور جی نمستے۔

میور پاٹل نمستے سر جی۔

مودی جی میور جی آپ کیسے ہیں؟

میور پاٹل بس بڑھیا سر۔ آپ کیسے ہو؟

مودی جی میں بہت خوش ہوں۔ اچھا مجھے بتایئے کہ آج آپ اسٹارٹ اپ کی دنیا میں ہیں۔

میور پاٹل ہاں جی!

مودی جی اور Waste میں سے Best بھی کر رہے ہیں۔

میور پاٹل ہاں جی!

مودی جی Environment کا بھی کر رہے ہیں ، تھوڑا مجھے اپنے بارے میں بتایئے۔ اپنے کام کے بارے میں بتایئے اور اس کام کے پیچھے آپ کو خیال کہاں سے آیا؟

میور پاٹل سر جب کالج میں تھا تب میرے پاس موٹرسائیکل تھی ، جس کا مائی لیج بہت کم تھا اور اخراج بہت زیادہ تھا۔ وہ 2 اسٹرائیک موٹرسائیکل تھی۔ تو اخراج کم کرنے کے لیے اور اس کا مائی لیج تھوڑا بڑھانے کے لیے میں نے کوشش شروع کی تھی۔ 2011۔12 میں اور اس کا میں نے تقریباً 62 کلو میٹر فی لیٹر تک مائی لیج بڑھا دیا تھا۔ تو وہاں سے مجھے یہ ترغیب حاصل ہوئی کہ کچھ ایسی چیز بنائیں جو مارس پروڈکشن کر سکتے ہیں، تو باقی بہت سارے لوگوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔ تو 2017۔18 میں ہم لوگوں نے اس کی تکنالوجی ڈیولپ کی اور علاقائی نقل و حمل کارپوریشن میں ہم لوگوں نے 10 بسوں میں وہ استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ چیک کرنے کے لیے اور قریب قریب ہم لوگوں نے اس کا چالیس فیصد اخراج کم کر دیا۔ بسوں میں۔

مودی جی ہم! اب یہ تکنالوجی جو آپ نے دریافت کی ہے۔ اس کا پیٹنٹ وغیرہ کروا لیا۔

میور پاٹل ہاں جی! پیٹنٹ ہوگیا۔ اس سال ہمیں پیٹنٹ گرانٹ ہوکر کے آگیا۔

مودی جی اور آگے اس کو بڑھانے کا کیا منصوبہ ہے؟ آپ کا۔ کس طرح سے کر رہے ہیں؟ جیسے بس کا ریزلٹ آگیا۔ اس کی بھی ساری چیزیں باہر آگئی ہوں گی۔ تو آگے کیا سوچ رہے ہیں؟

میور پاٹل سر، اسٹارٹ اپ انڈیا کے اندر نیتی آیوگ سے اٹل نیو انڈیا چیلنج جو ہے، وہاں سے ہمیں مدد ملی اور اس مدد کی بنیاد پر ہم لوگوں نے فیکٹری شروع کی جہاں پر ہم ایئر فلٹرس کی مینوفیکچرنگ کر سکتے ہیں۔

مودی جی تو حکومت ہند کی جانب سے کتنی مدد ملی آپ کو؟

میور پاٹل 90 لاکھ۔

مودی جی 90 لاکھ۔

میور پاٹل ہاں جی!

مودی جی اور اس سے آپ کا کام چل گیا۔

میور پاٹل ہاں ابھی تو شروع ہو گیا ہے۔ پروسیس میں ہے۔

مودی جی آپ کتنے دوست مل کر کے کر رہے ہیں؟ یہ سب!

میور پاٹل ہم چار لوگ ہیں سر۔

مودی جی اور چاروں پہلے ساتھ میں ہی پڑھتے تھے اور اسی میں سے آپ کو ایک خیال آیا آگے بڑھنے کا۔

میور پاٹل ہاں جی! ہاں جی! ہم کالج میں ہی تھے۔ اور کالج میں ہم لوگوں نے یہ سب سوچا اور یہ میرا آئیڈیا تھا کہ میری موٹرسائیکل کی آلودگی کم سے کم ہوجائے اور مائی لیج بڑھ جائے۔

مودی جی اچھا آلودگی کم کرتے ہیں، مائی لیج بڑھاتے ہیں تو اوسط خرچ کتنا بچتا ہوگا؟

میور پاٹل سر موٹرسائیکل پر ہم لوگوں نے ٹیسٹ کیا، اس کا مائی لیج تھا 25 کلومیٹر فی لیٹر، وہ ہم لوگوں نے بڑھا دیا 39 کلو میٹر فی لیٹر تو ، قریب قریب 14کلومیٹر کا فائدہ ہوا اور اس میں سے 40 فیصد کا کاربن اخراج کم ہوگیا۔ اور جب علاقائی نقل و حمل کارپوریشن نے بسوں پر کیا تو  وہاں پر 10 فیصد ایندھن اثرانگیزی میں اضافہ ہوا اور اس میں بھی 35۔40 فیصد اخراج کم ہوگیا۔

مودی جی میور مجھے بہت اچھا لگا آپ سے بات کرکے اور آپ کے ساتھیوں کو بھی میری طرف سے مبارکباد دیجئے کہ کالج کی زندگی میں خود کا جو مسئلہ تھا اس مسئلے کا حل بھی آپ نے تلاش لیا اور اب اس حل میں سے جو راستہ اختیار کیا اس نے ماحولیات کے مسئلے کو حل کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اور یہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی قوت ہی ہے جو کوئی بھی بڑی چنوتی اٹھا لیتے ہیں اور راستے تلاش رہے ہیں۔ میری جانب سے آپ کو بہت ساری نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ۔

میور پاٹل آپ کا شکریہ سر! آ پ کا شکریہ!

ساتھیو، کچھ برسوں قبل اگر کوئی کہتا تھا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتا ہے یا ایک کوئی نہیں کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے، تب کنبے کے بڑے بزرگ کا جواب ہوتا تھا کہ ’’تم نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتے، نوکری کرو نا بھائی۔ ارے نوکری میں سکیورٹی ہوتی ہے، تنخواہ ہوتی ہے۔ جھنجھٹ بھی کم ہوتی ہے۔ لیکن، آج اگر کوئی اپنی کمپنی شروع کرنا چاہتا ہے تو اس کے آس پاس کے تمام لوگ بہت پرجوش ہوتے ہیں اور اس میں اس کا مکمل تعاون بھی کرتے ہیں۔ ساتھیو بھارت کی نمو کی داستان کایہ اہم موڑ ہے، جہاں اب لوگ صرف نوکری تلاش کرنے والا بننے کا خواب نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ روزگار کےمواقع پیدا کرنے والے بھی بن رہے ہیں۔ اس سے عالمی سطح پر بھارت کی پوزیشن مزید مضبوط بنے گی۔

میرے پیارے اہل وطن حضرات، آج ’من کی بات‘ میں ہم نے امرت مہوتسو کی بات کی۔ امرت کال میں کیسے ہمارے اہل وطن نئے نئے عہد پور ے کر رہے ہیں، اس پر بات کی، اور ساتھ ہی دسمبر مہینے میں فوج کی شجاعت سے متعلق باتوں کا بھی ذکر کیا۔ دسمبر مہینے میں ہی ایک اور بڑا دن ہمار سامنے آتا ہے جس سے ہم ترغیب حاصل کرتے ہیں۔ یہ دن ہے، 6 دسمبر کو بابا صاحب امبیڈکر کی برسی ۔ بابا صاحب نے اپنی پوری زندگی ملک اور سماج کے لیے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے وقف کر دی تھی۔ ہم اہل وطن یہ کبھی نہ فراموش کریں کہ ہمارے آئین کا بھی بنیادی جذبہ، ہمارا آئین ہم سبھی اہل وطن سے اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توقع رکھتا ہے۔ تو آیئے، ہم بھی عہد کریں کہ امرت مہوتسو میں ہم فرائض کو پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کریں گے۔ یہی بابا صاحب امبیڈکر کے لیے ہمارا حقیقی خراج عقیدت ہوگا۔

ساتھیو اب ہم دسمبر مہینے میں داخل ہو رہے ہیں، ظاہر ہے آئندہ ’من کی بات‘ 2021 کا آخری ’من کی بات‘ ہوگا۔ 2022 میں پھر سے سفر شروع کریں گے اور میں آپ سے ڈھیر سارے سجھاؤ کی توقع کرتا ہی رہوں گا۔ آپ اس سال کو کیسے وداع کر رہے ہیں، نئے سال میں کیا کچھ کرنے والے ہیں، یہ بھی ضرور بتایئے اور ہاں یہ بھی مت بھولنا کہ کورونا ابھی گیا نہیں ہے۔ احتیاط برتنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

بہت بہت شکریہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ا گ۔ اب ن ۔ن ا ۔ م ف

U-13385

                          



(Release ID: 1775830) Visitor Counter : 415