وزیراعظم کا دفتر

بیاسیویں آل انڈیا پریزائڈنگ آفیسرز کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 17 NOV 2021 2:06PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  17/نومبر 2021 ۔

نمسکار!

پروگرام میں ہمارے ساتھ موجود لوک سبھا کے قابل احترام اسپیکر جناب اوم برکا جی، راجیہ سبھا کے قابل احترام ڈپٹی چیئرمین جناب ہری ونش جی، ہماچل پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب جے رام ٹھاکر جی، ہماچل اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر جناب مکیش اگنی ہوتری جی، ہماچل اسمبلی کے اسپیکر جناب وپن سنگھ پرمار جی، ملک کے متعدد ایوانوں کے پریزائڈنگ افسران اور معزز خواتین و حضرات!

پریزائڈنگ افسروں کی یہ اہم کانفرنس ہر سال کچھ نئے افکار اور کچھ نئے عزائم کے ساتھ ہوتی ہے۔ ہر سال اس غور و فکر سے کچھ نہ کچھ امرت نکلتا ہے، جو ہمارے ملک کو، ملک کے پارلیمانی نظام کو رفتار دیتا ہے، نئی توانائی دیتا ہے، نئے عزائم کے لئے متحرک کرتا ہے۔ یہ بھی بہت خوش آئندہ ہے کہ آج اس روایت کو سو سال ہورہے ہیں۔ یہ ہم سب کی خوش بختی بھی ہے اور بھارت کی جمہوری توسیع کی علامت بھی ہے۔ میں اس اہم موقع پر آپ سبھی کو، ملک کی پارلیمنٹ اور سبھی اسمبلیوں کے سبھی اراکین کو اور سبھی اہل وطن کو بھی مبارک باد دیتا ہوں۔

ساتھیو!

بھارت کے لئے جمہوریت صرف ایک نظام نہیں ہے۔ جمہوریت تو بھارت کا مزاج ہے، بھارت کی فطری افتادِ طبع ہے۔ آپ کا یہ سفر اس لئے بھی اور خاص ہوگیا ہے کیونکہ اس وقت بھارت اپنی آزادی کے 75 سال کا جشن منارہا ہے، امرت مہوتسو منارہا ہے۔ یہ اتفاق اس پروگرام کی خصوصیت کو تو بڑھاتا ہی ہے، ساتھ ہی ہماری ذمے داریوں کو بھی کئی گنا کردیتا ہے۔

ساتھیو!

ہمیں آنے والے برسوں میں، ملک کو نئی بلندیوں پر لے کر جانا ہے، غیر معمولی اہداف حاصل کرنے ہیں۔ یہ عزم ’سب کا پریاس‘ سے ہی جڑے ہوں گے اور جمہوریت میں، بھارت کے وفاقی نظام میں جب ہم ’سب کا پریاس‘ کی بات کرتے ہیں تو سبھی ریاستوں کا رول اس کی بڑی بنیاد ہوتی ہے۔ ملک نے گزشتہ برسوں میں جو حاصل کیا ہے، اس میں ریاستوں کی سرگرم حصے داری نے بڑا رول ادا کیا ہے۔ چاہے شمال مشرق کے دہائیوں پرانے مسائل کا حل ہو، دہائیوں سے اٹکے، لٹکے بڑے ترقیاتی پروجیکٹوں کی تکمیل کرنا ہو، ایسے کتنے ہی کام ہیں جو ملک نے گزشتہ برسوں میں کئے ہیں، سب کی کوشش سے کئے ہیں۔ ابھی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے کورونا کی ہی ہے۔ اتنی بڑی لڑائی ملک نے سب ریاستوں کو ساتھ لے کر جس اتحاد سے لڑی ہے، وہ تاریخی ہے۔ آج بھارت 110 کروڑ ویکسین ڈوز جیسا بڑا ہندسہ پار کرچکا ہے۔ جو کبھی ناممکن لگتا تھا وہ آج ممکن ہورہا ہے۔ اس لئے ہمارے سامنے مستقبل کے جو سپنے ہیں، جو ’امرت سنکلپ‘ ہیں، وہ بھی پورے ہیں۔ ملک اور ریاستوں کی متحدہ کوششوں سے ہی یہ پورے ہونے والے ہیں۔ یہ وقت اپنی کامیابیوں کو آگے بڑھانے کا ہے۔ جو رہ گیا ہے اسے پورا کرنے کا ہے۔ اور ساتھ ہی، ایک نئی سوچ، نئے ویژن کے ساتھ ہمیں مستقبل کے لئے نئے ضابطے اور پالیسیاں بھی بنانی ہیں۔ ہمارے ایوان کی روایات اور نظامات فطرت سے بھارتیہ ہوں، ہماری پالیسیاں، ہمارے قانون بھارتیتا کے جذبے کو، ’ایک بھارت سریشٹھ بھارت‘ کے عزم کو مضبوط کرنے والے ہوں اور سب اہم ایوان میں ہمارا خود کا بھی اخلاق و برتاؤ بھارتی اقدار کے حساب سے ہو، یہ ہم سب کی ذمے داری ہے۔ اس سمت میں ہمیں ابھی بھی بہت کچھ کرنے کے مواقع ہیں۔

ساتھیو!

ہمارا ملک تنوع سے بھرا ہے۔ اپنے ہزاروں سال کے ترقی کے سفر میں ہم اس بات کو اپناچکے ہیں کہ تنوع کے درمیان بھی، اتحاد کی شاندار اور اتحاد کی روشن اور اٹوٹ دھارا بہتی ہے۔ اتحاد کی یہی اکھنڈ دھارا، ہمارے تنوع کو سنجوتی ہے، اس کا تحفظ کرتی ہے۔ آج کے بدلتے ہوئے اس وقت میں ہمارے ایوانوں کی خصوصی ذمے داری ہے کہ ملک کے اتحاد و سالمیت کے سلسلے میں اگر ایک بھی الگ آواز اٹھتی ہے، تو اس سے محتاط رہنا ہے۔ تنوع کو وراثت کے طور پر فخر حاصل ہوتا رہے، ہم اپنے تنوع کا جشن مناتے رہیں، ہمارے ایوانوں سے یہ پیغام بھی مسلسل جاتا رہنا چاہئے۔

ساتھیو!

اکثر لیڈروں کے بارے میں، عوامی نمائندوں کے بارے میں کچھ لوگ یہ شبیہ بنالیتے ہیں کہ یہ نیتا ہیں تو چوبیسوں گھنٹوں سیاسی اٹھاپٹک میں ہی جٹے ہوں گے، کسی جوڑ توڑ، کھینچ تان میں جٹے ہوں گے۔ لیکن آپ غور کریں تو ہر سیاسی پارٹی میں، ایسے عوامی نمائندے بھی ہوتے ہیں جو سیاست سے ماورا اپنا وقت، اپنی زندگی سماج کی خدمت میں، سماج کے لوگوں کی بہبود میں کھپادیتے ہیں۔ ان کی یہ خدمات سیاست میں لوگوں کی عقیدت کو اعتماد کو مضبوط بنائے رکھتے ہیں۔ ایسے عوامی نمائندوں کو میرا ایک مشورہ ہے کہ ہم اپنے ایوانوں میں بہت سا تنوع کرتے ہیں، جیسے پرائیویٹ بل لاتے ہیں، اس کے لئے وقت نکالتے ہیں، کچھ ایوان میں زیرو آور کے لئے وقت نکلالتے ہیں۔ کیا سال میں تین چار دن کسی ایوان میں ایک دن، کسی ایوان میں دو دن ایسے رکھے جاسکتے ہیں جس میں سماج کے لئے کچھ خاص کررہے ہیں، ہمارے عوامی نمائندے ہیں، ان کا تجربہ ہم سنیں وہ اپنے تجربات بتائیں، اپنی سماجی زندگی کے اس پہلو کے بارے میں بھی ملک کو جانکاری دیں۔ آپ دیکھئے گا، اس سے دوسرے عوامی نمائندوں کے ساتھ ہی سماج کے دیگر لوگوں کو بھی اتنا کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ سیاست کے شعبے کا ایک جو تخلیقی تعاون بھی ہوتا ہے، وہ بھی اجاگر ہوگا اور تخلیقی کاموں میں لگے ہوئے ہیں ان کو بھی سیاست سے دوری بنائے رکھنے کا جو رجحان بڑھتا جارہا ہے، اس کے بجائے ایسی سوچ، ایسی خدمت کرنے والے لوگ سیاست سے جڑتے جائیں گے تو سیاست ہی اپنے آپ میں خوش حال ہوگی۔ اور میں مانتا ہوں کہ ایک چھوٹی سی کمیٹی بنادی جائے گا ۔ جیسے تجربات کے سمن میں اسکریننگ کرلے، ویریفائیڈ کرلے اور پھر کمیٹی طے کرے کہ اتنے لوگوں کا بیان ہونا جائے۔ آپ دیکھئے کہ معیار کے اعتبار سے بہت تبدیلی آئے گی اور میں جانتا ہوں کہ پریزائڈنگ جو ہیں وہ ان باتوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ کیسے اچھی چیز کھوج کرکے لے آئیں، لیکن میں مانتا  ہوں کہ اس طرح کے پروگرام سے باقی اراکین کو سیاست سے بھی زیادہ، سیاست سے بھی الگ کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ملے گی اور ساتھ ہی ملک کو بھی اس طرح کی کوششوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا۔

ساتھیو!

معیاری بحث کو فروغ دینے کے لئے کچھ ضرورت ہے، ہم مسلسل کچھ نہ کچھ اختراعاتی کرسکتے ہیں۔ بحث و مباحث میں قدر افزائی کیسے ہو، معیاری بحث لگاتار مسلسل نئے معیار کیسے حاصل کرے گی۔ ہم معیاری بحث کے لئے بھی الگ سے وقت طے کرنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں کیا؟ ایسی بحث جس میں مریادا  پر ، سنجیدگی پر پوری طرح سے عمل ہو، کوئی سیاسی چھینٹاکشی نہ ہو۔ ایک طرح سے وہ ایوان کا سب سے صحت مند وقت ہو، صحت مند دن ہو۔ میں روز کے لئے نہیں کہہ رہا ہوں ، کبھی دو گھنٹے، کبھی آدھا دن، کبھی ایک دن، کیا ہم اس طرح کی کچھ کوشش کرسکتے ہیں؟ ہیلدی ڈے، ہیلدی ڈیبیٹ، کوالٹی ڈیبیٹ، ویلیو ایڈیشن کرنے والی ڈیبیٹ، روزمرہ کی سیاست سے بالکل پاک ڈیبیٹ۔

ساتھیو!

یہ آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب ملک کی پارلیمنٹ یا کوئی اسمبلی اپنی نئی مدت کار شروع کرتی ہے، تو اس میں زیادہ تر رکن پہلی مرتبہ آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی سیاست میں بدلائو لگاتار ہوتے ہیں، عوامی لگاتار نئے لوگوں کو، نئی توانائی کو موقع دیتے ہیں۔ اور عوام ہی کی کوششوں سے ایوان میں بھی ہمیشہ تازگی، نیا جوش، نیا امنگ آتا ہے۔ ہمیں اس نئے پن کو نئے طریقہ کار میں ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ بدلاؤ ضروری ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ نئے اراکین کو ایوان سے متعلق منظم ٹریننگ دی جائے، ایوان کے وقار اور مریادا کے بارے میں انھیں بتایا جائے۔ ہمیں پارٹی لائن سے الگ ہوکر مسلسل بات چیت کا سلسلہ برقرار رکھنے پر زور دینا ہوگا۔ سیاست کے نئے معیار بھی بنانے ہوں گے۔ اس میں آپ سبھی پریزائنگ افسروں کا رول بھی بہت اہم ہے۔

ساتھیو!

ہمارے سامنے ایک بہت بڑی ترجیح ایوان کی پروڈکٹیوٹی کو بڑھانے کی بھی ہے۔ اس کے لئے جتنا ضروری ایوان کا نظم و ضبط ہے، اتنا ہی ضروری مقررہ ضابطوں کے تئیں عہد بستگی بھی ہے۔ ہمارے قوانین میں جامعیت تبھی آئے گی جب ان کا عوام کے مفادات سے سیدھا تعلق ہوگا۔ اور اس کے لئے ایوان میں بامعنی بحث بہت ضروری ہے۔ خا ص طور پر ایوان میں نوجوان اراکین کو، توقعاتی علاقوں سے آنے والے عوامی نمائندوں کو، خواتین کو زیادہ سے زیادہ موقع ملنا چاہئے۔ ہماری کمیٹیوں کو بھی اس طرح زیادہ عملی اور موزوں بنائے جانے پر غور ہونا چاہئے۔ اس سے ہمارے لئے نہ صرف ملک کے مسائل اور ان کے حل جاننا آسان ہوگا بلکہ نئے خیالات بھی ایوان تک پہنچیں گے۔

ساتھیو!

آپ سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ گزشتہ برسوں میں ملک نے ون نیشن، ون راشن کارڈ، ون نیشن ون موبیلٹی کارڈ جیسے کئی نظامات کو نافذ کیا ہے۔ اس طرح کی سہولتوں سے ہمارے عوام بھی کنیکٹ ہورہے ہیں اور پورا ملک بھی۔ ایک ساتھ ہمیں نئے تجربات آرہے ہیں، جیسے ملک شمال، جنوب، مشرق سے مغرب کونے کونے میں کنیکٹ ہورہا ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہماری سبھی اسمبلیاں اور ریاستیں، امرت کال میں اس مہم کو ایک نئی بلندی تک لے کر جائیں۔ میرا ایک خیال ’ون نیشن ون لجسلیٹو پلیٹ فارم‘، کیا یہ ممکن ہے؟ ایک ایسا ڈیجیٹل پلیٹ فارم، ایک ایسا پورٹل جو نہ صرف ہمارے پارلیمانی نظام کو ضروری تکنیکی قوت دے، بلکہ ملک کی سبھی جمہوری اکائیوں کو جوڑنے کا بھی کام کرے۔ ہمارے ایوانوں کے لئے سارے وسائل اس پورٹل پر دستیاب ہوں، سینٹرل اور اسٹیٹ لجسلیچرس پیپر لیس موڈ میں کام کریں، لوک سبھا کے قابل احترام اسپیکر اور راجیہ سبھا کے قابل احترام ڈپٹی اسپیکر کی قیادت میں آپ پریزائڈنگ افسران اس نظام کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔ ہماری پارلیمنٹ اور سبھی اسمبلیوں کی لائبریریوں کو بھی ڈیجیٹائز کرنے اور آن لائن دستیاب کرانے کے لئے جاری کاموں میں بھی تیزی لانی ہوگی۔

ساتھیو!

آزادی کے اس امرت کال میں ہم تیزی سے آزادی کے سو سال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آپ کا 75 سالہ سفر اس بات کا گواہ ہے کہ وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ آئندہ 25 سال، بھارت کے لئے بہت اہم ہیں۔ 25 سال کے بعد ہم آزادی کے 100 سال منانے والے ہیں۔ اور اس لئے یہ امرت کال یہ 25 سال بہت اہم ہیں۔ کیا اس میں ہم ایک ہی اصول پوری مضبوطی کے ساتھ، پوری تندہی کے ساتھ، پوری ذمے داری کے ساتھ ایک اصول پر عمل کرسکتے ہیں کیا؟ میرے نقطہ نظر سے وہ اصول ہے – فرض، فرض، فرض ہی فرض۔ ایوان میں بھی فرض کی بات، ایوان سے پیغام بھی فرض کا ہو، اراکین کی باتوں میں بھی فرض کی مہک ہو، روایت ہو صدیوں کے طرز زندگی، غور و فکر میں بھی فرض اوّل ہو، اراکین کے غور و فکر میں، بحث و مباحثے میں، بات چیت میں، حل میں، ہر بات میں فرض سب سے اوپر ہو۔ ہر طرف صرف فرض کی بات ہو۔ فرض کا شعور ہو۔ آئندہ 25 سال کے ہمارے طرز عمل کے ہر پہلو میں فرض کو ہی اعلیٰ ترین ترجیح دی جائے۔ ہمارا آئین بھی یہی کہتا ہے۔ جب ایوانوں سے یہ پیغام جائے گا، جب ایوانوں میں یہ پیغام بار بار دہرایا جائے گا، تو اس کا اثر پورے ملک پر پڑے گا، ملک کے ہر شہری پر پڑے گا۔ ملک گزشتہ 75 برسوں میں جس رفتار سے آگے بڑھا ہے، اس سے کئی گنا رفتار سے ملک کو آگے بڑھانے کا منتر ہے – فرض۔ ایک سو تیس کروڑ اہل وطن کا فرض ہے ، ایک عظیم عہد کی تکمیل کے لئے فرض۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آج جب پارلیمانی نظام کی 100 سال کی اس نئی پہل کے لئے آپ کو بہت مبارکباد۔ آپ کا یہ سمٹ بہت ہی کامیاب ہو، 2047 میں ملک کو کہاں لے جانا ہے، ایوان اس پر کیا رول ادا کریں گے، اس کے واضح خاکے کے ساتھ آپ یہاں سے چلیں گے۔ ملک کو بہت بڑی طاقت ملے گی۔ میں پھر ایک بار آپ سب کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں، بہت بہت مبارک باد۔

 

******

 

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.12964



(Release ID: 1772802) Visitor Counter : 166