وزیراعظم کا دفتر

سی آئی پی ای ٹی:انسٹی ٹیوٹ آف پیٹروکیمیکلز ٹیکنالوجی جے پور کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا بنیادی متن

Posted On: 30 SEP 2021 2:37PM by PIB Delhi

 

 

نئی دہلی،30ستمبر؍2021:

نمسکار،

 راجستھان کی دھرتی کے سپوٹ اور بھارت کی سب سے بڑی پنچایت لوک سبھا کے کسٹوڈین، ہمارے قابل احترام اسپیکر  جناب اوم بڑلا جی، راجستھان کے وزیر اعلیٰ جناب اشوک گہلوت جی، مرکزی وزیر صحت جناب منسکھ منڈاویا جی، مرکزی کابینہ میں میرے دیگر تمام معاون  جناب گجیندر سنگھ شیخاوت جی، بھوپیندر یادو جی، ارجن رام میگھوال جی، کیلاش چودھری  جی، ڈاکٹر بھارتی پوار جی، بھگونت کھُبا جی، راجستھان کی سابق وزیر اعلیٰ بہن وسوندھرا راجے جی، لیڈر حزب اختلاف گلاب چند کٹاریہ جی، راجستھان حکومت کے دیگر وزراء ، ممبران پارلیمنٹ ، ممبران اسمبلی، پروگرام میں موجود دیگر تمام حضرات اور راجستھان کے میرے پیارے بھیائیوں اور بہنوں،

100 سال کی سب سے بڑے وباء نے دنیا کے ہیلتھ سیکٹر کے سامنے متعدد چیلنجز کھڑے کردیئے ہیں اور اِس وباء نے بہت کچھ سکھایا بھی ہے اور بہت کچھ سکھا رہی ہے۔ ہر ملک اپنے اپنے طریقے سے اس بحران سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ بھارت نے اس آفت میں خود انحصاری کا، اپنے صلاحیت میں اضافے کا عہد لیا ہے۔راجستھان میں چار نئے میڈیکل کالج  کی تعمیر کے کام کا آغاز جے پور میں انسٹی ٹیوٹ آف پیٹروکیمیکل ٹیکنالوجی کا افتتاح، اسی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔میں راجستھان کے تمام شہریوں کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آج مجھے راجستھان کے ایک مخصوص پروگرام میں ورچوئل طریقے سے ملنے کا موقع ملا ہے ، تو میں راجستھان کے اُن بیٹے  بیٹیوں کا بھی استقبال کرنا چاہتاہوں، جنہوں نے اولمپک میں ہندوستان کا جھنڈا گاڑنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ویسے میرے راجستھان کے بیٹے بیٹیوں کو بھی میں آج پھر سے ایک بار مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ آج جب یہ پروگرام ہورہا ہے ، تب جے پور سمیت ملک کے 10 سی آئی پی ای ٹی سینٹر میں پلاسٹک اور اس سے جڑے ویسٹ منیجمنٹ رولز کو لے کر بیداری پروگرام بھی چل رہا ہے۔اس پہل کے لئے میں ملک کے تمام عزت مآب شہریوں کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

بھائیوں اور بہنوں،

سال 2014ء کے بعد سے راجستھان میں 23 نئے میڈیکل کالجوں کے لئے مرکزی سرکار نے منظوری دی تھی۔ ان میں سے 7میڈیکل کالجوں نے کام کرنا شروع کردیا ہے اور آج بانس واڑہ، سروہی، ہنومان گڑھ  اور دوسہ میں نئے میڈیکل کالج کی تعمیر کی شروعات ہوئی ہے۔میں ان علاقوں کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباددیتا ہوں۔میں نے دیکھا ہے یہاں کے جو عوامی نمائندے رہے ہیں، ہمارے قابل احترام ممبران پارلیمنٹ ہیں، ان  سے جب بھی ملاقات ہوتی تھی، تو وہ بتاتے تھے کہ میڈیکل کالج بننے سے کتنا فائدہ ہوگا۔ خواہ ممبرپارلیمنٹ میرے دوست بھائی ’کنک مل‘ کٹاراجی ہوں، ہماری سینئر ممبرپارلیمنٹ بہن جسکو ر مینا جی ہوں،میرے بہت پرانے ساتھی بھائی نہال چند چوہان جی ہوں، یا ہمارے آدھے گجراتی اور آدھے راجستھانی ایسے بھائی دیوجی پٹیل ہوں، آپ سب راجستھان میں طبی بنیادی ڈھانچے کو لے کر کافی بیدار رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان نئے میڈیکل کالج کی تعمیر ریاستی سرکار کے تعاون سے وقت پر مکمل ہوگی۔

ساتھیوں،

ہم سبھی نے دیکھا ہے کہ کچھ دہائی پہلے ملک کے میڈیکل نظام کا کیا حال تھا۔ 2001ء میں ، آج سے 20 سال پہلے جب مجھے گجرات نے وزیر اعلیٰ کے طورپر خدمت کا موقع دیا تو ہیلتھ سیکٹر کی حالت وہاں بھی چیلنجوں سے بھری ہوئی تھی۔خواہ وہ میڈیکل بنیادی ڈھانچہ، میڈیکل تعلیم ہو، یا پھر علاج کی سہولتیں ہوں،ہر پہلو پر تیزی سے کام کرنے کی ضرورت تھی۔ ہم نے چیلنج کو قبول کیا اور مل کر صورتحال کو بدلنے کی کوشش کی۔ گجرات میں اس وقت مکھیہ منتری امرتم یوجنا کے تحت غریب خاندانوں کو 2لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت شروع کی گئی تھی۔ حاملہ خواتین کو اسپتالوں میں ڈلیوری کے لئے چرنجیوی یوجنا کے تحت حوصلہ افزائی کی گئی تھی، جس سے ماؤں اور بچوں کی زندگی بچانے میں بہت زیادہ کامیابی ملی۔ میڈیکل تعلیم کے معاملے میں بھی گزری ہوئی 2 دہائیوں کی مسلسل کوششوں سے گجرات نے میڈیکل سیٹوں میں لگ بھگ 6گنا اضافہ درج کیا ہے۔

ساتھیوں،

وزیر اعلیٰ کے طورپر ملک کے ہیلتھ سیکٹر کی جو خامیاں مجھے محسوس ہوتی تھی، گزرے ہوئے7-6سالوں سے ان کو دور کرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے آئین کے تحت جو وفاقی ڈھانچے کا نظم ہے، اس میں صحت کا شعبہ ریاست کی ذمہ داری ہے، لیکن میں طویل عرصے تک ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ رہا، تو جو مشکلات ہیں، ان کا مجھے علم تھا۔ چنانچہ بھارت سرکار میں آکر بھلے ہی یہ ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہو، بہت سارے کام کئے اور اس سمت میں ہم نے اپنی کوششوں کا آغاز کیا۔ ہمارے یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ملک کا صحت نظام بہت ہی زیادہ ٹکڑوں میں بٹا ہوا تھا۔ الگ الگ ریاستوں کے میڈیکل سسٹم میں قومی سطح پر ربط اور اجتماعی کوشش کا فقدان تھا۔ بھارت جیسے دیش میں جہاں بہتر صحت سہولتیں  ریاست کی راجدھانیوں یا کچھ میٹرو شہروں تک محدود تھی، جہاں غریب خاندان روزگار کے لئے ایک ریاست سے دوسری ریاست جاتے ہیں، وہاں ریاستوں کی سرحدوں تک سمٹے صحت منصوبوں سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہو پارہا تھا۔ اسی طرح پرائمری ہیلتھ کیئراور بڑے اسپتالوں میں بھی ایک بڑا فاصلہ نظر آتا تھا۔ہمارے روایتی طبی اصول اور جدید طبی اصول کے درمیان تال میل کی کمی تھی۔ حکمرانی  کی ان خامیوں کو دور کیا جانا بہت ضروری تھا۔ ملک کے صحت سیکٹر کو ٹرنسفارم کرنے کے لئے ہم نے ایک قومی اَپروچ ، ایک نئی قومی صحت پالیسی پر کام کیا۔ سوچھ بھارت ابھیان سے لے کر آیوشمان بھارت اور اب آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن تک ایسی متعدد کوششیں اسی کا حصہ ہیں۔ آیوشمان بھارت یوجنا سے ہی اب تک راجستھان کے تقریباً 3.5لوگوں کا مفت علاج ہو چکا ہے۔گاؤں دیہات میں صحت سہولتوں کو مضبوط کرنے والے تقریباً ڈھائی ہزار ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر آج راجستھان میں کام کرنا شروع کرچکے ہیں۔ سرکار کا زور پریونٹیو ہیلتھ کیئرپر بھی ہے۔ ہم نے نئی  آیوشمان وزارت تو بنائی ہی ہے، آیوروید اور یوگا کو بھی مسلسل فروغ دے رہے ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

ایک اور بڑا مسئلہ میڈیکل بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی سست رفتار کی بھی رہی ہے۔چاہے ایمس ہو، میڈیکل کالج ہو یا پھر ایمس جیسے سپر اسپیشلٹی جیسے اسپتال ہوں۔اس کا نیٹ ورک ملک کے کونے کونے تک تیزی سے پھیلانا بہت ضروری ہے۔ آج ہم اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ 6 ایمس سے آگے بڑھ کر آج بھارت 22 سے زیادہ ایمس کے طاقتور نیٹ ورک کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ان 7-6سالوں میں 170 سے زیادہ نئے میڈیکل کالج تیار ہوچکے ہیں اور 100 سے زیادہ نئے مڈیکل کالج پر کام تیزی سے چل رہا ہے۔ سال 2014ء میں ملک میں میڈیکل کالج کی انڈر گریجویٹ  اور پوسٹ گریجویٹ کی کل سیٹیں 82 ہزار کے قریب تھیں، آج ان کی تعداد بڑھ کر 1لاکھ 40 ہزار تک پہنچ رہی ہے۔ یعنی آج زیادہ نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے کا موقع مل رہا ہے، آج پہلے سے کہیں زیادہ نوجوان ڈاکٹر بن رہے ہیں۔ میڈیکل تعلیم کی اس تیز پیش رفت کا بہت بڑا فائدہ راجستھان کو بھی ملا ہے۔ راجستھان میں اس دوران میڈیکل کی سیٹوں میں دو گنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یوجی سیٹیں 2 ہزار سے بڑھ کر4 ہزار سے زیادہ ہوئی ہیں۔  پی جی سیٹیں راجستھان میں ہزار سے بھی کم تھیں، آج پی جی سیٹیں بھی 2100تک پہنچ رہی ہیں۔

بھائیوں اور بہنوں،

آج ملک میں کوشش یہ ہے کہ ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج یا پھر پوسٹ گریجویٹ میڈیکل تعلیم دینے والا کم سے کم ایک ادارہ ضرور ہو۔ اس کے لئے میڈیکل تعلیم سے جڑی گورننس سے لے کر دوسری پالیسیوں ، قوانین، اداروں میں پچھلے سالوں کے دوران بڑے اصلاحات کئے گئے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے جو میڈیکل کونسل آف انڈیا (ایم سی آئی) تھی، اس کس طرح اس کے فیصلوں پر سوال اٹھتے تھے ، طرح طرح کے الزامات لگتے تھے، پارلیمنٹ میں بھی گھنٹوں اس کی بحث ہوتی تھی۔ شفافیت کے ضمن میں بھی سوالیہ نشان لگائے جاتے تھے۔ اس کا بہت بڑا اثر ملک میں میڈیکل تعلیم کی کوالٹی اور ہیلتھ سروسز کی ڈلیوری پر پڑا۔ برسوں سے ہر سرکار سوچتی تھی کچھ کرنا چاہئے، تبدیلی لانی چاہئے، کچھ فیصلے کرنے چاہئے، لیکن نہیں ہو پارہاتھا۔ مجھے بھی یہ کام کرنے میں بہت مشکلیں آئیں۔ پچھلی سرکار کے وقت میں ہی میں یہ کام کرنا چاہتا تھا، لیکن نہیں کرپا یا۔ اتنے گروپ بڑی بڑی رکاوٹیں ڈالتے تھے۔ ہمیں بھی اسے ٹھیک کرنے کے لئے بہت مشقت کرنی پڑی۔ ان انتظامات کی ذمہ داری نیشنل میڈیکل کمیشن کے پاس ہے۔ اس کا بہت مثبت اثر ملک کے ہیلتھ کیئر ہیومن ریسورس اور ہیلتھ سروسز پر دکھائی دینا شروع ہوگیا ہے۔

ساتھیوں،

دہائیوں پرانے صحت نظام میں آج کی ضرورتوں کے مطابق تبدیلی ضروری ہے۔ میڈیکل ایجوکیشن اور ہیلتھ سروس ڈلیوری میں جو فاصلہ تھا، اس کو مسلسل کم کیا جارہا ہے۔بڑے اسپتال خواہ ہو سرکاری ہوں یا پرائیویٹ ، ان کے وسائل کا نئے ڈاکٹر ، نئے پیرامیڈکس تیار کرنے میں زیادہ سے زیادہ استعمال ہو، اس پر سرکار کا بہت زور ہے۔ تین چار دن پہلے شروع ہوا آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن ملک  کے کونے کونے تک صحت خدمات کو پہنچانے میں بہت مدد کرے گا۔اچھے اسپتال تجربہ گاہیں، فارمیسی، ڈاکٹروں سے اپائنمنٹ ، سب ایک کلک پر ہوگا۔اس    سے مریضوں کو اپنا ہیلتھ ریکارڈ سنبھال کر رکھنے میں بھی سہولت مل جائے گی۔

بھائیوں اور بہنوں،

صحت خدمات سے جڑی تربیت یافتہ افرادی قوت کا سیدھا اثر مؤثر صحت خدمات پر ہوتا ہے۔ اسے ہم نے اس کورونا عہد میں اور زیادہ محسوس کیا ہے۔ مرکزی حکومت کی سب کو ویکسین-مفت ویکسین مہم کی کامیابی اس کا آئینہ ہے۔ آج بھارت میں کورونا ویکسین کی 88کروڑ سے زیادہ خوراک  دی جاچکی ہے۔ راجستھان میں بھی 5کروڑ سے زیادہ ویکسین کی خوراک دی جاچکی ہے۔ ہزاروں مراکز پر ہمارے ڈاکٹرز، نرسیں، میڈیکل اسٹاف  مسلسل ٹیکہ کاری میں مصروف ہیں۔میڈیکل شعبے میں ملک کی یہ اہلیت ہمیں اور بڑھانی ہے۔ گاؤں اور غریب  خاندانوں سے آنے والے نوجوانوں کے لئے صرف انگریزی زبان میں میڈیکل اور ٹیکنکل ایجوکیشن کی تعلیم ایک اور رکاوٹ رہی ہے۔ اب نئی قومی تعلیمی پالیسی کے تحت ہندی اور دوسری ہندوستانی زبانوں میں میڈیکل کی پڑھائی کا بھی راستہ کھلا ہے۔ راجستھان کے گاؤں کی غریب خاندان کی ماؤں نے اپنے بچوں کے لئے جو خواب دیکھے ہیں، وہ اب اور آسانی سے پورے ہوں گے۔ غریب کا بیٹا بھی ، غریب کی بیٹی بھی ، جس کو انگریزی اسکول میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا ہے، اب وہ بھی ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرے گی۔ضرورت یہ بھی ہے کہ میڈیکل تعلیم سے جڑے مواقع سماج کے ہر حصے ، ہر طبقے کو یکساں طور سے ملیں۔ میڈیکل تعلیم میں او بی سی اور اقتصادی طور سے کمزور عام زمرے کے نوجوانوں کو ریزرویشن دینے کے پیچھے یہ جذبہ ہے۔

ساتھیوں،

آزادی کے اس امرت کال میں اعلیٰ سطح کی صلاحیت ، نہ صرف بھارت کی طاقت بڑھائے گی، بلکہ آتم نر بھر بھارت کے عہد کو پورا کرنے میں بھی بڑا رول ادا کرے گی۔سب سے تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں سے ایک پیٹرو- کیمیکلز انڈسٹری کے لئے اسکِلڈ مین پاور آج کی ضرورت ہے۔ راجستھان کا  نیا  انسٹی ٹیوٹ آف پیٹرو کیمیکل ٹیکنالوجی اس شعبے میں ہر سال سینکڑوں نوجوانوں کو نئے امکانات سے جوڑے گا۔پیٹرو کیمیکلز کا استعمال آج کل زراعت، ہیلتھ کیئر اور آٹو موبائل انڈسٹری سے لے کر زندگی کے متعدد حصوں میں بڑھ رہا ہے۔ اس لئے تربیت یافتہ نوجوانوں کے لئے آنے والے سالوں میں روزگار کے متعدد مواقع بننے والے ہیں۔

ساتھیوں،

آج جب ہم ، اس پیٹروکیمیکل ادارے کا افتتاح کررہے ہیں، تو مجھے 14-13سال پہلے کے وہ دن بھی یاد آرہے ہیں، جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر گجرات میں ہم نے پیٹرولیم یونیورسٹی کے نظریے پر  کام شروع کیا تھا، تب کچھ لوگ اس نظریے پر ہنستے تھے کہ آخر اس یونیورسٹی کی ضرورت کیا ہے، یہ کیا کرپائے گی، اس میں پڑھنے کے لئے طلباء و طالبات کہاں سے آئیں گے؟ لیکن ہم نے اس آئیڈیا کو ترک نہیں کیا۔ راجدھانی گاندھی نگر میں زمین تلاش کی گئی اور پھر پنڈت دین  دیال یونیورسٹی (پی ڈی پی یو)کی شروعات ہوئی۔ بہت ہی کم وقت میں پی ڈی پی یو نے دکھا دیا ہے کہ اس کی اہمیت کیا ہے۔پورے ملک کے طلبا ء میں وہاں پڑھنے ہوڑ لگ گئی۔ اب اس یونیورسٹی کے وژن میں مزید وسعت آ چکی ہے۔ اب یہ پنڈت دین دیال انرجی یونیورسٹی (پی ڈی ای یو)کی شکل میں جانی جاتی ہے۔ اس طرح کے ادارے اب بھارت کے نوجوانوں کو صاف توانائی کے لئے اختراعاتی حل کے لئے تحقیق کی راہ دکھا رہے ہیں، ان کی مہارت بڑھا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

باڑمیر میں راجستھان ریفائنری پروجیکٹ پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔اس پروجیکٹ پر 70ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف پیٹرو کیمیکل  ٹیکنالوجی سے پڑھ کر نکلنے والے پروفیشنلز کے لئے یہ پروجیکٹ بہت سے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ راجستھان  میں جو سٹی گیس ڈسٹریبیوشن کا جو کام ہورہا ہے،اس میں بھی نوجوانوں کے لئے بہت امکانات ہیں۔ 2014ء تک راجستھان کے صرف ایک شہر میں ہی سٹی گیس ڈسٹریبیوشن کی منظوری دی۔ آج راجستھان کے 17 ضلع  سٹی گیس ڈسٹریبیوشن نیٹ ورک کے لئے منظور کئے جاچکے ہیں۔ آنے والے سالوں میں ریاست کے ہر ضلع میں پائپ سے گیس پہنچانے کا نیٹ ورک ہوگا۔

بھائیوں اور بہنوں،

راجستھان کا ایک بہت بڑا حصہ ریگستانی تو ہے ہی، سرحدی بھی ہے۔مشکل جغرافیائی صورتحال کے سبب ہماری مائیں، بہنیں بہت سی چنوتیوں کا سامنا کرتی رہی ہیں۔ متعدد سالوں تک  میں راجستھان کے دور دراز علاقوں میں آتا جاتا رہاہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ بیت الخلاء، بجلی اور گیس کنکشن  نہ ہونے سے ماؤں بہنوں کو کتنی مشکلیں آتی تھیں۔ آج غریب سے غریب کے گھر بیت الخلاء، بجلی اورگیس کا کنکشن پہنچنے سے زندگی بہت آسان ہوئی ہے۔ پینے کا پانی تو راجستھان میں ایک طرح سے آئے دن ماؤں بہنوں کے صبر کا امتحان لیتا ہے۔ آج  جل جیون مشن کے تحت راجستھان  کے 21 لاکھ سےزیادہ خاندانوں کو پائپ سے پانی پہنچنان شروع ہوا ہے۔ہر گھر جل مہم راجستھان کی ماؤں، بہنوں ، بیٹیوں کے پیروں میں جو سالوں سال چھالے پڑتے ہیں، ان پر مرہم رکھنے کا چھوٹی مگر ایماندارانہ کوشش ہے۔

ساتھیوں،

راجستھان کی ترقی بھارت کی ترقی کو بھی رفتار دیتی ہے۔ جب راجستھان کے لوگوں کو غریب کی متوسط طبقے کی سہولتیں بڑھتی ہیں، ان کو زندگی جینے میں آسانی فراہم ہوتی ہے، تو مجھے بھی بڑا سکون حاصل ہوتا ہے۔گزرے 7-6سالوں میں مرکز کے رہائشی منصوبوں کے توسط سے راجستھان میں غریبوں کے لئے 13 لاکھ سے زیادہ پختہ گھر بنائے گئے ہیں۔ پی ایم کسان سمّان نِدھی کے تحت راجستھان کے 74لاکھ کسان خاندانوں کے بینک کھاتوں میں تقریباً 11ہزار کروڑ روپے براہ راست ٹرانسفر ہوئے ہیں۔ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت ریاست کے کسانوں کو 15ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا کلیم بھی دیا گیا ہے۔

ساتھیوں،

سرحدی ریاست ہونے کے ناطے کنکٹی وٹی اور بارڈر ایریا ڈیولپمنٹ کو اولیت کا فائدہ بھی راجستھان کو مل رہا ہے۔ نیشنل ہائی وے کی تعمیر ہو، نئی ریلوے لائنوں کا کام ہو، سٹی گیس ڈسٹریبیوشن ہو، درجنوں پروجیکٹوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔ ملک کے ریلوے کو ٹرانسفارم کرنے جارہے  ڈیڈیکیٹڈ فریٹ کوریڈور کا بھی بڑا حصہ راجستھان اور گجرات سےہے۔ اس کا کام بھی نئے روزگار کے متعدد امکانات پیدا کررہا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

راجستھان کی  طاقت ،  پورے ملک کو تحریک دیتی ہے۔ہمیں راجستھان کی طاقت کو بھی بڑھانا ہے  اور ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے۔یہ ہم سب کی کوشش سے ہی ممکن ہے۔سب کی کوشش یہ آزادی کے 75سال میں ہم نے اس منتر کو لے کر اور زیادہ طاقت سے آگے بڑھنا ہے۔ بھارت کی آزادی کا یہ امرت کال ، راجستھان کی ترقی  کا بھی زریں عہد بنے، یہ ہماری نیک خواہشات ہیں اور ابھی جب میں نے راجستھان کے وزیر اعلیٰ جی کو سن رہا تھا، تو انہوں نے کاموں کی ایک لمبی فہرست بتادی ۔ میں  راجستھان کے وزیر اعلیٰ جی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کا مجھ پر اتنا اعتماد ہے اور جمہوریت میں یہی بہت بڑی طاقت ہے۔ان کی سیاسی سوچ بھی الگ ہے اور پارٹی بھی۔ میری سیاسی سوچ اور پارٹی الگ ہے، لیکن اشوک جی کا مجھ پر جو بھروسہ ہے، اسی کی وجہ سے آج انہوں نے  دل کھول کر بہت سی باتیں رکھی ہیں۔ یہ دوستی ، یہ اعتماد، یہ بھروسہ جمہوریت کی بہت بڑی طاقت ہے۔ میں ایک بار پھر راجستھان کے لوگوں کا دل سے استقبال کرتا ہوں۔ بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

شکریہ!

 

************

 

ش ح۔ج ق۔ن ع

 (U: 9560)



(Release ID: 1759765) Visitor Counter : 162