وزیراعظم کا دفتر

صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریے کی تحریک پر لوک سبھا میں وزیر اعظم کا جواب

Posted On: 10 FEB 2021 6:16PM by PIB Delhi

نئی دہلی ،10 فروری ،2021، وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے پارلیمنٹ سے صدر  جمہوریہ کے خطاب پر شکریے کی تحریک کا آج لوک سبھا میں جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ  راشٹرپتی جی کی تقریر سے بھارت کی ’سنکلپ شکتی‘ کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ نے بھارت کے عوام میں اعتماد کے جذبے کو بڑھاوا دیا ہے۔ جناب مودی نے ایوان کے ممبروں کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بڑی تعداد میں خواتین ممبران پارلیمنٹ نے بحث میں حصہ لیا اور انھوں نے ایوان کی کارروائیوں کے دوران  اپنے خیالات ظاہر کرنے پر خاتون ممبران پارلیمنٹ کو مبارکباد دی۔

عالمی جنگوں کے بعد عالمی نظام کےتاریخی واقعات دہراتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کووڈ-19 کے بعد کی دنیا ایک مختلف دنیا ہوگی۔ ایسے وقت میں عالمی رجحانات سے الگ تھلگ رہنے سے جوابی رد عمل سامنے آئے گا۔  یہی وجہ ہے کہ بھارت ایک آتم نربھر بھارت کی تعمیر کے لیے کام کر رہا ہے جس کا مقصدپوری دنیا کی خوبی کو آگے بڑھانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کا مضبوط اور آتم نربھر ہونا دنیا کے لیے اچھا ہے۔ ووکل فار لوکل کسی ایک خاص لیڈر کا نظریہ نہیں ہے بلکہ اس کی گونج ملک کے کونے کونے میں لوگوں میں سنائی دے رہی ہے۔کورونا سے نمٹنے کا سہرا 130 کروڑ بھارتیوں کے سر ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ’’ہمارے ڈاکٹر، نرسیں، کووڈ کے جانباز،صفائی کرمچاری اور جو لوگ ایمبولینس چلاتے ہیں اس طرح کے لوگ اور دیگر بہت سے لوگ غیبی طاقت کی علامت بن گئے جنھوں نے عالمی وبائی بیماری کے خلاف بھارت کی جدوجہد کو مضبوط بنایا‘‘۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وبائی بیماری کے دوران حکومت نے دو لاکھ کروڑ روپئے متاثرہ لوگوں کے کھاتوں میں براہ راست منتقل کرکے ان کی مدد  کی۔ ہماری جن دھن آدھار موبائل (جے اے ایم) اسکیم نے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کی۔ اس کے ذریعے غریب ترین حاشیے پر رہنے والے اور پسماندہ لوگوں کی مدد کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ اصلاحات کا سلسلہ وبائی بیماری کے دوران بھی جاری رہا اور یہ عمل ہماری معیشت میں ایک نئی رفتار پیدا کر رہا ہے اور  دوہرےہندسے کی ترقی کی امید پیدا ہو رہی ہے۔

کسانوں کے احتجاج کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ایوان حکومت اور ہم سب کسانوں کا احترام کرتے ہیں جو زرعی بلوں کے بارے میں اپنے خیالات ظاہر کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے اعلیٰ ترین وزراء ان سے مسلسل  بات کر رہے ہیں۔ کسانوں کے لیے بڑا احترام پایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے زرعی قوانین پاس کیے جانے کے بعد کوئی بھی منڈی بند نہیں کی گئی۔ اسی طرح ایم ایس پی کا سلسلہ جاری رہا۔ ایم ایس پی پر خریداری بھی برابر جاری ہے۔ بجٹ میں منڈیوں کو مستحکم بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ان حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جناب مودی نے زور دے کر  کہا کہ جو لوگ ایوان کی کارروائی میں خلل ڈال رہے ہیں وہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔ وہ یہ بات ہضم نہیں کرپا رہے ہیں کہ لوگوں نے سچ  سمجھنا شروع کردیا ہے۔ان کی چالوں سے لوگوں کا اعتماد کبھی بھی نہیں جیتا جاسکتا۔ انھوں نے اس دلیل کا جواب دیا کہ حکومت ایک ایسی اصلاح کیوں کر رہی ہے جس  کا مطالبہ ہی نہیں کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ  یہ سب اختیاری ہے لیکن ہم یہ انتظار نہیں کرسکتے کہ کسی کام  کے لیے پوچھا جائے۔ بہت سے ترقی پسندانہ قوانین  وقت کے تقاضے کی وجہ سے بنائے گئے۔ یہ نظریہ  کہ لوگوں کو پوچھنے یا بھیک مانگنے پر مجبور کیا جائے کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ذمے داری اٹھانی چاہئے اور  ملک کی ضرورتوں کے مطابق لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتے رہنا چاہیے۔  ہم نے ملک میں تبدیلی کے لیے کام کیا ہے اور اگر نیت صحیح ہے تو یقینی طور پر اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔

زراعت، سماج اور کلچر کا ایک حصہ ہے اور ہمارے تہوار اور تمام تقریبات فصل کی بوائی اور کٹائی سے وابستہ ہیں۔ ہماری 80 فیصد سے زیادہ آبادی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور  کسانوں سے  صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ زمینوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے ایک پریشان کن صورتحال پیدا ہو رہی ہے جہاں کسان اپنے کھیتوں سے اچھا منافع حاصل نہیں کر رہے ہیں اور زراعت میں سرمایہ کاری کو نقصان  پہنچ رہا ہے۔چھوٹے کسانوں کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے کسانوں کو آتم نربھر بنانے  اور انھیں اپنی فصلوں کو فروخت کرنے کی آزادی دینے اور فصلوں میں تنوع پیدا کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت  ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ زراعت میں سرمایہ کاری سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے۔ اگر ہم  کسانوں کو آزادی دے سکے، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان کے اندر اعتماد پیدا کرسکے تو اس سے یقینی طور پر مثبت فکر پیدا ہوگی کیونکہ پرانے طریقے کام نہیں کریں گے۔

جناب مودی نے زور دے کر کہا کہ پبلک سیکٹر ضروری ہے  لیکن ساتھ ہی ساتھ پرائیویٹ  سیکٹر کا رول بھی بہت اہم ہے۔ کسی بھی سیکٹر کی مثال لیجیے وہ ٹیلی کام ہو یا فارما سیکٹر ہو ہمیں ان کے اندر پرائیویٹ  سیکٹر کا رول نظر آتا ہے۔ اگر بھارت انسانیت کی خدمت کرنے کے قابل ہوا ہے تو یہ پرائیویٹ سیکٹر کے رول کی وجہ سے ہے۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ’’پرائیویٹ سیکٹر کے خلاف غیر مناسب الفاظ کے استعمال سے ماضی میں کچھ لوگوں کو ووٹ مل سکتے تھے لیکن اب وہ وقت چلاگیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کو برا بھلا کہنے کا کلچر اب قابل قبول نہیں رہا ہے۔ ہم اس طرح سے اپنے نوجوانوں کی توہین نہیں کرسکتے‘‘۔

وزیر اعظم نے کسان آندولن میں تشدد پر تنقید کی۔ انھوں نے کہا’’ میں کسان آندولن کو پوتر سمجھتا ہوں، لیکن جب آندولن جیوی پوتر آندولنوں کو اغوا کرلیں گے، سنگین جرائم میں جیل بھیجے گئے لوگوں کی تصویریں اجاگر  کریں گے تو کیا اس سے کوئی مقصد حاصل ہوسکتا ہے؟ ٹول پلازاؤوں کو کام نہ کرنے دینے، ٹیلی کام ٹاوروں کو تباہ کرنے— کیا اس سے پوتر آندولن کی خدمت ہوسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ’ ا ٓندولن کاری‘ اور ’آندولن جیوی‘ میں فرق کرنا ضروری ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو  صحیح بات کرتے ہیں۔ لیکن انھیں لوگوں کے سامنے جب  صحیح کام کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ اپنے  قول کو عمل میں بدلنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جو لوگ انتخابی اصلاحات کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں وہ ایک قوم ایک انتخاب کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ لوگ صنفی انصاف کی بات کرتے ہیں لیکن طلاق ثلاثہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ  حکومت غریبوں اور متوسط طبقے کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے کی غرض سے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ حکومت ملک کو متوازن ترقی کی طرف لے جانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت مشرقی بھارت کے لیے مشن موڈ میں کام کر رہی ہے۔ انھوں نے علاقے میں پیٹرولیم پروجیکٹوں،سڑکوں، ہوائی اڈوں، آبی راستوں، سی این جی، ایل پی جی کے پھیلاؤ اور نیٹ کنیکٹی ویٹی کے پروجیکٹوں کا ذکر کیا۔

وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ حکومت سرحدی ڈھانچے کو تاریخی طور پر نظر انداز کئے جانے کے عمل کو بدلنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ دفاعی افواج ہماری سرحدوں کی حفاظت کی ذمے داری پورا کر رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے فوجیوں کی ان کی جرأتمندی،طاقت اور قربانی کی تعریف کی۔

*****

 

ش ح ۔اج۔را

 

1379U.No.



(Release ID: 1696912) Visitor Counter : 240