وزارت خزانہ
اقتصادی جائزے میں ضابطوں اور اصلاحات کے عمل کو آسان بنانے کےلیے کہا گیا ہے
مسائل کم کرنے کی کوشش سے اکثر زیادہ پیچیدہ ضابطے تشکیل پاتے ہیں جن سے زیادہ غیر شفاف اختیارات پیدا ہوجاتے ہیں
اس کا حل ضابطوں کو آسان بنانا اور بہتر نگرانی پر توجہ دینا ہے چاہے اس کے لیے زیادہ اختیارات استعمال کرنے پڑیں
اختیارات کو شفافیت کے ساتھ متوازن کرنے کی ضرورت ہے
Posted On:
29 JAN 2021 3:29PM by PIB Delhi
نئی دہلی ،29جنوری، 2021، اقتصادی جائزے میں اصل عالمی منظرنامے میں غیر یقینی کی صورتحال کی روشنی میں ضابطے کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اقتصادی جائزے برائے 2020-21 آج پارلیمنٹ میں خزانے اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے پیش کیا۔
اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں انتظامیہ عمل، طریقہ کار میں کافی تاخیر اور فیصلہ سازی کے عمل میں ضابطوں سے متعلق دیگر پیچیدگیوں کے سبب اکثر بھاری بھرکم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے تمام ساجھے داروں کے لیے یہ طریقہ کار کم صلاحیت والا اور پریشان کن بن جاتا ہے۔ جائزے میں اس مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس انتظامی چیلنج کو حل کرنے کے لیے طریقے اور ذرائع تجویز کیے گئے ہیں۔
اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کی غرض سے حکام اکثر اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے سبب زیادہ پیچیدہ ضابطے سامنے آتے ہیں جن کا نتیجہ الٹا ہوتاہے اور یہ زیادہ غیر شفاف اختیار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
اقتصادی جائزے کے مطابق بین الاقوامی موازنوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے انتظامیہ عمل کے مسائل ، طریقہ کار اور ضابطوں کی پابندی میں کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بہت زیادہ ضابطےہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
جائزے میں کہا گیا ہے کہ ایسے ضابطے ہونا ممکن نہیں ہے جو دنیا میں تمام غیر یقینی صورتحال اور اس سے پیدا ہونے والے تمام نتائج کو ختم کرسکیں۔ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی معیشت کے تعلق سے بہت زیادہ ضابطے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ضابطوں کے غیر مؤثر ہونے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے حالاں کہ طریقہ کار کی نسبتاً بہتر طریقے سے پابندی کی جاتی ہے۔
’’نامکمل ٹھیکوں‘‘ کے فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے اقتصادی جائزے میں دلیل دی گئی ہے کہ بھارت کے انتظامیہ عمل میں بہت زیادہ ضابطوں اور غیر شفافیت کا مسئلہ مکمل ضابطوں پر زور دینے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ نتیجہ ہے کہ ایک طرف تو ’ضابطے‘ اور ’نگرانی‘ کے درمیان فرق کو سمجھنے میں کمی اور دوسری طرف نامکمل ضابطوں کے ناگزیر ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس کی مثال بھارت میں کسی کمپنی کے رضاکارانہ طور پر بندہونےکے لیے لگنےوالےوقت ا ور طریقہ کار کے جائزے سے دی گئی ہے۔ اگر کوئی تنازعہ / مقدمہ نا بھی ہو اور تمام کاغذی کارروائی پوری ہو تب بھی ریکارڈ سے اس کمپنی کا نام ہٹانےمیں 1570 دن لگ جاتے ہیں۔
تعلیمی تھیوریوں کی مثال پیش کرتے ہوئے اقتصادی جائزے میں کہا گیاہے کہ صحیح معنی میں عالمی ضابطہ ناگزیرطور پر نامکمل رہے گا کیونکہ :
- نامعلوم وجوہات سے غیر معقول فیصلہ کرنا۔
- ’’مکمل‘‘ کنٹریکٹوں کا اندازہ لگانے اور انھیں مرتب کرنے میں شامل پیچیدگیاں جن میں ہر ممکن ہنگامی صورتحال میں تمام ضابطوں کی وضاحت کی گئی ہو۔
- وہ مشکل جو یہ دو پہلو فیصلوں کی غیر مبہم طریقے پر تصدیق کرنے میں تیسرے فریق کے سامنے آتی ہے۔
اصل دنیاوی ضابطہ لازمی طور پر نامکمل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ضابطوں کے طریقہ کار کی پیچیدگی میں اضافہ ہوجاتاہے، اور اس سے توثیق کے عمل میں کمی آجاتی ہے اور نگراں کے ہاتھ میں غیر شفاف اختیارات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آسان نہیں بلکہ زیادہ ضابطےہونے کی وجہ سے اختیارات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔
اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ اس کا حل یہ ہے کہ زیادہ پیچیدہ ضابطوں کے ساتھ متبادل نگرانی سے گریز کیا جائے۔ آسان حل یہ ہے کہ ضابطے آسان ہوں جن کے ساتھ فیصلہ سازی کا عمل شفاف ہو۔ سرکاری فیصلہ ساز کو اختیار دے کر ضروری ہے کہ اسے تین چیزوں کے ساتھ متوازن بنایا جائے:
- بہتر شفافیت
- احتساب کا مضبوط نظام (مثلا بینک بورڈ) اور
- واقعے سے پہلے اسے حل کرنے کا طریقہ کار۔
اقتصادی جائزے میں نوٹ کیا گیا ہے کہ جہاں کہیں ضابطے کو آسان بنایا گیا ہے وہاں کاروبار کرنے کے طریقہ کار میں خاطر خواہ بہتری پیدا ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر نئی حکومت کی ای-مارکیٹ پلیس (جی ای ایم پورٹل) نے سرکاری خریداری کی قیمت مقرر کرنے میں شفافیت میں اضافہ کردیا ہے۔اس سے نہ صرف یہ کہ خریداری کی لاگت میں کمی آئی ہے بلکہ اس سے فیصلہ کرنے میں ایماندار سرکاری افسران کے لیے آسانی بھی پیدا ہوئی ہے۔
*****
ش ح ۔اج۔را
U.No.954
(Release ID: 1693463)
Visitor Counter : 273