وزارت خزانہ

اقتصادی جائزہ 21-2020 کے کلیدی نتائج سے صحت کے معاملات پر پی ایم جے اے وائی کے مضبوط مثبت اثرات کا پتہ چلتا ہے


لوگوں نے لاک ڈاؤن کے دوران بھی پی ایم جے اے وائی پر اعتماد کیا

پی ایم جے اے وائی نے  صحت بیمہ کوریج میں نمایاں اضافہ کیا ہے

پی  ایم جے اے وائی کو اختیار کرنے والی ریاستوں اور اختیار نہ کرنے والی ریاستوں کے درمیان موازنہ کرنے سے دونوں میں صحت کی صورتحال میں نمایاں فرق ظاہر ہوتا ہے

Posted On: 29 JAN 2021 3:44PM by PIB Delhi

نئی دہلی ،29؍جنوری: حکومت ہند نے 2018 میں سماج کے سب سے زیادہ کمزور طبقات کی صحت دیکھ ریکھ تک رسائی کے مقصد سے پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) شروع کی تھی جو کہ ایک شاندار پروگرام ہے اور آیوشمان بھارت یوجنا کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس یوجنا کو اختیار کرنے والی ریاستوں میں صحت دیکھ ریکھ کی صورتحال پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ بات اقتصادی جائزہ 21-2020 میں کہی گئی ہے ، جو کہ آج خزانے اور کارپوریٹ اُمور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتارمن نے پارلیمنٹ میں پیش کیا۔

جائزے میں بتایا گیا ہے کہ پی ایم جے اے وائی کو زیادہ استعمال ہونے والی او ر کم لاگت والی دیکھ ریکھ کے لئے استعمال کیاجارہا ہے اور عام طور پر اسے عام صحت دیکھ ریکھ خدمات کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ڈائیلیسس جیسی خدمات کو کووڈ عالمی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران بھی  بلا روک  ٹوک استعمال کیاجاتا رہا ۔ جنرل میڈیسین ایسی اسپیشلٹی ہے جس کے لئے  آدھے سے زیادہ دعوے کیے جاتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران اس میں گراوٹ نظر آئی تھی لیکن اس کے بعد دسمبر 2020 میں یہ کووڈ سے قبل کی سطح پر پہنچ گئی۔ اس بات کے پیش نظر کہ ڈائیلیسس کے دعووں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ڈائیلیسس مشن کا پی ایم جے اے وائی میں الحاق کیاجائیگا۔

 پی ایم جے اے وائی اور صحت کی صورتحال

اقتصادی جائزے نے اپنے اہم ترین تجزیے میں صحت کی صورتحال پر پی ایم جے اے وائی کے اثر کا اندازہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ پی ایم جے اے وائی  کا نفاذ چونکہ مارچ 2018 میں کیا گیا تھا اس لئے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-4 (16-2015) اور 5 (20-2019میں) کے ذریعے تیار کیے گئے صحت کےاشاریے اس اثر کا اندازہ کرنے کیلئے پہلے کے اور بعد کے اعداد وشمار فراہم کراتے ہیں۔ بجٹ سے قبل کاجائزہ پی ایم جے اے وائی  نافذ کرنے والی اور نافذ نہ کرنے والی ریاستوں کاموازنہ کرتا ہے۔

مغربی بنگال کا اس کی پڑوسی ریاستوں سے موازنہ

مغربی بنگال ریاست  سے حاصل شدہ اعداد وشمار اور اس کی پڑوسی ریاستوں بہار، آسام اور سکّم کے اعداد وشمار کا موازنہ کرتے ہوئے اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ 16-2015 سے 20-2019 تک بہار، آسام اور سکّم میں صحت بیمہ والے گھروں کے تناسب میں 89 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ مغربی بنگال میں اسی مدت میں 12فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ 16-2015 سے 20-2019 کے دوران بچوں کی اموات کی شرح مغربی بنگال میں 20فیصد کم ہوئی ہے جبکہ تین پڑوسی ریاستوں میں  یہ کمی 28فیصد کی ہے۔ اسی طرح بنگال میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی موت کی شرح میں 20فیصد کی گراوٹ آئی ہے جبکہ پڑوسی ریاستوں میں 27فیصد کی گراوٹ دیکھنے کو ملی ۔ جدید مانع حمل طریقوں ، خواتین کی نسبندی اور گولیوں کے استعمال میں تین پڑوسی ریاستوں میں بتدریج 36فیصد ،22فیصد اور 28فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ مغربی بنگال میں معمولی اضافہ ہوا ہے۔ لگاتار دو بچوں کی پیدائش میں وقفہ رکھنے کی ضرورت کو پورا کرنے میں مغربی بنگال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دکھائی دیتی جبکہ پڑوسی تینوں ریاستوں میں بچو ں کی پیدائش میں 37فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔ اقتصادی جائزے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی بنگال کے مقابلے میں تین پڑوسی ریاستوں میں ماں اور بچے کے معاملے میں مختلف معیارات میں زیادہ بہتری آئی ہے۔

پی ایم جے اے وائی اختیار کرنے والی اور اختیار نہ کرنے والی تمام ریاستوں کا موازنہ

اقتصادی جائزے میں پی ایم جے اے وائی  نافذ کرنے والی اور نافذ نہ کرنے والی  ریاستوں کاموازنہ بھی کیا گیا ہے ۔ اس میں پی ایم جے اے وائی نافذ کرنے والی ریاستوں میں نافذ نہ کرنے والی ریاستوں کے مقابلے میں کئی صحت معاملات میں نمایاں بہتری پائی گئی ہے۔ سالانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ جن ریاستوں میں پی ایم جے اے وائی نافذ نہیں کیا گیا ہے ان میں نافذ کرنے والی ریاستوں کے مقابلے میں صحت بیمے کے پھیلاؤ میں کمی دیکھی گئی ہے اور وہاں پر نوزائیدہ بچے اور بچوں کی اموات کی شرح میں بھی نسبتاً کم کمی دیکھی گئی ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی اور ان کے استعمال  ایچ آئی وی/ ایڈس کے بارے میں بیداری میں بھی نمایاں فرق پایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ اثرات تو براہ راست بیمہ کووریج کا نتیجہ ہیں جبکہ دیگر اس کے ضمنی اثرات ہیں۔ حالانکہ اس کو شروع ہوئے ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا ہے اس کے اثرات اہم ہیں اور ان سے ملک میں صحت کی صورتحال خصوصی طور پر کمزور طبقات  کی صحت کی صورتحال میں نمایاں فرق  نظر آیا ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ :

(الف) پی ایم جے اے وائی اختیار کرنے والی ریاستوں میں این ایف ایچ ایس 4 سے این ایف ایچ ایس5 تک صحت بیمے کے کور میں 54فیصد کااضافہ ہوا ہے جبکہ پی ایم جے اے وائی  اختیار نہ کرنے والی ریاستوں میں اس میں دس فیصد کی کمی آئی ہے جس سے صحت بیمہ کوریج کے معاملے میں پی ایم جے اے وائی کی کامیابی کا پتہ چلتا ہے۔

(ب) پی ایم جے اے وائی والی ریاستوں میں بچوں کی شرح اموات میں 20فیصد کی کمی ا ٓئی ہے جبکہ غیرپی ایم جے اے وائی  ریاستوں میں  12فیصد کی  کمی آئی ہے۔

(ج) دونوں جائزوں کے درمیان تمام ریاستوں میں خاندانی منصوبہ بندی کو یقینی بنانے والے لوگوں کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے ۔ پی ایم جے اے وائی اختیار کرنے والی ریاستوں میں یہ اضافہ زیادہ نمایاں ہے اور اس سے اس کے مؤثر ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

(د ) پی ایم جے اے وائی والی ریاستوں میں خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورتوں کو پورا نہ کرنے والی خواتین کے تناسب میں 31فیصد کی گراوٹ آئی ہے جبکہ غیرپی ایم جے ا ے وائی والی ریاستوں میں یہ گراوٹ محض 10فیصد ہے۔

(ح) زچگی کی دیکھ ریکھ کے اشاریوں میں بہتری آئی ہے یعنی پی ایم جے اے وائی اختیار کرنے والی ریاستوں میں اسپتالوں میں زچگی سرکاری  اسپتالوں میں زچگی اور گھروں پر زچگی کی تعداد کافی زیادہ ہے جبکہ  آپریشن سے ہونے والے  بچوں کے فیصد میں پی ایم جے اے وائی ریاستوں میں فیصد زیادہ ہے۔ اس لئے جائزے میں کہا گیا ہے کہ پی ایم جے اے وائی پیدائش کے لئے  زچگی کی دیکھ ریکھ  کو یقینی بنانے کے معاملے میں زیادہ مؤثر نہیں ہے۔

(و) ایچ آئی وی / ایڈس کی جامع معلومات رکھنے والی خواتین کے فیصد میں پی ایم جے اے وائی ریاستوں میں 13فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ غیرپی ایم جے اے وائی ریاستوں میں یہ اضافہ محض دو فیصد ہے۔ اس سلسلے میں پی ایم جے اے وائی ریاستوں میں مردوں میں 9فیصد کااضافہ ہوا ہے جبکہ غیرپی ایم جے اے وائی ریاستوں میں 39فیصد کی کمی آئی ہے۔

مارچ 2018 میں حکومت ہند نے آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (اے بی- پی ایم جے اے وائی) شروع کیا تھا جوکہ ملک کے کمزور ترین طبقات کو ثانوی اور تیسری صحت دیکھ ریکھ خدمات فراہم کرانے کیلئے تاریخی قدم ہے۔ اس کے استفادہ کنندگان میں 10.74 کروڑ غریب اور کمزور خاندانوں کے تقریباً 50 کروڑ افراد شامل ہیں۔ یہ اسکیم سالانہ 5 لاکھ روپئے فی خاندان تک کی ثانوی اور تیسرے درجے کا اسپتالوں میں داخلے کا خرچ  ایک سرکاری اور پرائیویٹ ہیلتھ کیئر پرووائیڈرز کے ایک نیٹ ورک کے ذریعے فراہم کراتی ہے۔ اس میں 1573 طریقہ کار 23 اسپیشلٹیز سمیت شامل ہیں۔ نیشنل ہیلتھ اتھارٹی (این ایچ اے ،2019) کے ذریعے جاری کردہ پی ایم جے اے وائی کی تازہ ترین سالانہ رپورٹ کے مطابق 32 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں نے اس اسکیم کو نافذ کیا ہے۔

 

۔۔           ۔۔۔۔   ۔۔۔

 

 ( ش ح ۔ ا گ ۔ ع ن)

U. No. 942

 

 



(Release ID: 1693418) Visitor Counter : 219