وزارت خزانہ
اقتصادی جائزے میں عوامی صحت پر کیے جانے والے اخراجات کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بڑھا کر ڈھائی سے تین فیصد کیے جانے کی زبردست سفارش کی گئی ہے
‘‘صحت دیکھ ریکھ پر کیے جانے والے اخراجات میں اضافے سے صحت دیکھ ریکھ پربراہ راست ہونے والے مجموعی خرچ کو 65فیصد سے کم کرکے 35فیصد کیا جاسکتا ہے’’
اس بات پر زور دیا گیا کہ صحت دیکھ پالیسی کو امتیازات سے متاثر نہیں ہونا چاہئے ، صحت دیکھ ریکھ کے بنیادی ڈھا نچے کو متحرک ہوناچاہئے
صحت دیکھ ریکھ مارکیٹ کے ڈھانچے کی سرگرمی کے ساتھ تشکیل کو حکومت کے کلیدی رول کے طور پر نمایاں کیا گیا
آیوشمان بھارت یوجنا کے ساتھ این ایچ ایم کو جاری رکھنے کی سفارش کی گئی
‘‘صحت دیکھ ریکھ کے شعبے کی ضابطہ بندی اور نگرانی کیلئے شعبہ جاتی ریگولیٹر پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہئے’’
‘‘آخر ی میل تک صحت دیکھ ریکھ خدمات پہنچانے کیلئے ٹیکنالوجی پر مبنی حل کا پورا فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے’’
Posted On:
29 JAN 2021 3:45PM by PIB Delhi
نئی دہلی ،29؍جنوری: اقتصادی جائزہ 21-2020 نے صحت دیکھ ریکھ خدمات پر کیے جانے والے سرکاری خرچ کو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بڑھا کر ڈھائی سے تین فیصد کیے جانے کی زوردار سفارش کی ہے، جیسا کہ نیشنل ہیلتھ پالیسی 2017 میں بھی کہا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اس سے صحت دیکھ ریکھ پر کیے جانے والے براہ راست مجموعی اخراجات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور وہ 65فیصد سے گھٹا کر 35فیصد تک کیے جاسکتے ہیں۔ خزانے اور کارپوریٹ اُمو ر کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتارمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 21-2020 پیش کیا۔
جائزے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ملک کی صحت کاانحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے شہریوں کی ایک منصفانہ، سستے اور جوابدہ صحت دیکھ ریکھ نظام تک رسائی ہو۔ مجموعی صحت اخراجات کے ایک حصے کے طور پر براہ راست اخراجات میں اس وقت کمی آئے گی جب صحت پر کیے جانے والے سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صحت پر کیے جانے والے براہ راست اخراجات میں اضافے سے کمزور طبقات کے غریبی کا شکار ہوجانے کے جوکھم میں اضافہ ہوجاتا ہے کیوں کہ صحت سے متعلق اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ملک میں متوقع میعاد زندگی کا تعلق صحت پر کیے جانےو الے فی کس سرکاری خرچ سے ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ بھی کیا گیا ہے کہ مالیاتی اعتبار سے بھارت میں براہ راست اخراجات کی سطح دنیا میں سب سے زیادہ ہے، اس کی وجہ بہت زیادہ اخراجات اور غریبی ہے۔ اس کے علاوہ جائزے میں پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) کی بھی تعریف کی گئی ہے جس کی وجہ سے بھارت کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو مالیاتی سہولت فراہم کرانے کی سمت میں نمایاں کام انجام دیا گیا ہے۔
صحت دیکھ ریکھ پر مرکوز باب میں اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ کووڈ-19 عالمی وبا نے صحت دیکھ ریکھ کے شعبے کی اہمیت اور اس کو معیشت کے دیگر اہم شعبوں سے منسلک کیے جانے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اس عالمی وبا سے ایک اہم سبق یہ ملا ہے کہ صحت دیکھ ریکھ کا ایک بحران کس طرح ایک اقتصادی اور سماجی بحران میں تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ صحت دیکھ ریکھ پالیسی کو امتیازات پر مبنی نہیں ہوناچاہئے بلکہ یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ عالمی وباؤں کاسامنا کرنے کیلئے صحت کے بنیادی ڈھانچے کو متحرک ہوناچاہئے۔ اس کے علاوہ بھارت کی صحت دیکھ ریکھ پالیسی کو اپنی طویل مدتی صحت دیکھ ریکھ ترجیحات پر فوکس جاری رکھنا چاہئے۔
اس جائزے میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں صحت نظام ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا ہے وہاں لاگت زیادہ ہوتی ہے ، کارکردگی کم ہوتی ہے اور معیار بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ اس لئے صحت دیکھ ریکھ خدمات فراہم کرانے اور صحت دیکھ ریکھ کیلئے مالی بندوبست کرنے کے علاوہ حکومت کا ایک کلیدی رول صحت دیکھ ریکھ مارکیٹ کے ڈھانچے کی سرگرمی کے ساتھ تشکیل کرنا ہوتا ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ نیشنل ہیلتھ مشن (این ایچ ایم) نے ناانصافی کو کم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے کیونکہ زچگی سے قبل او رزچگی کے بعد دیکھ ریکھ کے ساتھ ساتھ اسپتالوں میں زچگی کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ جائزے میں اس بات کی سفارش کی گئی ہے کہ آیوشمان بھارت یوجنا کے ساتھ این ایچ ایم کو جاری رکھا جاناچاہئے۔
اقتصادی جائزے میں صحت دیکھ ریکھ کے شعبے میں اطلاعات کے عدم تناسب کے معاملے کی گہرائی سے جانچ کی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر صحت دیکھ ریکھ چونکہ پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے فراہم کرائی جاتی ہے اس لئے پالیسی سازوں کیلئے یہ اہم ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں تیار کریں جن سے صحت دیکھ ریکھ میں اطلاعاتی عدم تناسب کو کم کیاجاسکے کیونکہ اس سے بازار کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے اور اس طرح غیرضابطہ بند پرائیویٹ صحت دیکھ ریکھ کا پورافائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس لئے اطلاعاتی عدم تناسب کو کم کرنے میں مدد دینے والی اطلاعاتی سہولتیں مجموعی فلاح میں اضافے کے معاملے میں بہت کارآمد ہوسکتی ہیں۔ ایک اہم نتیجے میں پایاگیا ہے کہ اطلاعاتی عدم تناسب کو دور کرنے سے بیمے کے پریمیم کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس سے بیمے سے متعلق بہتر پروڈکٹس سامنے آئیں گے اور ان سے ملک میں بیمے کے پھیلا ؤ میں بھی اضافہ ہوگا۔ اطلاعاتی عدم تناسب کو کم کرنے میں مدد دینے والی اطلاعاتی سہولتیں صحت دیکھ ریکھ کے شعبے میں مجموعی فلاح میں اضافے کے معاملے میں بہت کارآمد ہوسکتی ہیں۔اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ڈبلیو ایچ او نے اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر زور دیا ہے، اقتصادی جائزے میں اطلاعاتی عدم تناسب سے پیداہونے والی بازار کی خامیوں کی وجہ سے صحت دیکھ ریکھ کے شعبے کی ضابطہ بندی اور نگرانی کیلئے صحت دیکھ ریکھ کے منظرنامے میں ایک شعبہ جاتی ریگولیٹر کی سفارش کی ہے۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، فن لینڈ ، جرمنی، نیدرلینڈ اور امریکہ جیسے کئی ممالک میں اختیار کیے جانے والے بہترین طریقہ کار سے بھی واقف کرایا گیا ہے۔
اب موجودہ کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران حاصل کیے جانے والے اسباق سے اقتصادی جائزے میں ملک میں آخری میل تک صحت دیکھ ریکھ کی رسائی کے چیلنجوں کو پورا کرنے کیلئے ٹیلی میڈیسین کو پوری طرح اختیار کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اس بات کابھی ذکرکیا گیا ہے کہ کووڈ-19 عالمی وبا نے صحت دیکھ ریکھ خدمات کو دور دراز علاقوں میں پہنچانے کیلئے ایک متبادل تقسیم کار طریقے کے طور پرڈیجیٹائزیشن اور آرٹیفیشل انٹلی جنس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی پر مبنی پلیٹ فارموں (مثلاً ای –سنجیونی) کے رول کو نمایاں کرنے میں مدد کی ہے۔ کیونکہ ٹیلی میڈیسین کاانحصار عام طور پر انٹرنیٹ کنیکٹویٹی پر ہوتا ہے اس لئے صحت کےبنیادی ڈھانچے اور ٹیلی میڈیسین کنسلٹیشن کی تعداد کا علاقے میں انٹرنیٹ کی موجودگی سے بہت زیادہ تعلق ہوتا ہے اس لئے مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ حکومت کے ڈیجیٹل ہیلتھ مشن کو مشن موڈ میں لانے کیلئے ٹیلی میڈیسن میں سرمایہ کاری کریں اور اس طرح عوام تک صحت دیکھ ریکھ کی رسائی کو ممکن بنائیں۔
۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔
( ش ح ۔ ا گ ۔ ع ن)
U. No. 941
(Release ID: 1693341)
Visitor Counter : 317