وزیراعظم کا دفتر

پردھان منتری راشٹریہ بال پرسکار حاصل کرنے والے بچوں سے وزیر اعظم کی بات چیت کا متن

Posted On: 25 JAN 2021 9:12PM by PIB Delhi

نئی دلی، 25 جنوری: سب سے پہلے تو آپ سب کو پردھان منتری راشٹریہ بال پرسکار جیتنے کی بہت بہت مبارک باد۔ جب سے آپ کو پتہ چلا ہوگا کہ آپ کا نام اس ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا ہے، آپ کی بے تابی بڑھ گئی ہو گی۔ آپ کے   والدین، دوست، اساتذہ بھی آپ جتنے ہی پرجوش ہوں گے۔ آپ کی طرح میں بھی آپ سے ملنے کا انتظار کر رہا تھا لیکن کورونا کی وجہ سے اب ہماری ورچوئل ملاقات ہی ہو پارہی ہے۔

پیارے بچو،

آپ نے جو کام کیا ہے، آپ کو جو انعام ملا ہے، وہ اس لیے بھی خاص ہے کہ آپ نے یہ سب کچھ کورونا دور میں کیا ہے۔ اتنی کم عمر میں بھی آپ کے یہ کارنامے  حیران کن   ہیں۔ کوئی کھیل کے میدان میں ملک کا نام روشن کر رہا ہے، کوئی ابھی سے تحقیق اور جدت طرازی کے کارنامے انجام دے رہا ہے۔ آپ میں سے ہی کل ملک کے کھلاڑی، ملک کے سائنس داں، ملک کے رہنما، ملک کے بڑے بڑے سی ای اوز ، بھارت کا نام اونچا کرنے کی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ابھی جو ویڈیو فلم چل رہی تھی، اس میں آپ سب کی کام یابیوں پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ آپ میں سے بہت سے بچوں کے بارے میں تو مجھے بیچ بیچ میں پتہ چلتا ہی رہتا ہے، ان کے بارے میں سن چکا ہوں۔ اب جیسے دیکھیے ممبئی کی بیٹی ہماری كاميا کارتی کیئن۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے من کی بات میں بھی ایک بار اس کے بارے میں ذکر کیا تھا۔ كاميا کو کوہ پیمائی میں ملک کا نام روشن کرنے کے لیے یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ آئیے آج ہم كاميا ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان ہی سے شروع کرتے ہیں۔ ان سے کچھ پوچھنا ضرور چاہتا ہوں۔

سوال: كاميا، ابھی حال ہی میں، میں نہیں مانتا آپ چین سے بیٹھتی ہوں گی، کچھ نہ کچھ کرتی ہوں گی۔ تو آپ نے کون سا نیا پہاڑ سر کیا ہے؟ کیا کیا ہے ان دنوں؟ یا پھر کورونا کی وجہ سے کچھ مشکل پیش آگئی، کیا ہوا؟

جواب: سر، کورونا نے پورے ملک کے لیے ہی تھوڑی مشکلات پیدا کی ہیں۔ لیکن جیسا کہ آپ نے کہا ہم ایسے ہی بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ ہمیں كورونا کے بعد بھی مضبوطی سے ابھرنا ہے۔ تو میں نے اپنی ٹریننگ اور مکمل روٹین کورونا کے دوران بھی جانی رکھی ہے اور اب ہم اس وقت گلمرگ میں ہیں جو جموں و کشمیر میں ہے اور اپنی اگلی چڑھائی کے لیے ٹریننگ کر رہی ہوں۔ شمالی امریکہ میں ماؤنٹ دینالی ہے۔ ہم اس سال جون میں ماؤنٹ دینالی پر چڑھنے کے لیے ٹریننگ کر رہے ہیں۔

سوال: تو ابھی آپ بارہمولہ میں ہیں؟

جواب: جی سر، شکر ہے، آفس نے ہماری بہت مدد کی ہے، اور ان لوگوں نے بھی گزشتہ تین دنوں سے چوبیس گھنٹے کام کیا ہے۔ اور ہم یہاں پر بارہمولہ میں آکر آپ سے ملاقات کر پائے سر۔

سوال: تو آپ کے ساتھ اور کون ہے؟ تعارف كروائیں۔

جواب: سر، یہ میری ماں ہیں اور یہ میرے پاپا ہیں، سر۔

پاپا: نمسکار

مودی جی: چلیے آپ مبارک ہو۔ آپ نے بیٹی کا حوصلہ بھی بڑھایا اور آپ نے اس کی مدد بھی کی ہے۔ تو میں ایسے ماں باپ کا  تو خاص طور سے خیر مقدم کرتا ہوں۔

سوال: اچھا سب سے بڑا ایوارڈ تو آپ کے لیے آپ کی محنت اور حوصلہ ہے۔ آپ تو پہاڑوں پر چڑھتی ہیں، ٹریکنگ کرتی ہیں، اور پوری دنیا میں گھومتی ہیں، اور اچانک جب کورونا کی وجہ سب کچھ بند کر دیا گیا، تو یہ سال کس طرح گزارا؟ کیا کرتی تھیں؟

جواب: سر، میں نے کورونا کو ایک موقع سمجھا کہ اگرچہ میں نے ۔۔۔

سوال: مطلب آپ نے بھی مصیبت کو موقع میں بدل دیا؟

جواب: جی سر۔

سوال: بتائیے۔

جواب: سر، پہاڑ تو نہیں چڑھ سکتی ہوں ابھی جاکر، لیکن میں نے یہ سوچا کہ اس بار میں دوسروں کو وقت پر پہنچنے کے لیے تحریک دے سکتی ہوں۔ تو میں بہت سارے اسکولوں اور اداروں میں ویبینار کر رہی ہوں اور اپنے مشن کے بارے میں بھی بتا رہی ہوں اور اس کا پیغام بھی پھیلانا چاہتی ہوں، سر۔

سوال: لیکن جسمانی فٹنس کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑتا ہوگا؟

شمال جی سر، عام طور پر ہم دوڑنے اور سائیکلنگ کے لیے جاتے تھے لیکن پہلے لاک ڈاؤن میں اس کی اجازت نہیں تھی تو ہم جس 21 منزلہ عمارت میں رہتے ہیں ممبئی میں، ہم وہاں پر سیڑھیوں سے اوپر نیچے چڑھتے تھے فٹنس کے لیے۔ اور تھوڑا سا لاک ڈاؤن میں ڈھیل دیے جانے کے بعد ہم ممبئی شفٹ ہوئے ہیں تو ہم سہیادری میں جاکر چھوٹے موٹے ٹریک کرتے تھے سر، ویک اینڈ پر۔

سوال: تو ممبئی میں تو کبھی۔۔ سردی کیا ہوتی ہے پتہ ہی نہیں چلتا ہوگا۔ یہاں تو بارہمولہ میں کافی سردی میں رہتی ہوں گی آپ؟

جواب: جی سر

پی ایم سر کا تبصرہ: دیکھیے کورونا نے یقینی طور پر سب کو متاثر کیا ہے۔ لیکن ایک بات میں نے نوٹ کی ہے کہ ملک کے بچے، ملک کی اولاد نے اس وبا سے نمٹنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھونا ہے۔ یہ بات بچوں نے سب سے پہلے پکڑی۔ اور میں تب سوشل میڈیا پر کتنے ہی ویڈیو دیکھتا تھا جن میں بچے کورونا سے بچنے کی تدابیر بتاتے تھے۔ آج یہ ایوارڈ ایسے ہر بچے کو بھی ملا ہے۔ ایسے خاندان اور ایسا معاشرہ، جہاں بچوں سے سیکھنے کا کلچر ہوتا ہے وہاں بچوں کی شخصیت کا تو بہت ارتقا ہوتا ہی ہے، ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی جمود نہیں آتا، سیکھنے کی جستجو برقرار رہتی ہے، ان کا حوصلہ قائم رہتا ہے۔ اور بڑے بھی سوچتے ہیں کہ ارے واہ ۔۔۔ ہمارے بچے نے کہا ہے تو ہم ضرور کریں گے۔ ہم نے یہ کورونا کے وقت بھی دیکھا ہے اور سوچھ بھارت مشن کے دوران بھی میں نے برابر دیکھا ہے۔ بچے جب کسی کاز سے جڑجاتے ہیں، تو اس میں کام یابی ملتی ہی ہے۔ كاميا آپ، آپ کے والدین کو، آپ ٹرینرز کو، سب کو میں بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ بہت بہت مبارک دیتا ہوں۔ اور آپ کشمیر کا لطف بھی لیجیے اور نئے جرأت کے ساتھ آگے بھی بڑھیے۔ آپ ہیلتھ، اپنی صحت پر توجہ دیں، نئی نئی بلندیوں پر پہنچیں۔ نئی نئی چوٹیوں کو سر کریں۔ پیار بچو۔ ہمارے ساتھ آج جھارکھنڈ کی ایک بیٹی ہے، سویتا کماری۔ انھیں کھیلوں میں شاندار کارکردگی کے لیے یہ ایوارڈ ملا ہے۔

سوال: سویتا جی، آپ نے کس طرح من بنایا کہ آرچری یا نشانے بازی میں آپ کو آگے بڑھنا ہے؟ یہ خیال کہاں سے آیا اور اس میں آپ کے خاندان کا سپورٹ تو رہا ہی ہوگا۔ تو میں ضرور آپ سے سننا چاہتا ہوں تاکہ ملک کے بچے جان سکیں کہ جھارکھنڈ کے دور دراز کے جنگلوں میں ہماری ایک بیٹی کیا کارنامے انجام دے رہی ہے، اس سے ملک کے بچوں کو تحریک ملے گی۔ بتائیے۔

جواب: سر، میں کستوربا گاندھی بالیکا اسکول میں پڑھائی کرتی تھا، وہیں پر ہمیں تحریک ملی آرچری سیکھنے کی۔

سوال: آپ نے ملک کے لیے تمغے لانا شروع بھی کر دیا ہے۔ پورے ملک کی نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ آگے کے لیے آپ نے کیا مقصد طے کیا ہے، کہاں تک کھیلنا ہے؟

جواب: سر، ہم کو انٹرنیشنل میں گولڈ میڈل جیتنا ہے اور جب قومی گیت جب ملک کے لیے بجتا ہے تو ہمیں اچھا لگتا ہے۔

سوال: واہ! آپ کے ساتھ کون کون ہے؟

جواب: سر، ممی آئی ہوئی ہیں اور ادھر پاپا آئے ہوئے ہیں۔

سوال: اچھا، یہ کبھی کھیلتے تھے کیا؟ پاپا نے کبھی کھیلوں میں حصہ لیا تھا؟

جواب: سر نہیں۔

سوال: اچھا سب سے پہلے شروع آپ نے کیا؟

جواب: یس سر۔

سوال: تو ابھی تمہیں باہر جانا ہوتا ہے تو ممی پاپا کو فکر نہیں ہوتی ہے نا؟

جواب: سر، ابھی تو سر ہیں نا ساتھ میں تو سر کے ساتھ جاتے ہیں۔

سوال: اچھا۔

پی ایم سر کا تبصرہ: آپ اولمپک تک جائیں، گولڈ لے کر آئیں، یہ آپ کے خواب واقعی بھارت کے ہر بچے کو نئے خواب سجانے کی تحریک دیتے ہیں۔ میری نیک خواہشات ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ سپورٹس کی دنیا میں جھارکھنڈ کا جو ٹیلنٹ ہے، اس پر پورے ملک کو فخر ہے۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ جھارکھنڈ کی بیٹیاں بڑا لاجواب کام کرتی ہیں۔ کیسے کیسے کھیل کود میں اپنا نام بنا رہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں، چھوٹے چھوٹے شہروں میں آپ جیسا ٹیلنٹ جب باہر نکلتا ہے، تو دنیا بھر میں جا کر ملک کا نام روشن کرتا ہے۔ سویتا، آپ کو میرا بہت بہت آشیرواد ہے۔ بہت آگے بڑھیں۔

جواب: شکریہ سر۔

اچھا، ویسے ساتھیو، اس بار راشٹریہ بال پرسکار میں جو مختلف قسم کے ہیں، وہ بہت اچھی بات ہے۔ آرچری سے اب ہم آرٹ کی دنیا میں چلیں گے۔ منی پور کی بیٹی ہماری کماری نويش كيشم، شاندار پینٹنگز بنانے کے لیے اس کو آج ایوارڈ ملا ہے۔

سوال: بتائیے بیٹا، نويش، ہم آپ سے سننا چاہتے ہیں۔ آپ بہت ہی اچھی پینٹنگز کرتی ہیں۔ رنگوں میں تو ویسے ہی بہت توانائی ہوتی ہے۔ اور ویسے تو شمال مشرق  اپنے آپ میں بڑا رنگا رنگ ہے۔ ان رنگوں کو سجا دیا جائے، تو یہ زندگی بھر دینے کے مانند ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ زیادہ تر ماحولیات پر، گردوپیش پر، ہریالی پر پینٹنگ بناتی ہیں۔ اور یہی موضوع آپ کو اتنا کیوں متوجہ کرتا ہے؟

جواب: سب سے پہلے گڈ آفٹرنون سر۔ آپ سے بات کرنا واقعی میرے لیے فخر کی بات ہے۔ سب سے پہلے تو میں اپنا نام بتادوں، میرا نام ونیش کیشم ہے اور مجھے گردوپیش پر پینٹنگ کرنا بہت اچھا لگتا ہے کیوں کہ آج کل ماحول دن بدن خراب ہوتا جارہا ہے، وہاں امپھال میں بھی بہت آلودگی ہوگئی ہے، تو میں اس صورت حال کو زیادہ سے زیادہ درخت لگاکر بدلنا چاہتی ہوں اور اپنے ماحول کو، اپنے پودوں اور جانوروں کو، ہمارے جنگلوں کو بچانا چاہتی ہوں۔ اس لیے اس پیغام کو لوگوں میں پھیلانے کے لیے ایک آرٹسٹ کے طور پر میں کام کر رہی ہوں۔

سوال: اچھا آپ کے خاندان میں بھی اور کوئی ہیں جو پینٹنگ کرتے ہیں؟ پاپا، ماتاجی، بھائی، چچا، کوئی اور۔

جواب: نہیں سر، میرے پاپا ایک بزنس میں ہیں اور میری ممی گھریلو خاتون ہیں۔ صرف میں ہی آرٹسٹ ہوں۔

سوال: یہ تمہارے پاپا، یہ تمہارے ماتاجی ہیں تمہارے ساتھ؟

جواب: ہاں۔

سوال: تو یہ تو تمہیں ڈانٹتے ہوں گے کہ تم یہ کیا پورا دن پینٹنگ کرتی رہتی ہو؟ کچھ پڑھتی نہیں ہو۔ کھانا نہیں پکاتی ہو۔ کام نہیں کرتی ہو۔ ایسے ڈانٹتے ہوں گے؟

جواب: نہیں سر، وہ میری بہت سپورٹ کرتے ہیں۔

سوال: تو بہت خوش قسمت ہو آپ۔ اچھا آپ کی عمر چھوٹی ہے، لیکن خیال بہت بڑے ہیں۔ اچھا، پینٹنگ کے علاوہ آپ کے کیا کیا شوق ہیں؟

جواب: سر، مجھے گانا اچھا لگتا ہے۔ مجھے باغبانی بھی اچھی لگتی ہے۔

وزیر اعظم کا تبصرہ: نويش، میں منی پور کئی بار آیا ہوں۔ اور وہاں کی فطرت مجھے اپنی طرف بہت کھینچتی ہے، میرا تجربہ رہا ہے وہاں۔ اور فطرت کو لے کر وہاں کے لوگوں میں جو ایک قسم کی تعظیم پائی جاتی ہے، فطرت کی حفاظت کے لیے پورے شمال مشرق میں ہر شخص اپنی جان لگا دیتا ہے۔ جو منی پور میں بھی دیکھا جاتا ہے اور میں مانتا ہوں کہ یہ بہت اعلی اقدار ہیں۔

سوال: اچھا آپ گانا گاتی ہیں، آپ نے بتایا تھا۔ کچھ سنائیں گی مجھے؟

جواب: جی سر۔ میرا مطلب میں ایک پیشہ ور سنگر تو نہیں ہوں، لیکن پھر بھی مجھے اچھا لگتا ہے۔ یہ ہمارا ایک لوک گیت ہے۔

جواب: بہت اچھے۔ میں تمہارے والدین کو بھی مبارکباد دیتا ہوں اور میں مانتا ہوں کہ تمہیں موسیقی میں بھی ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ آواز میں بہت دم ہے۔ میں کسی شاستر سے واقفیت نہیں رکھتا ہوں تاہم اچھا لگا۔ سن کر بہت اچھا لگا۔ تو تمہیں ان سب میدانوں میں کام کرنا چاہیے۔ میرا تمہیں بہت بہت آشیرواد ہے۔

ساتھیو،

ہمارے ملک کے بچے اتنے ٹیلنٹ کے ساتھ زندگی کو جی رہے ہیں، ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ اب دیکھیے، ایک طرف بہترین پینٹنگ بنانے والی بٹیا نويش ہیں تو کرناٹک کے راکیش کرشن بھی ہیں۔ راکیش کو کھیتی سے وابستہ جدت طرازی کے لیے قومی ایوارڈ ملا ہے۔ راکیش آپ کو بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ اور میں ضرور آپ سے بات کرنا چاہوں گا۔

سوال: راکیش، آپ کا پروفائل جب میں دیکھ رہا تھا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ اتنی کم عمری میں ہی آپ انوویشن کر رہے ہیں، آپ ہمارے کسانوں کے لیے سوچ رہے ہیں۔ آپ سائنس کے طالب علم ہیں تو تحقیق اور جدت طرازی تو فطری ہے۔ لیکن کسانوں کے لیے جدت طرازی کرنا، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔ تو میں ضرور سننا چاہوں گا یہ من کس طرح لگ گیا آپ کا۔ اس کام میں کس طرح من لگ گیا؟

جواب: سر، سب سے پہلے تو نمسکار، سر میں بتانا چاہتا ہوں کہ سائنس اور جدت طرازی میں دل چسپی تھی لیکن سر، میرے پاپا کسان ہیں اور میں ایک کاشت کار خاندان سے تعلق رکھتا ہوں۔ یہ میرے پاپا ہیں اور یہ میری ماتاجی ہیں۔ تو سر میں دیکھتا کہ موجودہ کاشت کاری میں بہت سارے مسائل ہیں تو کچھ تو کرنا چاہیے تھا۔ اور میرا من تھا کہ میں جو کسان ہیں، ہمارے قومی ان داتا ہیں، ان کو کچھ دیا جائے۔ جو میری تکنیکی اختراع ہے، اس کے ذریعے اپنا حصہ ڈالوں۔ میں نے ایک مشن بنایا ہے سر۔ تو پہلے سے جو موجودہ طور طریقے ہیں ان سے 50 فیصد سے بھی زیادہ مفید میری مشینیں ہیں سر۔

سوال: اچھا تو کبھی استعمال کیا ہے کیا، کھیت میں استعمال کیا ہے کبھی پاپا کے ساتھ؟

جواب: جی ہاں سر، استعمال کیا ہے۔ میں بتانا چاہتا ہوں سر، میری مشین 10۔15 فیصد سے بھی کم وقت لیتی ہے، یہ کھیتی کے کاموں میں لگنے والے وقت کو کم کردیتی ہے۔ اور جب میں نے عملی طور پر ٹسٹ کیا ، اس سے پتہ چلا ہے کہ میری مشین سب سے زیادہ فائدہ والی اور سب سے زیادہ جرمینیشن کی شرح دیتی ہے۔ سر، وہ کیا ہے آج جو ہنرمدن مزدور چاہئیں کھیتی کے لیے، یعنی کسان کو جو لیبر چاہیے اس کا خرچ بہت زیادہ بڑھا ہے، بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اس میں اور ہمیں ماہر مزدور نہیں ملتے ہیں۔ تو اسی لیے میں نے ایک کثیر مقاصد مشین تیار کی ہے تاکہ ایک ہی کسان تمام کام ایک ساتھ انجام دے سکے اور بہت زیادہ پیسہ اور وقت آسانی سے بچایا  جا سکے۔

سوال: اچھا جب آپ نے بنایا اخباروں نے شائع کیا تب لوگوں کو پتہ چلا تو یہ مینوفیکچررس جو ہوتے ہیں، بزنس کمپنیاں ہوتی ہیں، اسٹارٹ اپ والے ہوتے ہیں، وہ آپ کے پاس پہنچے کیا؟ کہ چلو ہم سب بڑے پیمانے پر کرتے ہیں؟ بہت بڑا بناتے ہیں، ایسا کچھ ہوا کیا؟

جواب: ہاں سر، دو تین کمپنیوں نے پوچھا مجھ سے اور میں فیسٹیول آف انوویشن راژٹرپتی بھون میں شریک تھا، وہاں پر انھوں نے آکر پوچھا تھا، سر۔ لیکن میری پروٹوٹائپ جو ہے وہ بالکل ڈیوپلپ نہیں ہوئی ہے سر۔ ابھی میں کام کرنا چاہتا ہوں، اور اسے مزید بہتر طریقے سے بنانا چاہتا ہوں۔

سوال: اچھا تو تمہارے جو ٹیچر ہیں وہ اس میں دل چسپی لے کر تمہاری مدد کر رہے ہیں کیا؟ اور کوئی سائنٹسٹ، دنیا کے اور لوگ مدد کر رہے ہیں کیا؟ کوئی آن لائن تم سے رابطہ کرتے ہیں کیا؟

جواب: ہاں سر، میرے جو ٹیچر ہیں ہمارے ہائی اسکول کے اور ابھی جو پری یونیورسٹی طلبا کے جو لیکچرر ہیں، سب لوگ مجھے گائیڈ کرتے ہیں سر، اور تحریک دیتے ہیں سر۔ میرے سفر کا ہر قدم، میری محنت، میرے والدین اور اساتذہ سے تحریک پاتا ہے۔ تو آج میں جو بھی ہوں، سب کچھ انھی کی وجہ سے ہوں اور جو انھوں نے مجھے تحریک دی حوصلہ افزائی کی ہے اسی کی وجہ سے اس اس لیول پر آیا ہوں سر۔

جواب: چلیے میں آپ کے والدین کو بھی مبارکباد دیتا ہوں کہ انھوں نے کاشت کاری بھی دل سے کی ہے اور کاشت کاری کے ساتھ بیٹے کو جوڑا بھی ہے۔ بیٹے میں جو ٹیلنٹ ہے اس کو کاشت کاری سے جوڑا ہے۔ تو آپ تو ڈبل نمسکار کے حق دار ہیں۔

معزز وزیر اعظم کا تبصرہ:

راکیش، جدید زراعت آج ہمارے ملک کی ضرورت ہے۔ اور مجھے یہ دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ اتنی چھوٹی عمر میں آپ نہ صرف اسے سمجھ رہے ہیں بلکہ زراعت کو جدید بنانے کے لیے، ٹیکنالوجی سے جوڑنے کے لیے کوشش بھی کر رہے ہیں۔ آپ ایسے ہی کام یاب ہوتے رہیں، آپ کو میری طرف سے بہت بہت مبارک باد اور آپ کے والدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے بیٹے کی اس کام کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے جو ملک کے کسانوں کے کام آنے والا ہے۔ آئیے اب یوپی چلتے ہیں۔ يوپی کے علی گڑھ کے رہنے والے محمد شاداب سے بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے کہ محمد شاداب نے امریکہ تک بھارت کا جھنڈا گاڑا ہے، ملک کا نام روشن کیا ہے۔

سوال: شاداب، آپ امریکہ میں نوجوان سفیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اسكالرشپ حاصل کرکے علی گڑھ سے امریکہ تک کا سفر آپ نے طے کیا۔ بہت سارے ایوارڈ بھی آپ نے حاصل کیے اور خواتین کے ایمپاورمنٹ کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ اتنا سب کرنے کی تحریک کہاں سے ملی آپ کو؟ کہاں سے ترغیب ملتی ہے؟

جواب: قابل احترام وزیر اعظم، نمسکار۔ سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 11 ویں کلاس کا طالب علم ہوں۔ یہ سب کچھ کرنے کی ترغیب مجھے اپنے والدین اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ سے ملی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک ایسی جگہ ہے جس نے اس دنیا کو بہت اچھے اچھے لوگ دیے ہیں۔ ایسے ہی میں چاہتا ہوں کہ میں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام روشن کروں اور ملک کے لیے کچھ کر سکوں ۔

سوال: تو آپ کے والدین بھی کچھ نہ کچھ ایسا کرتے تھے، یا بس تمھی سے یہ سب کرواتے ہیں؟

جواب: نہیں، میرے والدین کا شروع ہی سے سپورٹ رہا ہے۔ میرے والدین کا کہنا ہے کہ جیسے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام سر تھے، انھوں نے ملک کو اتنی بڑی میزائل دی کہآج ہمارا ملک کسی کا محتاج نہیں ہے۔ تو ایسے ہی میرے والدین کا کہنا ہے کہ تم بھی ملک کے لیے کچھ ایسا کرو کہ ملک اسے برسوں تک یاد رکھے۔

سوال: دیکھیے، آپ واقعی ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔ اچھا آگے کیا سوچا ہے، کچھ تو دل میں ضرور بڑی بڑی باتیں آتی ہوں گی؟

جواب: جی سر، تو آگے میرا خواب ہے کہ میں بڑا ہوکر آئی اے ایس افسر بنوں اور اپنے معاشرے کی خدمت کروں۔ اور میں یہیں نہیں رکنا چاہتا، میں آگے جاکر اقوم متحدہ میں انسانی حقوق پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ اور میرا یہ خواب ہے کہ میں اقوام متحدہ میں جاکر اپنے ملک کا جھنڈا لهراؤں اور اپنے ملک کا نام روشن کروں۔

معزز وزیر اعظم کا تبصرہ:

واہ! دنیا میں بھارت کا نام اور بلند ہو، نئے بھارت کی شناخت اور مضبوط ہو، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہمارے ملک کے نوجوانوں کے اوپر ہے۔ اور شاداب، میری آپ کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ آپ کا ذہن بہت واضح ہے اور عبدالکلام جی کو ہیرو کے طور پر آپ کے خاندان نے آپ کے والدین نے آپ کے دماغ میں بچپن سے بھرا ہوا ہے یہ خواب، میں آپ کے والدین کو بھی بہت مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے آپ کو صحیح راستہ دکھایا۔ ہیرو کس طرح ہوں، آئیڈئلز کس طرح ہوں، یہ بچپن میں آپ کو سکھا دیا اور جس نے آپ کی زندگی کو بنا دیا۔ اور آپ نے، آپ کے والدین نے جو منتر دیا اس کو جیا۔ تو میں آپ کو بہت مبارکباد دیتا ہوں اور آپ کو نیک خواہشات دیتا ہوں۔

آئیے، اب ہم گجرات چلتے ہیں۔ گجرات کے منتر جتیندر هركھانی سے بات کرتے ہیں۔ منتر جتیندر کو سپورٹس کی دنیا میں، سوئمنگ میں اچھی کارکردگی کے لیے قومی ایوارڈ ملا ہے۔

سوال: منتر، کیم چھو؟ مجا ما چھو؟ تارے ساتھ کون کون چھے؟

جواب: میرے ساتھ پاپا ممی چھے۔

سوال: اچھا منتر یہ بتائیے، ملک بھر سے لوگ آج آپ کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے اتنی بڑی جرأت کا کام کرکے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ دیکھیے، میں بھی جب بچہ تھا تب میرے گاؤں میں وڈنگر میں، ہمارے یہاں بڑا تالاب ہوا کرتا تھا۔ جس میں ہم سب بچے تیراکی کرتے تھے۔ لیکن وہ تیرنا اور تمہاری تیراکی، دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ کافی ٹریننگ کرنی پڑتی ہے، کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور آپ تو سوئمنگ میں ریکارڈ بنا رہے ہیں اور تحریک بن گئے ہیں۔ آپ تو ایتھلیٹ ہیں۔ اور ایتھلیٹ تو مقصد کے لیے بہت فوکسڈ ہوتے ہیں۔ بتائیے، میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں، آپ کا کیا مقصد ہے؟ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کس طرح آگے بڑھنا چاہتے ہیں؟ ہاں بتائیے، میرے ساتھ بات کیجیے۔

شمال گڈ مارننگ سر،

سوال: ہاں گڈ مارننگ۔ بتائیے۔

جواب: سر، میں دنیا کا بہترین تیراک بننا چاہتا ہوں اور آپ جیسا بننا چاہتا ہوں، ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔

سوال: دیکھیے، آپ کے دماغ میں یہ خواب ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کے والدین جس لگن سے آپ کے لیے اپنا وقت دے رہے ہیں، آپ ہی ان کی زندگی کا خواب بن گئے ہیں، آپ ہی ان کی زندگی کے منتر بن گئے ہیں۔ اس لیے تو آپ ایسے جرأت مندانہ کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ جس ہمت اور محنت کے ساتھ کر رہے ہیں، آپ کے والدین کو ہی نہیں، آپ جیسے بچوں کے جتنے والدین ہیں، ان سب کے لیے بھی آپ کے والدین تحریک ہیں اور آپ کے لیے بھی تحریک ہیں۔ اور اس لیے میں آپ کو بہت مبارک باد دیتا ہوں۔ بہت اچھی امنگ کے ساتھ آپ بات کر رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ میں آپ کو بہت مبارک باد دیتا ہوں اور مجھے کبھی کسی نے بتایا تھا کہ آپ کے شاید جو کوچ تھے اس نے آپ سے وعدہ کیا ہے مجھ سے ملانے کا۔ کیا ہے نا؟ تو آپ نے جھگڑا کیوں نہیں کیا کوچ سے، ابھی تک ملوایا نہیں تو؟

جواب: آپ ہی آ جائیں، میں یہاں چائے پلواتا ہوں۔

سوال: تو جب میں گجرات آؤں گا، ملنے آئیں گے؟

جواب: ضرور۔

سوال: تو راجکوٹ کا گانٹھيا لے کر آنا پڑے گا؟ کیا بول رہا ہے یہ؟

جواب: سر یہ بول رہے ہیں کہ جب آپ آئیں گے تو جلیبی، گانٹھيا سب کچھ لے کر آئیں گے۔ آپ بولیں گے تو چائے بھی پلائیں گے۔

معزز وزیر اعظم کا تبصرہ:

چلیے بہت بہت مبارک آپ کو۔ بہت ہی اچھی باتیں بتائیں آپ سب نے! پیارے بچو، اس بات چیت سے، آپ سب کو ملے ایوارڈ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح جب ایک چھوٹا سا خیال، ایک درست عمل کے ساتھ جڑتا ہے تو کتنے بڑے اور شاندار نتیجے پیدا ہوتے ہیں! آپ سب خود اس کی کتنی بڑی مثال ہیں۔ آج آپ نے یہ جو کام یابیاں انجام دی ہیں، اس کی شروعات بھی تو کسی آئیڈیا سے، واحد خیال ہی سے ہوئی ہوگی۔ اب جیسے مغربی بنگال کے سوہارد ڈے ہیں۔ وہ پُران کی داستانوں اور اور ملک کی شاندار تاریخ سے وابستہ کہانیوں پر لکھتے ہیں۔ جب ان کے دماغ میں پہلی بار یہ خیال آیا ہوگا کہ اس سمت میں بڑھنا اور لکھنا ہے، تو وہ صرف یہ سوچ کر نہیں بیٹھ گئے ہوں گے۔ انھوں نے صحیح ایکشن لیا، لکھنا شروع کیا، اور آج اس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایسے ہی آسام کے تنج سمددار ہیں، بہار کی جیوتی کماری ہیں، دو بچوں کی زندگی بچانے والے مہاراشٹر کے کامیشور جگن ناتھ واگھمارے ہیں، سکم کے ايش رنجن ہیں، پنجاب کی بیٹی ناميا جوشی ہیں، ہر بچے کی قابلیت، ٹیلنٹ، ملک کا فخر بڑھانے والا ہے۔ میرا تو من ہے کہ آپ سب سے بات کروں۔ آپ سب ایک بھارت شریشٹھ بھارت کا بہت خوب صورت اظہار ہیں۔ لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔

ساتھیو،

سنسکرت میں ایک عمدہ اشلوک ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے ٹیچر ہمیں سنایا کرتے تھے، بار بار ہمیں رٹایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے:

’’ادھیمین ہی سدھیتنی کاریانی نہ منورتھے‘‘ یعنی، کام محنت سے، جان فشانی سے ثابت ہوتے ہیں صرف تصور کرتے رہنے سے نہیں ہوتے۔ ایک آئیڈیا جب ایکشن سے جڑ جاتا ہے تب اس سے کتنے اور ایکشن بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے آپ کی کام یابی نے کتنے اور لوگوں کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ آپ کے دوست، آپ کے ساتھی، اور ملک کے دوسرے بچے، کتنے ہی بچے جو آپ ٹی وی پر دیکھ رہے ہوں گے، اخبار میں آپ کے بارے میں پڑھیں گے، وہ بھی آپ سے تحریک پاکر آگے بڑھیں گے، نئے عزم لیں گے، اور انھیں پورا کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گے۔ ایسے ہی ان سے اور دوسرے نوجوانوں کو تحریک ملے گی۔ یہ سلسلہ ایسے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن پیارے بچو، ایک بات میں آپ کو اور بھی کہنا چاہوں گا۔ میری یہ بات ہمیشہ یاد ركھیےگا کہ یہ ایوارڈ آپ کی زندگی کا ایک چھوٹا سا پڑاؤ ہے، آپ کو اس کام یابی کی خوشی میں کھو نہیں جانا ہے۔ جب آپ یہاں سے جائیں گے، تو لوگ آپ کی خوب تعریف کریں گے۔ اخبار میں آپ کا نام بھی چھپ رہا ہوگا، آپ کے انٹرویو بھی ہوں گے۔ لیکن، آپ کو خیال رکھنا ہے کہ آپ کی یہ تعریف آپ کے ایکشن کی وجہ سے ہے، آپ کے کرم کی وجہ سے ہے، آپ کی عہد بستگی کی وجہ سے ہے۔ واہ واہی میں بھٹک کر اگر ایکشن رک گئے، یا آپ اس سے ہی منقطع ہو گئے تو یہی واہ واہی آپ کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہے۔ ابھی تو آگے زندگی میں آپ کو اور بھی بڑی کام یابیاں حاصل کرنی ہیں۔ اور میں مشورہ دینا چاہوں گا۔ آپ ضرور کچھ نہ کچھ پڑھتے ہوں گے۔ لیکن گزارش ہے کہ آُ کو جو بھی پسند آئے۔ ہر سال کوئی نہ کوئی ایک سوانح عمری ضرور پڑھیں۔ وہ کتابیں سوانح عمریاں بھی ہو سکتی ہیں آپ بیتیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ وہ کسی سائنس دان کی بھی ہو سکتی ہیں، کھلاڑی کی بھی ہو سکتی ہیں، کسی بڑے کسان کی بھی ہو سکتی ہیں۔ کسی بڑے فلسفی کی، مصنف کی، جس میں آپ کا دل لگے، طے کیجیے سال میں ایک بار ایک سوانح عمری بہت دل سے پڑھوں گا۔ کم از کم ایک سوانح عمری۔ آپ دیکھیے زندگی میں مسلسل نئے تحریک ملتی رہے گی۔

میرے نوجوان ساتھیو،

میں چاہوں گا کہ آپ ان ساری باتوں کو ضرور اہمیت دیں، لیکن میں تین باتیں اور شامل کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات تسلسل کا عزم۔

یعنی آپ کے کام کی رفتار کبھی رکنی نہیں چاہیے، کبھی جمود طاری نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھی ایک کام مکمل ہو، تو اس کے آگے نیا سوچتے ہی رہنا چاہیے۔

دوسری بات، میں کہوں گا، ملک کے لیے عزم۔

جو کام کریں وہ صرف اپنا کام مان کر نہ کریں۔ میرا کام، میرے لیے کام، یہ سوچ ہمارے دائرے کو بہت محدود کر دیتی ہے۔ جب آپ ملک کے لیے کام کریں گے، تو اپنے آپ، آپ کا کام کہیں زیادہ بڑھ جائے گا، بہت بڑا ہو جائے گا۔ بہت سے لوگ، ایسا لگے گا گویا آپ کے کام کے لیے کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ آپ کے سوچنے کا زاویہ ہی بدل جائے گا۔ اس سال ہمارا ملک آزادی کے 75 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے۔ آپ تمام سوچیےگا، ایسا کیا کریں کہ ملک اور آگے بڑھے۔

اور تیسری بات میں ضرور کہنا چاہوں گا، وہ ہے، شائستگی کا عزم۔

ہر کام یابی کے ساتھ آپ کو اور زیادہ شائستہ ہونے کا عزم کر لینا چاہیے۔ کیونکہ آپ میں عاجزی ہوگی تو آپ کی کام یابی کے لیے سینکڑوں ہزاروں اور لوگ بھی آپ کے ساتھ مل کر خوشی منائیں گے۔ آپ کی کام یابی خود اپنے آپ بڑی ہو جائے گی۔ تو میں مانوں کہ آپ یہ تینوں عزم یاد رکھیں گے؟ بالکل پکا یاد رکھیں گے اور مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ بہت فوکسڈ ہوتے ہیں، بھولیں گے نہیں۔ اور مجھے معلوم ہے آپ نہ بھولیں گے، نہ ہی کسی کو بھولنے دیں گے۔ آگے اور بھی بڑے بڑے کام کریں گے۔ آگے آپ کی زندگی میں جو خواب ہیں وہ خواب پورے ہوں، اور مسلسل ایسی کام یابیوں سے آپ تمام نوجوان، سب بچے ملک کو آگے بڑھاتے رہیں۔ انھی نیک خواہشات کے ساتھ آپ کے اہل خانہ کو، آپ کے تعلیمی دنیا کے تمام ساتھیوں کو، ہر فرد کو میں بہت مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ تمام بچوں کو بہت بہت آشیرواد دیتا ہوں۔

*************

ش ح ۔ع ا

U. No. 822


(Release ID: 1692536) Visitor Counter : 1355