وزیراعظم کا دفتر

جموں و کشمیر کے تمام باشندگان پر صحتی احاطہ کرنے کی غرض سے آیوشمان بھارت پی ایم ۔ جے اے وائی صحت اسکیم کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 DEC 2020 4:21PM by PIB Delhi

آج مجھے جموں  و کشمیر کے دو مستفیدین سے آیوشمان بھارت یوجنا کے بارے میں ان کے تجربات سننے کا موقع ملا۔ میرے لیے یہ صرف آپ کے تجربات ہی نہیں ہیں۔ کبھی کبھی جب کام کرتے ہیں، فیصلہ لیتے ہیں، لیکن جن کے لیے کرتے ہیں ان سے جب اطمینان بخش جواب ملتا ہے، وہ الفاظ میرے لیے آشیرواد بن جاتے ہیں۔ مجھے غریبوں کے لئے اور زیادہ کام کرنے کے لئے، اور محنت کرنے کے لئے اور دوڑنے کے لئے، یہ آپ کے آشیرواد بڑی طاقت فراہم کرتے ہیں اور اتفاق دیکھئے کہ دونوں بھائی جموں والے بھی اور سری نگر والے بھی، اپنا چھوٹا کاروبار کوئی ایک ڈرائیوری کرتا ہے کوئی کچھ، لیکن مصیبت کے وقت میں یہ اسکیم ان کی زندگی میں کتنا بڑا کام کر رہی ہے۔

آپ کی باتیں سن کر مجھے بہت اچھا لگا۔ ترقی کی اسکیموں کا فائدہ آخری انسان تک پہنچے، غریب سے غریب تک پہنچے، زمین کے ہر کونے تک پہنچے، سبھی تک پہنچے یہ ہماری حکومت کی عہدبستگی ہے۔ آج اس تقریب میں موجود کابینہ کے میرے ساتھی وزیر داخلہ جناب امت شاہ جی، وزیر صحت بھائی ڈاکٹر ہرش وردھن جی، پی ایم او میں میرے ساتھ وزیر مملکت کے طور پر کام کر رہے بھائی جتیندر سنگھ جی، جموں و کشمیر کے لیفٹنینٹ گورنر محترم منوج سنہا جی، پارلیمنٹ کے میرے دیگر سبھی معان ساتھی، جموں و کشمیر کے عوامی نمائندگان اور جموں و کشمیر کے پیارے بھائیو اور بہنو،

آج کا دن جموں کشمیر کے لئے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ آج جموں کشمیر کے سبھی لوگوں کو آیوشمان یوجنا کا فائدہ ملنے جا رہا ہے۔ صحت اسکیم اپنے آپ میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔ اور جموں و کشمیر کو اپنے لوگوں کی ترقی کے لئے یہ قدم اٹھاتا دیکھ، مجھے بھی بہت خوشی ہو رہی ہے اور اس لیے محترم منوج سنہا جی اور ان کی پوری ٹیم کو، حکومت کے سبھی ملازمین کو، جموں کشمیر کے شہریوں کو میری جانب سے بہت بہت مبارکباد۔ ویسے میری خواہش تھی کہ یہ پروگرام کل ہی ہوتا، اگر 25 تاریخ کو اٹل جی کے یوم پیدائش پر یہ ہو پاتا، لیکن میری اپنی کچھ مصروفیات کی وجہ سے میں کل اسے نہیں کر پایا اس لیے مجھے آج کی تاریخ طے کرنی پڑی۔ اٹل جی کا جموں و کشمیر سے ایک خاص قسم کا لگاؤ تھا۔

اٹل جی انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کی بات کو لے کر ہم سب کو آگے کے کاموں کے لئے مسلسل ہدایات دیتے رہے ہیں۔ انہیں تین اصولوں کو لے کر آج جموں و کشمیر، اسی جذبہ کو مضبوط کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیو،

اس اسکیم کے فوائد پر تفصیل سے بات کرنے سے قبل آج، مجھے موقع ملا ہے آپ کے درمیان آنے کا تو میں کہنا چاہوں گا کہ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کو جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے ڈھیر ساری مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ڈسرکٹ ڈیولپمنٹ کونسل کے انتخابات نے ایک نیا باب لکھا ہے۔ میں ان انتخابات کے ہر مرحلے میں دیکھ رہا تھا کہ کیسے اتنی سردی کے باوجود، کورونا کے باوجود، نوجوان، بزرگ، خواتین بوتھ پر پہنچے ہیں۔ گھنٹوں تک قطار میں کھڑے رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کے ہر ووٹر کے چہرے پر مجھے ترقی کے لئے، ایک امید نظر آئی، امنگ نظر آئی۔ جموں و کشمیر کے ہر ووٹر کی آنکھوں میں میں نے ماضی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے، بہتر مستقبل کا یقین بھی دیکھا ہے۔

ساتھیو،

ان انتخابات میں جموں و کشمیر کے لوگوں نے جمہوریت کی جڑوں کو اور مضبوط کرنے کا کام کیا ہے اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ، سلامتی دستے جس طرح انہوں نے اس انتخابات کے لئے انتظامات کیے ہیں اور سبھی پارٹیوں کی جانب سے یہ انتخابات بہت ہی شفاف طریقے سے ہوئے ہیں، نیک نیتی سے ہوئے ہیں۔ یہ جب میں سنتا ہوں تو مجھے اتنا فخر ہو رہا ہے کہ جموں و کشمیر سے انتخابات غیر جانبدارانہ انداز میں ہونا، آزادی سے ہونا، یہ بات جموں و کشمیر کی طرف سے سنتا ہوں تو جمہوریت کی طاقت پر ہمارا یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ میں انتظامیہ کو بھی، سلامتی دستوں کو بھی ڈھیر ساری مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ نے چھوٹا کام نہیں کیا ہے، بہت بڑا کام کیا ہے۔

آج میں اگر روبرو ہوتا تو سب انتظامیہ کے لوگوں کو اتنی تعریف کرتا کہ شاید میرے الفاظ کم پڑ جاتے۔ اتنا بڑا کام آپ نے کیا ہے۔ آپ نے ملک میں ایک نیا یقین پیدا کیا ہے اور اس کا پورا کریڈٹ منوج جی اور ان کی حکومت کے، انتظامیہ کے سب لوگوں کو جاتا ہے۔ یہ بھارت کے لئے لمحۂ فخریہ ہے۔

ساتھیو،

جموں و کشمیر میں یہ سہ سطحی پنچایت نظام ایک طرح سے مہاتما گاندھی کا گرام سواراج کا خواب ہے، ایک طرح سے یہ انتخاب گاندھی کے گرام سواراج کے خواب کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اور ملک میں جو پنچایتی راج نظام ہے، اس نے آج جموں و کشمیر کی سرزمین پر مکمل شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ نئی دہائی میں، نئے دور کی نئی قیادت کا آغاز ہے۔ گذشتہ برسوں میں ہم نے جموں و کشمیر میں زمینی سطح کی جمہوریت کو، زمینی سطح پر جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے دن رات کوششیں کی ہیں اور جموں و کشمیر کے بھائیوں بہنوں کو پتہ ہوگا ایک وقت تھا، ہم لوگ جموں و کشمیر کی حکومت کا حصہ تھے۔

ہمارے نائب وزیر اعلیٰ تھے، ہمارے وزراء تھے لیکن ہم نے اس حکومت کے فائدوں کو چھوڑ دیا تھا۔ ہم حکومت سے باہر آ گئے تھے۔ کس مسئلے پر آئے تھے آپ کو معلوم ہے نہ، ہمارا مدعا یہی تھا کہ پنچایتوں کے انتخابات کرائے جائیں، جموں و کشمیر کے گاؤں ۔ گاؤں کے باشندوں کو ان کا حق دیا جائے۔ ان کو ان کے گاؤں کا فیصلہ کرنے کی طاقت دی جائے۔ اس مسئلے پر ہم حکومت چھوڑ کر آپ کے ساتھ راستے پر آ کھڑے ہوئے تھے اور آج مجھے خوشی ہے کہ بلاک سطح پر، پنچایتی سطح پر یا پھر ضلعی سطح پر آپ نے جن لوگوں کو منتخب کیا ہے ان میں سے زیادہ تر آپ کے درمیان ہی رہتے ہیں، وہ آپ کے درمیان سے ہی نکل کر انتخابات جیتے ہیں۔ انہوں نے بھی وہی پریشانیاں اٹھائی ہیں جو آپ نے اٹھائی ہیں۔ ان کی خوشی و غم، ان کے خواب، ان کی امیدیں بھی آپ کی خوشی و غم، آپ کے خوابوں اور امیدوں سے پوری طرح میل کھاتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنے کام سے آپ کا آشیرواد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور آج آپ نے ان کو اپنی نمائندگی کرنے کا حق دیا ہے۔ آج آپ نے جن نوجوانوں کو منتخب کیا ہے وہ آپ کے ساتھ کام کریں گے، آپ کے لیے کام کریں گے اور جو لوگ منتخب ہو کر آئے ہیں میں ان کا بھی بہت بہت خیرمقدم کرتا ہوں اور جو اس مرتبہ کامیاب نہیں ہو پائے ہیں ان کو بھی میں کہوں گا کہ آپ افسوس نہ کریں، عوام کی خدمت لگاتار کرتے رہنا۔

آج نہیں تو کل آپ کے نصیب میں بھی کامیابی آ سکتی ہے۔ جمہوریت میں یہی ہوتا ہے جس کو موقع ملے وہ خدمت کرے، جس کو موقع نہ ملے، تو اس کے لئے مسلسل کوشش کرے۔ آپ آنے والے وقت میں انہیں اپنے علاقے کے ساتھ ہی ملک کے لئے بڑے کردار ادا کرنے کے لئے بھی تیار کر رہے ہیں۔ جموں کشمیر میں ان انتخابات نے یہ بھی دکھایا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے۔ لیکن میں آج ملک کے سامنے ایک اور دکھ بھی ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ جموں و کشمیر نے تو یو ٹی بننے کے ایک سال کے اندر اندر سہ سطحی پنچایتی راج نظام کے انتخابات کروا دیے، پر امن طریقے سے کروا دیے اور لوگوں کو ان کا حق دے دیا۔ اب یہی منتخبہ افراد جموں و کشمیر کے اپنے مواضعات کا، اپنے اضلاع کا، اپنے بلاک کا مستقبل طے کریں گے۔ لیکن، دہلی میں کچھ لوگ صبح شام، آئے دن، مودی کو کوستے رہتے ہیں، ٹوکتے رہتے ہیں، برے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور روزانہ مجھے جمہوریت سکھانے کے لئے نئے نئے سبق بتاتے رہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو آج ذرا آئینہ  دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ جموں و کشمیر دیکھئے، یو ٹی بننے کے اتنے کم وقت میں انہوں نے سہ سطحی پنچایتی راج نظام کو قبول کرکے کام آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری جانب ستم ظریفی دیکھئے، پڈوچیری میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات نہیں ہو رہے ہیں اور جو مجھے یہاں روز جمہوریت کا سبق پڑھاتے ہیں نا ان کی پارٹی وہاں راج کر رہی ہے۔

آپ حیران ہوں گے، سپریم کورٹ نے 2018 میں یہ حکم دیا تھا۔ لیکن وہاں جو حکومت ہے، جس کا جمہوریت پر ذرا سا بھی بھروسہ نہیں ہے اس معاملے کو لگاتار ٹال رہی ہے۔

ساتھیو،

پڈو چیری میں دہائیوں کے انتظار کے بعد سال 2006 میں لوکل باڈی انتخابات ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں جو منتخب ہوئے، ان کا دفتر سال 2011 میں ہی ختم ہو چکا ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیوں کے قول و فعل میں کتنا بڑا فرق ہے، جمہوریت کے تئیں وہ کتنے سنجیدہ ہیں، یہ اس بات سے بھی پتہ چلتا ہے۔ اتنے سال ہوگئے، پڈوچیری میں پنچایت وغیرہ کے انتخابات نہیں ہونے دیے جا رہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

مرکزی حکومت یہ مسلسل کوشش کر رہی ہے کہ گاؤں کی ترقی میں، گاؤں کے لوگوں کے لوگوں کا کردار سب سے زیادہ رہے۔ منصوبہ بندی سے لے کر عمل اور دیکھ ریکھ تک پنچایتی راج سے وابستہ اداروں کو زیادہ طاقت دی جا رہی ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہے، غریب سے جڑی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پنچایتوں کی ذمہ داریاں اب کتنی بڑھ گئی ہیں۔ اس کا فائدہ جموں و کشمیر میں دیکھنے کو بھی مل رہا ہے۔ جموں و کشمیر کے گاؤں گاؤں میں بجلی پہنچی ہے۔ یہاں کے گاؤں آج کھلے میں رفع حاجت سے مبرا ہو چکے ہیں۔ گاؤں گاؤں تک سڑک پہنچانے کے لئے منوج جی کی قیادت میں پوری انتظامیہ مصیبتوں کے درمیان بھی بہت تیزی سے کام پر لگی ہوئی ہے۔

ہر گھر پانی پہنچانے کا مشن جموں و کشمیر میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگلے دو تین برسوں میں ریاست کے ہر گھر تک پائپ سے پانی پہنچ جائے، اس کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں مقامی حکمرانی کا مضبوط ہونا، ترقیاتی کاموں میں یہ بہت بڑی تیزی لائے گا۔

ساتھیو،

آج جموں و کشمیر کے لوگوں کی ترقی، ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ خواہ خواتین کی اختیار کاری کی بات ہو، نوجوانوں کے لئے موقع کی بات ہو، دلتوں، مصیبت زدگان، ستم رسیدہ اور محرومین کی فلاح و بہبود کا ہدف ہو یا پھر لوگوں کے آئینی اور بنیادی حقوق، ہماری حکومت ریاست کی بھلائی کے لئے ہر فیصلے لے رہی ہے۔ آج پنچایتی راج جیسے جمہوری ادارے امید کے اسی مثبت پیغام کو عام کر رہے ہیں۔ آج ہم لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ تبدیلی ممکن ہے اور یہ تبدیلی ان کے ذریعہ منتخب کیے گئے نمائندگان لا سکتے ہیں۔ زمینی سطح پر جمہوریت لاکر ہم لوگوں کی امیدوں کو موقع دے رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کا اپنا عظیم ورثہ ہے اور اس کے شاندار لوگ اپنے اس خطہ کو مضبوط بنانے کے طریقے اپنا رہے ہیں، نئے طریقہ تلاش کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

جموں و کشمیر کی لائف لائن کہی جانے والی جھیلم ندی میں، راوی، ویاس، ستلج ملنے سے پہلے کئی ذیلی ندیاں بھی ملتی ہیں اور پھر یہ ساری ندیاں عظیم سندھو ندی میں جاکر مل جاتی ہیں۔ عظیم سندھو ندی ہماری تہذیب، ہماری ثقافت اور ترقی کے سفر کا ہم معنی ہے۔ اسی طرح ترقی کی تحریک بھی ذیلی ندیوں، ساتھی ندیوں کی طرح ہی کئی چشموں کی شکل میں آتی ہے اور پھر بڑا چشمہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسی فکر کے ساتھ ہم صحت کے شعبے میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے کئی چھوٹے چھوٹے چشموں کی طرح کئی اسکیموں کی شروعات کی ہے اور سب کا ایک ہی ہدف ہے،  صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلی برپا کرنا۔

جب ہم نے اجووَلا یوجنا کے تحت ملک کی بہنوں کو، بیٹیوں کو گیس کنکشن فراہم کیا، تو اسے محض ایندھن پہنچانے کی ایک اسکیم کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ ہم نے اس کے ذریعہ اپنی بہنوں بیٹیوں کو دھوئیں سے نجات دلائی، تمام کنبے کی صحت کو بہتر بنانے کی کوشش کی۔ وبائی مرض کے دوران بھی یہاں جموں و کشمیر میں تقریباً 18 لاکھ گیس سلینڈر ریفل کرائے گئے۔ اسی طرح سے آپ سووَچھ بھارت ابھیان کی ہی مثال لیجئے۔ اس مہم کے تحت جموں و کشمیر میں 10 لاکھ سے زیادہ بیت الخلاء بنائے گئے۔ لیکن اس کا مقصد صرف بیت الخلاء بنانے تک محدود نہیں، یہ لوگوں کی صحت کو بہتر بنانے کی بھی کوشش ہے۔

بیت الخلاؤں سے صفائی ستھرائی تو آئی ہی ہے، بہت سی بیماریوں کو بھی روکا جا سکا ہے۔ اب اسی سلسلے میں آج جموں و کشمیر میں آیوشمان بھارت ۔ صحت اسکیم شروع کی گئی ہے۔ آپ سوچئے، جب اس اسکیم کے تحت ریاست کے ہر ایک فرد کو، 5 لاکھ روپئے تک کا مفت علاج حاصل ہوگا تو ان کی زندگی میں کتنی بڑی سہولیت آئے گی۔ ابھی تک آیوشمان بھارت یوجنا کا فائدہ ریاست کے تقریباً 6 لاکھ کنبوں کو حاصل ہو رہا تھا۔ اب صحتی اسکیم کے بعد یہی فائدہ تقریباً 21 لاکھ کنبوں کو ملے گا۔

ساتھیو،

گذشتہ 2 برسوں میں، ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ غریبوں نے آیوشمان بھارت یوجنا کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کو بھی مشکل وقت میں بہت راحت ملی ہے۔ یہاں کے قریب ایک لاکھ غریب مریضوں کا ہسپتال میں 5 لاکھ روپئے تک کا مفت علاج کیا گیا ہے۔ اس میں بھی جن بیماریوں کا سب سے زیادہ علاج ہو رہا ہے، اس میں کینسر، ہارٹ اور آرتھو سے جڑی بیماریاں سب سے زیادہ ہیں۔

یہ ایسی بیماریاں ہیں جن پر ہونے والا خرچ کسی بھی غریب کی نیند اڑا دیتا ہے اور ہم نے تو دیکھا ہے کہ کوئی غریب کنبہ محنت کرکے تھوڑا اوپر آئے اور متوسط طبقہ اور آگے بڑھے اور اگر کنبہ میں کوئی اگر ایک بیماری آ جائے تو پھر وہ غریبی کے چکر میں واپس پھنس جاتا ہے۔

بھائیو ، بہنو،

جموں و کشمیر کی وادیوں میں فضا اتنی صاف شفاف ہے، آلودگی اتنی کم ہے کہ فطری طور پر ہر کوئی چاہتا ہے اور میں تو ضرور چاہوں گا کہ آپ ہمیشہ صحت مند رہیں۔ ہاں، اب مجھے یہ تسلی ہے کہ بیماری کی صورت میں آیوشمان بھارت ۔ صحت اسکیم آپ کی ایک ساتھی بن کر موجود رہے گی۔

ساتھیو،

اس اسکیم کا ایک اور فائدہ ہوگا جس کا ذکر بار بار کیا جانا ضروری ہے۔ آپ کا علاج صرف جموں و کشمیر کے سرکاری اور نجی ہسپتالوں تک محدود نہیں رہے گا۔ بلکہ ملک میں اس اسکیم کے تحت جو ہزاروں ہسپتال جڑے ہیں، وہاں بھی یہ سہولت آپ کو حاصل ہو پائے گی۔ آپ مان لیجئے ممبئی گئے ہیں اور اچانک ضرورت پڑی تو یہ کارڈ ممبئی میں بھی آپ کے کام آئے گا۔ آپ چنئی گئے تو وہاں بھی یہ کام آئے گا، وہاں کے ہسپتال بھی مفت میں آپ کی خدمت کریں گے۔ آپ کولکاتا گئے ہیں، تو وہاں مشکل ہوگا کیونکہ وہاں کی حکومت آیوشمان اسکیم سے نہیں جڑی ہے، کچھ لوگ ہوتے ہیں، کیا کریں۔

ملک بھر میں ایسے 24 ہزار سے زیادہ ہسپتال اس وقت ہیں، جہاں صحتی اسکیم کے تحت آپ علاج کرا پائیں گے۔ کوئی بندش نہیں، کوئی روک ٹوک نہیں۔ کسی کو کمیشن نہیں، کٹ کا تو نام و نشان نہیں ہے، کوئی سفارش نہیں، کوئی بدعنوانی نہیں۔ صحتی اسکیم کا کارڈ دکھا کر، آپ کو ہر جگہ علاج کی سہولت مل جائے گی۔

ساتھیو،

جموں و کشمیر اب ملک کی ترقی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر چل پڑا ہے۔ کورونا کو لے کر بھی جس طرح ریاست میں کام ہوا ہے، وہ قابل تعریف ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ 3 ہزار سے زیادہ ڈاکٹرس، 14 ہزار سے زیادہ نیم طبی عملہ، آشا کارکنان، دن رات مصروف رہے اور اب بھی مصروف ہیں۔ آپ نے بہت ہی کم وقت میں ریاست کے ہسپتالوں کو کورونا سے لڑنے کے لئے بھی تیار کیا۔ ایسے ہی انتظام کی وجہ سے کورونا کے زیادہ سے زیادہ مریضوں کو بچانے میں ہم کامیاب رہے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

جموں و کشمیر میں صحتی شعبہ پر آج جتنی توجہ دی جا رہی ہے، اتنا پہلے کبھی نہیں دی گئی۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت ریاست میں 1100 سے زیادہ صحت و تندروستی کے مراکز تیار کرنے کا ہدف ہے۔ اس میں سے 800 سے زیادہ پر کام پورا ہو چکا ہے۔ جن اوشدھی کیندروں پر بہت ہی کم قیمتوں میں دستیاب ادویہ اور مفت ڈائیالیسس کی سہولت نے بھی ہزاروں لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ جموں و کشمیر ڈیویژن میں دونوں جگہ 2 کینسر ادارے بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔ دو ایمس کا کام بھی تیزی سے چل رہا ہے۔ نوجوانوں کو میڈیکل اور پیرامیڈیکل تعلیم کے لئے جموں و کشمیر میں ہی زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل ہوں، اس کے لئے بھی کام ہو رہا ہے۔

جمو و کشمیر میں 7 نئے میڈیکل کالج کو منظوری مل چکی ہے۔ اس سے ایم بی بی ایس کی نشستیں دوگنی سے بھی زیادہ ہونے والی ہیں۔ اس کے علاوہ جن 15 نئے نرسنگ کالجوں کو منظوری دی گئی ہے، ان سے نوجوانوں کے لئے نئے مواقع بنیں گے۔ اس کے علاوہ جموں میں آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کے قیام سے بھی یہاں کے نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے بہتر مواقع دستیاب ہوں گے۔ ریاست میں کھیلوں سے متعلق سہولتوں میں اضافہ کرنے کے لئے جو پروجیکٹس شروع ہوئے ہیں، وہ یہاں کی صلاحیت کے کھیلوں کی دنیا میں غالب آنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

بھائیو اور بہنو،

صحت کے ساتھ ہی دوسرے بنیادی ڈھانچے میں بھی نئے جموں و کشمیر کے قدم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ گذشتہ 2۔3 برسوں میں اس کو لے کر کیسے تیزی آئی ہے، اس کی ایک بہترین مثال ہائیڈرو پاور ہے۔ 7 دہائیوں میں جموں و کشمیر میں ساڑھے تین ہزار میگاواٹ بجلی کی صلاحیت تیار ہوئی تھی۔ گذشتہ 2۔3 سالوں میں ہی اس میں 3 ہزار میگاواٹ صلاحیت کا ہم نے مزید اضافہ کر دیا ہے۔ وزیر اعظم ترقیاتی پیکج کے تحت چل رہے پروجیکٹوں پر بھی اب کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے۔ خاص طور پر کنکٹیویٹی سے وابستہ پروجیکٹوں سے ریاست کی تصویر اور تقدیر دونوں تبدیل ہونے والی ہے۔

میں نے چناب پر بن رہے بہترین ریلوے پل کی تصویریں دیکھی ہیں اور آج کل تو سوشل میڈیا پر شاید ہندوستان کے ہر کسی نے دیکھی ہوں گی۔ ان تصاویر کو دیکھ کر کس شہری کا سر فخر سے بلند نہ ہوا ہوگا۔ ریلوے کی پوری کوشش ہے کہ اگلے 3۔2 برسوں میں وادی ریلوے سے مربوط ہو جائے۔ جموں اور سری نگر میں لائٹ ریل ٹرانزٹ میٹرو کو لے کر بھی بات آگے بڑھ رہی ہے۔ بنیہال ٹنل کو بھی اگلے سال تک پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جموں میں جو سیمی رنگ روڈ کا کام چل رہا ہے، اسے بھی جلد سے جلد پورا کرنے میں حکومت مصروف ہے۔

ساتھیو،

رابطہ کاری جب بہتر ہوتی ہے تو اس سے سیاحت اور صنعت دونوں کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ سیاحت جموں کی بھی طاقت رہی ہے اور کشمیر کی بھی طاقت رہی ہے۔ کنکٹیویٹی کی جن اسکیموں پر حکومت کام کر رہی ہے، اس سے جموں کو بھی فائدہ حاصل ہوگا اور کشمیر کو بھی فائدہ ہوگا۔ قالین سے لے کر کیسر تک، سیب سے لے کر باسمتی تک جموں و کشمیر میں کیا نہیں ہے؟ کورونا کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن کے دوران بھی حکومت نے اس بات کا دھیان رکھا کہ یہاں کے سیب کے کاشتکاروں کو دقت کم سے کم ہو۔

بازار میں صحیح طریقے سے وقت پر مال پہنچے، ہماری حکومت نے چند مہینے قبل یہ فیصلہ بھی لیا کہ سیب کی خرید کے لئے منڈی اختراعی اسکیم کو گذشتہ سال کی طرح ہی اس سال بھی جاری رکھا جائے گا۔ اس کے تحت حکومت کے ذریعہ سیب کی خرید، نیفیڈ کے توسط سے اور سیدھے کسانوں سے کی جا رہی ہے۔ جو سیب خریدا جا رہا ہے، اس کی ادائیگی بھی براہِ راست فائدہ منتقلی کے ذریعہ سیدھے کسانوں کے بینک کھاتوں میں کیا جا رہا ہے۔ اس اسکیم کے تحت 12 لاکھ میٹرک ٹن سیب خریدا گیا ہے اور یہ جموں و کشمیر کے کسانوں کو ایک طرح سے بہت بڑی سہولت حاصل ہوئی ہے۔

ہماری حکومت نے نیفیڈ کو اس بات کے لئے بھی اجازت دی ہے کہ وہ 2500کروڑ روپئے کی سرکاری گارنٹی کا استعمال کر سکیں۔ سیب کی خریداری کے لئے، جدید مارکیٹنگ پلیٹ فارم فراہم کرانے کے لئے، نقل و حمل کی سہولتوں میں اضافہ کرنے پر حکومت نے مسلسل پیش رفت کی ہے۔ سیب کی ذخیرہ اندوزی کے لئے حکومت جو مدد کر رہی ہے، اس سے بھی کسانوں کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ یہاں پر نئی زرعی مصنوعات تنظیموں (ایف پی او) کا قیام عمل میں آئے، زیادہ سے زیادہ تعداد میں عمل میں آئے، اس کے لئے بھی انتظامیہ مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ نئی زرعی اصلاحات نے جموں میں بھی اور وادی میں بھی، دونوں جگہ خوراک ڈبہ بندی صنعت کے لئے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ اس سے ہزاروں افراد کو، روزگار اور خودروزگار کے مواقع حاصل ہونے والے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

آج جموں و کشمیر میں جہاں ایک طرف ہزاروں سرکاری نوکریاں نوٹیفائی کی جا رہی ہیں، وہیں دوسری جانب خودروزگار کے لئے بھی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ بینکوں کے ذریعہ اب جموں و کشمیر کے نوجوان کاروباریوں کو آسانی سے قرض ملنا شروع ہوا ہے۔ اس میں بھی ہماری بہنیں، جو سیلف ہیلپ گروپوں سے وابستہ ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں آگے آ رہی ہیں۔

ساتھیو،

پہلے ملک کے لیے زیادہ تر جو اسکیمیں بنتی تھیں، جو قوانین بنتے تھے، ان میں لکھا ہوتا تھا، ’سوائے جموں و کشمیر کے‘۔ اب یہ بات تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ امن اور ترقی کے جس راستے پر جموں و کشمیر آگے بڑھ رہا ہے، اس نے ریاستوں میں نئی صنعتوں کے آنے کا راستہ بھی بنایا ہے۔ آج جموں و کشمیر آتم نربھر بھارت ابھیان میں اپنا تعاون دے رہا ہے۔ پہلے 170 سے زیادہ مرکزی قوانین جو پہلے نافذالعمل نہیں تھے وہ اب انتظامیہ کا حصہ ہیں۔ جموں و کشمیر کے شہریوں کا حق کا موقع ہے۔

ساتھیو،

ہماری حکومت کے فیصلوں کے بعد، پہلی مرتبہ جموں و کشمیر کے غریب عام طبقے کو ریزرویشن کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ پہاڑی لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ حاصل ہوا ہے۔ بین الاقوامی سرحد پر آباد افراد کو بھی 4 فیصد ریزرویشن کا فائدہ ہماری حکومت نے دیا ہے۔ فاریسٹ ایکٹ نافذ ہونے سے بھی لوگوں کو نئے حقوق حاصل ہوئے ہیں۔ اس سے گجر بکروال، درج فہرست قبائل اور روایتی طور پر جنگلوں کے آس پاس رہنے والوں کو جنگل کی زمین کے استعمال کا قانونی حق حاصل ہوا ہے۔اب کسی کے ساتھ بھی امتیاز کی گنجائش نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں دہائیوں سے رہ رہے ساتھیوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بھی دیے جا رہے ہیں۔ یہی تو ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس۔

ساتھیو،

سرحد پار سے ہونے والی گولی باری ہمیشہ سے پریشانی کا سبب رہی ہے۔ گولی باری کے مسئلہ کے حل کے لئے سرحد پر بنکر بنانے کا کام تیز رفتاری سے کیا جا رہا ہے۔ سامبا، پونچھ، جموں، کٹھوا اور راجوری جیسے حساس مقامات پر بڑی تعداد میں نہ صرف بنکر بنائے گئے ہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ کے لئے فوج اور سلامتی دستوں کو بھی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں جن لوگوں نے دہائیوں تک حکومت کی، ان کی ایک بہت بڑی غلطی یہ بھی رہی ہے کہ انہوں نے سرحدی علاقوں کی ترقی کو پوری طرح نظر انداز کیا۔ ان کی حکومتوں کی اس ذہنیت نے جموں و کشمیر ہو یا شمال مشرق ہو، ان علاقوں کو پچھڑے پن میں رہنے کے لئے مجبور کر دیا ہے۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں، ایک باعزت زندگی جینے کی ضرورتیں، ترقی کی ضرورتیں، یہاں کے عام انسانوں تک اتنی پہنچ ہی نہیں، جتنی پہنچنی چاہئے تھیں۔ ایسی ذہنیت کبھی بھی ملک کی متوازن ترقی نہیں کر سکتی۔ ایسی منفی سوچ کے لئے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔ نہ سرحد کے پاس اور نہ سرحد سے دور۔

ہماری حکومت کی عہدبستگی ہے کہ ملک کا کوئی بھی علاقہ ترقی کے فوائد سے محروم نہیں رہے گا۔ ایسے علاقوں میں لوگوں کی بہتر زندگی بھارت کے اتحاد و یکجہتی کو بھی مضبوطی فراہم کرے گی۔

ساتھیو،

ملک کے ہر علاقے کی ترقی ہو، جموں کی ترقی ہو، کشمیر کی ترقی ہو، ہمیں مسلسل اس کے لیے کام کرنا ہے۔ ایک مرتبہ پھر میں جناب منوج سنہا جی کو اور ان کی ٹیم کو آج ضرور مبارکباد دینا چاہوں گا۔ جب میں ابھی منوج جی کی تقریر سن رہا تھا، کتنے کام انہوں نے گنائے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کے درمیان میں کھڑے رہ کر گنائے ہیں۔ جس تیزی سے کام ہو رہے ہیں، پورے ملک کے اندر ایک نیا اعتماد، نئی امید پیدا کریں گے اور مجھے یقین ہے جموں کشمیر کے شہریوں کا کئی دہائیوں کا جو کام نامکمل رہا ہے وہ منوج جی اور موجودہ انتظامی ٹیم کے توسط سے ضرور پورا ہوگا، وقت سے پہلے پورا ہوگا۔ ایسا میرا پورا یقین ہے۔ ایک مرتبہ پھر آپ سبھی کو صحتی اسکیم کے لئے، آیوشمان بھارت یوجنا کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ماتا ویشنو دیوی اور بابا امرناتھ کی مہربانی ہم سبھی پر بنی رہے۔ اسی امید کے ساتھ بہت بہت مبارکباد!

****

م ن ۔ اب ن

U: 8445


(Release ID: 1683886) Visitor Counter : 330