وزیراعظم کا دفتر

گجرات میں ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے تین کلیدی پروجیکٹوں کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 24 OCT 2020 1:53PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 24 اکتوبر 2020

نمسکار!

گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب وجے روپانی جی، نائب وزیر اعلیٰ جناب نتن پٹیل جی، گجرات بھاجپا کے ریاستی صدر اور رکن پارلیمنٹ، جناب سی آر پاٹل جی، دیگر سبھی وزراء حضرات، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، میرے کسان ساتھیو، گجرات کے سبھی بھائیو اور بہنو!

ماں امبے کے آشیرواد سے آج گجرات کی ترقی سے متعلق تین اہم پروجیکٹوں کی شروعات ہو رہی ہے۔ آج کسان سوریواودے یوجنا، گرنار روپ وے اور ملک کے بڑے اور جدید کارڈیک ہسپتال گجرات کو حاصل ہو رہے ہیں۔ یہ تینوں ایک طرح سے گجرات کی طاقت، بھکتی اور صحت کی علامت ہیں۔ ان سبھی کے لئے گجرات کے لوگوں کو بہت بہت مبارکباد!

بھائیو اور بہنو، گجرات ہمیشہ سے غیر معمولی قوت کے حامل افرد کی سرزمین رہا ہے۔ عظیم باپو اور سردار پٹیل سے لے کر گجرات کے متعدد سپوتوں نے ملک کے لئے سماجی اور اقتصادی قیادت کے فرائض انجام دیے۔ مجھے خوشی ہے کہ کسان سوریو اودے یوجنا کے توسط سے گجرات پھر ایک نئی پہل کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ سجلام ۔ سفلام اور ساؤنی یوجنا کے بعد اب سوریو اودے یوجنا گجرات کے کاشتکاروں کے لئے سنگ میل ثابت ہوگی۔

کسان سوریو اودے یوجنا میں اعلیٰ ترجیح گجرات کے کاشکتاروں کی ضرورتوں کو دی گئی ہے۔ بجلی کے شعبے میں برسوں گجرات میں جو کام ہو رہے تھے، وہ اس یوجنا کی بہت بڑی بنیاد بنے ہیں۔ ایک وقت تھا جب گجرات میں بجلی کی بہت قلت رہتی تھی، 24 گھنٹے بجلی فراہم کرنا بہت بڑی چنوتی تھی۔ بچوں کی تعلیم ہو، کاشتکاروں کے لئے سینچائی ہو، صنعتوں کے لئے کمائی ہو، یہ سب کچھ متاثر ہوتا تھا۔ ایسے میں بجلی کی پیداوار سے لے کر ٹرانسمشن تک، ہر طرح کی صلاحیت سازی کے لئے مشن موڈ میں کام کیا گیا۔

گجرات ملک کی پہلی ریاست تھی، جس نے توانائی کے لئے ایک دہائی قبل پہلے ہی ایک جامع پالیسی تیار کی تھی۔ جب سال 2010 میں پاٹن میں سولر پاور پلانٹ کا افتتاح ہوا تھا، تب کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن بھارت دنیا کو ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ کا راستہ دکھائے گا۔ آج تو بھارت شمسی بجلی کی پیداوار اور استعمال، دونوں معاملوں میں دنیا کے سرکردہ ممالک میں شامل ہے۔ گذشتہ 6 برسوں میں ملک توانائی کی پیداواریت کے معاملے میں دنیا میں 5ویں نمبر پر پہنچ چکا ہے اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

جو مواضعات سے مربوط نہیں ہیں، کھیتی سے مربوط نہیں ہیں، ان میں سے بہت کم کو یہ پتہ ہوگا کہ کاشتکاروں کو سینچائی کے لئے زیادہ تر رات میں ہی بجلی ملتی ہے۔ ایسے میں کھیت میں سینچائی کے وقت کاشتکاروں کو رات رات بھر جاگنا پڑتا ہے۔ جوناگڑھ اور گیر سومناتھ جیسے علاقوں میں، جہاں سے کسان سوریہ اودے یوجنا شروع ہو رہی ہے، وہاں تو جنگلی جانوروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ رہتا ہے۔ اس لیے کسان سوریو اودے یوجنا، نہ صرف ریاست کے کاشتکاروں کو تحفظ دے گی بلکہ ان کی زندگی میں نئی صبح بھی لائے گی۔ کاشتکاروں کو رات کے بجائے جب صبح سورج نکلنے سے لے کر رات نو بجے کے دوران تین فیز بجلی ملے گی، تو یہ نئی صبح ہی تو ہے۔

میں گجرات حکومت کو اس بات کے لئے مبارکباد دوں گا کہ بقیہ نظام کو متاثر کیے بغیر، ٹرانسمیشن کی بلکل نئی اہلیت تیار کرکے یہ کام کیا جا رہا ہے۔ اس اسکیم کے تحت اگلے 2 سے 3 برسوں میں تقریباً ساڑھے تین ہزار سرکٹ کلو میٹر نئی ٹرانسمیشن لائنوں کو بچھانے کا کام کیا جائے گا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں تک ہزار سے زیادہ مواضعات میں یہ اسکیم نافذ ہو جائے گی۔ ان میں بھی زیادہ تر مواضعات آدی باسی علاقوں میں ہیں۔ جب اس اسکیم کی پورے گجرات میں توسیع ہو جائے گی، تو یہ لاکھوں کاشتکاروں کی زندگی کو، ان کی روزمرہ کی زندگی کو پوری طرح تبدیل کر دے گی۔

ساتھیو،

کاشتکاروں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لئے، لاگت کم کرنے کے لئے، ان کی پریشانی کم کرنے کے لئے بدلتے وقت کے ساتھ ہمیں اپنی کوششیں تیز کرنی ہوں گی۔ کاشتکاروں کو کہیں پر بھی اپنی پیداوار فروخت کرنے کی آزادی دینا ہو یا پھر ہزاروں کاشتکار مصنوعات گروپوں کی تشکیل ، سینچائی سے متعلق زیر التوا پروجیکٹوں کو مکمل کرنے کا کام ہو یا پھر فصل بیمہ میں بہتری، یوریا کی 100 فیصد نیم کوٹنگ ہو یا پھر ملک بھر کے کروڑوں کاشتکاروں کو سوائل ہیلتھ کارڈ، اس کا ہدف یہی ہےکہ ملک کا زرعی شعبہ مضبوط ہو، کاشتکاروں کو کھیتی کرنے میں مشکل نہ ہو۔ اس کے لئے مسلسل نئی نئی پہل قدمیاں کی جا رہی ہیں۔

ملک میں آج اَن داتا کو توانائی فراہم کرنے والا بھی بنانے کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔ کسم یوجنا کے تحت کاشتکاروں، کسان مصنوعات گروپ، ایف پی او ادارے، کو آپرییٹیوز، پنچایتوں، ایسے ہر اداروں کو بنجر زمین پر چھوٹے چھوٹے شمسی پلانٹ لگانے میں مدد دی جا رہی ہے۔ ملک بھر کے لاکھوں کاشتکاروں کے شمسی پمپوں کو بھی گرڈ سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس سے جو بجلی پیدا ہوگی اس کو کاشتکار ضرورت کے حساب سے اپنی سینچائی کے لئے استعمال کر پائیں گے اور اضافی بجلی کو فروخت بھی کر پائیں گے۔ ملک بھر میں قریب ساڑھے 17 لاکھ کاشتکار کنبوں کو شمسی پمپ لگانے میں مدد دی جا رہی ہے۔ اس سے کاشتکاروں کو سینچائی کی سہولت بھی ملے گی اور انہیں اضافی آمدنی بھی ہو جائے گی۔

ساتھیو،

گجرات نے تو بجلی کے ساتھ ساتھ سینچائی اور پینے کے پانی کے علاقے میں بھی شاندار کام کیا ہے۔ اس پروگرام سے وابستہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ گجرات میں پانی کی کیا صورتحال تھی۔ بجٹ کا بہت بڑا خرچہ سالوں تک پانی کے لئے ہی خرچ کیا گیا ہے۔ یہ بہت لوگوں کو اندازہ نہیں ہوگا کہ گجرات پر پانی کو لے کر بہت بڑا مالی بوجھ رہتا تھا۔ گذشتہ دو دہائیوں کی کوششوں سے آج گجرات کے ان اضلاع، ان مواضعات تک بھی پانی پہنچ گیا ہے، جہاں کوئی پہلے سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

آج جب ہم سردار سرووَر کو دیکھتے ہیں، نرمدا جی کے پانی کو گجرات کے خشک سالی کے علاقوں تک پہنچا رہی نہروں کے نیٹ ورک کو دیکھتے ہیں، واٹر گرڈس کو دیکھتے ہیں تو گجرات کے لوگوں کے ذریعہ کی گئیں کوششوں پر فخر ہوتا ہے۔ گجرات کے قریب 80 فیصد گھروں میں آج نل سے جل پہنچ چکا ہے۔ بہت جلد گجرات ملک کی ان ریاستوں میں ہوگا جس کے ہر گھر میں پائپ سے پانی پہنچے گا۔ ایسے میں جب آج گجرات میں کسان سرودیہ یوجنا شروع ہو رہی ہے تو سبھی کو اپنا ایک عزم، ایک منتر پھر سے دوہرانا ہے۔ یہ منتر ہے : فی قطرہ زیادہ فصل کا۔ جب کاشتکاروں کو دن میں بجلی ملے گی، تو ہمیں زیادہ سے زیادہ پانی بچانے پر بھی اتنا ہی زور دینا ہے۔

ورنہ ایسا نہ ہو، چلو بھائی بجلی آ رہی ہے، پانی بہہ رہا ہے ہم آرام سے بیٹھے ہیں پھر تو گجرات برباد ہو جائے گا، پانی ختم ہو جائے گا، زندگی مشکل ہو جائے گی۔ دن میں بجلی ملنے کی وجہ سے کسانوں کے لئے بھی مائکرو۔ اریگیشن کا انتظام کرنا آسان ہوگا۔ گجرات نے مائکرو ۔ اریگیشن کے شعبے میں کافی ترقی کی ہے، ٹپک سینچائی ہو یا اسپرنکلر ہو، کسان سرودیہ یوجنا سے اس کی مزید توسیع میں مدد ملے گی۔

بھائیو اور بہنو،

گجرات میں آج ’’سرودیہ‘‘ کے ساتھ ہی ’’آروگیو اودے‘‘ بھی ہو رہا ہے۔ یہ ’’آروگیو اودے‘‘ اپنے آپ میں ایک نیا نذرانہ ہے۔ آج بھارت کے سب سے بڑے کارڈیک ہسپتال کے طور پر، یو این مہتا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی اینڈ ریسرچ سینٹر کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ملک کے ان منتخبہ ہسپتالوں میں سے ہے جس میں عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ بھی ہے اور اتنی ہی زیادہ جدید صحتی سہولیات بھی۔ تبدیل ہوتی طرز زندگی کی وجہ سے دل سے متعلق بیماریاں ہم دیکھ رہے ہیں، آج کل بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی امراض قلب کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں یہ ہسپتال گجرات ہی نہیں، ملک بھر کے لوگوں کے لئے بھی بہت بڑی سہولت ہے۔

بھائیو اور بہنو،

گذشتہ دو دہائیوں میں گجرات نے آروگیہ کے میدان میں بھی غیر معمولی کام کیا ہے۔ خواہ وہ جدید ہسپتالوں کا نیٹ ورک ہو، میڈیکل کالج ہوں یا صحتی مراکز ہوں، گاؤں ۔ گاؤں کو بہتر صحتی سہولیات سے مربوط کرنے کا بہت بڑا کام کیا گیا ہے۔ گذشتہ 6 برسوں میں ملک میں صحتی خدمات سے متعلق اسکیمیں شروع ہوئی ہیں، ان کا بھی فائدہ گجرا کو مل رہا ہے۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت گجرات کے 21 لاکھ لوگوں کو مفت علاج حاصل ہوا ہے۔ سستی ادویہ دینے والے سوا پانچ سو سے زائد جن اوشدھی کیندر گجرات میں کھل چکے ہیں۔ اس میں سے تقریباً 100 کروڑ روپئے کی بچت گجرات کے عام مریضوں کو ہوئی ہے۔

بھائیو اور بہنو،

آج گجرات کو جو تیسرا تحفہ حاصل ہوا ہے، اس سے عقیدت اور سیاحت دونوں ہی آپس میں مربوط ہیں۔ گرنات پہاڑی پر ماں امبے بھی تشریف فرما ہیں، گورکھ ناتھ شکھر بھی ہے، گرو دتاتریہ کا شکھر ہے اور جین مندر بھی ہے۔ یہاں کی ہزاروں سیڑھیاں چڑھ کر جو شکھر پر پہنچتا ہے، وہ زبردست طاقت اور سکون حاصل کرتا ہے۔ اب یہاں عالمی سطح کے روپ وے بننے سے سب کو سہولت حاصل ہوگی، سب کو درشن کا موقع ملے گا۔ ابھی تک مندر تک جانے میں جو 5 سے 7 گھنٹوں کا وقت لگتا تھا وہ دوری اب روپ وے سے 7 سے 8 منٹ میں ہی طے ہو جائے گی۔ روپ وے کی سواری ایڈوینچر کو بھی فروغ دے گی، دلچسپی میں بھی اضافہ کرے گی۔ اس نئی سہولت کے بعد یہاں زیادہ سے زیادہ عقیدت مند آئیں گے، زیادہ سیاح آئیں گے۔

ساتھیو، آج جس روپ وے کا آغاز ہوا ہے، وہ گجرات کا چوتھا روپ وے ہے۔ بناس کانٹھا میں امبا کے درشن کے لئے، پاواگڑھ میں، ست پوڑا میں مزید تین روپ وے پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ اگر گرنار روپ وے کی تشکیل میں رکاوٹیں نہ پیدا کی گئی ہوتیں تو یہ اتنے برسوں تک اٹکی نہیں ہوتی، لوگوں کو، سیاحوں کو اس کا فائدہ بہت پہلے ہی حاصل ہونے لگ گیا ہوتا۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ جب لوگوں کو اتنی بڑی سہولت پہنچانے والا انتظامی کام، اتنے طویل عرصے تک اٹکا رہے گا، تو لوگوں کو کتنا نقصان ہوتا ہے۔ ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اب جب یہ گرنار روپ وے شروع ہو رہا ہے، تو مجھے خوشی ہے کہ یہاں لوگوں کو تو سہولت ملے گی ہی، مقامی نوجوانوں کو بھی روزگار کے مزید مواقع حاصل ہوں گے۔

ساتھیو،

دنیا کے بڑے بڑے سیاحتی مقامات، عقیدت سے متعلق مراکز اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں زیادہ لوگ تبھی آئیں گے جب ہم سیاحوں کو جدید سہولیات فراہم کریں گے۔ آج جب سیاح کہیں جاتا ہے، اپنے کنبے کے ساتھ جاتا ہے، تو اسے زندگی جینا آسان بنانے سے متعلق سہولیات حاصل ہونی چاہئیں اور سفر آسان بنانے سے متعلق سہولیات بھی۔ گجرات میں متعدد ایسے مقامات ہیں جن میں بھارت ہی نہیں دنیا کے بڑے سیاحتی مقامات بننے کی اہلیت ہے۔ اگر ماتا کے ہی مندر کی بات کریں تو بھکتوں کے لئے گجرات میں پورا سرکٹ ہے۔ میں سب ماتاؤں کے مقامات کا ذکر نہیں کر رہا ہوں۔۔۔۔ اور گجرات کے سبھی کونوں میں یہ طاقت کی حامل ماتائیں گجرات کو مسلسل آشیرواد دیتی ہیں۔امبا جی ہیں، پاواگڑھ تو ہیں ہی، چامنڈا ماتا جی ہیں، امیا ماتاجی ہیں، کچھ میں ماتا نو مڈھ، کتنے ہی، یعنی ہم سوچ سکتے ہیں کہ گجرات میں ایک طاقت بستی ہے۔ متعدد مشہور مندر ہیں۔

عقیدت سے متعلق مقامات کے علاوہ بھی گجرات میں متعدد مقامات ہیں جن کی اہلیتیں زبردست ہیں۔ ابھی آپ نے دیکھا ہے دوارکا کے شیوراج پور ساحل سمندر کو بین الاقوامی شناخت حاصل ہوئی ہے، بلیو فلیگ سرٹیفکیشن حاصل ہوا ہے۔ ایسے مقامات کو تیار کرنے پر وہاں زیادہ سے زیادہ سیاح آئیں گے اور اپنے ساتھ روزگار کے نئے مواقع بھی لائیں گے۔ آپ دیکھئے، سردار صاحب کو وقف مجسمہ اتحاد دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ، سیاحوں کی توجہ کا بہت بڑا مرکز بن رہا ہے۔

جب یہ کورونا شروع ہوا، اس سے قبل ہی قریب 45 لاکھ سے زائد لوگ مجسمہ اتحاد کو دیکھنے جا چکے تھے۔ اتنے کم وقت میں 45 لاکھ لوگ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ اب مجسمہ اتحاد کو پھر سے کھولا گیا ہے تو یہ تعداد پھر تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں، احمدآباد کی کانکریا جھیل کی۔ ایک زمانہ تھا وہاں سے کوئی گزرتا نہیں تھا۔ اس کو تھوڑا سا بہتر بنایا گیا، سیاحوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتظامات کیے گئے اور آج صورتحال کیا ہے، وہاں پر پہنچنے والوں کی تعداد اب سالانہ 75 لاکھ تک پہنچ رہی ہے۔

اکیلے احمدآباد شہر کے وسط میں 75 لاکھ، متوسط طبقے نچلے طبقے کے کنبوں کے لئے یہ جگہ توجہ کر مرکز بن چکی ہے اور متعدد افراد کے لئے روزی روٹی کا وسیلہ بھی ثابت ہوئی ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور علاقائی لوگوں کی آمدنی بڑھانے میں بھی بہت مدد کرتی ہے۔ اور سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں کم سے کم سرمایہ لگتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔

ہمارے جو گجراتی ساتھی۔۔۔۔۔ اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے گجراتی بندھو ۔ بھگنی سے میں آج گذارش کرنا چاہتا ہوں، گجرات کے برانڈ ایمبیسڈر بن کر پوری دنیا میں گجرات کے لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ جب گجرات اپنے یہاں نئے نئے توجہ مرکوز کرنے والے مقامات تیار کر رہا ہے، مستقبل میں بھی بننے والا ہے تو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہمارے گججو بندھوؤں سے میں کہوں گا، وہ ہمارے سبھی ساتھی، ان کی باتوں کو پوری دنیا میں اپنے آپ ہی لے کر کے چلے جائیں، دنیا کو توجہ بھارت کی جانب مبذول کرائیں۔ گجرات کے سیاحتی مقامات کا تعارف کرائیں۔ ہمٰیں اسی کو لے کر آگے چلنا ہے، آگے بڑھنا ہے۔

ایک مرتبہ پھر سبھی گجرات کے میرے بھائیو، بہنو کو ان جدید سہولیات کے لئے میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ میں امبے کے آشیرواد سے گجرات ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچے، میری یہی پرارتھان ہے۔ گجرات صحت مند رہے، گجرات مضبوط بنے۔ انہیں نیک خواہشات کے ساتھ آپ کا شکریہ۔ بہت بہت مبارکباد۔

****

م ن۔ ا ب ن

U:6678



(Release ID: 1667331) Visitor Counter : 184