وزیراعظم کا دفتر

این ای پی 2020 کے تحت ’’21ویں صدی میں اسکولی تعلیم‘‘ کے موضوع پر منعقدہ اجلاس میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 11 SEP 2020 3:30PM by PIB Delhi

نمسکار!

کابینہ  میں میرے معاون ساتھیو، ملک کے وزیر تعلیم جناب رمیش پوکھریال نشنک جی، جناب سنجے دھوترے جی، قومی تعلیمی پالیسی کے خاکے کو تیار کرنے والی کمیٹی صدر ڈاکٹر کستوری رنگن جی، ان کی ٹیم کے معزز اراکین حضرات، اس اہم اجلاس میں حصہ لے سبھی ریاستوں کے اسکالر حضرات، پرنسپل حضرات، اساتذہ و دیگر تمام حضرات، آج ہم سبھی ایک ایسے لمحے کا حصہ بن رہے ہیں جو ہمارے ملک کے مستقبل کی تعمیر کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جس میں ایک نئے دور کی تعمیر کے بیج بوئے گئے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی، 21ویں صدی کے بھارت کو نئی سمت دینے والی ہے۔

ساتھیو، گذشتہ تین دہائیوں میں دنیا کا ہر علاقہ بدل گیا۔ ہر نظام میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ان دہائیوں میں ہماری زندگی کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جو پہلے جیسا ہو۔ تاہم وہ راستہ، جس پر چلتے ہوئے سماج مستقبل کی جانب بڑھتا ہے، ہمارا تعلیمی نظام، وہ اب بھی پرانے طرز پر چل رہا تھا۔ پرانا تعلیمی نظام کو بدلنا اتنا ہی ضروری تھا جتنا کسی خراب ہوئے بلیک بورڈ کو بدلنا ضروری ہوتا ہے۔ جیسے ہر اسکول میں پِن اَپ بورڈ ہوتا ہے۔ اس میں تمام ضروری کاغذات، اسکول کے ضروری فرمان، بچوں کی بنائی پینٹنگ وغیرہ آپ لوگ لگاتے ہیں۔ یہ بورڈ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد بھر بھی جاتا ہے۔ اس پن اپ بورڈ پر نئی جماعت کے نئے بچوں کی نئی پینٹنگز لگانے کے لئے آپ کو تبدیلی کرنی ہی پڑتی ہے۔

نئی قومی تعلیمی پالیسی بھی نئے بھارت کی، نئی امیدوں کی، نئی ضرورتوں کی تکمیل کا مضبوط وسیلہ ہے۔ اس کے پس پشت گذشتہ چار پانچ برسوں کی کڑی محنت ہے، ہر علاقے، ہر رواج، ہر زبان کے لوگوں نے اس پر دن رات کام کیا ہے۔ لیکن یہ کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اب تو کام کی اصلی شروعات ہوئی ہے۔ اب ہمیں قومی تعلیمی پالیسی کو اتنے ہی مؤثر انداز میں نافذ کرنا ہے ۔ اور یہ کام ہم سب مل کر کریں گے۔ میں جانتا ہوں ، قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان ہونے کے بعد آپ میں سے بہت لوگوں کے من میں کئی سوالات پیدا                    ہورہے ہیں۔ یہ تعلیمی پالیسی کیا ہے؟ یہ کیسے مختلف ہے؟ اس سے اسکول اور کالجوں کے نظام میں کیا تبدیلی رونما ہوگی؟ اس تعلیمی پالیسی میں ایک ٹیچر کے لئے کیا ہے؟ ایک طالب علم کے لئے کیا ہے؟اور  سب سے اہم ، اسے کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے کیا کیا کرنا ہے؟ کیسے کرنا ہے؟ یہ سوالات جائز بھی ہیں، اور ضروری بھی ہیں۔ اور اسی لیے ہم سب یہاں اس پروگرام میں جمع بھی ہوئے ہیں تاکہ اس پر بات کر سکیں، آگے کا لائحہ عمل طے کر سکیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کل بھی دن بھر آپ سبھی نے ان ہی باتوں پر گھنٹوں غور و فکر کیا ہے،بات چیت کی ہے۔

اساتذہ خود اپنے حساب سے درس و تدریس سے متعلق مواد تیار کریں، بچے اپنا کھلونا میوزیم بنائیں، والدین کو جوڑنے کے لئے اسکول میں کمیونٹی لائبریری ہو، تصاویر کے ساتھ کثیر لسانی لغت ہو، اسکول میں کچن گارڈن ہو، ایسے کتنے ہی مضامین کی بات ہوئی ہے، متعدد نئے خیالات ساجھا کیے گئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے کی اس مہم میں ہمارے پرنسپل حضرات اور اساتذہ پورے جوش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں۔

ابھی کچھ روز قبل وزارت تعلیم نے بھی قومی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے سے متعلق ملک بھر کے اساتذہ سے مائی گو پورٹل پر ان کے سجھاؤ طلب کیے تھے۔ تقریباً ایک ہفتے میں ہی 15 لاکھ سے زائد سجھاؤ موصول ہوئے۔ یہ سجھاؤ قومی تعلیمی پالیسی کو مزید مؤثر انداز میں نافذ کرنے میں مدد کریں گے۔ اس موضوع کے سلسلے میں مزید بیداری لانے کے لئے وزارت تعلیم مختلف پروگرام منعقد کرا رہی ہے۔

ساتھیو، کسی بھی ملک کی ترقی کی رفتار کو مہمیز کرنے میں اس کی نوجوان نسل اور نوجوان توانائی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ لیکن اس نوجوان نسل کی تیاری بچپن سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا بچپن ہوگا، مستقبل کی زندگی کافی حد تک اسی پر منحصر کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم، انہیں ملنے والا ماحول، کافی حد تک یہی طے کرتا ہے کہ مستقبل میں وہ بطور فرد کیسا بنےگا، اس کی شخصیت کیسی ہوگی۔ اس لیے قومی تعلیمی پالیسی میں بچوں کی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ پری اسکول میں تو بچہ پہلی مرتبہ والدین کی دیکھ بھال اور گھر کے آرام اور پرسکون ماحول سے باہر نکلنے کی شروعات کرتا ہے۔۔۔۔ دور ہوتا ہے۔ یہ وہ پہلی منزل ہوتی ہے جب بچے اپنی سمجھ، اپنی اہلیت کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنا شروع کرتے ہیں۔ اس کے لئے ایسے اسکول ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو بچوں کو فن لرننگ، کھیل کود کے ساتھ پڑھائی، سرگرمی پر مبنی پڑھائی اور دریافت پر مبنی پڑھائی کا ماحول فراہم کریں۔

میں جانتا ہوں کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کورونا کے اس وقت میں، یہ سب کیسے ہوگا؟ یہ بات سوچ سے زیادہ عمل کی ہے۔ اور ویسے بھی کورونا سے پیدا ہوئے حالات ہمیشہ ایسے ہی تو نہیں رہیں گے۔ بچے جیسے جیسے کلاس میں آگے بڑھیں، ان میں زیادہ سیکھنے کا احساس پیدا ہو۔ بچوں کا من، ان کا ذہن سائنسی اور منطقی طریقے سے سوچنا شروع کرے، ان میں ریاضی والی سوچ، سائنسی جذبہ کی نشو و نما ہو، یہ بہت ضروری ہے۔ اور ریاضی پر مبنی سوچ کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ بچے ریاضی کے سوالات ہی حل کریں، بلکہ یہ سوچنے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ طریقے ہمیں انہیں سکھانا ہیں۔ یہ ہر مضمون کو، زندگی کے پہلوؤں کو ریاضی اور منطق کی شکل میں سمجھنے کا نظریہ ہے، تاکہ ذہن الگ الگ نظریے سے تجزیہ کر سکے۔ یہ نقطہ نظر، من اور ذہن کی یہ نشو و نما بہت ضروری ہے۔ اور اس لیے ہی قومی تعلیمی پالیسی میں اس کے طور طریقوں پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ آپ لوگوں میں بہت سے لوگ، بہت سے پرنسپل حضرات، یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو اپنے اسکول میں پہلے سے ہی ایسا کرتے ہیں۔ لیکن بہت سے اسکول ایسے بھی تو ہیں جہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک جیسا احساس پیدا کرنا بھی تو ضروری ہے۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے جو آج آپ سے میں اتنیی تفصیل سے، ہر باریکی پر بات کر رہا ہوں۔

ساتھیو، قومی تعلیمی پالیسی میں پرانی 10 پلس 2 کی جگہ، 5 پلس 3 پلس 4 کا انتظام بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے۔ اس میں بچپن کی نگہداشت اور تعلیم کو ایک بنیاد کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ آج ہم دیکھیں تو پری اسکول کی کھیل کود پر مبنی تعلیم شہروں میں، نجی اسکولوں تک ہی محدود ہے۔ وہ اب گاؤوں میں بھی پہنچے گی، غریب کے گھر تک پہنچے گی، امیر، گاؤں۔شہر، ہر کسی کے، ہر جگہ کے بچوں کو ملے گی۔ بنیادی تعلیم پر توجہ اس پالیسی کا سب سے اہم پہلو ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت بنیادی خواندگی اور حساب دانی کی ترقیی کو ایک قومی مشن کی شکل میں لیا جائے گا۔ شروعاتی زبان کا علم، اعداد کا علم، بچوں میں عام تحریر کو پڑھنے اور سمجھنے کی اہلیت کی ترقی، یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ بچہ آگے جاکر سیکھنے کے لئے پڑھیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ شروعات میں وہ پڑھنے کے لئے سیکھیں۔  پڑھنے کے لئے سیکھنے سے سیکھنے کے لئے پڑھنے کا ترقی یہ سفر بنیادی خواندگی اور حساب دانی کے ذریعہ مکمل کیا جائے گا۔

ساتھیو، ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ جو بھی بچہ تیسر جماعت پاس کرتا ہے، وہ ایک منٹ میں 30 سے 35 الفاظ تک بآسانی پڑھ پائے۔ اسے آپ لوگ زبانی پڑھنے کی روانی کہتے ہیں۔ جس بچے کو ہم اس سطح تک لا پائیں گے، تیار کر پائیں گے، سکھا پائیں گے، تو مستقبل میں اس طالب علم کو بقیہ مضامین کا مواد سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی۔ میں اس کے لئے آپ کو سجھاؤ دیتا ہوں۔ یہ جو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کے ساتھ ان کے 25۔30 دوست بھی ہوں گے کلاس میں۔ آپ ان کو کہئے چلو بھائی تم کتنوں کے نام جانتے ہو۔۔۔ تم بولو۔ پھر کہو اچھا تم کتنی تیزی سے نام بتا سکتےہو، پھر کہئے تم تیزی سے بھی بولو اور اس کو وہاں کھڑا بھی کرو۔ آپ دیکھئے کتنی طرح کے ٹیلنٹ ڈیولپ ہونا شروع ہو جائیں گے اور اس کی خوداعتمادی میں کتنا اضافہ ہو جائے گا۔۔۔ بعد میں تحریری شکل میں ساتھیوں کے نام رکھ کے ۔۔۔ چلو تم اس میں کس کس کے نام بولوگے، پہلے تصویر دکھا کے لکھوا سکتے ہیں۔ اپنے ہی دوستوں کو پہچان کر سیکھنا۔۔۔ اسے تدریسی عمل کہتے ہیں۔ اس سے آگے کی جماعتوں مین طلبا پر بوجھ بھی کم ہوگا، آپ اساتذہ پر بھی بوجھ کم ہوگا۔

ساتھ ہی، بنیادی ریاضی جیسے گنتی، جوڑنا، گھٹانا، ضرب دینا، تقسیم کرنا، یہ سب بھی بچے آسانی سے سمجھ سکیں گے۔ یہ سب تبھی ہوگا جب پڑھائی کتابوں اور کلاس کی چار دیواریوں سے باہر نکل کر حقییقی دنیا سے جڑے گی، ہماری زندگی سے، آس پاس کے ماحول سے جڑے گی۔ آس پاس کی چیزوں سے، حقیقی دنیا سے بچے کیسے سیکھ سکتے ہیں، اس کی ایک مثال ایشور چندر ودیاساگر کی ایک کہانی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ کہتے ہیں، ایشور چندر ودیا ساگر جی جب آٹھ برس کے تھے، انہیں تب تک انگریزی نہیں پڑھائی گئی تھی۔ ایک مرتبہ وہ اپنے والد کے ساتھ کولکاتا جا رہے تھے، تو راستے میں سڑک کے کنارے انہیں انگریزی میں لکھے سنگ میل دیکھے۔ انہوں اپنے والد سے پوچھا کہ یہ کیا لکھا ہے؟ ان کے والد نے بتایا کہ اس میں کولکاتا کتنی دور ہے، یہ بتانے کے لئے انگریزی میں اعداد لکھے ہیں۔ اس جواب سے ایشورچندر ودیاساگر کے من میں تجسس پیدا ہوا۔ وہ پوچھتے رہے اور ان کے والد ان میل کے پتھروں پر لکھی گنتی بتاتے رہے۔ اور، کولکاتا پہنچتے۔ پہنچتے ایشور چندر ودیاساگر پوری انگریزی کی گنتیی سیکھ گئے۔ 1, 2, 3, 4…. 7, 8, 9, 10 یہ ہے تجسس کی پڑھائی، تجسس سے سیکھنے اور سکھانے کی طاقت!

ساتھیو، جب تعلیم کو آس پاس کے ماحول سے جوڑ دیا جاتا ہے تو اس کا اثر طالب علم کی پوری زندگی پر مرتب ہوتا ہے، پورے سماج پر بھی پڑتا ہے۔ جیسے کہ جاپان کو دیکھئے، وہاں شنرن یوکو کا رواج ہے۔ شنرن کا مطلب ہے جنگل، اور یوکو کا مطلب ہے نہانا۔ یعنی Forest-Bathing۔ وہاں طلبا کو جنگلوں میں، یا جہاں پیڑ پودے بہت ہوں، ایسی جگہوں ر لے جایا جاتا ہے جہاں بچے فطرت کو حقیقی طور پر محسوس کر سکیں۔ پیر پودوں، پھولوں کو سنیں، دیکھیں، انہیں چھوئیں، انہیں سونگھیں۔ اس سے بچوں کا فطرت اور ماحولیات کے تئیں لگاؤ بھی اضافہ ہوتا ہے اور مجموعی طور پر ان کی نشو و نما بھی ہوتی ہے۔ بچے اس سے لطف اندوز بھی ہوتےہیں اور ایک ساتھ کتنی ساری چیزیں بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے، جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو ایک پروگرام چلا تھا۔ ہم نے سبھی اسکولوں کو فہرست دی۔۔۔ ہم نے کہا سبھی اسکولوں کے بچے اپنے گاؤں کے اندر سب سے بڑی عمر کا درخت کون سا ہے۔۔۔ جس درخت کی سب سے زیادہ عمر ہو چکی ہے اسے تلاش کرو۔ تو انہیں سب جگہ جانا پڑا، گاؤں کے آس پاس کے سارے درخت دیکھنے پڑے، اساتذہ کو بھی پوچھنا پڑا۔ اور سب نے اتفاق رائے سے کہا کہ یہ درخت بہت پرانا ہے اور بعد میں بچوں نے اسکول میں آکر اس پر گیت لکھے، مضامین لکھے۔۔۔۔ کہانیاں لکھیں، یعنی اس درخت کی تعریف کی۔

تاہم اسی عمل میں انہیں کئی درخت دیکھنے پڑے، سب سے زیادہ عمر والا درخت تلاش کرنا پڑا۔ بہت چیزیں وہ سیکھنے لگ گئے اور میں کہہ سکتا ہوں، یہ تجربہ بہت کامیاب رہا۔ ایک طرف بچوں کو ماحولیات سے متعلق معلومات حاصل ہوئی، دوسری جانب انہیں اپنے گاؤں کے بارے میں ڈھیر ساری معلومات بھی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ہمیں اسی طرح کے آسان اور نئے نئے طور طریقوں کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارے یہ تجربہ جدید تدریس کا اصول ہونا چاہئے، مشغولیت، دریافت، تجربہ، اظہار اور سبقت لے جانا، یعنی طلبا اپنی دلچسپی کے حساب سے سرگرمیوں میں، پروجیکٹس میں مشغول ہوں۔ اسے اپنے حساب سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ ان سرگرمیوں، واقعات، پروجیکٹوں کو مختلف نظریوں کو اپنے تجربے سے سیکھیں۔ یہ ان کا ذاتی تجربہ ہوسکتا ہےیا مشترکہ تجربہ ہو سکتا ہے۔ پھر بچے تخلیقی طریقے سے اظہار کرنا سیکھیں۔ ان سب کو ملا کر ہی پھر مہارت کا راستہ بنتا ہے۔ اب جیسے کہ ہم بچوں کو پہاڑوں پر، تاریخی مقامات پر، کھیتوں میں، محفوظ مینوفیکچرنگ اکائیوں میں لے کر جا سکتے ہیں۔

اب دیکھئے، آپ کلاس روم میں ریلوے کا انجن پڑھائیں۔۔۔ بس پڑھائیں لیکن کبھی طے کریں کہ گاؤں کے نزدیک میں ریلوے اسٹیشن ہے تو چلو جائیں گے۔۔۔ بچوں کو انجن کیسا ہوتا ہے، دکھائیں گے، پھر کبھی بس اسٹیشن لے جائیں گے، بس کیسی ہوتیی ہے دکھائیں گے۔۔۔ وہ دیکھ کر ہی سیکھنا شروع کر لیتے ہیں۔ میں جانتا ہوں، کئی پرنسپل حضرات اور اساتذہ پھر یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ تو اپنے اسکول یا کالج میں ایسا ہی کرتے ہیں۔ میں مانتا ہوں بہت سے اساتذہ خلاقانہ صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں اور خوب محنت کرتے ہیں۔ لیکن سب جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ اور اس وجہ سے بہت سے طلبا عملی علم سے دور رہ جاتے ہیں۔ ہم ان اچھی چیزوں کو جتنا پھیلائیں گے ہمارےساتھی اساتذہ کو سیکھنے کا اتنا ہی موقع ملے گا۔ اساتذہ کا تجربہ جتنا زیادہ ساجھا ہوگا بچوں کو اتنا ہی فائدہ حاصل ہوگا۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں ہر علاقے کی اپنی کچھ نہ کچھ خوبی ہے، کوئی نہ کوئی روایتی فن، کاریگری، مصنوعات ہر جگہ کے مشہور ہیں۔ جیسے کہ بہار میں بھاگلپور کی ساڑیاں، وہاں کا ریشم پورے ملک میں مشہور ہے۔ طلبا ان کرگھوں، ہتھ کرگھوں کا دورہ کریں، دیکھیں آخر یہ کپڑے بنتے کیسے ہیں؟ ان کو سکھایا جائے زرا تم۔۔۔۔۔ اس میں جو کام کر رہے ہیں، ان سے سوال پوچھو۔ کلاس روم میں سوال سکھاکر لے کے جائیں۔ پھر ان کو کہا جائے کہ بتاؤ تم نے کیا پوچھا تھا۔۔۔ کیا جواب ملا۔ یہی تو تدریس ہے۔ جب وہ مخصوص طور پر پوچھے گاکہ آپ دھاگہ کہاں سے لاتے ہو، دھاگے کا رنگ کیسا ہوتا ہے، ساڑی پر چمک کیسے آتی ہے۔ وہ بچہ اپنی مرضی سے پوچھنے لگے گا، آپ دیکھئے اس کو بہت کچھ سیکھنے کو مل جائے گا۔

اسکول میں بھی ایسے ماہر لوگوں کو بلایا جا سکتا ہے۔ وہاں ان کی نمائش، ورک شاپ لگائی جاسکتی ہے۔ فرج کیجئے گاؤں میں جو مٹی کے برتن بنانے والے لوگ ہیں، ایک دن ان کو بلا لیا، اسکول ک بچے دیکھیں، پھر ان سے سوال جواب کریں، آپ دیکھئے وہ آرام سے سیکھ لے گا۔ طلباء کا تجسس بھی بڑھے گا اور معلومات بھی، سیکھنے میں بھی دلچسپی بڑھے گی۔ ایسے کتنے ہی یشے ہیں جن کے لئے گہری ہنرمندی کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم ہم انہیں اہمیت ہی نہیں دیتے۔ کئی مرتبہ تو انہیں چھوٹا سمجھ لیتے ہیں۔ اگر طلبا انہیں دیکھیں گے جانیں گے تو ایک طرح کا جذباتی لگاؤ ہوگا، ہنر کو سمجھیں گے، اس کی عزت کریں گے۔

ہو سکتا ہے بڑے ہوکر ان میں سے کئی بچے ایسی صنعتوں سے جڑیں، ہو سکتا ہے وہی بڑے مالک بن جائیں، بڑے صنعت کار بن جائیں۔ بچوں میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کی بات آتی ہے۔۔۔۔ اب بچے آٹو رکشہ میں اسکول آتے ہیں۔ کیا کبھی ان بچوں کو پوچھا کہ اس آٹو رکشہ والے کا نام کیا ہے، جو تمہیں روزانہ لے کر آتا ہے۔۔۔۔ اس کا گھر کہاں ہے۔۔۔۔ کیا اس کے یوم پیدائش کو کبھی منایا۔۔۔ کیا کبھی اس کے گھر گئے۔۔۔۔ کیا وہ آپ کے ماں باپ کو ملا تھا۔ پھر بچوں کو کہو تمہار جو رکشہ ڈرائیور ہیں۔۔۔ اس سے 10 سوالات پوچھ کرکے آؤ۔۔۔ پھر کلاس میں سب کو بتاؤ کہ میرا رکشہ والا ایسا ہے، وہ اس گاؤں کا ہے، وہ یہاں کیسے آیا۔ پھر بچوں کو اس کے تئیں ہمدردی پیدا ہوگی۔ ورنہ ان بچوں کو معلوم ہی نہیں، ان کو لگتا ہے والد پیسے دیتے ہیں اس لیے آٹو رکشہ والا مجھے لے کر آتا ہے۔ اس کے من میں یہ احساس نہیں پیدا ہوتا کہ آٹو رکشہ والا میری زندگی بنا رہا ہے۔ میری زندگی کو بنانے کے لئے وہ کچھ کر رہا ہے، یہ ہمدردی پیدا ہوگی۔

اسی طرح اگر کوئی دوسرا پیشے کا بھی انتخاب کرتا ہے، انجینئر بنتا ہے تو اس کے ذہن میں رہے گا کہ فلاں پیشے کو بہتر بنانے کے لئے کیا اختراع کی جا سکتی ہے؟ اسی طرح، ہسپتالوں کا، فایر اسٹیشنوں کا یا پھر دوسری کسی جگہ کا دورہ بھی تدریس کا حصہ ہو سکتا ہے۔ بچوں کو لے جانا چاہئے، دکھانا چاہئے۔۔۔ ان کو پتہ چلے گا کہ ڈاکٹر بھی کتنے طرح کے ہوتے ہیں۔ ڈینٹسٹ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ آنکھ کا ہسپتال کیسا ہوتا ہے۔ آلات دیکھے گا، آنکھ چیک کرنے کی مشین کیسی ہوتی ہے۔۔۔۔ اس کو تجسس ہوگا، وہ سیکھے گا۔

ساتھیو، قومی تعلیمی پالیسی کو اسی طرح تیار کیا گیا ہے تاکہ نصاب کو کم کیا جا سکے اور بنیادی چیزوں پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔ تدریس کو مربوط اور نظم و ضبط، کھیل کود پر مبنی اور مکمل تجربہ بنانے کے لئے ایک قومی نصاب فریم ورک تیار کیا جائے گا۔ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ 2022 میں جب ہم آزادی کے 75 برس منائیں گے، تو ہمارے طلبا اس نئے نصاب کے ساتھ ہی نئے مستقبل کی جانب قدم بڑھائیں گے۔ یہ بھی مستقبل کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا سائنسی نصاب ہوگا۔ اس کے لئے سبھی کے سجھاؤ لیے جائیں گے اور سبھی کی سفارشات اور جدید تعلیمی نظام کو اس میں شامل کیا جائے گا۔

ساتھیو، مستقبل کی دنیا، ہماری آج کی دنیا سے مختلف ہونے والی ہے۔ ہم اس کی ضروتوں کو ابھی سے دیکھ سکتے ہیں۔ محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اپنے طلبا کو 21ویں صدی کی ہنرمندیوں کے ساتھ آگے بڑھانا ہے۔ یہ 21ویں صدی کی ہنرمندیاں کیا ہوں گ؟ یہ ہوں گی۔ تنقیدی فکر، اختراع، اشتراک، تجسس اور مواصلت۔ ہمارے طلبائ، دائمی مستقبل، دائمی سائنس کو سمجھیں، اس سمت میں سوچیں، یہ سب آج وقت کی ضرورت ہے، بہت ضروری ہے۔ اس لیے، طلبا شروعات سے ہی کوڈنگ سیکھیں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس کو سمجھیں، انٹرنیٹ آف تھنگس، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ڈاٹا سائنس اور روبوٹکس سے جڑیں، یہ سب دیکھنا ہوگا۔

ساتھیو، ہماری پہلے کی جو تعلیمی پالیسی رہی ہے، اس نے ہمارے طلباء کو بہت باندھ بھی دیا تھا۔ جیسے مثال کے طور پر دیکھیں تو جو طلبا سائنس مضمون لیتا ہے وہ آرٹس یا کامرس نہیں پڑھ سکتا تھا۔ آرٹس۔کامرس والوں کے لئے مان لیا گیا کہ یہ تاریخ، جغرافیہ، اکاؤنٹس اس لیے پڑھ رہے ہیں کیونکہ سائنس نہیں پڑھ سکتے۔ لیکن کیا حقیقی دنیا میں، ہماری آپ کی زندگی میں ایسا ہوتا ہے کہ صرف ایک ہی مضمون کی معلومات سے سارے کام ہو جائیں؟ حقیقت میں سبھی مضامین ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہر لرننگ آپس میں مربوط ہے۔ طلبا کوئی ایک مضمون منتخب کر لیتے ہیں، بعد میں انہیں لگتا ہے کہ وہ دوسرے کسی مضمون میں زیادہ بہتر کر سکتے ہیں۔ تاہم جدید نظام ، بدلاؤ کا، نئی امیدوں سے جڑنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ بہت سے بچوں کے ڈراپ آؤٹ ہونے کی یہ بھی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ اسی لیے، قومی تعلیمی پالیسی طلبا کو کسی بھی مضمون کا انتخاب کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ میں اسے بہت بڑی اصلاح کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اب ہمارے نوجوانوں کو سائنس، یومینٹی یا کامرس میں سے کسی ایک خانے میں فٹ نہیں ہونا پڑے گا۔ ملک کے ہر طالب علم کو، اس کی صلاحیت کو اب پورا موقع ملے گا۔

ساتھیو، قومی تعلیمی پالیسی ایک طرف بہت بڑے مسئلے کے بارے میں بھی بات کرتی ہے۔ یہاں تو بڑے بڑے تجربہ کار اور عالم حضرات موجود ہیں، آپ نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ہمارے ملک میں تدریس پر مبنی تعلیم کی جگہ مارکس اور مارک شیٹ تعلیم کا زور ہے۔ سیکھ تو بچے تب بھی لیتے ہیں جب وہ کھیل رہے ہوتے ہیں، جب وہ گھر میں بات کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ باہر آپ کے ساتھ گھومنے جاتے ہیں۔ لیکن اکثر والدین بھی بچوں سے یہ نہیں پوچھتے کہ کیا سیکھا؟ وہ بھی یہی پوچھتے ہیں کہ مارکس کتنے آئے؟

ٹیسٹ میں کتنے نمبر آئے؟ ایک ٹیسٹ، ایک مارک شیٹ کیا بچوں کے سیکھنے کی، ان کی ذہنی نشو و نما کا پیمانہ ہو سکتی ہے؟ آج سچائی یہ ہے کہ مارک شیٹ، ذہنی تناؤ کی شیٹ بن گئی ہے اور کنبے کی عزت کی شیٹ بن گئی ہے۔ پڑھائی سے مل رہے اس تناؤ کو، ذہنی تناؤ سے اپنے بچوں کو نکالنا قومی تعلیمی پالیسی کا ایک اہم مقصد ہے۔

تعلیم اس طرح ہونی چاہئے کہ طلباء پر بلاوجہ کا دباؤ نہ پڑے۔ اور کوشش یہ ہے کہ صرف ایک امتحان سے طلباء ۔ طالبات کا جائزہ نہ لیا جائے، بلکہ ازخود جائزہ، ساتھیوں کے ساتھ جائزے سے طلبا کی ترقی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔ اس لیے، قومی تعلیمی پالیسی میں مارک شیٹ کی جگہ مجموعی رپورٹ کارڈ پر زور دیا گیا ہے۔ مجموعی رپورٹ کارڈ طلبا کی انفرادی قوت، قابلیت، رویہ، قابلیت، ہنرمندی، اہلیت، لیاقت اور امکانات کی تفصیلی شیٹ ہوگی۔ درجہ بندی نظام کی مکمل اصلاح کے لئے ایک نئے قومی درجہ بندی مرکز ’’پرکھ‘‘ بھی قائم کی جائے گی۔

ساتھیوں، قومی تعلیمی پالیسی کے آنے کے بعد سے یہ بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے کہ بچوں کو پڑھانے کی زبان کیا ہوگی؟ اس میں کیا تبدیلیاں کی جا رہی ہیں؟ یہاں ہمیں ایک ہی سائنٹفک بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زبان تعلیم کا وسیلہ ہے۔ زبان ہی ساری تعلیم نہیں ہے۔ کتابی پڑھائی میں پھنسے پھنسے کچھ لوگ یہ فرق ہی بھول جاتےہیں۔ اس لیے، جس بھی زبان میں بچہ آسانی سے سیکھ سک، چیزیں سیکھ سکے، وہی زبان پڑھائی کی زبان ہونی چاہئے۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جب بچے کو ہم پڑھا رہے ہیں، تو جو ہم بول رہے ہیں، کیا وہ سمجھ پا رہا ہے؟ سمجھ رہا تو کتنی آسانی سے سمجھ رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ مضمون سے زیادہ بچے کی توانائی زبان کو سمجھنے میں صرف ہو رہی ہے؟ ان ہی سب باتوں کو سمجھتے ہوئے زیادہ تر ممالک میں بھی ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہی دی جاتی ہے۔

آپ میں سے بہت سے لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ 2018 میں پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسیسمنٹ ۔ پی آئی ایس اے کی ٹاپ رینکنگ والے جتنے ملک تھے، جیسے ایسٹونیا، آئرلینڈ، فن لینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، پولینڈ، ان سب ممالک میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ یہ بات فطری ہے کہ جس زبان کو سنتے ہوئے بچے پلتے ہیں، جو زبان گھر کی زبان ہوتی ہے، اسی میں بچوں کی سیکھنے کی رفتار بہتر ہوتی ہے۔ ورنہ ہوتا یہ ہے کہ بچے جب کسی دوسری زبان میں کچھ سنتے ہیں، تو پہلے وہ اسے اپنی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں، پھر اس کو سمجھتےہیں۔

بچوں کے من میں یہ بڑی الجھن پیدا کرتی ہے، بہت تناؤ دینے والی بات ہوتی ہے۔ اس کا ایک اور پہلو ہے۔ ہمارے ملک میں، خاص کر دیہی علاقوں میں، پڑھائی مادری زبان سے الگ ہونے پر زیادہ تر والدین بچوں کی پڑھائی سے جڑ بھی نہیں پاتے۔ ایسے میں بچوں کے لئے پڑھائی ایک آسان عمل نہیں رہ جاتا، بلکہ پڑھائی اسکول کی ایک ڈیوٹی بن جاتی ہے۔ والدین اور اسکول کے درمیان ایک لکیر کھنچ جاتی ہے۔

اس لیے، جہاں تک ممکن ہو، کم سے کم گریڈ پانچ، جماعت پنجم تک تعلیم کا وسیلہ مادری زبان، علاقائی زبان رکھنے کی بات قومی تعلیمی پالیسی میں کہی گئی ہے۔ میں دیکھتا ہوں، کچھ لوگ اسے لے کر شک و شبہ میں بھی مبتلا رہتے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی میں مادری زبان کے علاوہ کوئی دیگر زبان سیکھنے، سکھانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ جو بھی غیر ملکی زبانیں بین الاقوامی سطح پر مددگار ہیں، وہ بچے پڑھیں، سیکھیں، تو اچھا ہی ہوگا۔ لیکن ساتھ ساتھ سبھی بھارتی زبانوں کو بھی فروغ دیا جائے گا، تاکہ ہمارے نوجوان ملک کی الگ الگ ریاستوں کی زبان، وہاں کی ثقافت سے متعارف ہو سکیں، ہر علاقے کا ایک دوسرے سے رشتہ مضبوط ہو۔

ساتھیو، قومی تعلیمی پالیسی کے اس سفر کے رہنما آپ سبھی ہیں، ملک کے اساتذہ ہیں۔ خواہ نئے طریقے سے تدریس ہو، یا ’پرکھ‘ کے ذریعہ امتحان ہو، طلباء کو اس نئے سفر پر لے کر اساتذہ کو ہی جانا ہے۔ کیونکہ ہوائی جہاز کتنا بھی جدید کیوں نہ ہو، اڑاتا پائلٹ ہی ہے۔ اس لیے، یہ سبھی اساتذہ کو بھی کافی کچھ نیا سیکھنا ہے، کافی کچھ پرانا فراموش بھی کرنا ہے۔ 2022 میں جب آزادی کے 75 برس پورے ہوں گے، تب بھارت کا ہر طالب علم، قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ طے کیے گئے رہنما خطوط میں پڑھے، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ میں سبھی اساتذہ، پرنسپل حضرات، سیلف ہیلپ آرگنائزیشن اور سرپرستوں سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ اس قومی مشن میں اپنا تعاون دیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آپ سبھی اساتذہ کے تعاون سے، ملک قومی تعلیمی پالیسی کو کامیابی سے نافذ کر پائے گا۔

میں اپنی بات ختم کرنے سے پہلے اساتذہ کے توسط سے ایک بات درخواست کے طور پر کہنا چاہوں گا کہ کورونا کے دور میں آپ بھی اور دوسروں کو بھی جس شائستگی پر عمل کرنا ہے ان میں دو گز کی دوری کی بات ہو، ماسک یا فیس کور کی بات ہو، اپنے کنبے کے بزرگوں کا پوری طرح خیال رکھنے کی بات ہو، صفائی ستھرائی کی بات ہو، یہ سب لڑائی کے لڑنے کی قیادت بھی ہم سب کو کرنی ہے۔ اوراساتذہ بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں، بڑی آسانی سے بات گھر گھر پہنچا سکتے ہیں۔ اور اساتذہ جب کوئی بات کرتے ہیں تو طالب علم بہت یقین کے ساتھ مانتا ہے۔ طالب علم کے سامنے، وزیر اعظم نے یہ کہا، کہوگے اور میرے ٹیچر نے کہا کہوگے، تو میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔ اسٹوڈنٹ وزیر اعظم نے کہا ہے، اس پر چار سوال کرے گا۔ لیکن ٹیچر نے کہا ہے، اس پر ایک بھی سوال نہیں کرے گا۔ گھر جاکر بتائے گا میرے ٹیچر نے کہا ہے۔ یہ عقیدت، یہ یقین بچے کے من میں ہے۔ یہ آپ کا بہت بڑا سرمایہ ہے، بہت بڑی طاقت ہے۔ اور اس میدان سے وابستہ کئی نسلوں نے تپسیا کرکے اس کو وراثت میں دیا ہے۔ اور جب ایسی چیزیں آپ کو وراثت میں حاصل ہوئی ہیں تب آپ کی فریضہ بھی بڑا ہو جاتا ہے۔

مجھ پورا یقین ہے، میرے ملک کے اساتذہ حضرات، بھارت کے روشن مستقبل کے لئے اس کو ایک مشن کے طور پر لیں گے، من لگا کر محنت کریں گے۔ ملک کا ایک ایک بچہ آپ کے ذریعہ دی جانے والی تعلیم کو حاصل کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے، آپ کے اصولوں پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے، آپ کے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وہ دن رات محنت کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ ایک بار ٹیچر کہہ دے تو وہ سب کچھ ماننے کو تیار ہوتا ہے۔ میں سمجھا ہوں کہ والدین، اساتذہ، تعلیمی ادارے، سرکاری نظام، ہم سب کو مل کر اس کام کو کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے، یہ جو علم کے لئے کوششیں جاری ہیں، یہ جو تعلیمی پرو چل رہا ہے، 5 ستمبر سے لے کر کے لگاتار الگ الگ علاقے کے لوگ اس کو آگے بڑھانے کے کام میں لگے ہیں۔ یہ کوشش اچھے نتائج لائے گی۔۔۔ وقت سے پہلے نتائج لائے گا۔ اور اجتماعی فریضہ کے احساس کے باعث ہوگا۔

اس یقین ک ساتھ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں اور ہمیشہ ہمیشہ میں ٹیچر کو پرنام کرتا ہوں۔ آج ورچووَل وسیلے سے بھی آپ سب کو پرنام کرتے ہوئے اپنی بات کو یہیں ختم کرتا ہوں۔
 

بہت بہت شکریہ!!!

****

م ن۔ ا ب ن

U:5283



(Release ID: 1653532) Visitor Counter : 5089