صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ
قومی تعلیمی پالیسی 21ویں صدی کی ضرورتوں اور امنگوں کے مطابق بھارت کو آگے لے جائے گی:صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند
قومی تعلیمی پالیسی بھارت کو ایک علم والا مرکز بنائے گی
صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے قومی تعلیمی پالیسی 2020 سے متعلق گورنروں کی کانفرنس کا افتتاح کیا
Posted On:
07 SEP 2020 2:15PM by PIB Delhi
نئی دلی، 7ستمبر، قومی تعلیمی پالیسی، این ای پی سے متعلق دن بھر چلنے والی ورچوول کانفرنس آج شروع ہو گئی ہے۔ اس کانفرنس میں صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند، وزیراعظم جناب نریندر مودی، تعلیم کے مرکزی وزیر جناب رمیش پوکھریال نشنک، گورنرصاحبان، لیفٹیننٹ گورنر صاحبان، ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کے منتظمین اور تعلیم کے وزرا نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ قومی تعلیمی پالیسی محض ایک دستاویز نہیں ہے، بلکہ ملک کی امنگوں کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ اس پالیسی کو صرف حکومت کے دائرہ کار تک محدود کرنادرست نہیں ہوگا۔ خارجہ پالیسی یا دفاعی پالیسی کی طرح تعلیمی پالیسی کا تعلق حکومت سے ہے، چاہے حکومت کسی کی بھی ہو۔ انہوں نے اپنے استقبالیہ خطاب کے دوران یہ بات کہی۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نےاس طریقہ کار کی تعریف کی، جس کے تحت یہ پالیسی ایک جامع اور مؤثر دستاویز کی شکل میں سامنے آئی ہے اور اس میں مکمل سماجی منظرنامے کے لاکھوں افراد کی تجاویز اور آرا شامل ہیں۔ انہوں نے ملک کو ایک معلوماتی اور علم والے مرکز بنانے کے مقصد کے لئے پالیسی کی رہنمائی کرنے میں وزیراعظم جناب نریندر مودی کے رول کی تعریف کی۔
وزیراعظم جناب نریندر مودی نے قومی تعلیمی پالیسی پر گورنروں کی کانفرنس میں صدر جمہوریہ کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ یہ لمحہ قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کے عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی کا سبھی کی طرف سے خیر مقدم کیاجا رہا ہے، کیونکہ عوام نے اسے اس طرح قبول کیا ہے، جیسے کہ وہ اپنی پالیسی ہو۔ یہی قبولیت کسی بھی پالیسی کی کامیابی کی ضامن ہے۔مؤثر شرکت اور تعاون کی وجہ سے یہ عوام الناس کی پالیسی بن گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کا تعلق نہ صرف تعلیم سے ہے، بلکہ اس کےتحت ہندوستان کو 21ویں صدی کے نئے سماجی اور اقتصادی چیلنجوں کیلئے تیار کرنا ہے۔ یہ پالیسی آتم نربھر بھارت کی پالیسی کے ساتھ ملک کو خودکفیل بننے کیلئے تیار کرتی ہے، لیکن اسے کامیاب بنانے کیلئے قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں تمام شکوک و شبہات کو دور کردیا جانا چاہئے۔
قومی تعلیمی پالیسی کے اصولوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس میں سیکھنے سکھانے پر زور دیا گیا ہے اور نصاب ، عملی کارکردگی، رسائی اور اندازوں کے بجائے تحقیق پر توجہ دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پالیسی ایک غیر معمولی کوشش ہے ، جس کا مقصد ایک ہی طرح کے سائز کوہر کسی پر فٹ بٹھانے کےبجائے اس کے محدود دائرے سے باہر نکلنا ہے اور یہی پالیسی اب تک اپنائی جاتی رہی۔
وزیراعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ سیکھنے کے ساتھ ساتھ ثقافت، زبان اور روایات کو فروغ دیا جائے تاکہ بچے ایک قابل تکمیل طریقے سے اسے جذب کر سکیں اور اسی لئے ہی نئی پالیسی پر توجہ دی گئی ہے۔ موجودہ منظرنامے سے صرف نظر کرتے ہوئے جہاں طلبہ ہر حال میں کسی خاص نصابی شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کے سماجی دباؤ میں رہتے ہیں، خواہ وہ انہیں پسند ہوں یا نہ ہوں، قومی تعلیمی پالیسی کا منصوبہ طلبہ کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے، جہاں وہ اپنے فطری رجحان کے مطابق کسی بھی اسٹریم یا شعبہ تعلیم کو اپنے لئے منتخب کر سکیں۔ اس تناظر میں پیشہ ورانہ تعلیمی تشہیر بھی انہیں فراہم کی جائے گی، جس سے انہیں روزگار کی ہنرمندی حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات کئے جانے چاہئے، جس سے ہندوستان کو عالمی سطح پر معلومات اور علم کا ایک مرکز بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں بہترین بین الاقوامی اداروں کو بھی ہندوستان میں قائم کیا جائے گا۔ سماجی اور اقتصادی طور سے محروم گروپوں کیلئے زیادہ رسائی پیدا کرنے کی خاطر تکنیکی حل پیدا کئے جانے چاہئے۔ عام لوگوں کے لئے سستی اور قابل رسائی سہولتوں کو قومی تعلیمی پالیسی میں ترجیح دی گئی ہے۔
وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ضابطے کو آسان اوراُسے صحیح سمت عطا کی گئی ہے۔ حقیقت میں گریڈیڈ آٹونومی بھی صحت مند مقابلہ شروع کرنے کے لئے ایک قدم ہے۔ یہ اعلیٰ معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لئے اداروں کو تحریک دے گی۔ انہوں نے مزید مشورہ دیا کہ 25ستمبر سے پہلے زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیوں میں ورچوول کانفرنس ہونی چاہئے اور قومی تعلیمی پالیسی کے نفا ذ کے بارے میں مذاکرات شروع کئے جانے چاہئے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ یہ پالیسی اُسی وقت ہی کامیاب ہو سکتی ہے، جب ہم اپنی طرف سے زیادہ سے زیادہ لچک دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری طرح سے ملک کی پالیسی ہے، کسی خاص حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کو دوہرایا کہ یہ پالیسی عوام کی امنگوں کا نتیجہ ہے اور اس طرح قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کیلئے پورے لگن اور جذبے کے ساتھ تمام اقدامات کئے جانے چاہئے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ہند جنا ب رام ناتھ کووند نے کہاکہ قومی تعلیمی پالیسی ملک کوخصوصاً نوجوانوں کو 21ویں صدی کی ضرورتوں اور امنگوں کے مطابق آگے لے کرجائے گی۔ وزیراعظم کو ان کی ویژنری قیادت اور اس تاریخی دستاویز کو نئی شکل دینے میں ان کی روح پرور تحریک کے لئے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر کستوری رنگن اور وزرا کے ساتھ ساتھ تعلیم کی وزارت کے افسروں کی اس بات کے لئے تعریف کی کہ انہوں نے ایک مناسب عمل کے ذریعے قومی تعلیمی پالیسی کو ایک نئی شکل دی، جس میں ڈھائی لاکھ گرام پنچایتوں، 12،500سے زیادہ مقامی اداروں اور تقریبا 675 ضلعوں سے حاصل ہونے والی دو لاکھ سے زیادہ تجاویز پر غور کیاگیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرمؤثر ڈھنگ سے تبدیلیاں لائی گئیں، تو ہندوستان تعلیمی اعتبار سے ایک سپر پاور بن کر ابھرے گا۔
قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں ذکر کرتےہوئے صدر جمہوریہ نے کہاکہ ریاست کے چانسلرز کی حیثیت سے گورنرس کو قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ میں ایک اہم رول ادا کرنا ہوگا۔ لگ بھگ 400 ریاستی یونیورسٹیاں ہیں، جہاں 40،000کالجز ان سے ملحق ہیں۔ اس طرح یہ ضروری ہے کہ وہ ان یونیورسٹیوں کے ساتھ تال میل قائم کریں اور مذاکرات بھی کئے جائیں، جو ان گورنروں کےذریعے کیاجا سکتا ہے، جو چانسلرز بھی ہیں۔
صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے کہا کہ تعلیم، سماجی انصاف کے لئے ایک سب سے مؤثر راستہ ہے اور اس طرح قومی تعلیمی پالیسی میں مرکز اور ریاستوں کے ذریعے مشترکہ طور پر جی ڈی پی کی تقریبا 6 فیصد کی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی تعلیمی پالیسی میں ایک مضبوط جمہوری معاشرےکیلئے عوامی تعلیمی اداروں کومستحکم کرنے پر زور دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بنیادی حقوق ، فرائض، آئینی اقدار اور حب الوطنی کیلئے طلبہ میں احترام کی تاکید پر زور دیا گیا ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی کے بارے میں گورنروں کو جانکاری دیتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہاکہ سماجی اور اقتصادی اعتبارسےمحروم گروپوں (ایس ای ڈی جیز)کو مختلف اقدامات کے ذریعے اس پالیسی میں ترجیح دی گئی ہے۔ اس میں 2025 تک پرائمری اسکول سطح پر تمام بچوں کو بنیادی خواندگی اور حساب دانی فراہم کرنا شامل ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی میں اساتذہ کے رول کو دوہراتےہوئے صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نےکہاکہ اساتذہ کو نئے تعلیمی نظام میں ایک مرکزی رول ادا کرنا ہوگا، جو تدریسی پیشے کیلئے سب سے اہم لوگ ہیں، جن کا اساتذہ کے طور پر سلیکشن کیا گیاہے۔ انہوں نے کہاکہ اگلے سال تک اساتذہ کی تعلیم کے لئے ایک نیا اور جامع نصاب وضع کیا جائے گا۔
پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہاکہ ہندوستان میں پانچ فیصد سے بھی کم ورک فورس(افرادی قوت)، نے با قاعدہ پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے، جو مغربی ملکوں کے مقابلے میں برائے نام ہے۔ اس طرح قومی تعلیمی پالیسی میں پیشہ ورانہ تعلیم کو اصل دھارے کی تعلیم کے حصے کے طور پرسمجھا جائے گا اور اس طرح کی تعلیم کو مساوی حیثیت دی جائے گی، جس سے بچے نہ صرف زیادہ ہنرمند بن سکیں گے، بلکہ وہ احترام اور عزت اور وقار حاصل کر سکیں گے۔
صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے یہ بھی کہا کہ عام طور پر اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ پرائمری تعلیم کا وسیلہ مادری زبان میں ہونا چاہئے۔ اس طرح نئی پالیسی میں سہ لسانی فارمولے کو اپنایا گیا ہے۔ اس سے ہندوستان زبانوں ، آرٹس اور کلچر کوبھی حوصلہ مل سکے گا، جو کہ عظیم لسانی تنوع کی خصوصیت کے ساتھ ہمارے ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے تحفظ میں ایک اہم قدم ہے۔
معیاری تعلیم کے حصول کے مقصد سے کثیر انضباطی تعلیم کی پوری دنیا میں ستائش کی گئی ہے اور اس طرح قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق کثیر انضباطی، تحقیقی یونیورسٹی ‘ایم ای آر یو’ قائم کی جائے گی، جو کوالیفائڈ، اختراعی اور صاحب کمال نوجوانوں کی ترقی کیلئے سودمند ہوگی۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایک وسیع کثیر انضباطی اعلیٰ تعلیم کا ادارہ 2030 تک تقریبا ہر ضلعےمیں قائم کیا جائے گا تاکہ ایسے علاقوں میں جہاں ابھی تک سہولتیں نہیں پہنچی ہیں، اعلیٰ تعلیم فراہم کی جا سکے اور یہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اس پالیسی کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات اس لئے کئے جا رہے ہیں تاکہ سماجی اور اقتصادی طور سے محروم گروپوں کو معیاری اعلیٰ تعلیم تک رسائی فراہم کی جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کو تعلیم کا ایک عالمی مرکز بنانے کیلئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں کو ہندوستان میں تعلیم دینے کی اجازت دی جائے گی۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ اس تعلیمی پالیسی کی کامیابی کا دارومدارمرکز اور ریاستوں دونوں کے مؤثر تعاون پر منحصر ہوگا۔ تعلیم کو آئین کی کنکرنٹ فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس پر مرکز او رریاستوں کی جانب سے مربوط اور تال میل پر مشتمل کارروائی کی ضرورت ہے۔گورنروں کے جذبے کی ستائش کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے کہاکہ ان میں سے کچھ نے پہلے ہی متعلقہ تعلیم کے وزرا اور وائس چانسلر زکے ساتھ مذاکرات شروع کر کے قومی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کیلئے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔انہوں نے گورنروں کومشورہ دیا کہ وہ اس کے نفاذسے متعلق موضوع پر مبنی ایک ورچوول کانفرنس کا اہتمام کریں اور تعلیم کی مرکزی وزارت سے بھی تجاویز مانگے، جو ملک بھرکے لئے استعمال ہو سکتی ہیں۔ صدر جمہوریہ نے اس بیان کے ساتھ اپنا خطاب مکمل کیا کہ گورنروں اور تعلیم کے وزرا کی جانب سے اس طرح کا تعاون ہندوستان کو ایک علم کا مرکز بنانے میں مددگارثابت ہوگا۔
انگریزی میں صدر کی تقریر کے لئے یہاں کلک کریں
ہندی میں صدر کی تقریر کے لئے یہاں کلک کریں
*************
( م ن ۔ ع س۔ ک ا(
U. No. 5152
(Release ID: 1651997)
Visitor Counter : 275
Read this release in:
Punjabi
,
Marathi
,
Telugu
,
Manipuri
,
English
,
Hindi
,
Bengali
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Malayalam