سٹرک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت

جموں و کشمیر اور لداخ میں امن ، ترقی اور خوشحالی ایک نئی صبح آئی ہے، ترقی کو تیز رفتار بنانے کے لیے سڑک اور شاہراہوں کے پروجیکٹوں کی ایک سیریز

Posted On: 07 AUG 2020 1:21PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،7 اگست ، 2020  /  مندرجہ ذیل ایک سینئر صحافی اور پرسار بھارتی بورڈ کے ایک رکن جناب اشوک ٹنڈن کے ایک مضحمون کا متن ہے۔ جس کا عنوان ہے جموں و کشمیر اور لداخ میں امن، ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کی صبح : ترقی کو تیز رفتار بنانے کے لیے سڑکوں اور شاہراہوں کے پروجیکٹوں کی ایک سیریز ۔

‘‘بھارتیہ جن سنگھ (آج کل کی بھارتی جنتا پارٹی) سے پہلے کی پارٹی کے بانی ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی نے اپنی زندگی ملک گیر عدم تشدد کا احتجاج   کی قیادت کرنے میں قربان کر دی، جس نے جموں و کشمیر ریاست کو بھارت کی مرکزی سرکار  کا مکمل حصہ بنانے کی مانگ کی گئی تھی۔

ڈاکٹر مکھرجی نے 10 مئی 1953 کو جموں و کشمیر سرحد پر حکومت کے داخلہ پرمٹ حکم کی خلاف ورزی کی تھی اور ایک دیش میں دو ودھان ، دو پردھان اور دو نشان نہیں چلیں گے کا نعرہ دیتے ہوئے گرفتاری دی تھی۔

انہیں سری نگر جیل لے جایا گیا ، جہاں 23 جون 1953 کو پراسرار حالات میں ان کی موت ہو گئی۔

ڈاکٹر مکھرجی نے اس وقت یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کا یہ مشن اس وقت مکمل ہوگا کہ گجرات کا دوسری پیڑھی کا پارٹی لیڈر  پارٹی کی قیادت کرے گا اور اپنے بل بوتے مکمل اکثریت کے ساتھ مرکز میں اقتدار میں آجائے گا۔ وزیراعظم نریندر مودی کی این ڈی اے حکومت نے  5 اگست 2019 کو بھارتی آئین کی دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کی ریاست کو دیئے گیے خصوصی درجے کو ختم کر دیا۔ اس طرح ریاست کے عوام مرکزی حکومت کے سبھی پروگراموں اور قوانین تک رسائی حاصل کرنے لگے، جس میں تعلیم کا حق ، معلومات کا حق، کم سے کم اجرتوں کا قانون اور اقلیتی قانون بھی شامل ہے۔ ریاست کو دی گئی خودمختاری کی صحیح شقیں کلعدم کر دینے والے  اس تاریخی  صدارتی حکم کے بعد ایک اور سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے اور حکمت عملی پر مبنی ریاست کی تنظیم نو سے متعلق قانون 2019 بنایا گیا جس کے تحت ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا۔

تبھی سے این ڈی اے حکومت پچھلے ایک سال سے مختلف محاذوں پر چنوتیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ جن میں سرحدی حفاظت ، جموں و کشمیر کے معاملے پر بین الاقوامی کے ساتھ تعمیری سرگرمیاں شامل ہیں اورتبھی سے سبھی تینوں خطوں میں امن ، خوشحالی اور عوام کی بہبود کو یقینی بناتے ہوئے ہمہ جہت ترقی کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ نیز اس چیلنج کا بھی سامنا ہے کہ ان تینوں خطوں میں بدعنوانی سے پاک حکمرانی فراہم کی جائے۔ 

مرکزی حکومت نے ان چیلنجوں کو ایک موقع میں بدل دیا ہے  تاکہ جموں و کشمیر اور لداخ کے عوام پر دفعہ 370 کے نام پر  تھوپے گیے  فریب کا خاتمہ کیا جا سکے۔  جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حیثیت  دے کر مودی حکومت  نے  امن اور ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ جس سے پورے خطے میں سب کی شمولیت والی ترقی اور شفاف حکمرانی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا ہے۔ مودی ٹیم نے جدید ترین بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے ایک مربوط طریقۂ کار اپنایا ہے اور تیز سماجی بہبود اور روزگار کے موقع پیدا کرنے کی اسکیموں  اور  پروگراموں  کو شروع کیا ہے، یہ اسکیمیں اور پروگرام چھوٹی ، اوسط اور بہت چھوٹی صنعتوں (ایم ایس ایم ای) کے لیے  شروع کیے گیے ہیں۔

اچھی کوالیٹی کے سبھی موسموں میں کھلی رہنے والی سڑکوں اور قومی شاہراہوں کی وجہ سے خطے کے اندر اور خطے کے باہر آنے جانے کی پریشانی اب ختم ہو چکی ہے۔

کشمیر: رشی کشیپ کی زمین

کرسٹوفر سنیڈن کے مطابق جو آسٹریلیا کا ایک محقق اور کشمیر پر بہت سی کتابوں کا مصنف ہے  کشمیر کا نام  کشیپ میر بھی ہو سکتا ہے جسے بعد میں مختصر کر کے کشمیر کر دیا گیا (سادھو کشیپ کی جھیل) ۔ اور مشہور بھارتی صوفی شاعر اور دانشور امیر خشرو نے کشمیر کی خوبصورتی کو تین الفاظ میں بیان کیا ہے ،

اگر فردوش بر روئے زمین است،

 ہمیں استو ، ہمیں استو ، ہمیں است

(اگر زمین پر جنت کہیں ہے تو وہ یہیں ہے یہیں ہے یہیں ہے)۔

سیاحت کشمیر کی معیشت کی ہمیشہ سہہ رگ رہی ہے اور اضافہ شدہ بنیادی ڈھانچہ وادی سے برآمدات کو فروغ دینے میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت نے این ایچ اے آئی اور این ایچ آئی ڈی سی ایل کی مدد سے بی آر او اور ریاست کے پی ڈبلیو ڈی کے ساتھ مل کر بہت سے پروجیکٹوں کو مکمل کرنے کا کام شروع کیا ہوا ہے، جس سے ترقی کو تیز رفتار بنانے اور اسٹارٹ اپ کو سہارا دینے میں مدد ملے گی۔ یہ اسٹارٹ اپ ریشم سازی ، ٹھنڈے پانی کی مچھلیوں ، لکڑی کے کام ، کرکٹ کے بلوں ، زعفران ، دستکاری اور باغبانی کی مصنوعات سے متعلق ہیں۔

جموں

مندروں کا ایک خوبصورت شہر ہے جسے پہلے جمبو پورہ کے نام سے جانا جاتا تھا جو راجہ جمبو لوچن کی راجدھانی تھا۔ جو باہو لوچن کا بھائی تھا اور جس نے دریائے توی کے کنارے پر باہو قلعہ تعمیر کیا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کے بارے میں عقیدہ ہے کہ یہ بھگوان رام کے جانشین تھے۔ جموں میں ریل اور روڈ کنکٹیویٹی کی وجہ سے تیزی سے ترقی ہو رہی ہے جس میں جموں ریج روڈ بھی شامل ہے۔ جموں کی معیشت میں بڑھتی ہوئی مذہبی سیاحت اور اسٹارٹ اپس کی وجہ سے بڑا فروغ مل رہا ہے۔ یہاں لکڑے کے دانے کا کام، ملز، باسمتی چاول کی تجارت ، چاول کے ملز، قالین، الیکٹرانک چیزوں کا خاص طور پر کیا جاتا ہے۔

لداخ

اسے لدواگز  کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یعنی اونچے درّوں کی زمین ۔ اسے مرین آف نگاری  (نگاری کا تاس) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دفاعی طور پر ایک حساس علاقہ ہے ۔ یہ خطہ وادیٔ کشمیر میں برسر اقتدار اعلیٰ شخصیتوں کے سوتیلے رویے کا شکار رہا ہے۔

لداخ کو مرکز کا ایک الگ زیر انتظام علاقہ بنانے کے حکومت کے فیصلے کی وجہ سے یہاں خطے کے پرامن عوام کے لے  امن ، ترقی اور خوشحالی کی ایک نئی صبح آئی ہے۔ نیز ترقی اور اقتصادی ترقی کے معاملات میں خطے میں عدم توازن میں اصلاح کی ایک نئی صبح آئی ہے۔

لداخ میں سبھی موسموں میں کھلی رہنے والی سڑکوں اور شاہراہوں کے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو بے مثال فروغ حاصل ہوا ہے۔

لداخ میں مرکز کی طرف سے زبردست مالی پیکیجز دیئے گیے ہیں جس کی وجہ سے یہاں زراعت پر مبنی معیشت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

آخر میں یہ کہا جائے کہ دفعہ 370 کے ختم کیے جانے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیے جانے سے تینوں حصوں مقامی آبادیوں کو سرکاری سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔

آج کشمیر میں اور لداخ میں خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی پڑھائی لکھائی کے بارے میں بھی مزید بیداری آئی ہے۔

لوگ یہاں سماج دشمن عناصر کو الگ تھلگ کرنے میں مقامی انتظامیہ کے ساتھ ہاتھ ملانے اور پاکستان کی طرف سے نوجوانوں کو بنیاد پرست بنانے کی کوششوں کو بے نقاب کرنے کے لیے  آگے آرہے ہیں۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

م ن ۔ اس۔ ت ح ۔

U – 4400

 

 



(Release ID: 1644247) Visitor Counter : 226