وزیراعظم کا دفتر

اسمارٹ انڈیا ہیکاتھون 2020 کے گرینڈ فنالے سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 01 AUG 2020 7:08PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی:یکم اگست ، 2020:

آپ ایک سے بڑھ کر ایک حل پر کام کررہے ہیں، ملک کے سامنے جو چیلنجز ہیں یہ ان کا سولوشن تو دیتے ہی ہیں، ڈیٹا ڈیجیٹائزیشن اور ہائی ٹیک مستقبل کو لیکر ہندوستان کی توقعات کو بھی مضبوط کرتے ہیں۔

ساتھیو، ہمیں ہمیشہ سے فخر رہا ہے کہ بیتی صدیوں میں ہم نے دنیا کو ایک سے بڑھ کر ایک بہترین سائنٹسٹ، بہترین ٹیکنیشین، ٹیکنالوجی انٹرپرائز لیڈرس دیے ہیں لیکن یہ اکیسویں صدی ہے اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ہندوستان کو اپنا وہی مؤثر کردار نبھانے کیلئے اتنا ہی تیزی سے ہمیں خود کو بھی بدلنا ہوگا۔

اسی سوچ کے ساتھ اب ملک نے اختراع کیلئے، ریسرچ کیلئے، ڈیزائن کیلئے، ترقی کیلئے، انٹرپرائزکیلئے ضروری ماحولی نظام  تیزی سے تیارکیاجارہاہے۔  اب بہت زیادہ زور دیا ہے تعلیم کے معیار پر۔ اکیسویں صدی کی ٹیکنالوجی کو ساتھ لیکر، اکیسویں صدی کی ضرورتوں کو پوراکرنے والا تعلیمی نظام بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

وزیراعظم ای۔ ودیاپروگرام ہو یا پھر اٹل اختراعی مشن ملک نے سائنٹفک ٹمپرامنٹ بڑھانے کیلئے  متعدد شعبوں میں اسکالر شپ کی توسیع ہویا اسپورٹس کی دنیا سے جڑے ٹیلنٹ کو ماڈرن فیسیلیٹیز اور اقتصادی مدد، ریسرچ کو بڑھاوا دینے والی اسکیمیں ہوں یا پھر ہندوستان میں  عالمی درجے کے 20 انسٹی ٹیوٹ آف امیننس کی تعمیر کامشن۔ آن لائن ایجوکیشن کیلئے نئے وسائل کاپیداکرنا ہو یا پھر اسمارٹ انڈیا ہیکاتھون جیسے ہی ابھیان ، کوشش یہی ہے کہ ہندوستان کی تعلیم مزید جدید تر بنے۔ یہاں کے ٹیلنٹ کو پورا موقع ملے ۔

ساتھیو، اسی کڑی میں کچھ دن پہلے ملک کی نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ پالیسی اکیسویں صدی کے نوجوانوں کی سوچ، ان کی ضرورتوں، ان کی امیدوں، آرزوؤں اور توقعات کو دیکھتے ہوئے بنانےکی باقاعدہ کوشش ہوئی ہے۔ پانچ برس تک ملک بھر میں اس کے ہر ایک نقطے پر بڑے پیمانے پر ڈبیٹ اور بحث ومباحثے ہوئے ہیں۔ ہر سطح پر ہوئے تب جاکر یہ پالیسی بنی ہے۔

یہ صحیح معنی میں پورے ہندوستان کو،ہندوستان کے سپنوں کو، ہندوستان کی آئندہ نسل کی امیدوں اور آرزوؤں کو اپنے سمیٹے ہوئے نئے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی آئی ہے۔ اس میں ہرعلاقہ ، ہر ریاست کے دانشوروں کے خیالات کو شامل کیا گیا ہے۔ اس لئے یہ صرف ایک پالیسی دستاویز نہیں ہے بلکہ 130 کروڑ سے زیادہ بھارتیوں کی امنگوں کا عکاس بھی ہے۔

ساتھیو، آپ بھی اپنے آس پاس دیکھتے ہوں گے، آج بھی متعدد بچوں کو لگتا ہے کہ ان کو ایک ایسے موضوع کی بنیاد پر جج کیاجاتا ہے جس میں اس کی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ ماں باپ کا، رشتہ داروں کا، دوستوں کا، پورے ماحول کا دباؤ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے ذریعے چنے گئے مضامین پڑھنے لگتے ہیں، اس ایپروچ نے ملک کو ایک بہت بڑی آبادی ایسی دی ہے جو پڑھی لکھی تو ہے لیکن جو اس نے پڑھا ہے اس میں سے زیادہ تر اس کے کام نہیں آتا۔ ڈگریوں کے انبار کے بعد بھی وہ اپنے آپ میں ایک ادھورا پن محسوس کرتا ہے۔ اس کے اندر جو  خود اعتمادی پیدا ہونی چاہئے، جو بھروسہ آنا چاہئے، اس کی کمی وہ محسوس کرتا ہے۔ اس کا اثر اس کی پوری زندگی کے سفر پر پڑتا ہے۔

ساتھیو، نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعے اسی ایپروچ کو بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے، پہلے کی کمیوں کو دور کیا جارہا ہے، ہندوستان کی تعلیم کے انتظام اب ایک منظم اصلاح، تعلیم کا انٹینٹ اور کنٹینٹ دونوں کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔

دوستو، اکیسویں صدی معلومات کا عہد ہے، لرننگ، ریسرچ اور انّوویشن پر توجہ بڑھانے کایہی وقت ہے، اور بالکل یہی کام ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی 2020کرتی ہے۔ یہ پالیسی آپ کے اسکول ، کالج اور یونیورسٹی تجربہ ، سود مند بورڈ پر مبنی بنانا چاہتی ہے۔ ایسا ادارہ جو آپ کی فطری دلچسپی کی جانب رہنمائی کرے۔

دوستو، آپ ہندوستان کے سب سے بہترین اور ذہین ترین اثرات میں سے ہیں۔ یہ ہیکاتھون پہلا مسئلہ نہیں ہے جسے حل کرنے کی آپ نے کوشش کی ہے نہ ہی یہ آخری مسئلہ ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اور آپ جیسے نوجوان تین چیزیں لرننگ، سوال پوچھنا اور حل کرنے تک نہ رکیں۔

جب آپ سیکھتے ہیں تو آپ سوال پوچھنے کی فراصت حاصل کرتے ہیں۔ جب آپ سوال پوچھتے ہیں تو آپ مسئلے کو حل کرنےکیلئے مروجہ طریقے سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔ جب آپ ایسا کرتے ہیں، آپ ترقی کرتے ہیں۔ آپ کی کوشش کی وجہ سے ہمارا ملک ترقی کرتا ہے۔ ہمارا کرۂ ارض خوشحال ہوتا ہے۔

دوستو، ہندوستان کی قومی تعلیمی پالیسی ان جذبوں کو منعکس کرتی ہے۔ ہم اسکول بیگ کے بوجھ سے آگےکی جانب منتقل ہورہے ہیں۔ اسکول بیگ کابوجھ، اسکول کے علاوہ باقی نہیں رہتا ہے۔ لرننگ کو مستحکم کرنے کیلئے جو کہ زندگی  کے لئے  مدد فراہم کرتی ہے، معمولی یادکرنے سے لیکر اہم سوچنے تک ہے۔ برسوں سے تعلیمی نظام کی تحدیدات طلبا کی زندگی پر منفی اثر ڈالتے تھے، اب ایسا نہیں ہوگا۔  قومی تعلیمی پالیسی  نوجوان ہندوستان کی آرزوؤں کوظاہر کرتی ہے۔ یہ پروسیس پر مرکوز نہیں ہے۔ یہ عوام پر مرکوز اور مستقبل پر مرکوز پالیسی ہے۔

دوستو، تعلیمی پالیسی  کی سب سے زیادہ دلچسپ چیزوں  میں بین موضوعاتی مطالعے پر خصوصی زور ہے۔ یہ تصور  قبول عام حاصل کررہاہے اور یہی صحیح بھی ہے۔ ایک ہی سائز سبھی کیلئے فٹ نہیں ہوتا ہے۔ ایک موضوع آپ کے بارے میں بتلا نہیں سکتا ہے کہ آپ کون ہیں۔ کچھ نئی چیزوں کو دریافت کرنے کی کوئی حد نہیں ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے عظیم لوگوں کی متعدد مثالیں ہیں جنہوں نے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کی اور بہت بہتر کام کیا۔ خواہ یہ آریہ بھٹ، لیونارڈوداوینسی، ہیلن کیلر،گرودیو ٹیگورہوں،اب ہم نے آرٹ، سائنس، کامرس کے درمیان کچھ روایتی سرحدوں کو ختم کردیا ہے۔ اگر کوئی فرد جو دلچسپی  رکھتا ہے وہ ایک ساتھ میتھس اور میوزک پڑھ سکتا ہے یا کوڈنگ اور کیمسٹری  ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ اس سے اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی کہ طلباء وہی پڑھیں گے جو وہ چاہیں گے۔ اس کے علاوہ معاشرے کے ذریعے طلباء سے کیا امید کی جاسکتی ہے، بین موضوعاتی مطالعات آپ کو کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔ اس عمل میں یہ آپ کو لچکدار بھی بناتے ہیں۔

قومی تعلیمی پالیسی میں لچیلاپن کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس میں متعدد داخلے اور باہر نکلنے کی گنجائش ہے۔ ایک طالب علم کیلئے ایک ہی راستے والی گلی نہیں ہے۔ انڈرگریجویٹ تین یا چار سال کے سفر کاتجربہ لے سکتے ہیں۔ طلباء ایک اکیڈمک بینک آف کریڈٹ کے فوائد کامزہ لے سکتے ہیں جو کہ تمام حاصل شدہ تعلیمی کریڈٹس کو جمع کریگا۔ ان کریڈٹس کو فائنل ڈگری میں منتقل اور شمار کیاجاسکتا ہے۔ ایسے لچیلے پن کی عرصے سے ہمارے تعلیمی نظام میں ضرورت تھی۔ میں بیحد خوش ہوں کہ قومی تعلیمی پالیسی نے اس پہلو کو حل کردیا ہے۔

دوستو، قومی تعلیمی پالیسی کافی بڑی ہے جہاں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جس کی شروعات پرائمری تعلیم سے ہوتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ارادہ ہے کہ 2035 تک مجموعی اندراج تناسب کوبڑھا کر 50فیصد تک کردیا جائے۔ دیگر کوششیں خواہ یہ صنفی شمولیتی فنڈ، خصوصی تعلیمی زون، اوپن اور فاصلاتی تعلیم کے لئے  متبادل بھی مددگار ہوں گے۔

ساتھیو، ہمارے آئین کے اصل معمار ہمارے ملک کے عظیم ماہر تعلیم بابا صاحب امبیڈکر کہتے تھے کہ تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو سبھی کی پہنچ میں ہو۔ سبھی کیلئے آسان ہو۔ یہ تعلیمی پالیسی ان کے اس خیال کو بھی وقف ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی  روزگار کے متلاشی کے بجائے روزگار پیدا کرنے والا بنانے پر زور دیتی ہے یعنی ایک طرح سے یہ ہماری ذہنیت میں ، ہماری سوچ میں ہی اصلاحات لانے کی کوشش ہے۔ اس پالیسی کے فوکس میں ایک ایسے آتم نربھر نوجوان بنانا ہے جو یہ طے کرپائیگا کہ اس کو جاب کرنی ہے، سروس کرنی ہے یا پھر صنعتکار بننا ہے۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں بھاشا، لینگویج ہمیشہ سے ایک حساس موضوع رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں مساوی زبان کواپنے حال پر ہی چھوڑ دیا گیا ، اسے پنپنے اور آگے بڑھنے کا موقع بہت کم ملا۔ اب ایجوکیشن پالیسی میں جو بدلاؤ لائے گئے ہیں اس سے ہندوستان کی زبانیں آگے بڑھیں گی، ان کا اور فروغ ہوگا۔ یہ ہندوستان  کی معلومات کو تو بڑھائیں گی ہی ہندوستان کی ایکتاکو بھی بڑھائیں گی۔ ہماری ہندوستانی زبانوں میں کتنی ہی اہم تخلیقات ہیں، صدیوں کا علم ہے، تجربہ ہے، ان سب  کی توسیع اب اور ہوگی۔ اس سے دنیا کا بھی ہندوستان کی اہم زبانوں سے تعارف ہوگا اور ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ طلباء کو اپنے شروعاتی برسوں میں اپنی ہی زبان میں سیکھنے کو ملے گا۔

اس سے ان کا ٹیلنٹ اور بہتر ہوگا اور میں سمجھتاہوں کہ ان کے لئے  بہت سارے مواقع ہوں گے۔ وہ آرام دہ ہوکر بغیر کسی دباؤ کے نئی چیزیں سیکھنے کیلئے تحریک پائیں گے اور تعلیم سے جڑ پائیں گے۔ ویسے بھی آج جی ڈی پی کی بنیاد پر دنیا کے سرکردہ 20 ملکوں کی لسٹ دیکھیں تو زیادہ تر ملک اپنی  گھریلو زبان میں ہی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ ملک اپنے ملک میں نوجوانوں کی سوچ اور سمجھ کو اپنی زبان میں تیار کرتے ہیں اور دنیا کے ساتھ بات چیت کیلئے دوسری زبانوں پر بھی زور دیتے ہیں۔ یہی پالیسی اور حکمت عملی اکیسویں صدی کے بھارت کیلئے بھی بہت سود مند ہونے والی ہے۔ ہندوستان کے  پاس تو زبانوں کا انمول خزانہ ہے جن کو سیکھنے کیلئے ایک پوری زندگی بھی کم پڑجاتی ہے اور آج دنیا بھی  اس کے لئے شائق ہے۔

ساتھیو، نئی تعلیمی پالیسی کی ایک اور خاص بات ہے، اس میں لوکل پر جتنا فوکس ہے اتنا ہی اس کو گلوبل کے ساتھ انٹیگریٹ کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ایک جانب جہاں مقامی عوامی ہنروں اورعلوم، شاشتریہ کلااور گیان کو جائز مقام دینے کی بات ہے تو وہیں سرفہرست عالمی اداروں کو ہندوستان میں کیمپس کھولنے کی دعوت بھی ہے۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کو بھارت میں ہی ورلڈ کلاس ایکسپوزر اور مواقع بھی ملیں گے اور عالمی مسابقے کیلئے زیادہ تیاری بھی ہوسکے گی۔ اس سے ہندوستان میں عالمی معیار کے ادارے کی تعمیر میں ہندوستان کو گلوبل ایجوکیشن کا مرکز بنانے میں بھی بہت مدد ملے گی۔

ساتھیو، ملک کی نوجوانوں کی طاقت پر مجھے ہمیشہ سے بہت بھروسہ رہا ہے۔ یہ بھروسہ کیوں ہے؟ یہ ملک کے نوجوانوں نے بار بار ثابت کیا ہے۔ حال ہی میں کورونا سے بچاؤ کیلئے فیس شیلڈ کی ڈیمانڈ ایک دم بڑھ گئی تھی، اسی ڈیمانڈ کو تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کے ساتھ پوراکرنے کیلئے بڑے پیمانے پر ملک کے نوجوان آگے آئے۔ پی پی ای اور دوسرے طبی آلات کیلئے بھی جس طرح ملک کے نوجوان اختراع کار، نوجوان صنعتکار سامنے آئے ہیں اس کی چرچا ہر طرف ہے۔ آروگیہ سیتو ایپ کی شکل میں  نوجوان ڈیولپرس نے کووڈ کی ٹریکنگ کیلئے ایک بہترین میڈیا ملک کو بہت کم وقت میں تیار کرکے دیا ہے۔

ساتھیو، آپ سبھی نوجوان خودکفیل بننے کیلئے ہندوستان کی امنگ کی توانائی ہیں۔ ملک کے غریب کو ایک بہتر زندگی دینے کے، زندگی کی آسانی کے ہمارے ہدف کو حاصل کرنے میں آپ سبھی نوجوانوں کا کردار بہت اہم ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ ملک کے سامنے آنے والی  ایسی کوئی چنوتی نہیں ہے جس سے ہمارا نوجوان ٹکر نہ لے سکے، اس کا حل نہ تلاش کرسکے۔ ہر ضرورت کے وقت جب بھی ملک نے اپنے نوجوان اختراع کاروں کی طرف دیکھا ہے انہوں نے مایوس نہیں کیا ہے۔

اسمارٹ انڈیا ہیکاتھون کے ذریعے بھی  بیتے برسوں میں حیرت انگیز اختراعات ملک کو حاصل ہوئے ہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ اس ہیکاتھون کے بعد بھی آپ سبھی نوجوان ساتھی  ملک کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے ملک کو آتم نربھر بنانے کیلئے  نئے نئے سالوشن پر کام کرتے رہیں گے۔

ایک بار پھر آپ سبھی کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

 

 

-----------------------

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO:4293



(Release ID: 1643116) Visitor Counter : 323