زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

زرعی جنگل بانی کرنے والے کاشتکاروں کو صنعت سے مربوط کرنے کے لئے ویبی نار کا اہتمام


کاشتکاروں کو اضافی آمدنی فراہم کرنے سے لے کر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے کاربن کے اخراج کو کم کرنے سمیت زرعی جنگل بانی کے مختلف النوع افادی پہلو نمایا ں کئے گئے

مقامی چیزوں کے استعمال پر زور دینے کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے دی گئی کال زرعی جنگل بانی کے لئےکافی افادیت کی حامل ہے

Posted On: 15 JUN 2020 1:20PM by PIB Delhi

نئی دہلی ،15جون2020: زرعی جنگل بانی کےکاشتکاروں کو صنعت سے مربوط کرنے اور نفاذ کی ریاست کو کاشتکاروں کو صحیح اقسام کے پودے منتخب کرنے کے سلسلے میں بیدار کرنے کے لئے طریقے اور ذرائع پر تبادلہ خیالات کے مقصد سے 13 جون 2020ءکو ایک ویبی نار کا اہتمام کیا گیا۔ زراعت اورامداد باہمی اور کاشتکاروں کے فلاح و بہبود کے محکمے کے سکریٹری جناب سنجے اگروال نے مذکورہ ویبی نار کا افتتاح کرتے ہوئے زرعی شعبے میں کاشتکاروں کے لئے مختلف النوع اصلاحات کو نمایاں کرکے پیش کیا ، جن کا مقصد کاشتکاروں کو زیادہ سے زیادہ منافع بہم پہنچانا اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے 1.63لاکھ کروڑ کے تخمینہ جاتی اخراجات اور فارمنگ پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (فروغ اور سہولت) آرڈیننس 2020 کا بھی ذکر کیا ،جس کا قیام صحیح معنوں ایک قومی منڈی کے طور پر عمل میں آیا ہے اور جس نے کاشتکاروں کو اپنی پسند کی منڈیاں منتخب کرنے کا متبادل فراہم کیا ہے، یعنی کاشتکار اب ریاستی سرحدوں کو خاطر میں لائے بغیر اپنی پیداوار کو کہیں بھی لے جاکر فروخت کرسکتے ہیں ، یعنی اس طریقے سے انہیں زرعی پیداوار کے لئے ای-ٹریڈنگ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔ جناب اگروال نے کاشتکاروں کے لئے اضافی آمدنی فراہم کرنے سے لے کر روزی روٹی کے ایک ذریعے کے طورپر ایک نرسری قائم کرنے ، خصوصاً خواتین ایس ایچ جی کے لئے ، ایسا کرنے، ہرے چارے کی فراہمی، ایسی اقسام لگاکر جن کے ذریعے ہری کھاد فراہم ہوتی ہے، کیمیاوی کھادوں سے پرہیز کرنے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلئے کاربن کا اخراج کم سے کم کرنے سمیت زرعی جنگل بانی کے کثیر النوع استعمال کو نمایاں کرکے پیش کیا۔

وزیر اعظم کی جانب سے مقامی چیزوں کے استعمال پر اصرار کرنے کے لئے  جو تلقین کی گئی ہے، وہ زرعی جنگل بانی کے لئے بڑی افادیت کی حامل ہے۔ زرعی جنگل بانی صنعت کے لئے خام مال فراہم کرنے میں مدد گار ہوسکتی ہے اور اس طریقے سے کچھ اور اشیا ء کی درآمد پر ہما را انحصار کم سے کم ہوسکتاہے۔ اب سے پہلے زرعی جنگل بانی کا مقصد اور نظریہ صرف لکڑی کا حصول  ہی تھا، جسے اب کاشتکاروں اور صنعت کے نکتہ نظر سے بدلنا ہوگا۔ لکڑی کے حصول کی غر ض سے جو درخت لگائے جاتے ہیں ، وہ کافی مدت کے بعد استعمال کے لائق ہوتے ہیں، لہٰذا کاشتکاروں کو فائدہ ملنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایسے بہت سارے نمو پذیر شعبے ہیں، جہاں کاشتکار فوری طورپر منافع حاصل کرسکتے ہیں اور صنعت کی ضرورت بھی پوری کرسکتے ہیں۔ ان میں ادویہ جاتی اور خوشبو جاتی پودے، ریشم، لاک، کاغذ اور لگدی  اوردرختوں سے حاصل ہونے والے تیل کے بیج ، جن کا استعمال حیاتیاتی ایندھن کے طورپر ہوسکتا ہے، وغیرہ شامل ہیں۔

اپنی منصوبہ بند سیریز کے تحت پہلے قدم کے طورپر ویبی نار نے 4 مقتدر مقررین کوتبادلہ خیال کے لئے مدعو کیا ، جن میں نیشنل میڈیسنل پلانٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر جے ایل این شاستری، انڈین پیپرز مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے سکریٹری جنرل روہت پنڈت، آئی ٹی سی لمٹیڈ کے نائب صدر ڈاکٹر ایچ کے کلکرنی اور سینٹرل سلک بورڈ پروموشن کے رکن سکریٹری اور چیف ایگزیکیٹو آفیسر جناب راجت رنجن اوکھنڈیار کے نام شامل ہیں۔ ان مقررین نے بتایا کہ ادویہ جاتی پودے آتم نربھر بھارت کا اہم عنصر ہے اور درختوں پر مبنی نامیاتی ادویہ جاتی پیداوار میں زبردست امکانات پوشیدہ ہیں۔ کاغذ کی صنعت کو خام مال سپلائی کرنے میں جو دقتیں ہیں، اس کی وجہ سے درآمدات کا سہارا لینا پڑتا ہے، ان موضوعات پر بھی تبادلہ خیالات کئے گئے۔ عمدہ کوالٹی کے پودوں کو لگاکر پیداواریت بڑھائی جاسکتی ہے، تبھی کاشتکاروں کا بہتر منافع مل سکتا ہے۔

ریاستوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ٹھیکے داری پر کاشتکاری کو بڑھاوا دیں۔ صنعت کے سلسلے میں موجودہ اور امکانی فوائد کو بروئے کار لائیں اور اسی کے ارد گرد سارا خاکہ تیار کریں۔ کثیر النوع اقسام کے پودوں کی پود کاری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ، تاکہ کاشتکاروں کو جلد از جلد فوائد مل سکیں۔ اس سے آتم نر بھر بھارت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔

بھارت نے 2014ء میں ایک قومی زرعی جنگل بانی پالیسی وضع کرکے دنیا بھر میں پہلے ملک کا مقام حاصل کیا ہے۔ 2015ء میں ذیلی مشن برائے زرعی جنگل بانی شروع کیاگیا تھا، تاکہ ریاستوں کو کاشتکاروں کے ذریعے فصلوں کے ساتھ ساتھ درخت لگانے کے عمل کے تئیں راغب کرنے میں مدد فراہم کی جائے۔تحقیقی اداروں نے جن میں آئی سی اے آر اور آئی سی ایف آر ای جیسے ادارے بھی شامل ہیں، زرعی موسمیاتی زون کے لحاظ سے زرعی جنگل بانی کا ماڈل وضع کئے ہیں۔ اس اسکیم پر فی الحال ملک کی 21 ریاستوں میں عمل درآمد ہورہا ہے۔

 

********

م ن۔ ن ع

(15.06.2020)

(U: 3284)



(Release ID: 1631654) Visitor Counter : 350