سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

زرعی سائنس دانوں کے ذریعے حیاتیاتی لحاظ سے بہتر خوبیوں کی حامل گاجر کی نئی قسم مقامی کاشتکاروں کو فائدہ پہنچائے گی

Posted On: 08 APR 2020 11:30AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،8؍اپریل،حیاتیاتی لحاظ سے بہتر خوبیوں کی حامل مدھوبن گاجر، جس میں بیٹا کروٹین اور لوہے کے اجزاء زیادہ پائے جاتے ہیں، اسے ضلع جوناگڑھ گجرات کے ایک زرعی سائنس داں جناب ولبھ بھائی وسرم بھائی مروانیا  کے ذریعے  تیار کیا گیا ہے ۔ یہ گاجر  علاقے کے 150 سے زائد مقامی  کاشتکاروں کو فائدہ پہنچارہی ہے۔ اس کی کاشت جونا گڑھ میں 200 ہیکٹئر سے زائد کے رقبے پر کی جارہی ہے اور اس کی اوسط پیداوار 40 سے 50 ٹن فی ہیکٹئر ہے، جو مقامی کاشتکاروں کے لئے آمدنی کا اہم ذریعہ بن گئی ہے۔ یہ قسم ایسی ہے جسے گجرات ، مہاراشٹر، راجستھان ، مغربی بنگال، اترپردیش میں گزشتہ تین برسوں کے دوران ایک ہزار ہیکٹئر سے زائد  رقبے پر کاشت کیا جارہا ہے۔

مدھوبن گاجر کی از حد تغذیہ بخش قسم ہے، جسے بیٹا کروٹین اجزاء کے ساتھ  منتخبہ طریقہ کار کی مدد سے وضع کیا گیا ہے اور  خشک ہوجانے کے بعد بھی اس گاجر میں  لوہا (276.7 ملی گرام، فی کلو گرام)  باقی رہتا ہے اور  اس گاجر کا استعمال مختلف النوع گاجر کے چپس، جوس اور اچار وغیرہ بنانے میں کیا جاتا ہے۔ تمام قسم کی گاجروں کی جانچ کے بعد یہ پایا گیا کہ اس گاجر میں بیٹا کروٹین اور آہن  کے اجزاء سب سے زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0014IP6.jpghttps://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002FPDC.jpg

 

سائنس اور ٹیکنالوجی کے محکمے، حکومت ہند کے تحت نیشنل انوویشن فاؤنڈیشن (این آئی ایف) ، بھارت نے  اس گاجر کی قسم کے سلسلے میں کئی تجربات کئے تھے اور  یہ تجربات 17-2016  کے دوران  راجستھان  ایگریکلچرل  ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آر اے آر آئی) جے پور میں کئے گئے تھے۔ تجربات میں یہ بات سامنے آئی کہ گاجر کی مذکورہ  مدھوبن قسم میں یعنی اس کی جڑوں میں قابل ذکر طور پر 74.2 ٹن فی ہیکٹئر اور پلانٹ بائیو ماس 275 گرام فی پودہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ دیگر قسم کی گاجر میں ایسا نہیں ہوتا۔

اس قسم کی گاجر کے فارم ٹرائل کے دوران این آئی ایف نے 25 ہیکٹئر رقبے پر مختلف ریاستوں مثلا ً گجرات ، مہاراشٹر ، راجستھان، آسام ، ہریانہ، پنجاب اور مغربی بنگال میں عملی طور پر کاشت کرائی تھی اور اس میں 100 سے زائد کاشتکاروں کو شامل کیا گیا تھا اور اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مدھوبن گاجر پیداوار اور دیگر خوبیوں کے لحاظ سے سب سے بہتر گاجر ہے۔

 1943 کے دوران جناب ولبھ بھائی  وسرم بھائی مروانیا نے ایک مقامی گاجر کی قسم شناخت کی تھی جسے عام طور پر دودھ کی کوالٹی کو بہتر بنانے کے لئے جانوروں کے چارے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ انہوں نے منتخبہ طور پر اس گاجر کی کاشت کی اور اسے چھی قیمت پر منڈی میں فروخت کی۔ تب سے وہ اور ان کا کنبہ اس گاجر کی کاشت اور اسے بہتر بنانے میں لگا ہوا ہے۔ اس گاجر کے بیج کی پیداوار اور ان کی مارکیٹنگ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کے صاحبزادے جناب اروند بھائی اٹھاتے ہیں اور اوسطا فروخت سالانہ 100 کوئنٹل کے مساوی ہوتی ہے۔ تقریبا 30 مقامی بیج  سپلائر حضرات ملک بھر میں اس گاجر کے بیج فروخت کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور بیج کی تیاری کا کام جناب ولبھ بھائی بذات خود دیکھتے ہیں اور اس کام میں مقامی کاشتکاروں کا ایک گروپ ان کی مدد کرتا ہے۔

جناب ولبھ بھائی وسرم مروانیا کو  صد رجمہوریہ ہند کی جانب سے راشٹرپتی بھون واقع نئی دہلی میں اختراعات  کے موضوع پر منعقدہ میلے (ایف او آئی این) 2017  میں قومی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انہیں غیر معمولی کام کے اعتراف میں 2019 میں پدم شری بھی تفویض کیا گیا تھا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003MZP3.gif

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۰۰۰۰۰۰۰۰

(م ن-- ق ر)

U-1541



(Release ID: 1612252) Visitor Counter : 232