کابینہ

پن بجلی شعبہ کے فروغ سے متعلق اقدامات کو کابینہ کی منظوری

Posted On: 07 MAR 2019 2:46PM by PIB Delhi

نئی دہلی، 7  مارچ / وزیراعظم جناب نریندر مودی کی صدارت میں  مرکزی کابینہ نے پن بجلی شعبے کو فروغ دینے سے متعلق اقدامات کو اپنی منظوری دے دی ہے۔  ان اقدامات میں غیر شمسی قابل احیا  پرچیس آبلیگیشن  (آر پی او) کےمطابق   بڑی پن بجلی پروجیکٹ قرار دینا شامل ہے۔  

تفصیلات:

1۔  بڑی پن بجلی پروجیکٹوں کو  قابل احیا توانائی کے ذرائع  قراردیئے  جائیں گے۔ ( رائج طریقہ کار کے مطابق 25 میگاواٹ  سے کم  کے پن بجلی پروجیکٹوں کو قابل   احیا توانائی   کے طور پر زمرہ بند کیا جاتا ہے)۔

2۔ ان اقدامات  کے اعلان کے بعد  (ایس ایچ پی کا قبل ہی  غیر شمسی  قابل احیا پرچیس آبلیگیشن  کے طور پر  احاطہ کیا جارہا ہے) این ایچ پی    کمیشن  کے احاطہ کے لئے   غیر شمسی قابل احیا   پرچیس آبلیگیشن کے تحت ایک علیحدہ ادارے کے طو ر پر   احاطہ کیاجاتا ہے۔ وزارت بجلی کے ذریعہ  پن بجلی شعبے  میں اضافی منصوبوں کی  طے شدہ صلاحیت کی بنیاد پر  سالانہ   ایچ پی او  نشان  کا اعلان کیاجائے گا۔  ایچ پی او کو فعال بنانے کے لئے ٹریف پالیسی اور ٹریف   ریگولیشن میں  ضروری ترمیمات کی جائیں گی۔

3۔  ٹریف کی ضابطہ بندی میں  چالیس سال تک   پروجیکٹ کی مدت کار  کے بعد  ٹریف کی  بیک لوڈنگ کے ذریعہ    ڈیولپروں  کو ٹریف کے تعین  کے لئے   لچک  مہیا کرائی گئی ہے۔ اس میں  قرض کی ادائیگی کی مدت میں  18 سال تک   کا اضافہ کردیا گیا ہے اور ٹریف  میں دو  فی صد کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

4۔  ہرایک معاملے کی بنیاد پر پن بجلی پروجیکٹوں   کو فلڈ موڈریشن عنصر   کی سرمایہ کاری کے لئے  منصوبہ  جاتی  مدد کرنا  ۔

5۔ بنیادی ڈھانچے  یعنی  سڑک    اور پلوں   کے معاملے  میں  اصل کی بنیاد پر  ہر  معاملے میں   لاگت کی سرمایہ کاری کے لئے    بجٹی مدد کرنا   جس کی حد  200 میگاواٹ کے پروجیکٹوں کے لئے   فی میگاواٹ 1.5  کروڑ  روپے اور  200 میگاواٹ  سے زائد کے پروجیکٹوں کے لئے  فی میگاواٹ  1.0 کرور روپے  کی حد مقرر کی گئ ہے۔

اہم اثر  میں  روزگار کے مواقع  پیدا کرنے کی صلاحیت کو شامل کرنا:

 عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ پن بجلی  کی  صلاحیت کے حامل  مقامات    ہمالیہ کی بلندیوں پر اور شمال مشرقی خطے  میں واقع ہیں۔  اس  کے نتیجے میں بجلی کے شعبے میں براہ راست   روزگار کے  مواقع فراہم کرکے  خطے کی مجموعی  سماجی اور معاشی ترقی   ہوتی ہے۔  یہ  ٹرانسپوٹیشن  ، سیاحت  اور چھوٹے پیمانے کے دوسرے  کاروبار کے شعبے میں  براہ راست روزگار /صنعت کاری کے مواقع بھی  فراہم ہوں گے۔  اس سے دوسرے فوائد جیسی شمسی اور پون بجلی  کے   اندرونی وسائل سے  2020 تک  160 گیگا واٹ   کی  اضافی صلاحیت والے مستحکم    گریڈ کا بھی فائدہ ہوگا۔

پس منظر:

بھارت ،  1،45،320 میگاواٹ کی وسیع پن بجلی  کی صلاحیت سے مالا مال ہے ۔ اس میں سے  اب تک صرف  45،400 میگاواٹ صلاحیت کا ہی استعمال کیا جارہا ہے۔    گزشتہ دس برسوں کے دوران صرف دس ہزار میگاواٹ  پن بجلی کا اضافہ کیا گیا ہے۔   پن بجلی کا شعبہ فی الحال    چیلنج بھرے مرحلے سے گذر رہا  ہے۔کل صلاحیت میں پن بجلی کا حصہ  1960 کے  50.36 فی صد  سے  کم ہوکر  19-2018 میں  تقریباً 13 فی صد ہوگیا ہے۔  

 ماحولیات دوست ہونے کے علاوہ    پن بجلی کے   متعدد دوسری اہم خصوصیات ہیں جیسے  فوری طور پر بڑھنے،  بلیک اسٹارٹ  ،  فوری طور پر شروع ہونے کی صلاحیت   وغیرہ ہیں جو اسے    بجلی کی شدید قلت ، اسپننگ  ریزرو اور  گرڈ بیلنسنگ/ استحکام وغیرہ   اسے  موضوع ترین بناتے ہیں۔   مزید برآں   پن بجلی   پانی کی  بچت  ، آباشی  اور سیلاب کی روک تھام  کے علاوہ   روزگار کے مواقع اور سیاحت کو فروغ دے کر پوری خطے کی سماجی اور  معاشی ترقی  میں مدد کرتا ہے۔  پن بجلی کی اہمیت میں   اضافہ ہورہا ہے کیونکہ یہ     2022 تک   160 گیگا واٹ  شمسی توانائی  او رپون بجلی کے اضافہ کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے نیز  آب و ہوا کی تبدیلی میں   قومی سطح پر   تعاون   کے لئے 2030 تک  غیر حیاتیاتی ایندھن سے  کل صلاحیت کا 40 فی صد تک بجلی پیدا کرنے کا نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔   پھر بھی   ڈی آئی  ایس او ایم ایس  زیادہ قیمت  خصوصاً ابتدائی برسوں     میں  زیادہ قیمت کی وجہ  سے   پن بجلی  پاور پرچیس  ایگریمنٹ  (پی ٹی اے) پر  دستخط کرنے میں   برگشتی کا مظاہرہ  کررہا ہے۔ پن بجلی کے ہائیر ٹریف  کے اسبا ب میں سے ایک ہے۔  سیلاب کی روک تھام اور  پروجیکٹ لاگت میں بنیا دی ڈھانچہ کی تعمیر   میں آنے والی  لاگت ہے۔     اس پس منظر میں   فلڈ موڈریشن   لاگت   بنیادی   ڈھانچہ کی لاگت کے لئے   منصوبہ جاتی   مدد  مہیا کرنا اور  ٹریف    کو کم کرنے  کےلئے   ٹریف کو ضابطہ بند  کرنے کے اقدامات کرنے   اور  اس طرح  صارفین پر ان کا بوجھ پڑتا ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 م ن ۔ ش س ۔ ج۔

U- 1432


(Release ID: 1567913) Visitor Counter : 326