جب سنیما سبز سوچتا ہے: چار ممالک نے دستکاری، ثقافت اور ماحول کے موضوع کو پیش کیا
فلم ساز اس بات کی کھوج کرتے ہیں کہ پائیداری، کہانیوں، سیٹوں اور تخلیقی فیصلوں کو کیسے متاثر کرتی ہے
پینل مباحثہ کی ثقافت، ضمیر اور ذمہ دار فلم سازی کے مستقبل پر گہری نظر
#آئی ایف ایف آئی ووڈ، 21 نومبر 2025
56ویں بھارتی بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں ہونے والے پینل مباحثہ’’ریل گرین: چار سینماؤں میں پائیداری اور کہانی سنانا ‘‘نے بھارت، جاپان، اسپین اور آسٹریلیا کے فلم سازوں اور پروڈیوسرز نے ایک نایاب عالمی نقطہ نظر کے تبادلے کے لیے شرکت کی۔ اس سیشن کی ماڈریٹر شپ نامن رام چندرن نے کی، جو بین الاقوامی سطح پر معروف صحافی اور فلم ناقد ہیں۔ اس اجلاس میں یہ جائزہ لیا گیا کہ ماحولیاتی ذمہ داری نہ صرف پروڈکشن کے طریقوں کو بلکہ خود کہانیوں کو بھی کیسے متاثر کر سکتی ہے، اور کس طرح دستکاری، ثقافت اور ضمیر کو جوڑا جا سکتا ہے۔
بھارتی فلم پروڈیوسر اور ہدایت کار نیلا مدھاب پانڈا نے سینما کے ماحولیاتی اثرات پر ایک کھلی اور صاف نظر ڈال کر اجلاس کی شروعات کی۔ انہوں نے سامعین کو یاد دلایا کہ فلم پروڈکشن کا کاربن اثر بہت زیادہ ہے اور چھوٹی فلموں کے پاس اکثر سبز اور پائیدار طریقے اپنانے کی لچک ہوتی ہے۔انہوں نے کہا:"سینما ایک عوامی ذریعہ ہے۔ ہمارے پاس صرف ایک ہی سیارہ ہے۔ ہماری نصف توانائی کے وسائل پہلے ہی استعمال ہو چکے ہیں۔"اس موقع پر انہوں نے صنعت پر زور دیا کہ جہاں بھی ممکن ہو، پائیدار اقدامات اپنائے جائیں۔

نیلا مدھاب پانڈا کے بیان کے برعکس، جاپان کی فلم پروڈیوسر مینا موتیکی نے کم بجٹ پروڈکشنز میں سبز طریقے اپنانے کے چیلنجز کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں بڑے پروجیکٹس میں جدت کی گنجائش ہوتی ہے، وہاں چھوٹے پروجیکٹس اکثر توانائی کے استعمال، سیٹ مینجمنٹ اور نقل و حرکت میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:"ہم جہاں ممکن ہو توانائی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں،" اور جاپانی فلم سازی کی ثقافت میں آہستہ آہستہ تبدیلی کی جانب اشارہ کیا۔
اسپین کی فلم پروڈیوسر آنا ساورا نے بھی یہی خدشات دہرائے اور کہا کہ پائیداری ایک تخلیقی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ شعوری فیصلے، چاہے وہ فلم کی تقسیم میں ہوں یا سیٹ مینجمنٹ میں، بغیر کہانی سنانے کے معیار سے سمجھوتہ کیے ماحولیاتی اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا:"ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں، وہ اہم ہے، اور چھوٹے، سوچ سمجھ کر کیے گئے اقدامات بھی ایک سبز مستقبل میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔"
آسٹریلیا کے فلم ساز گارتھ ڈیوائس نے گفتگو میں کہانی کی جہت شامل کی اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ کہانیاں خود ماحولیاتی شعور پیدا کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا:”فلمیں لوگوں کو دوبارہ فطرت سے جوڑتی ہیں۔ نوجوان نسل تبدیلی چاہتی ہے، اور کہانی سنانے میں یہ طاقت ہے کہ وہ رویے اور اقدار کو تشکیل دے سکتی ہے۔‘‘

اس گفتگو میں عالمی طریقہ کار اور انہیں مقامی سیاق و سباق میں اپنانے کی صلاحیت پر غور کیا گیا۔ گارتھ ڈیوائس نے بتایا کہ آسٹریلیائی پروڈکشنز میں لوگوں، ثقافت اور ماحول کا احترام کیا جاتا ہے، اور شوٹنگ کے بعد فلمنگ مقامات کو جیسا تھا ویسا یا اس سے بہتر حالت میں چھوڑا جاتا ہے۔ مینا موتیکی نے جاپان کے روایتی اور جدید طریقوں کے امتزاج کی وضاحت کی، جس میں عوامی نقل و حمل، مقامی بھرتیاں اور وسائل کا محتاط انتظام شامل ہے۔ آنا ساورا نے اسپین کے گرین فلم سرٹیفیکیشن سسٹم کی طرف اشارہ کیا، جو فلم پروڈکشنز کی پائیداری کا جائزہ لیتا اور تصدیق کرتا ہے، اور ٹیموں کو کیٹرنگ، آلات اور نقل و حرکت میں ماحول دوست اقدامات اپنانے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
مکالمے کے دوران، پینل میں شامل افراد نے نوجوان نسل کے اہم کردار پر زور دیا۔ ماحول دوست سیٹ بنانے سے لے کر کہانیوں میں پائیداری کی حمایت تک، نوجوان تبدیلی کے اہم محرک تسلیم کیے گئے۔ پینل میں شامل افراد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سرپرستی، تعلیم اور سیٹ پر عادتاً کیے جانے والے اقدامات پائیداری کی ایسی ثقافت کو فروغ دیتے ہیں جو سرحدوں اور نسلوں کے پار جاری رہے۔
عملی حکمت عملیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، جس میں فضلہ کم کرنا، ملبوسات دوبارہ استعمال کرنا، اور تعمیر شدہ سیٹ کے بجائے اصل مقامات کو ترجیح دینا شامل تھا۔ پینل میں شامل افراد نے حکومتی اور ادارہ جاتی معاونت کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ نیلا مدھاب پانڈا نے پائیدار اقدامات کو تسلیم کرنے کے لیے سرٹیفیکیشن نظام کی تجویز دی، جبکہ گارتھ ڈیوائس نے ایسی پالیسیاں پیش کیں جو پروڈکشن کے مراعات کو ماحولیاتی ذمہ داری سے جوڑتی ہیں۔

عالمی برادری کے لیے ایک حوصلہ افزا نوٹ کے طور پر، پینل میں شامل افراد نے دوسرے ممالک کے ساتھ مزید مشترکہ اجلاسوں کی وکالت کی، بہترین طریقے ساجھا کرنے، اور ماحولیات پر اثرات کم کرنے کے مؤثر حکمت عملی اپنانے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مکالمے اور علم کے تبادلے سے دنیا بھر کے فلم ساز پائیداری کو اپنانے میں تخلیقی صلاحیت یا کہانی سنانے کے معیار سے سمجھوتہ کیے بغیر کامیاب ہوں گے ۔
پینل تبادلہء خیال کے اختتام تک یہ واضح ہو گیا کہ پائیداری محض ایک تکنیکی ہدایت نامہ نہیں، بلکہ ایک ذہنیت ہے۔ بھارت، جاپان، اسپین اور آسٹریلیا میں ہونے والی اس گفتگو نے اس بات کو مضبوط کیا کہ ماحولیاتی شعور کہانی سنانے، دستکاری، اور ثقافتی ذمہ داری کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔پینل میں شامل افراد نے اس بات کی تصدیق کی کہ سنیما نہ صرف مؤثر ہو سکتا ہے بلکہ ذمہ دار بھی ہو سکتا ہے، جو ناظرین اور تخلیق کاروں دونوں کو متاثر کرتا ہے اور اگلی نسل کے فلم سازوں کو ایک سبز اور باخبر دنیا کا تصور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
آئی ایف ایف آئی کے بارے میں
1952 میں شروع ہونے والا بھارت کا بین الاقوامی فلم فیسٹیول (آئی ایف ایف آئی) جنوبی ایشیا کا سب سے قدیم اور سنیما کا سب سے بڑا جشن ہے۔ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی) وزارت اطلاعات و نشریات ، حکومت ہند اور انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی) ریاستی حکومت گوا کے ذریعے مشترکہ طور پر منعقد کیا جانے والا یہ فیسٹیول عالمی سنیما پاور ہاؤس بن گیا ہے-جہاں دوبارہ بحال شدہ کلاسیکی فلمیں ڈرامائی تجربات سے ملتی ہیں ، اور جہاں لیجنڈری ماہرین پہلی بار فلم ساز بننے والوں کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ جو چیز آئی ایف ایف آئی کو واقعی شاندار بناتی ہے وہ اس کا برقی مرکب ہے-بین الاقوامی مسابقے ، ثقافتی نمائشیں ، ماسٹر کلاسز ، خراج تحسین ، اور اعلی توانائی والا ویوز فلم بازار ، جہاں خیالات ، تال میل اور تعاون پنپتے ہیں ۔ گوا کے شاندار ساحلی پس منظر میں 20 سے 28 نومبر تک منعقد ہونے والا 56 واں ایڈیشن زبانوں ، انواع، اختراعات اور آوازوں کے ایک شاندار میدان عمل کا وعدہ کرتا ہے - جو عالمی سطح پر ہندوستان کی تخلیقی صلاحیتوں کا عمیق جشن ہے ۔
For more information, click on:
IFFI Website: https://www.iffigoa.org/
PIB’s IFFI Microsite: https://www.pib.gov.in/iffi/56new/
PIB IFFIWood Broadcast Channel: https://whatsapp.com/channel/0029VaEiBaML2AU6gnzWOm3F
X Handles: @IFFIGoa, @PIB_India, @PIB_Panaji
* * *
ش ح ۔ م د ۔ م ص
(U :1628 )
Release ID:
2192830
| Visitor Counter:
6